“eucalyptus” aik Tajaziya by Abdur Rahman

Articles

’یو کلپٹس‘ ایک تجزیاتی جائزہ

عبدالرحمن فیصل

عورت افسانہ نگار بیدیؔ کا بہت پسندیدہ موضوع ہے۔ اپنے اس پسندیدہ (Motif) غالب محرک کی بنیاد پر انہوں نے متعدد افسانے تعمیر کیے ہیں۔ ان میں ایک ’یوکلپٹس‘ بھی ہے، جس میں تین نسوانی کرداروں کے ارد گرد کہانی تشکیل دی گئی ہے۔
افسانے کی ابتداء ہمہ داں راوی کے ذریعہ ایک صورت حال کے بیان سے ہوتی ہے، جس سے یہ اطلاع ہے کہ لمحوں کے گزرنے یا ایک دوسرے پر ڈھیر ہونے سے مٹی کا ٹیلا بنتا ہے۔ مٹی کے ڈھیر ہونے کا بیان لمحوں کے گزرنے کے حوالے سے کیا گیا ہے گویا ’مٹی کا ڈھیر‘ گزرے ہوئے ماہ و سال کا کنایہ ہے، جس سے یو کلپٹس کا درخت نکلتا ہے۔
افسانہ نگار اس صورت حال کے بیان سے ہی قاری کے ذہن میں سوالات قائم کرکے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے، مثلاً لمحوں کے ایک دوسرے پر ڈھیر ہونے سے مٹی کا ٹیلا بننے میں کیا ربط ہے؟ اور پھر لمحوں کے ذریعہ بنائے گئے ٹیلے سے ’یوکلپٹس‘ کا درخت نمود پاتا ہے۔ یہ سوالات، قاری کے ذہن میں افسانے کے عنوان کے متعلق بھی دلچسپی پیدا کردیتے ہیں۔
اس کے بعد افسانے میں ’کندن‘ کا کردار سامنے آتا ہے۔ وہ ایک تعلیم یافتہ عورت ہے اور ایک کرشچین اسکول میں وائس پرنسپل ہے۔ راوی بیان کرتا ہے کہ کسی ٹیلیفون کی اطلاع پر وہ گھر لوٹی تھی لیکن بنگلے میں داخل ہوتے ہی وہ ہمیشہ کی طرح ’سرجو‘ کے پاس رک جاتی ہے۔ جو قاعدے کے مطابق نہیں تھا یہ کہہ کر راوی قاری کی توجہ ’کندن‘ کے اس عمل پر مرکوز کرنا چاہتا ہے۔
’سرجو‘ یوکلپٹس کے درخت کا نام تھا۔ یہاں پر افسانے کا راوی درخت کے متعلق اطلاعات فراہم کرتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’یہ پیڑ کندن نے تین سوا تین برس پہلے لگایا تھا، جب وہ نئی نئی وس کوسن یونیورسٹی سے ٹیچنگ کا ڈپلوما کرکے آئی تھی۔ جب یہاں کھیتھولک چپلن فادر فشر رہا کرتا تھا اور جس نے بنگلہ کا آدھا حصہ کماری کندن کو دے رکھا تھا۔ پھر برس ایک کے بعد وہ مشن کا کام پورا کرکے امریکا چلا گیا اور کندن نے تنہائی سے گھبراکر اپنی بوڑھی ماں کو بلالیا۔‘‘
مذکورہ بالا اقتباس کے مطالعہ سے ’یوکلپٹس‘ کے متعلق قاری کی دلچسپی میں مزید اضافہ ہونے کے ساتھ ذہن میں کئی سوال بھی پید اہونے لگتے ہیں کہ کندن اور پوکلپٹس کے درخت میں کیا رشتہ تھا؟ کہ وہ ہمیشہ اس کے پاس رک جاتی تھی۔ اس نے یہ درخت کیوں لگایا؟ اسے ایک مخصوص نام کیوں دیا؟ اور راوی کی یہ اطلاع کہ فادر فشر اس وقت بنگلے میں رہتا تھا، ایک اہم بات یہ بھی کہ لفظ ’کندن‘ کے ساتھ کماری کا اضافہ کیوں کیا؟ جب کہ افسانے کے پہلے پیراگراف میں صرف ’کندن‘ لفظ بیان ہوا ہے۔ یہ تمام سوالات اس نقطے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یوکلپٹس، کندن اور فادر فشر کے مابین کسی نہ کسی نوع کا ربط ضرور موجود ہے۔
مذکورہ اقتباس کے آخری سطر میں یہ بھی ذکر ہے کہ فادر فشر کے چلے جانے کے بعد کندن اس تنہائی سے گھبراکر اپنی ماں کو بلالیتی ہے۔ فادر فشر کے چلے جانے کے بعد کندن کو تنہائی کا احساس ہونے لگا۔ یہاں افسانہ نگار نے کماری کندن اور فادر فشر کے مابین رشتے کے متعلق نہایت بلیغ اشارہ کیا ہے تاکہ واقعے کے متعلق قاری کی دلچسپی میں مزید اضافہ ہو۔
راوی پھر سے افسانے کی ڈور اسی یوکلپٹس کے درخت سے جوڑ دیتا ہے جہاں کندن قاعدے کے خلاف آکر رک جاتی ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’وہ پیار سے اس پر ہاتھ پھیرنے ہی والی تھی کہ دوسری طرف برآمدے میں اسے اپنی جیلی فش ماں کا ہیولا سا نظر آیا۔ اسی دم جھک کر کندن نے پیڑ کے نیچے سے تازہ گرے ہوئے پتے اٹھالیے اور ہاتھ میں مسل کر انھیں سونگھنے اور لانبے لانبے سانس لینے لگی جیسے اسے زکام ہو اور یوکلپٹس کی بو تنفس اور اس کے رگوں ریشوں کو ایک طرح کا سکون دے رہی ہو۔ پھر ماں کی طرف منھ کرتے ہوئے کندن تھوڑا کھیسائی۔ ’’میں سرجو کو بڑھتے دیکھ بھی سکتی ہوں، ماں۔‘‘ اور اس نے پیڑ کی طرف اشارہ کیا۔‘‘
مذکورہ متن کے بغور مطالعے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کندن کو اس درخت سے جذباتی لگاؤ ہے۔ جیسے انسانی رشتوں میں ہوتا ہے کہ اس کی قربت اور لمس سے ایک نوع کی قلبی تسکین حاصل ہوتی ہے۔ اقتباس کے آخری چار سطروں میں بیدیؔ ،بڑی فن کاری سے قاری کو مغالطے میں ڈال دیتے ہیں تاکہ مکمل طور پر یہ توضیح نہ ہوسکے کہ کندن اور یوکلپٹس کے درمیان رشتے کی نوعیت کیا ہے۔
اقتباس کے آخر سے تیسری اور چوتھی سطر سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس پیڑ کی پتیوں کی خوشبو سے ایک بھولی ہوئی یاد بھی تازہ ہوتی ہے۔ یوکلپٹس کی مسلی ہوئی پتیوں کی خوشبو، کسی ایسی خوشبو کی یاد تازہ کرتی ہیں، جن سے کندن کا جذباتی تعلق ہے۔ جو قاری کے ذہن کو کندن اور فادر فشر کی جانب مبذول کرتا ہے۔ لیکن آخری دو جملے جو کندن کی زبانی بیان ہوئے ’’میں تو سرجو کو بڑھتے دیکھ بھی سکتی ہوں، ماں۔‘‘ اور اس نے پیڑ کی طرف اشارہ کیا۔ کندن اور سرجو کے مابین رشتے کی ایک الگ ہی نوعیت کی وضاحت کرتے ہیں۔ جیسے ماں اپنے بچے کے لیے کہہ رہی ہو کہ میں اسے بڑا ہوتے دیکھ سکتی ہوں۔ اس بات کی وضاحت کے لیے افسانے کے یہ دو اقتباس دیکھیں:
’’ہر صبح و شام اسکول جانے سے پہلے اور لوٹنے کے بعد کندن اس کے پاس رکتی اور اس کی نرم سی چھال پر ہاتھ پھیرتی، پیار کرتی……‘‘
’’کندن نے اپنے بدن میں سے کوئی بجلی جھٹکی اور بنگلے کی طرف مڑ آئی۔ راستے میں سرجو کی طرف دیکھا تو ایک بچہ دکھائی دیا، جس سے ڈر کر وہ بھاگتی ہوئی ڈرائنگ روم میں داخل ہوگئی۔‘‘
ان اقتباسات میں واضح طور پر کندن کے ممتا بھرے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے۔
راوی افسانے کو کندن کی نوکرانی لکھی کے درد زہ کے واقعے سے آگے بڑھاتا ہے کہ جب لکھی درد زہ میں مبتلا ہوتی ہے تو سبھاشنی (کندن کی ماں) اسے گالیاں دینا شروع کردیتی ہے لیکن افسانے میں جیسا کہ بار بار سبھاشنی کو سخت دل دکھایا گیا ہے ایسا نہیں ہے کیوں کہ لکھی جب بھی درد زہ میں مبتلا ہوتی ہے تمام گالیوں کے باوجود سبھاشنی اس کے درد کو محسوس کرتی ہے۔ جو ایک عورت کی ذاتی صفات کا خاصہ ہے۔
’’ادھر لکھی اپنے کوارٹر میں کراہ رہی تھی۔ ادھر ماں گالیاں بکے جارہی تھی اس کی آخری گالی تھی — ’چھنار‘ جبھی لکھی کی چیخ سنائی دی تو ماں اورکندن دونوں منھ اٹھاکر اندھیرے میں دیکھنے لگیں، جیسے لکھی سامنے تڑپتی ہوئی نظر آرہی ہو۔ شاید… زہ کے درد میں مبتلا عورت کہیں بھی ہو، دوسری سب عورتوں کو دکھائی دینے لگتی ہے۔
کندن نے ایک دم گھبراکر ماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ماں‘‘
سن رہی ہو …… ’’مجھے بھی کان دئیے ہیں پرماتما نے‘‘
کیا جذبہ تھا کہ دوسری چیخ کے ساتھ ہی ماں بھی چلا اٹھی۔ ’’مرتی ہے تومرجائے۔‘‘
افسانے میں سبھاشنی کے جس سخت دلی کا اظہار ملتا ہے در اصل وہ ان تمام مردوں کے لیے ہے جو عورت کے کرب کو نہیں سمجھتے اور اپنے بیوی، بچوں کی ذمہ داری نہیں اٹھاتے ہیں۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’کیوں تو ہر بار اس کے ساتھ راس رچا بیٹھتی ہے۔؟‘‘
’’جب وہ تیری ذمہ داری لیتا ہے، نہ تیرے بچوں کی، اپنے…؟‘‘
’’سب مرد ایک ہی رسی سے پھانسی دئیے جانے کے قابل ہیں۔‘‘
کندن کے علاوہ بنگلے میں دو عورتیں اور رہتی ہیں سبھاشنی اور لکھی۔ یہ تینوں عورتیں بغیر مردوں کے اس بنگلے میں رہتی ہیں اگرچہ لکھی کا شوہر ہے لیکن اس کا ہونا یا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
لکھی کی چیخیں سن کر سبھاشنی لکھی کے کواٹر میں چلی جاتی ہے تو کندن کھڑکی کے پاس جاکر کھڑی انتظار کرنے لگتی ہے۔ یہاں پر راوی کا بیان ملاحظہ کریں:
’’کندن کھڑکی میں جاکھڑی ہوئی اور انتظار کرنے لگی۔ روشنی میں تو اونچ نیچ سب نظر آتا ہے، مگر اندھیرا ایک عجیب قسم کی یکسانیت پیدا کرتا ہے صرف عادی ہوجانے پر مصیبتوں کے ہلکے خاکے اور گہرے خاکے دکھائی دیتے ہیں، جو اس یکسانیت میں اور بھی تاکید کا عالم پید اکردیتے ہیں اور آدمی گھبراکر کھڑکی چھوڑ دیتا ہے اور ایک بے پناہ حبس سے بچنے کے لیے کسی کا بھی گریبان پھاڑ دیتا ہے۔‘‘
اس پورے اقتباس کے ذریعے افسانہ نگار نے کندن کے ذات کی تنہائی اور اس اکیلے پن کے کرب کو ظاہر کیا ہے، جو عورت کی زندگی میں مرد ذات کے نہ ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔
راوی بیان کرتا ہے کہ کندن کھڑکی سے واپس آکر تپائی پر پڑی ہوئی کتابیں الٹنے پلٹنے لگتی ہے۔
’’کندن نے اوپر کی کتاب کو صاف کیا جس کا عنوان تھا— ’’مرد عورتوں کے بغیر—‘‘ —اس نے کتاب کھولی، پہلی چند سطریں پڑھیں اور پھر بند کرتے ہوئے سوچنے لگی —عورتیں، مردوں کے بغیر۔‘‘
مذکورہ بالا اقتباس کو بیدیؔ نے بڑی فن کاری کے ساتھ تشکیل دیا ہے۔ کس طرح بیدیؔ صرف دو جملوں (۱-مرد عورتوں کے بغیر‘ ۲- عورتیں، مردوں کے بغیر) سے انسانی رشتوں (مرد اور عورت کے مابین) کی اہمیت کی فلسفیانہ توضیح پیش کرتے ہیں۔ ان دو جملوں کے ذریعہ عورت اور مرد کے فطری ؍قدرتی رشتے کی حقیقت، قاری پر واضح ہوجاتی ہے۔ افسانہ نگار کا یہ بتانا مقصود ہے کہ انسانی زندگی میں مرد اور عورت کا رشتہ کتنا اہم ہے چاہے وہ شوہر بیوی کی شکل میں ہو، باپ بیٹی کی شکل میں ہو، ماں بیٹے کی شکل میں ہو یا بہن بھائی کی شکل میں ہو۔ مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کسی ایک کے بغیر دوسرے کا وجود ممکن ہی نہیں ہے۔
اس کے بعد افسانہ تینوں نسوانی کرداروں کندن، سبھاشنی اور لکھی کی زندگی کی تفصیلات کے ذریعہ آگے بڑھتا ہے۔ کندن جب اپنی ماں کے پیٹ میں ہی تھی یتیم ہوجاتی ہے اور زندگی بھر وہ اپنے باپ کا چہرہ دیکھنے کے لیے ترستی رہی۔ ماں کے بیان کے مطابق :
’’اس صدی کے شروع میں جو پلیگ پھیلی تھی اس نے موت میں سچ اور جھوٹ کو برابر کردیا تھا۔ عجیب سی یکسانیت پیدا کردی تھی۔‘‘
سبھاشنی کے ذریعہ دئیے گئے اس اطلاع کے مطابق کہ کندن کا باپ پلیگ میں چل بسا تھا۔ قاری کو شک و شبہ میں ڈال دیتا ہے۔ جس کا آگے چل کر افسانے میں ذکر ملتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’وہ ہمیشہ ایک جرم کے احساس اور اذیت پسندی کے جذبے میں نیچے ٹھنڈے فرش پر سوتی تھی اور ایک رہبانیت سی اس کے جذبات پر چھائی رہتی، جس میں اداسی بھری ایک تسلی تھی…… وہ تو خواب اور بیداری کے اعراف میں روتی ہنستی رہتی اور بھجن اس کا سہارا ہوتے۔
کب نینن سے نیند گنوائی، تکیہ لیف بچھونا کیا
آخر- سمجھ بوجھ کچھ سوچ پیارے، پیار کیا تو ڈرنا کیا؟
اس کے بعد راوی سبھاشنی کی زندگی کے متعلق اطلاع فراہم کرتا ہے کہ کندن کو پالنے اور تنہا رہبانیت کی زندگی گزارنے میں اسے کتنی اذیتیں اٹھانی پڑیں لیکن ان تمام تر تکلیفوں کے باوجود سبھاشنی نے کندن کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ لیکن راوی بیان کرتا ہے کہ تعلیم نے اگرچہ اس کے حسن کو صیقل کردیا تھا پھر بھی اس کی آنکھوں میں شکوک اور وسوسے موجود تھے۔ شاید اس لیے کہ سبھاشنی اس کی زندگی کے ایک خلا کو پُر نہ کرسکی، جو اس کے باپ کی غیر موجودگی کی وجہ سے زندگی میں حائل تھی۔
’’آنکھیں بڑی بڑی تھیں جن میں بیسیوں شک تھے اور وسوسے۔ ایک عجیب سے ارتقاء میں اس کی آنکھیں کانوں تک کھنچ آئی تھیں۔ معلوم ہوتا تھا سامنے جاتی ہے تو پیچھے بھی دکھائی دیتا ہوگا۔ یا وہ ایسے ہی دیکھتی رہتی تھی جیسے کوئی اس کا پیچھا کررہا ہے۔ باپ نہ ہونے سے لڑکیوں کو کیسی کیسی باتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے…۔‘‘
اقتباس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ معاشرے کے اپنے بنائے ہوئے اصولوں کے خلاف اگر کوئی انسان ایساکام کرگزرتا ہے جو معاشرے کی نظر میں ناپسندیدہ عمل ہے تو ساری عمر اسے اور اس کی اولاد کو معاشرے کے طنز کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔
لیکن اسی اقتباس کے فوراً بعد افسانہ نگار کندن کے متعلق وہ بات لکھتا ہے جس سے معاشرے کے اپنے بنائے ہوئے اصول و اقدار بے معنی معلوم ہونے لگتے ہیں۔ اقتباس دیکھیں:
’’اس کے باوجود بارہ تیرہ برس ہی کی عمر میں کندن کو ایک ایسے مرد کے سلسلے میں تجربہ ہوا تھا، جس کے بارے میں وہ کبھی سوچ بھی نہ سکتی تھی۔ شاید وہ مرجاتی مگر کُٹّھ نے اس کی زندگی بچالی، تاکہ بڑی ہوکر یوکلپٹس کا پیڑ بوسکے۔‘‘
لکھی ایک عیسائی عورت تھی۔ اس کا نام لکشمی رام داس تھا اور اس کے شوہر کا نام سِدّھو جو اس کا تیسرا شوہر تھا۔ کبھی اس نے لکھی کی زندگی کے بارے میں نہیں سوچا۔ لیکن افسانے کے ان دو کرداروں (کندن او رسبھاشنی) کے علاوہ لکھی کی زندگی میں مرد ذات کی بہت اہمیت تھی۔
’’مرد… لکھی پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھنے لگتی۔ کبھی سب غلط اور کبھی سب ٹھیک معلوم ہونے لگتا… ہاں، ہاں، ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہیں۔ سب مرد اس قابل ہیں کہ… میں ایک اور کرلوں گی، مگر نہیں… وہ بھی تو – پھر وہ ایکاایکی خفا ہو اٹھتی اور اپنا ہاتھ جوگی کی طرف لے جاتی۔ اس کے بعد سدھو کا ہمزاد اس کی طرف نم آنکھیں لیے، ہاتھ جوڑے اور لکھی کا ہاتھ جولی کی طرف جانے لگتا۔ پھر وہ دیکھتی۔ جب تک سدھو کا ہاتھ لکھی کے بعدن پر پڑتا اور لکھی کی گرفت ڈھیلی ہوجاتی، آنکھیں چڑھنے، بند ہونے لگتیں اور وہ بے دم سی ہوکر گرجاتی ہے۔‘‘
لکھی کو جب ایک اور لڑکی پیدا ہوئی تو کندن کی ماں گالیاں دیتی ہوئی آئی۔ افسانہ نگار کندن کی زبانی یہ بتاتا ہے کہ ماں کی آخری گالی تھی… ’’ایک اور لڑکی چلی آئی…‘‘
بیدیؔ نے اس جملے کے ذریعے پورے مرد اساس معاشرے پر گہرا طنز کیا ہے اور عورت کی زندگی کے ذاتی کرب کو نمایاں کیا ہے۔
لکھی کی اب چار لڑکیاں ہوچکی تھیں۔ عورت کی زندگی میں مرد ذات کے نہ ہونے سے اسے کن کن اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس فکر میں سبھاشنی گالیاں دیتے ہوئے کندن سے کہتی ہے:
’’ایک لائسن (لائسنس) لے لو کندنا!… اب کے وہ حرامی آیا، تو میں اسے گولی مار دوں گی۔‘‘
آگے راوی بیان کرتا ہے کہ:
’’ماں سبھاشنی اپنے تخیل میں لاش دیکھ رہی تھی اور روبھی رہی تھی، جیسے ہر عورت اپنے بیٹے کی سرزنش کے بعد خود رونے بیٹھ جاتی ہے…۔‘‘
اس پورے اقتباس میں ایک عجیب کشمکش کی کیفیت نمایاں ہوتی ہے۔ ایک طرف وہ سدھو کی بے مروتی بلکہ مرد ذات کی بے مروتی پر گالیاں دیتی ہے اور پھر ممتا کے جذبہ کی وجہ سے رونے بھی لگتی ہے۔
افسانے کے درمیان میں جب سبھاشنی کو معلوم ہوتا ہے کہ لکھی کے پیٹ میں دوبارہ بچہ ہے تو کندن اور سبھاشنی دونوں کے پوچھے جانے پر کہ یہ کیسے ہوا؟ لکھی اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے پاتی ہے لیکن وہ اس بات سے انکار کرتی رہی کہ وہ سدھو یا کسی اور مرد سے نہیں ملی۔
افسانہ نگار یہاں پر ایک سوال قائم کرتا ہے کہ نہیں دیکھا تو پھر یہ سب کیسے ہوا؟ کیوں کہ منطقی طور پر انسانی معاشرے؍ دنیا میں کسی مرد سے ہم بستر ہوئے بغیر عورت کے پیٹ میں حمل کیسے ہوسکتا ہے؟ یہیں سے افسانے پر عیسائیت کا رنگ غالب نظر آتا ہے اور مریم اور یسوع کے واقعے کی طرف ذہن کو مبذول کرتا ہے۔
سبھاشنی نے خوب ہنگامہ کیا گالیاں دیں کہ کندن لکھی کو بنگلے سے نکال دے لیکن ماں کے گھر سے چلے جانے کی دھمکی کے باوجود بھی کندن لکھی کو اس تکلیف میں اکیلا نہیں چھوڑسکتی تھی۔ اس لیے اس نے ماں کو صاف منع کردیا۔ تو سبھاشنی پھر سے لکھی پر سوالوں کی بوچھار کردیتی ہے۔
’’سچ بتا، کہاں سے لائی ہے؟‘‘
’’کہیں سے نہیں، لکھی کہتی ’’اگر میں نے پاپ کیا ہو تو خداوند یسوع میری چاروں بیٹیوں کو لے جائیں۔‘‘
’’بیٹیوں کا کیا ہے‘‘ ماں کہتی ’’وہ تو ہر عورت چاہتی ہے۔‘‘
کندن ایک جھٹکے کے ساتھ بات کاٹ دیتی۔ ’’ماں……‘‘
مان کندن کی طرف دیکھتی ہے……
’’میں بھی تیری بیٹی ہوں… ‘‘ کندن آنکھوں میں شکایتیں، حکایتیں لیے ہوئے ماں سے کہتی ’’تو چاہتی ہے پرماتما مجھے لے جائیں۔‘‘
ماں سبھاشنی کندن کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتی،… اور پھر اپنی بیٹی سے لپٹ جاتی، کہتی ہوئی ’’کندن‘‘ اور پھر ’’تو میری بات نہیں سمجھتی، میں بھی تو کسی کی بیٹی ہوں۔ میں بھی سوچتی ہوں میں کیوں اس سنسار میں چلی آئی؟ کیوں نہ پیدا ہوتے ہی مرگئی۔
سبھاشنی اور کندن کے اس مکالمے؍ گفتگو سے افسانہ نگار کا یہ بتانا مقصود ہے کہ مرد کے بغیر ایک عورت کی زندگی کس طرح بے معنی اور اذیت ناک ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ سبھاشنی اپنی پوری زندگی بغیر مرد کے سہارے گزار دیتی ہے اور اسی لیے وہ کہتی ہے ’’میں سوچتی ہوں کہ کیوں اس دنیا میں چلی آئی۔ پیدا ہوتے ہی کیوں نہ مرگئی۔‘‘
اس کے بعد افسانہ نگار وقت کے بہاؤ کو سمیٹتے ہوئے کہتا ہے کہ ڈیڑھ مہینے بعد جب باب ؍فادر فشر آیا اور اسے دیکھتے ہی کندن دوڑ کر اس سے لپٹ گئی۔ لیکن باب نے اسے دور جانے کے لیے کہا تو کندن حیرت زدہ ہوکر پیچھے ہٹ گئی اور نگاہوں میں معمے لیے ہوئے بابی فشر کے چہرے کی طرف دیکھنے لگی۔
یہاں پر کندن اور فادر فشر کے درمیان تعلق کی پوری وضاحت ہوجاتی ہے کہ کندن، فادر فشر سے محبت کرتی ہے۔
کندن اپنے جذبات پر قابوپاتے ہوئے خاموش کھڑے ’باب‘ سے سوال کرکے کہتی ہے کہ باب کچھ تو بولو۔ افسانہ نگار اس کے فوراً بعد لکھتا ہے کہ:
’’کندن کا جسم ساتھ لگتے ہی فادر فشر کی پاکیزگی کے ہمالے اور اس کے وطن کے اینڈیز پگھلنے پسیجنے لگے۔ چند لمحے پہلے سردی میں ٹھٹھرنے والے دو جسموں پر کوئی لحاف سے چلے آئے، جنھیں اتار، ایک طرف پھینک کر باب بولا ’’پرے ہٹ جاؤ… تم عورتیں سمجھتی ہو مردوں کے عصمت ہی نہیں ہوتی؟‘‘
اس پیراگراف میں افسانہ نگار نے فطری طور پر مرد اور عورت کے جسم کے ملنے سے جو کیفیت پیدا ہوتی ہے اس کی بہترین عکاسی کی ہے۔ لیکن باب کا یہ کہنا کہ ’’تم عورتیں سمجھتی ہو کہ مردوں کے عصمت ہی نہیں ہوتی ہے۔ قاری کے ذہن میں ایک سوال پیدا کرتا ہے اور پھر افسانہ نگار اس سوال کا جواب خود کندن کی زبانی بیان کرتا ہے:
’’میں نے عورت ہوکر تمھیں معاف کردیا، باب… اور تم…‘‘
’’میرے اور تمھارے درمیان…… میں عورت ہوں۔‘‘
کندن کے اس پورے بیان سے مرد اور عورت کے فطری رشتے کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ دنیا کی ہر عورت مرد کے بغیر ادھوری ہے اور اس کے علاوہ عورت کے خلوص و محبت اور ایثار و قربانی کے جذبے کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔
اس کے بعد راوی بیان کرتا ہے کہ جب ’باب‘ کندن کی جانب پلٹ کر نہیں دیکھتا ہے تو ’’پھر اسے خیال آیا شاید…‘‘
اس جملے سے افسانہ نگار کا اس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ باب کا پلٹ کر نہ دیکھنا ایسے ہی ہے جیسے اس کا باپ کبھی اس کی زندگی میں لوٹ کر نہیں آیا۔
کندن اس پر چیخ کر کہتی ہے۔
’’اور اس نے ایک بار پھر بلند آواز میں پکارا… فا…د…ر…‘‘ اور اس کی آواز بے شمار گھاٹیوں اور ان کی سیاہ تہوں میں گرتی، جذب ہوتی ہوئی دکھائی دی۔‘‘
اس پورے بیان کے بعد راوی پھر سے کہانی کو لکھی پر ہورہے سوالوں سے لاکر جوڑ دیتا ہے۔
’’سچ بتا کون تھا؟… یہ اپجس کی گانٹھ کہاں سے لائی؟‘‘
تم تو یہ مت پوچھو، ماں
ماں ایکا ایکی ڈر گئی۔ اس نے بیٹی کے چہرے پر دیکھا اور کچھ مطلب ڈھونڈھنے کی کوشش کی۔
کندن نے بالقصد چہرے پر ایک معصومیت لاتے ہوئے کہا ’’ہم عورتیں ہیں… ہمیں ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں ماں۔ کیا یہ کافی نہیں کہ وہ بچہ ہے…؟‘‘
اگر پھر لڑکی ہوگئی تو؟‘‘
’’لڑکی کیا انسان نہیں ہوتی؟‘‘
’’ہوتی ہے مگر…‘‘
اس پورے مکالمے میں پیدا ہونے والے سوالات کے جواب خود افسانے کے اس اقتباس میں موجود ہیں۔
’’اور پھر سب باتیں ان چند سوالوں میں گم ہوگئیں، جو عورت سے ازل سے پوچھے جارہے ہیں اور ابد تک پوچھے جائیں گے۔ جن کا وہ کبھی جواب دے گی اور کبھی نہ دے سکے گی اور دے گی بھی تو اس پر ہزاروں دباؤ ہوں گے… سماجی، اخلاقی…… اور بچے کو کچھ پتہ نہ ہوگا اور ماں ڈری سہمی رہے گی۔‘‘
راوی بیان کرتا ہے کہ جب لکھی نے گرجے میں کنفیشن کیا تو ایک نئی اطلاع سامنے آئی کہ ’رام داس‘ اس کے خواب میں آیا تھا۔ وہ کسی مرد کے پاس نہیں گئی۔ وہ قسمیں لیتی رہی لیکن لکھی کی اس بات سے سب حیرت میں تھے۔
اس پر کندن نے فرداً فرداً فادر روبیلو اور فادر مائیکل سے پوچھا کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے تو انہوں نے کہا کہ اگر لکھشمی رام داس سچ کہتی ہے تو کیوں نہیں۔ لیکن کندن ایک تعلیم یافتہ عورت تھی اسے اطمینان بخش جواب نہیں ملا تو اس نے فادر فشر کو گرجے سے باہر جانے والے راستے پر روک کر پوچھ لیا۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’فادر فشر نے ادھر اُدھر دیکھا اور کندن سے کہا ’’نہیں‘‘
کندن چونک گئی اور بولی ’’فادر… تم ایک کیتھولک پادری ہوکر اس بات کو نہیں مانتے؟‘‘
’’نہیں‘‘
’’کیوں نہیں‘‘
’’اس لیے کہ خدا کے بیٹے اور انسان کے بیٹے میں فرق ہے… میرا خیال ہے، کہیں رات کے وقت سدھو چپکے سے چلا آیا ہوگا۔‘‘
کندن کو ماں کا فقرہ یاد آیا۔ ’’اتپتی کے سب کام پرماتما اندھیرے میں کرتے ہیں۔‘‘ مگر فادر فشر کو آخری حد تک پہنچانے کے لیے کند ن بولی ’’سدھو یا رام داس؟‘‘
’’سدھو‘‘
’’رام داس کیوں نہیں؟‘‘
’’رام داس کوئی حقیقت نہیں رکھتا… اس کا کوئی وجود نہیں۔ وہ تو صرف نام ہے رجسٹر میں۔‘‘
ہاں مگر کندن نے ضد کی ’’آیا بھی تو لکھی کو پتہ نہ چلا ہوگا۔‘‘
’’تم تو جانتی ہو‘‘ فادر فشر نے کندن کے نگاہوں کو ٹالتے ہوئے کہا… ’’پھر خواب کتنا گہرا ہوجاتا ہے……۔‘‘
یہ پورا بیان کنایاتی یا تمثیلی معلوم ہوتا ہے، جو عیسائی مذہب سے مستعار ہے۔ لیکن بیدیؔ اس پورے بیان سے صرف ماں اور اس کے بچے کے مقدس رشتے کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں، جس کا آگے چل کر بیان کیا گیا ہے۔لیکن اقتباس کے آخر میں راوی یہ کہتا ہے کہ کندن حقیقت جاننے کے لیے فادر فشر سے سوال و جواب کرتی ہے یہاں قاری کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کیا جاننا چاہتی ہے؟ چوں کہ کندن ایک تعلیم یافتہ لڑکی ہے اور وہ جانتی ہے کہ انسانی معاشرہ میں بغیر عورت اور مرد کے اتصال سے بچے کا کوئی وجود نہیں اور یہ بات فادر فشر بھی جانتا تھا۔ لیکن اقتباس کا آخری جملہ کندن اور فادر فشر کے مابین تعلق کی نوعیت کی پوری وضاحت کرتا ہے اور کندن، فادر فشر پر مرد اور عورت کے فطری رشتے کی حقیقت کو واضح کرنا چاہتی ہے۔
’’کندن جذبات سے معمور ہوگئی- ’باب‘ اس نے کہا۔ ’’تم ایسا سمجھتے ہو تو کیوں نہیں یہ مشن چھوڑ دیتے؟ کیوں نہیں شادی–‘‘
باب فشر نے کندن کو وہیں روک دیا۔ صرف اتنا کہہ کر– ’’نہیں‘‘
’’تم کیوں نہیں سمجھنے کی کوشش کرتے، باب؟ اس دنیا کے سب دھندے کرتے ہوئے آدمی پادری سے بھی بڑا ہوسکتا ہے، یسوع—۔‘‘
مذکورہ اقتباس سے بیک وقت کئی نتیجے برآمد ہوتے ہیں مثلاً دنیاوی زندگی میں مرد اور عورت کے رشتے کی وضاحت کی گئی ہے اور یہ بتانا مقصود ہے کہ قدرت نے عورت کو مرد کے لیے اور مرد کو عورت کے لیے ہی تخلیق کیا ہے۔ دونوں کے ذریعہ ہی انسانی زندگی کا وجود ممکن ہے۔ دوسرا یہ کہ فادر فشر اس بات کو سمجھتا ہے لیکن مذہبی جکڑبندیوں کی وجہ سے مجبور رہتا ہے۔ تیسری اور سب سے اہم بات جو اس اقتباس کے آخری سطر سے معلوم ہوتی ہے کہ دنیا کا یہی نظام ہے کہ آدمی فطری رشتوں کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ایک انسان کی طرح زندگی گزارے تو وہ ایک پادری؍ راہب کے درجہ سے بھی بلند ہوسکتا ہے۔
اس کے بعد افسانے میں بیدیؔ عورت کے اس جذبے کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو صرف عورت کی ذاتی صفات کا حصہ ہے، جسے مرد آخر دن تک نہیں سمجھ سکتا ہے۔ ایک عورت ساری تکالیف برداشت کرکے اولاد کو جنم دیتی ہے، اقتباس ملاحظہ ہو:
’’پیدائش کے فوراً بعد، لڑکے اور لڑکی تو کیا، زندگی اور موت سے بھی بے خبر لکھی ایک میٹھی نیند سوگئی ایسی نیند جو اس جانکاہی کے بعد ہی آتی ہے اور جس کا احساس مرد کو کبھی نہیں ہوتا۔‘‘
اور بیدیؔ نے عورت کے اس جذبے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ ہر عورت کے اندر ایک درد مند دل ہوتا ہے جو ممتا سے لبریز ہوتا ہے۔ اسی لیے لکھی کی تکلیف دیکھ کر کندن، ماں کے نہ چاہنے پر بھی لکھی کے پاس چلی جاتی ہے اور اس کے پیچھے سبھاشنی بھی پہنچ جاتی ہے۔ لیکن اس بار یہ ہوتا ہے کہ لکھی کو ایک مرا ہوا لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ راوی بیان کرتا ہے کہ رات کے اندھیرے میں حقیقت کی راہیں ٹٹولتی ہوئی کندن مشن میں پہنچتی ہے۔
’’جہاں مقدس مریم اور اس کے اور بھی مقدس بچے کا آئیکون تھا، جس کے سامنے وہ دو زانوں ہوگئی۔ وہ جو ایک کرشچین سے بہت بڑی تھی، دائیں بائیں طرف دو بڑی سی موم بتیاں کانپنے لگیں، جن سے آئیکون متحرک ہوگیا اور مقدس ماں، بچے کوگود میں لیے کندن پر مسکرانے اور اس سے باتیں کرنے لگی۔‘‘
اس پورے بیان کے ذریعہ بیدیؔ معاشرے سے پرے ماں اور اس کے بچے کے رشتے کی وضاحت کرتے ہیں کہ ماں اور اولاد کا رشتہ ایک مقدس رشتہ ہے اور ممتا کا یہی مقدس جذبہ بھی ہے کہ ہر عورت ساری اذیتیں برداشت کرکے بھی اپنے بچہ کو پیدا کرتی اور اس کی پرورش کرتی ہے۔ شاید اقتباس کے آخر میں مریم اور یسوع کے آئیکون کے ذریعہ بیدیؔ اسی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں۔
افسانے میں مجسمے کا کندن سے بات کرنے کے بعد، بیدیؔ معاشرے کے بنائے ہوئے اصول و قواعد پر گہرا طنز کرتے نظر آتے ہیں۔
’’جبھی فادر مائیکل آیا اور کندن کو مسیح کو بھیڑوں میں شامل ہوتے دیکھ کر مسکرادیا، لیکن جبھی اس کے ہونٹ بھنچ گئے اور اس نے بچے کا فاتحہ پڑھنے سے انکا رکردیا کیوں کہ کرشچین ہوئے بغیر مرگیا تھا، شراب اور پانی کے ساتھ اس کا بپتسمہ نہ ہوسکا تھا……‘‘
صبح کندن کو ایک اور ہی مسئلہ در پیش تھا۔ بچہ کرسچین تھا اور نہ مسلمان…… نہ ہندو… کون اسے اپنے قبرستان میں دفنانے دے گا۔ شمشان میں جلانے دے گا۔ ہر کوئی یہی پوچھے گا۔ اس کے باپ کا نام کیا ہے؟‘‘
افسانے کے اخیر میں سبھاشنی لڑکے کو تابوت میں رکھ کر دفنادیتی ہے۔ یہاں راوی بیان کرتا ہے:
’’کندن… کندن کہاں تھی؟ تھوڑی ہی دیر میں وہ نیچے سے آتی ہوئی دکھائی دی۔ اس کے ہاتھ میں سرجو کا ایک بوٹا تھا جسے وہ کہیں سے کھود لائی تھی۔ ‘‘
’’یہ اس پر لگادو ماں‘‘ وہ بولی۔
ماں نے دیکھا اور اس کے ہاتھ سے کھرپی گرگئی۔ اس نے ایک تیز سی نظر سے سرجو– یوکلپٹس کے پیڑ کی طرف دیکھا اور پھر ڈبڈباتی ہوئی آنکھوں میں ایک جست کے ساتھ اپنی بیٹی سے لپٹ گئی۔ ماں بیٹی دونوں ایک مشترک غم میں رو رہی تھیں۔‘‘
افسانے کے آخر میں قاری پر کندن اور یوکلپٹس کے مابین تعلق کی نوعیت واضح ہوتی ہے کہ آخر کندن کو سرجو سے اس قدر جذباتی لگاؤ کیوں تھا؟
مذکورہ اقتباس کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بیدیؔ نے بڑی فنکاری کے ساتھ ان چند سطروں میں عورت کی زندگی کا المیہ پیش کردیا ہے۔ افسانے کے آخری چھ سطروں میں ماں سبھاشنی اور کندن کی گفتگو کے ذریعہ بیدیؔ نے ساری دنیا پر یہ واضح کیا ہے کہ عورت اور مرد کا رشتہ فطری ہے کسی ایک کی بھی عدم موجودگی سے دونوں کی زندگی کا وجود ممکن نہیں۔
٭٭٭

مضمون نگار شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں