Fan E Mausiqi aik Jaiza by Bazmi Abbasi Chiraiyakoti

Articles

فن موسیقی- ایک جائزہ

بزمی عباسی چریا کوٹی

فنون لطیفہ میں فن موسیقی کا مرتبہ بلند تر سمجھا جاتا ہے۔ انسانی تمدن اور معاشرت کی ترقیوں کے ساتھ اس فن کی ترقی پہلو بہ پہلو ہوتی رہی۔ جب سے انسانی تاریخ دنیا میں روشناس ہوئی دنیا نے اس فن کو بھی پہچانا۔ فنونِ لطیفہ میں سے ہر ایک فن انسان کے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ سے متعلق ہے ۔ مصوری نے ترقی کی تو انسان کے حاسہ بصر پر اپنا معجز نما اثر ڈالا۔ بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی اس مصوری کا ایک کرشمہ ہے لیکن موسیقی کا درجہ اس سے بھی بالا تر ہے۔ موسیقی کا قبضہ براہِ راست روح پر ہوتا ہے۔ جس قدر اس فن نے ترقی کی اس کی دل فریبی بڑھتی گئی انسان اور حیوان یکساں طور پر اس سے متاثر ہوئے۔ اس کی ہمہ گیری میں مذہب قوم و ملت و ملک کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اس سے بھی آگے بڑھیے تو وحشی اور متمدن اقوام کے تاثرات میں کوئی فرق نہیں ہے جن چیزوں کا فطرت سے تعلق ہے اُن کو کسی حالت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا بلکہ وہ فطرت اور طبیعت حیوانی کے ساتھ پیدا ہوتی ہے۔
کچھ خواص ایسے ہیں جو نوعِ انسانی کے ساتھ مخصوص ہیں جیسے ہنسنا اور کچھ خواص ایسے ہیں جو حیوان کی جنس میں پائے جاتے ہیں، اور ہر جان دار میں یکساں نظر آتے ہیں جیسے سانس لینا۔ انہیں خواص میں سے موسیقی بھی ہے جس کا ہر جان دار پر جس میں قوتِ سماعت ہے اثر ہوتا ہے۔ عرب کے بدو ایک خاص قسم کا راگ الاپتے ہیں جس کو سن کر اونٹوں میں ایسا نشاط پیدا ہوتا ہے کہ وہ برابر چلتے رہتے ہیں۔ اس طرح جانوروں کو پانی پلاتے وقت ایک طرح کی سیٹی بجاتے ہیں جس سے اُن کا پانی پینے کی طرف میلان ہوتا ہے۔ سپیرا سانپ کے سامنے بین بجاتا ہے جس سے سانپ مست ہو کر کھڑا ہوجاتا ہے، چرواہے گائے، بکری اور بھینس اور اونٹ کو دوہنے کے لیے خاص قسم کا راگ گاتے ہیں جس سے دودھ اُن کے تھنوں میں اترتا ہے، تیتر اور بٹیر پکڑنے کے لیے شکاری کچھ گاتے ہیں جس کو سن کر وہ اپنی جگہ پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بچوں کو سلانے کے لیے ایک مخصوص راگنی ہے جسے لوری کہتے ہیں جس کو سن کر بچے سوجاتے ہیں۔ موسیقی کے اثرات روزمرہ کے تجربے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بعض آدمیوں پر تو اس کا اتنا اثر ہوا کہ وہ ہلاک ہوگئے۔ ایک واقعہ ہے کہ اجمیر میں قوال نے یہ شعر گایا۔
گفت قدوسی فقیر بے درنا و دربقا
خود بخود آزاد بودی خود گرفتار آمدی
اس کو سن کر مولانا محمد حسین الہ آبادی کا انتقال ہو گیا۔ اس طرح حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ کا یہ واقعہ تذکروں میں موجود ہے کہ قوال نے ان کے سامنے یہ شعر گایا:
کشتگانِ خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جانے دیگر ست
اس کو سن کر ان پر وجد کی کیفیت طاری ہوگئی اور اُن کی روح پرواز کر گئی۔
صاحب اخوان الصفا نے بیان کیا ہے کہ کسی مجلس میں ماہرین موسیقی جمع تھے ایک شخص پریشان حال پھٹے کپڑوںمیں وہاں آیا۔ صاحب خانہ نے جو ایک رئیس تھے اس کو صدر جگہ بٹھا دیا حاضرین کو یہ بات ناگوار ہوئی۔ رئیس نے یہ بات سمجھ لی اور اُس شخص سے گانے کی فرمائش کی اُس شخص نے اپنی جھولی سے چند لکڑیاں نکالیں اور اُن کو جوڑ کر ان پر تار کھینچ دیے اور ایک راگ چھیڑی تمام حاضرین پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا اور سب ہنستے ہنستے بے تاب ہوگئے (غالباً یہ دادرا رہا ہوگا) پھر اُس نے ان تاروں کو بدلا اور دوسری راگ چھیڑی اس کا یہ اثر ہوا کہ حاضرین روتے روتے تھک گئے، (غالباً یہ راگ جو گیارہا ہوگا) پھر اُس نے تاروں کو بدلا اور تیسری راگ چھیڑی اس کا اثر یہ ہوا کہ تمام حاضرین سوگئے (غالباً یہ راگنی نیلمبری تھی) گانے والے نے سب کو غافل پا کر وہاں سے راہِ فرار اختیار کی۔
حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق یہود کی تواریخ میں مذکور ہے کہ جب وہ زبور کی تلاوت کرتے تھے تو جانور اور پرندے بھی جمع ہوجاتے تھے۔ اہل ہنود کے عقیدے کے مطابق تو کائنات کی ہر شے یہاں تک کہ جمادات بھی راگوں کے اثرات سے مبرا نہیں ہیں۔
ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق موسیقی کو سنگیت کہتے ہیں اُن کے نزدیک یہ فن بلاغت کی ایک شاخ ہے۔ ہندو علمائے بلاغت کا قول ہے کہ موسیقی بھی بلاغت ہے۔ موسیقی کو گندھیرو وید بھی کہتے ہیں۔ چاروں ویدوں رِگ وید، سام وید،یجروید اور اتھرووید کے علاوہ پانچواں وید گندھرووید ہے۔ اس کا گائین وِدّیا فنِ غنا بھی کہتے ہیں اور اسے سام وید کا ضمیمہ خیال کیا جاتا ہے۔
ناردجی نے کہا ہے کہ نہ تو میں جنت میں رہتا ہوں نہ عابدوں کے دل میں رہتا ہوں میرے ماننے والے جہاں گاتے ہیں میں وہاں رہتا ہوں، ہر قوم اورہر ملک میں فنِ موسیقی کے موجد کے متعلق مختلف اقوال ہیں جو ایک دوسرے سے بالکل جدا ہیں۔ اہل ہندو کے حکماء کی اس کے متعلق کچھ اور رائے ہے اور مسلمان ماہرین موسیقی کی رائے کچھ اور ہے۔ مورخین کی تحقیقات سے اتنا معلوم ہوسکا ہے کہ چین اور ہند کے آپس کے تعلقات کی قربت وجہ سے راگ اور راگنیوں کا دونوں میں اشتراک پایا جاتا ہے۔ اہل ہنود اور عرب مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ موسیقی ستاروں اور سیاروں کے عمل سے وجود میں آئی۔
حکمائے اسلام جیسے فارابی، بو علی سینا اور اخوان الصفا نے بیان کیا ہے کہ پہلا شخص جس نے موسیقی کو بحیثیت فن دنیا کے سامنے پیش کیا وہ فیثا غورث ہے۔ علامہ شہر ستانی لکھتے ہیں کہ فیثا غورث نیثار کا بیٹا تھا جو چھٹویں صدی قبل مسیح میں گزرا ہے وہ سامو کا رہنے والا تھا۔ ۵۳۲ء قبل مسیح میں اس نے بہت ترقی کی۔ اس کے ملک کے لوگ اس کے مخالف ہوگئے اس لیے اس نے اٹلی میں سکونت اختیار کی وہاں اس کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ فریسیڈیس اس کا شاگرد بہت مشہور ہوا۔ کلانوس دو رزی بھی اس کا شاگرد تھا۔ وہ اس بات کا قائل تھا کہ موجودات کا قیام عدد سے ہے اور خدا نے سب سے پہلے اسی کو پیدا کیا۔ اس کا عقیدہ تھا کہ تمام عالم بسیط روحانی راگوں سے بنا ہے اور راگوں سے روح متاثر ہوتی ہے اس کی رائے میں عالم اجسام میں جتنے تاثرات ہیں، جیسے رنگ لذت و سرور غم شیرینی و تلخی وغیرہ یہ سب عالم ارواح میں جواہر ہیں۔
تاثیر پیدا کرنے والی دعا و تسبیح کے وقت رقتِ قلب گریہ و زاری اور حضوری قلب کے لیے ہی موسیقی ایجاد ہوئی۔ چنانچہ زمانۂ قدیم ہی سے عبادت گاہوں میں دعا کے وقت گانے اور باجے کا استعمال جاری ہے ان اوقات میں راگنیوں کا استعمال ہوتا ہے جن کے سننے سے گریہ و زاری اور قلب میں رقت پیدا ہو۔ حضرت داؤد علیہ السلام مزامیر زبور کی تلاوت کے وقت کام میں لاتے تھے۔ نصاریٰ اپنے گرجوں میں ان راگوں کا استعمال آلاتِ موسیقی کے ساتھ کرتے ہیں ۔اہل ہنود بھی اپنی عبادت گاہوں میں موسیقی کا استعمال کرتے ہیں اُن کے یہاں ساز کے ساتھ آرتی اور بھجن بڑی عبادت ہے۔ مسلمان تلاوتِ قرآنی میں مخصوص الحان کا استعمال کرتے ہیںان سب کا مقصد رقتِ قلب خضوع اور خشوع پشیمان ہو کر گناہوں سے توبہ کرنا اور پاکئی قلب سے خدا کی طرف رجوع ہونا ہے۔
عربوں کے تمدن میں سب سے اہم حصہ ان کا تحفظ انساب ہے اُس میں اُن کو یہاں تک کمال حاصل تھا کہ گھوڑوں اور اونٹوں کے انساب بھی ان کے یہاں محفوظ تھے۔ اس طرح انہوں نے موسیقی کا نسب نامہ بھی مرتب کر لیا تھا۔ اُن کے خیال میں پہلا شخص جس نے گایا وہ قابیل ہے جس نے ہابیل کے مرنے پر اُس کا مرثیہ گایا۔ بارہبریوس شامی متوفی ۱۲۸۹ء لکھتا ہے کہ قین کی لڑکی نے آلاتِ موسیقی ایجاد کیے اسی وجہ سے گانے والی لڑکی کو قینہ کہتے ہیں۔
یہاں یہ بھی ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ یہود قابیل کو لامح کا بیٹا اور اس کو عود کا موجد مانتے ہیں۔ اس کا ایک لڑکا طوبال تھا۔ جس نے اپنے نام پر طبل ایجاد کیا۔ طوبال کی لڑکی ضلال نے معارف ایجاد کیا۔ تواریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ طنبور قوم لوط کی ایجاد ہے لیکن دوسرے مورخین کے خیال میں طنبور کے موجد صائبین ہیں۔ جو لیس پالکس ایک بڑا مورخ گزرا ہے اس کے خیال میں طنبور عربوں کی ایجاد ہے، ستار ایرانیوں کی ایجاد ہے۔
فن موسیقی کی تایخ اسلام : اسلام سے قبل عربوں میں موسیقی کا عام رواج تھا۔ گانے والی لڑکیاں مغنیات علمی و ادبی مجالس میں اس طرح شریک ہوتی تھیں جس طرح گانے بجانے کے جلسوں میں۔ اس زمانے میں پردے کا رواج نہیں تھا۔ عورتیں بھی مردوں کی طرح آزاد زندگی بسر کرتی تھیں اور دعوتوں میں باجوں کے ساتھ شریک ہوتی تھیں۔ حضرت محمد ﷺ کے زمانے تک یہ رواج قائم رہا۔ جنگ اُحد میں ۶۲۵ء میں اہل قریش کے ہمراہ ہند بنت عتبہ سب سے آگے دف پر رجز گاتی اور بدر کے مقتولین پر نوحہ کرتی جاتی تھی۔ عرب عورتیں نوحہ اور مرثیہ گانے میں بہت مشہور تھیں۔
مورخین ہر فن کی تاریخ لکھنے میں اس فن کے موجود کی تحقیق ضرور کرتے ہیں۔ اسی اصول کے پیش نظر عرب مورخین نے بھی اس سلسلے میں یہ بحث کی ہے کہ وہ کون شخص ہے جس نے سب سے پہلے گایا؟ گانا انسان کے ساتھ پیدا ہوا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہنسنا، رونا، چیخنا ،گانا وغیرہ انسانی فطرت ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو تمام امور فطرت اس کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں اس کے متعلق اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ سب سے پہلے جو انسان پیدا ہوا وہ ہنسا ہوگا یا رویا ہوگا ، گایا ہوگا۔ یہ تحقیق ضروری ہے کہ موسیقی نے فن کی صورت کب سے اختیار کی؟ موسیقی کا وجود کب ہوا ؟اس کی ترقی کی رفتار کیا تھی؟ کس زمانے میں اس کا عروج و زوال ہوا؟ اس کے کیا اسباب تھے ؟اس فن پر کتنی کتابیں لکھی گئیں؟
ابتدائی انسانی تمدنی دور میں موسیقی سے متعلق معلومات معتبر تاریخوں میں دستیاب نہیں ہیں۔ ساتویں صدی قبل مسیح کے کچھ کتبے ملے ہیں جن سے اتنا معلوم ہوتا ہے اسیرین کے زمانے میں کچھ عرب قیدی آئے تھے جو روسا کی مزدوری کرتے تھے یہ قیدی کام بھی کرتے تھے اور گاتے بھی تھے اُن کا گانا اسیرین کو پسند آیا۔ اسیرین فونیشین یہود اور عرب میں تجارتی رابطے قائم تھے اور زبان کا بھی اشتراک تھا جس نے مذاقِ موسیقی کے لیے زمین ہموار کی۔
پروفیسر اسٹیفن لکھتا ہے کہ اسیرین اور یہودیوں کی موسیقی میں گہرا تعلق رہا ہے۔ یہود عرب اور اسیرین میں اشتراک اور تعلقات کافی گہرے تھے اس لیے ان کی موسیقی اور اسیرین میں الفاظ کی بہت مماثلت ہے، مثلاً اسیرین میں شرو اور عربی میں شاعر ایک ہی ماخذ ہے۔ سریانی میں شروگانا عبرانی میں شیر بہ معنی گانا سریانی میں زمار و عبرانی میں زمرہ اور عربی میں منزماربہ معنی گانا سریانی میں الوبہ معنی نوحہ عبرانی میں ایلل عربی میں دلوال بہ معنی نوحہ۔
سریانی میں موسیقی کے لیے عام لفظ نیگوتویاننگو تو مادہ ناگو بمعنی آواز عبرانی ناگن۔ بہ معنی ستار بجانا اسی سے لفظ نگینا بنا بہ معنی موسیقی یار تار والا باجا۔ سریانی میں آن بمعنی راگ عبرانی میں انا عربی میں غنا باجوں کے لیے سریانی زبان میں لفظ طبلو (ڈھول) اور اداپو (طبلہ) عبرانی اور آرامی میں طبیلا اور تو پھر عربی میں طبل اور دف عبرانی میں زنمیر بانسری عربی میں زمرسریانی میں قرنو عبرانی میں قرنِ عربی میں قرن وغیرہ۔
موسیقی کو ہندوؤں کے عقائد کے مطابق مذہب کا درجہ حاصل ہے اور قدیم ویدک دور سے ہی موسیقی کو بہت متبرک مانا جاتا ہے۔ اس فن کو ہندوؤں نے بامِ عروج تک پہنچایا۔ اس میں شک نہیں کہ فنِ موسیقی کے معاملے میں ہندوستان تمام دنیا کامعلم ہے۔ موسیقی کے ذریعے بہت سے امراض کا علاج ہندوؤں میں بہت قدیم دور سے چلا آرہا ہے۔ بہت سی راگ راگنیوں کے اثرات موسم اور انسان کے مزاج پر بھی مرتب ہوتے ہیں، مثلاً بھیروں راگ کے اثر سے کولہو خود بخود چلنے لگتا ہے۔ مالکوس راگ کے اثر سے پتھر پگھل جاتے ہیں۔ راگ ہنڈول کے اثر سے جھولا خود بخود متحرک ہوجاتا ہے۔ دیپک راگ سے چراغ روشن ہوجاتے ہیں۔ شری راگ کی تاثیر سے سیاہ آندھی آتی ہے اور میگ راگ کی تاثیر سے پانی برستا ہے۔
شاستروں میں لکھا ہوا ہے کہ مہا دیو نے آسمان کی گردش کی آوازیں سن کر سات سُر قائم کیے پھر ان کو سات سیاروں کی تعداد پر مرتب کیا گیا پھر بارہ بروج کے مطابق ان کے بارہ سُر قائم کیے گئے اور پھر ہر ایک کا علیحدہ نام رکھا گیا ان سب کا مجموعہ سرگم ہے۔ سات سر کو سپتھک کہا جاتا ہے یعنی سات سروں کا مجموعہ۔ ان سات سروں کو تین سے ضرب دینے پر اکیس سر ہوئے۔ اس اصول سپتھک پر ہارمونیم کے سُر قائم کیے گئے ، ان میں سے ہر ایک سر دوسرے سے اکیس درجوں تک اونچا ہوتا ہے۔
سارے گاما پا دھانی سے بارہ سر اس طرح بنے سارِ رِگ گ م مَ پَ دَھ دَھ نِی نِی
راگ : انسان کی زبان سے جو آواز گلے زبان تالو ، ہونٹ، ناک وغیرہ سے نکلتی ہے اس کو سُر کہتے ہیں۔
ہندوؤں میں چھ راگ اور چھتیس راگنیاں تسلیم کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر ۶ راگ یہ ہیں بھیرو راگ، مالکوس راگ ، راگ ہنڈول، دیپک راگ، شری راگ میگھ راک۔
مسلمانوں نے بھی اپنے دور اقتدار میں فن موسیقی کی زبردست سرپرستی کی اس میںاضافے کئے اور اس طرح اس فن کو ترقی کی انتہائی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ گو کہ اسلام میں موسیقی کو ناپسندیدہ اور خلافِ شریعت مانا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود عربوں ، ایرانیوں ، ترکوں، مغلوں ، افغانوں میں اس فن کے عظیم ماہرین پیدا ہوئے جن کے درخشندہ کارناموں کو قیامت تک فراموش نہیں کیاجاسکتا ۔ آج بھی ہندوستان میں فن موسیقی کے عظیم مسلم ماہرین کی بہتات ہے جن کی وجہ سے کہ فن زندہ ہے اور ترقی میں آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔
رسائل اخوان الصفا میں رسالہ موسیقی جس کا ماخذ ابو یوسف یعقوب ابن اسحاق الکندی متوفی ۸۷۴ء ہے جو عرب کے شریف خاندان سے تھا۔ بصرہ میں ۷۹۰ء میں پیدا ہوا المامون ۳۳۔۸۱۳ء اور المستعصم ۴۲۔۸۳۳ء کے مزاج میں اسلامی تعصب اور مذہبی رنگ غالب تھا الکندی کی مذہبی ترقی پسندی اس نے پسند نہیں کیا اور اس کے تمام کتب خانے کو ضبط کر لیا۔ اس کو عرب کا فلسفی کہتے تھے۔ اس نے فلسفے کے علاوہ موسیقی پر بھی بہت سی کتابیں لکھیں اور موسیقی کو بہت ترقی دی اُس کی مشہور تصانیف میں سے رسالہ فی ترتیب النغم ۔ رسالہ بھی الایقاع الیٰ صناعۃ الموسیقی ۔ رسالہ فی الاخبار عن صناعۃ الموسیقی کتاب لعزم فی تالیف اللحون بہت مقبول ہوئیں۔
کمال لادین ابوالفضل جعفر بن تعلب الادنوی متوفی ۷۴۹ھ اپنی کتاب الامتاع میں لکھتے ہیں کہ ابو ہلال عسکری نے اپنی کتاب وائل الاعمال میں لکھا ہے کہ اکثر علما کا اتفاق ہے کہ پہلا شخص جس نے گانا گایا وہ طولیس ہے اس کا نام ابو عبدالمنعم عیسی ابن عبداللہ الداعب ۶۳۲ء سے ۷۰۱ء میدنے کا رہنے والا تھا۔ حضرت عثمان کی والدہ ہاروی نے اس کی پرورش کی فارسی غلاموں کے گانے سنے تھے جو اُس کو پسند آئے اور ان کی نقل کی۔ حضرت عثمان کی خلافت کے آخری دور میں ۶۴۴ء میں اس کو بہت شہرت حاصل ہوئی۔ اپنی مہارتِ موسیقی کی وجہ سے مدینے میں اس کی بہت عزت تھی۔
اس کو لوگ بہت منحوس مانتے تھے اس وجہ سے کہ وہ جس روز پیدا ہوا اسی روز حضرت محمد صلعم کا وصال ہوا جس دن اس کا دودھ چھڑایا گیا اسی روز حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا انتقال ہوا۔ جس روز بالغ ہوا اسی روز حضرت عمرؓ کا انتقال ہوا جس دن اس کی شادی ہوئی اسی روز حضرت عثمانؓ کا انتقال ہوا۔
شام بن طویس سعید ابن مسیح نام ابو عثمان سعید ابن مسجع متوفی ۷۵۱ء مشہور ماہر موسیقی مکہ میں پیدا ہوا۔ ابن سریج نام ابو یحییٰ عبیداللہ ابن سریح ۷۲۶-۶۳۴ء ایک ترکی غلام کا لڑکا تھا۔ مکہ میں پیدا ہوا فارسی راگیں گاتا تھا زبردست ماہر موسیقی تھا اور اس نے فن میں قابل قدر اضافے کیے ابن مسجح کا شاگرد تھا طویس سے بھی کچھ سیکھا تھا۔ سکینہ بنت الحسین اس کی سرپرست تھیں۔
اسلامی دورِ اقتدار میں اسپین میں ایک عرب زریاب نامی وہ جامع کمالات ایک عظیم سائنس داں ہونے کے علاوہ زبردست ماہر موسیقی تھا جس نے موسیقی کو بہت ترقی دی اور اضافے کیے موسیقی پر بہت سی کتابیں لکھیں۔
ابو نصر فارابی ترکستان کے شہر فاراب میں ۲۵۹ھ نویں صدی عیسوی کے اواخر میں پیدا ہوا وہ ایک عظیم سائنس داں ، فلسفی ، ادیب اور ماہر موسیقی تھا اس نے مختلف موضوعات پر ایک ہزار سے زائد کتابیں لکھیں۔ اس کی کتابوںکے ترجمے یورپی زبانوں میں ہوئے اس کو ارسطو ثانی کہا جاتا تھا مسلم دانشوروں میں وہ بہت اعلیٰ و ارفع حیثیت کا مالک تھا۔
ابوالحسن علی المسعودی : وہ نویں صدی عیسویں کے آخر میں بغداد میں پیدا ہوا وہ اک سائنس داں ، دانشور فلسفی اور عظیم ماہر موسیقی تھا جس نے کئی راگ و راگنیوں کا اضافہ کیا اور فن موسیقی کو بامِ عروج پر پہنچایا۔
شیخ الرئیس ابن سینا : ابن سینا بخارا کے ایک قصبے افشیہ میں ۹۸۰ء میں پیدا ہوا۔ وہ ایک عظیم سائنس داں اور ریاضی داں تھا۔ فن موسیقی کا بڑا ماہر تھا موسیقی پر اس کی کئی کتابیں ہیں۔
نصیرالدین طوسی : یہ ۱۸؍فروری ۱۲۰۱ء میں خراسان میں پیدا ہوا وہ ماہر سائنس داں تھا اس نے سائنس فلسفہ ریاضیات فلکیات نوریات جغرافیہ پر بہت سی کتابیں تصنیف کیں۔ وہ ایک عظیم ماہر موسیقی بھی تھا اور اس فن پر بھی اس کی بہت سی تصانیف ہیں۔
قبل از اسلام عربوں میں موسیقی کا بہت رواج تھا جسے اسلام آنے کے بعد بھی عربوں نے برقرار ہی نہیں رکھا بلکہ اس میں زبردست اضافے کیے۔ طلوع اسلام سے کچھ پہلے عرب میں دو گانے والی عورتیں بہت مشہور تھیں جن کو عاد کی جرامہ تان کہتے تھے مکہ کے لوگ اُن کے گانے پر دل و جان سے فریفتہ تھے۔ اسی طرح بنو جدیس کی دو ماہر گانے والی لڑکیاں ہذیلہ اور عفیرہ تھیں بعض مورخین کا خیال ہے کہ حاتم طائی کی ماں بھی بہترین گانے والی تھی۔ الخنسا ایک مشہور مرثیہ گو تھی جو مرثیے گاتی تھی۔ اسی طرح ہند بنت عتبہ مشہور شاعرہ اور گانے والی تھی بنت عفرن بھی ایک ماہر موسیقار تھی۔ حریرہ اور خلیدہ بشیر ابن عمر کی گانے والی لڑکیاں جو النعمان ثالب متوفی ۶۰۲ء کے عہد میں الحرا کا سر برآ وردہ شخص تھا جو حضرت محمد صلعم کے دربار میں بعد ہجرت حاضر ہوا تھا۔ مالک ابن خیبر مغنی ایک اور گانے والا جو بنو طے کے ایک وفد میں ۶۳۰ء میں حاضر ہوا تھا ۔ طبری لکھتا تھا کہ یہ مالک ابن عبداللہ ابن خیبری تھا۔
چودھویں اور پندرہویں صدی میں جب مسلمانوں نے ہند میں اسلامی سلطنتیں قائم کیں اسی زمانے سے مسلمانوں نے فن موسیقی کو پروان چڑھانا شروع کیا۔ سلاطین نے اپنے دربار میں ماہرین موسیقی کو داخل کیا اور موسیقی کو بہت اہمیت حاصل ہوئی اور فارسی راگوں نے ہندی راگوں سے مل کر نئی موسیقی کو جنم دیا۔ سلطان علا الدین خلجی ۱۳۱۶-۱۲۲۵ء کے دربار میں امیر خسرو مشہور شاعر و ماہر موسیقی داخل ہوئے۔ ان کو فارسی راگوں پر عبور تھا۔ قوالی کے علاوہ فارسی اور ہندی کی اور بھی کئی راگیںانہوں نے ایجاد کیں۔ ستار میں بھی انہوں نے ترقی دے کر نئی ترمیمات کیں۔ اُس زمانے میں گوپال نانک کی موسیقی کا شہرہ تھا۔ بادشاہ وقت نے اس کو بلا کر اس کا گانا سنا امیر خسرو نے اس کی راگوں کو بغور سنا پھر دوسرے موقع پر انہیں راگوں کو اُس سے بہتر گا کر سنا دیا۔
امیر خسرو نے جن راگوں اور راگنیوں کو موسیقی میں اضافہ کیا وہ یہ ہیں۔ (۱) مجر (غار اور فارسی ) ۲۔ سارگیری (یورپی+ گورا)۔ گن کلی + فارسی ۳ ۔ یمن (ہنڈول +فارسی) ۴۔ عشاق (سارنگ+بسنت +فارسی) ۵۔ (موافق (وڈی+ماسری فارسی دو کا و حسینی)، ۶۔ غنم (پوربی میں کچھ تبدیلی کی) ۷۔ زیلف (کھٹ رانگنی میں تصریف کیا) ۸۔فرغنہ (گن کلی + گورا) ۹۔ سرپردہ (گورسارنگ + فارسی) ۱۰۔ باخریز (دیکار+ فارسی ) ۱۱۔فردوست (کانھڑا + گوری+ پوربی+شیام کلیان+ فارسی) ۱۲۔ صنم (کلیان + فارسی)
امیر خسرو نے ستار میں بھی کچھ اضافے اور ترمیم کر کے اُس کو چار تاروں والا آلہ موسیقی بنایا اور چاروں تاروں کے الگ الگ نام دیئے یعنی پہلے تار کو کویزر کہا دوسرے تار کا نام مثنیٰ رکھا تیسرے تار کو مثلث کہا اور چوتھے تار کا نام بیم رکھا۔ ستار طبل اور دف عربوں کی ایجاد ہے۔ مگر ایران میں جب ستار پہنچا تو سہ تار کہا گیا یعنی تین تاروں والا باجا۔
مغلوں کے دور میں دکن سے کچھ ماہرین موسیقی دہلی آئے جن میں ترھٹ کے راجہ شیر سنگھ کے درباری لوچن کوی بھی تھے انہوں نے راگ ترنگی دریافت کیا۔ اکبر بادشاہ ۱۶۰۵-۱۵۴۳ء کو موسیقی کا بڑا شوق تھا۔ اس کے زمانے میں عربی فارسی راگوں کو ہندی راگوں میں ملا کر موسیقی کو نیا رنگ دیا گیا ، عہد اکبر ی میں ہری داس فقیر و رندا بن کا رہنے والا جو ماہر موسیقی تھا اور تان سین کا استاد تھا۔ تان سین گوالیار کا رہنے والا تھا۔ جسے شہنشاہِ موسیقی تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ اکبر کا درباری تھا اس کو نو سو نناوے راگوں پر قدرت تھی۔ دیپک راگ اسی زمانے میں موقوف ہوئی اس لیے کہ اس سے اکثر آگ لگ جاتی تھی۔
اکبر کے دربار میں راجہ مان سنگھ گوالیاری موسیقی کا بہت بڑا سرپرست تھا آج تک گوالیار موسیقی کی روایات کا عظیم مرکز تسلیم کیا جاتا ہے۔
شاہجہاں کے دربار میں بھی گانے والوں کی بڑی عزت تھی اور اس دور میں بھی موسیقی نے بڑی ترقی کی اُس دور کا مشہور ماہر موسیقی جگن ناتھ نامی ایک شخص تھا جسے کوی راج کا خطاب ملا تھا۔ لال خاں جوتان سین کی اولاد میں سے تھا اور فن موسیقی کا بہت بڑا ماہر تھا اسے بھی بہت سے انعامات سے نوازا گیا تھا۔ ایک موقع جگن ناتھ اور لال خاں کو شاہجہاں نے ان کی مہارت فن کے صلے میں ان کے وزن کے برابر چاندی جس کی قیمت چار ہزار پانچ سو روپے ہوتی تھی، انعام دیا۔
اورنگ زیب کے دور میں البتہ موسیقی کی ہمت افزائی نہیں ہوئی۔ اور نہ دربار تک رسائی ہوسکی۔ اس کا سبب اورنگ زیب کا مذہبی کٹر پن تھا۔ اس کے عہد میں ایک بار چند گوپیوں نے ایک جنازہ بنایا اور اسے لے کر روتے ہوئے اورنگ زیب کے محل کے قریب سے گزرے اور اورنگ زیب نے دریافت کیا کس کا جنازہ ہے تو دربایوں نے جواب دیا کہ موسیقی کا جنازہ ہے۔ لوگ دفن کرنے کے لیے جا رہے ہیں۔ اورنگ زیب نے کہا کہ اس کو بہت گہری قبر میں دفن کریں تا کہ پھر کبھی باہر نہ آئے۔
انگریزوں کے دور میں ابتدا میں موسیقی راجہ و شہزادگان اور نوابان ہند کے درباروں تک محدود رہی۔ انگریز ہندی راگ راگنیوں کو بے اصول و بے قاعدے سمجھتے تھے۔ اس لیے انہوں نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی تا ہم سرولیم جونس اور سر ڈبلو او سے، کیپٹن ڈے اور کیپٹن دلار نے ہندی موسیقی کاکا فی مطالعہ کیا اور اس فن میں مہارت حاصل کی۔
سلطان حسین مشرقی بادشاہ جونپور فن موسیقی میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے سات راگیں ایجاد کیں جو اب تک ماہرین گاتے ہیں، مخدوم بہا الدین ذکریا ملتانی متوفی ۶۶۶ھ ملتان کے قاضی اسلام اور بڑے درویش تھے موسیقی کے بہت بڑے ماہر تھے ، اُن کی ایجاد کی ہوئی راگیں فن موسیقی کی کتابوں میں درج ہیں۔
سلطان عالم واجد علی شاہ اودھ کے نواب فن موسیقی کے بہت بڑے ماہر تھے۔ انہوں نے دھنا سری، بھیم پلاسی اور ملتانی کو باہم ملا کر سلطانی راگنی ایجاد کی گئی۔
عہد اکبر کے ماہرین موسیقی : میاں تان سین ،شیخ محمد غوث گوالیاری کے بڑے محبوب تھے انہیں روضے سے متصل مدفون ہوئے۔
۲) سبحان خان نے مدینے میں حضرت محمد صلعم کے روضہ مبارک کے سامنے ایک نعت دھرپت راگنی میں گایا تھا، مدینے میں قیام کیا اور مرنے کے بعد جنت البقیع میں دفن ہوئے۔
۳) سرگیان خان فتح پوری۔ ۴) چاند خاں ۵) سورج خاں (یہ دونوں بھائی تھے) ۶) تان ترنگ خاں پسرتان سین ۷) میاں چندو خاں ۸) میاں داؤد خاں ۹) ملا اسحاق ۱۰) شیخ خضر ۱۱) شیخ بجو ۱۲) حسن خان ۱۳) مرزا عاقل
فن موسیقی کو چھ راگ اور چھتیس راگنیوں میں بنیادی طور پر تقسیم کیا گیا لیکن اس کے بعد ان کو مزیدیوں بھی تقسیم کیا گیا کہ ہر ایک راگ کی بیوی جس کو بارما کہتے ہیں اور اُس کے لڑکے اور پھر ہر لڑکے کی بیویاں جس کی تفصیل فن موسیقی پر مرتب کتابوں میں درج ہے ان سب کا ذکر خود ایک طویل داستان ہے جس کے لیے ہزاروں صفحات درکار ہیں۔ ان تمام راگوں راگنیوں اور اُن کے ملحقات میں سے بعض کو بعض کے ساتھ ملا کر ہزاروں کی تعداد میں راگیں اور راگنیاں بنتی گئیں۔
راگ راگنیوں کا دیوتا : ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق ہر راگ اور راگنی کا ایک دیوتا یعنی موکل مانا گیا ہے جو اُس راگ راگنی کا محافظ ہے۔
یہ عقیدہ اہل ہنود میں اس طرح عام ہے جس طرح حکمائے یونان اور مسلمانوں میں اشراقین و مشائین تسلیم کرتے ہیں۔ مشائخین اس کو رب النوع کہتے ہیں اور اشراقین رب الاصنام سے تعبیر کرتے ہیں مجوسی اس کو اردی بہشت کہتے ہیں اس لیے کہ وہ بھی اس فلسفے کے ماننے والے ہیں۔ قدیم یونانی فلسفی ہر مس اور افلاطوں وغیرہ بھی اس کے قائل تھے۔
ہند میں علا الدین خلجی سے محمد شاہ تک قریب سبھی فرمانراؤں نے موسیقی کی سرپرستی کی اور اس طرح موسیقی نے مندروں میں پوجا پاٹ کے ساتھ دربار میں بھی رسائی حاصل کی۔
امیر خسرو نے ہندوستانی موسیقی میں ایرانی نغمات کو شامل کیا۔ ستار و طبلہ جیسے ساز ایجاد کیے۔ قوالی ،خیال، مندروں کی دھرپد،دربار کی دھرپدر،اگنیاں ایجاد کیں۔ اکبر کے دور میں موسیقی نے بہت ترقی کی اور تان سین جیسے فنکار کو دنیا نے دیکھا۔ نواب واجد علی شاہ کے دربار میں ٹھمری اور دادر ایجاد کی گئی۔ پنجاب میں غلام نبی شوری میاں نے راگنی پٹہ ایجاد کی۔ جے پور میں جب رجب علی خان بین کار اور بہرام خاں ماہر موسیقی مشہور ہوئے۔
رام پور میں روشن خاں ڈاگر پیار خاں باسط خاں جعفر خاں صادق علی خاں جیسے استاد فن موجود تھے۔ نواب کلب علی خاں کے عہد میں بہادر حسین خاں، پیاز خان، امیر خاں، عنایت خاں، رحیم اللہ خاں، عظیم اللہ خاں، قطب بخش ، حیدر شاہ الفوزہ نواز اور بہت سے فنکار موجود تھے۔ ان کے علاوہ محمد حسین خاں وزیر خاں نبی بخش خاں بین کار عنایت حسین خاں نذیر حسین خاں فدا حسین خان ترودیئے بندہ خاں سارنگی نواز حفیظ خاں کریم خاں، ستار نواز بندہ ، دین محمد علی خاں صاحب ، زادہ حیدر علی خاں صاحب زادہ سعادت علی خاں، سید سجاد حسین سوز خواں اور ٹھاکر نواب علی خاں وغیرہ موسیقی کے درخشندہ ستارے تھے جن کا تعلق دربارِ رام پور سے تھا۔
ہندوستان کے علاوہ دوسرے اسلامی ممالک بھی موسیقی اور خاص طور سے ہندی موسیقی سے متاثر ہوئے افغانستان اور ایران میں بھی موسیقی کا جادو چلتا رہا۔ وسطی ایشیاء اور عرب علاقے پہلے ہی سے موسیقی کے بڑے مراکز بن چکے تھے۔ بو علی سینا نے قرنا اور شہنائی ایجاد کی۔ رفتہ رفتہ موسیقی نے یونان اور یورپ کو بھی متاثر کیا الغرض مسلمانوں نے پوری دنیا میں موسیقی کو معراج کمال تک پہونچایا۔ بیسویں صدی کے مشہور ماہرین موسیقی جن کا ہندوستان میں ڈنکا بجا وہ یہ ہیں وزیر مرزا قدرپیا، بندہ دین منے خاں، فضل حسین میاں علی، جان راحت حسین ،راحت حیدر جان، للن پیا ،اعظم پیا، فیاض خاں، ولایت حسین خاں، شفق اکبر آبادی ، استاد حافظ علی خاں۔
امراؤ استاد صادق علی خاں، معز الدین ،ملکہ جان ،زہرہ جان، بیگم اختر، اختری بائی فیض آبادی ، شمشاد بیگم، ثریا ،نور جہاں، استاد عبدالکریم ،نذر الاسلام، تصدق اسد، استاد اللہ دیے خاں، استاد عظمت حسین خاں ،مئے کش اکبر آبادی، ظہور خاں اور بیجو باورا ،بڑے غلام علی ،چھوٹے غلام علی، استاد علاؤ الدین خاں وغیرہ کے نام نامی ہمیشہ زندہ اور تابندہ رہیں گے۔ سبھی مسلمان ماہرین فن موسیقی ہر قسم کے مذہبی تعصب اور فرقہ وارانہ تنگ نظری سے بالکل پاک اور مبّرا تھے۔
مندرجہ بالا فنکاروں کے علاوہ بر صغیر ہندو پاک کے صفِ اول کے ماہرین موسیقی کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
حاجی سبحان خاں، نائک بخشو، بیجو نائک ،میاں رمضان خاں، تان رس خاں، میاں اچیل، امراؤ خاں، میاں نعمت خاں ، سدا رنگ، میاں من رنگ، احمد ابراہیم خاں ، استاد حاجی الطاف حسین خاں، ولایت حسین خاں، چاند خاں، سورج خاں، محمد غوث گوالیاری وغیرہ آفتابِ موسیقی فیاض خاں کو دھر پد ، خیال، ترانہ، سرگم، ٹھمری، دادرا ،غزل، سوز، سلام پر کامل عبور حاصل تھا۔ آفتابِ موسیقی کا خطاب مہاراجہ میسور نے عطا کیا۔ مہاراجہ اندور نے لاکھوں روپے کا نقد انعام ان کو دیا۔ تصدق خاں آگرے کے مشہور ماہرِ موسیقی تھے۔ ان کے والد کلن خاں بھی ماہر گانے والے تھے۔ تصدق کے مشہور پاکستانی شاگرد اسعد علی خاں تھے۔ ان کے علاوہ عطا حسین اور بندے حسین خاں بھی کافی مشہور ہوئے۔
شفق اکبر آبادی، نتھن خاں کے صاحبزادے تھے۔ انہوں نے کلن خاں ،محمد بخش، کرامت خاں ،محمد خاں اور عبداللہ خاں سے تعلیم حاصل کی اور دھر پدکے ماہر ہوئے۔ محبوب خاں مشہور ماہرِ موسیقی تھے۔ یہ فیاض خاں آفتابِ موسیقی کے خسر تھے۔ استاد علی خاں شاستری سنگیت اور سرود کے ماہر مانے گئے ۔ان کے پرداد غلام بندی خاں قدیم ہندوستان کے ماہر موسیقی تھے۔ سنگیت سمراٹ استاد اللہ دیے خاں احمد ضلع علی گڑھ کے مشہور خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ مہاراجہ بڑودہ اور مہاراجہ کولہاپور کے دربار سے منسلک رہے وہ دھر پد، خیال، ترانے اور پٹے کے ماہر تھے۔ وہ نائیک بھی تھے ڈھائی ہزار سے زائد گانے گائے۔ سو برس میں اتنا بڑا فنکار موسیقی میں نہیں ہوا۔ ۱۹۴۶ء میں ۸۲ سال کی عمر میں انتقال کیا۔
عظمت حسین خاں میکش اکبر آبادی ماہر موسیقی تھے۔ اپنے ماموں حاجی الطاف حسین اور اپنے چچا سنگیت سمراٹ استاد اللہ دیے سے تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۷۵ء میں انتقال ہوا۔ ظہور خاں رام داس میکش اکبر آبادی کے سگے نانا تھے۔ خورجہ کے رہنے والے اور زبردست ماہر موسیقی تھے۔ موسیقی میں رام داس تخلص کرتے تھے۔ راگ درباری کے ماہر تھے۔
ابراہیم خاں ریاست بوندی کے رہنے والے تھے ۔ نواب ٹونک کے یہاں ملازم تھے۔ راگ باگیسری کے ماہر تھے۔استاد حاجی الطاف حسین خاں میکش اکبر آبادی کے ماموں تھے۔ ظہور خاں رام داس کے لڑکے تھے۔ ۱۹۶۰ء میں سابق صدر حکومت ہند جناب راجندرپرساد نے ان کو کئی ایوارڈ عطا کیے۔ خیال اور رات پور پادھنا کے ماہر تھے۔
موجودہ دور میں پورے بر صغیر ہندوپاک میں سینکڑوں کی تعداد میں مسلمان ماہرین موسیقی ریڈیو ، ٹی وی، فلم انڈسٹری وغیرہ میں پھیلے ہوئے ہیں جن کے نام بین الاقوامی دنیا میں چاند سورج کی طرح چمک رہے ہیں۔ مثلاً عبدالکریم خاں، عبدالوحید خاں، امیر خاں، بڑے غلام علی خاں، احمد حسین ، بیگم اختر، برکت علی خاں، فیاض خاں، منصور نزاکت علی ، سلامت علی، محمد حسن، مہدی حسین، مہدی حسن، غلام فرید صابری وغیرہ جنہوں نے غزل، قوالی، شاستری سنگیت وغیرہ میں بڑا نام کمایا۔
آلاتِ موسیقی کے ماہرین کی بھی ایک بڑی تعداد ہندوپاک میں اپنا جادو جگائے ہوئے ہے مثال کے طور پر عبدالحلیم، جعفر خاں علی، احمد حسین ،علی اکبر خاں اللہ رکھا، ذاکر حسین خاں، علاؤ الدین خاں، امجد علی خاں، بسم اللہ خاں، حافظ علی خاں، عمران خاں ولایت خاں وغیرہ۔