Fan-e-Tiba’at ka Maulid wa Mansha

Articles

فنِ طباعَت کا مولد ومنشا

پروفیسر نادر علی خاں

انسانی فتوحات مےں رسمِ خط کی اےجاد وارتقا اےک عظےم الشان کارنامہ ہے جس کی مدد سے انسان نے اپنے قلبی احساسات اور ذہنی افکار کے بحرنا پےدا کنارکو کوزہ مےں بند کرلےا ہے اور فن طباعت کی اےجاد نے تو سونے پر سہاگے کا کام کےا، چنانچہ جملہ علوم وفنون صفحہ ¿ قرطاس مےں سمٹ کر آگئے اور ہزاروں سال قدےم علمی سرماےہ ہر کس و ناکس کے لیے مفےد اور مستحضر ہوگےا۔

فن طباعت کا مولد ومنشا غےر اختلافی ہے اس کی اےجاد کا سہرا چےنےوں کے سر ہے۔ کےونکہ وہاں بدھ مت کی تروےج کے لیے مذہبی ادب اور تصاوےر کی اشاعت کی ضرورت اس کا سبب بنی چنانچہ، مہاتما بدھ کی تصاوےر چھاپنے کے لیے ۰۵۶ءمےں بلاک کی چھپائی کاا ستعمال کےا گےا اور برٹش مےوزےم مےں قدےم ترےن چےنی طباعت (۰۷۷ئ)کا نمونہ محفوظ ہے۔سرارل آسٹےن نے ۷۰۹۱ءچےنی صوبہ کانسو مےں”مزار بدھ“نامی غار مےں اےک مطبوعہ کتاب درےافت کی ہے جس پر تحرےر ہے:
”اس کتاب کو وانگ چی اےبہ نے ۱۱مئی ۸۶۸ءکومفت تقسےم کرنے کے لئے چھاپا تاکہ اس کے والدےن

کی ےاد کو دوام حاصل ہو۔“۲
ےہ بارہ صفحات پر مشتمل ہے جس کا ہر صفحہ ۰۳x۲۱ انچ ہے لےکن ےہ سارے اوراق اےک دوسرے سے چسپاں کرکے ۶۱ فٹ لمبا اےک مسلسل تھان بناتے ہےں ۔پی شنگ نے ۱۴۰۱ءلغاتےہ۹۴۰۱ءمےں چےنی مٹی کے ٹائپ تےار کئے جو اےک آہنی شکنجے مےں نصب کیے گئے تھے اس کے بعد وانگ چانگ نے ۴۱۳۱ءمےں چوبی ٹائپ تےار کےا اس کے بعد جنرل لی(شاہ کورےا)نے ۲۹۳۱ءمےں دھات کے ٹائپ کا ڈھالا خانہ قائم کےا ور اےک کتاب تانبے سے بنے ہوئے کورےائی حروف سے چھاپی۔۱
جےسا کہ مذکورہ بالا بےان سے مترشح ہوتا ہے کہ بلاک کے ذرےعے طباعت کا فن چےنےوں کو ساتوےں صدی عےسوی سے معلوم تھا مگر ےورپ مےں ےہ فن بارہوےں صدی عےسوی مےں پہنچا اور ابتداََ اس کا استعمال بھی آرائشی رہا ۔چودہوےں صدی مےں تاش کے پتّوں کی طباعت ہوئی پندرہوےں صدی کے اوائل مےں(۳۲۴۱ئ)سےنٹ کرسٹوفر کی ٹھپّے سے طبع شدہ تصوےر جان رائی لےنڈزلائبرےری مانچسٹر مےں محفوظ ہے لےکن ےورپ مےں فن طباعت نے اس وقت تک ترقی نہےں کی جب تک کہ پندرہوےں صدی کے وسط مےں الگ الگ حروف کے ٹائپ اےجاد نہےں ہوئے۔

ےورپ مےں فن طباعت کی اےجاد کا مسئلہ اختلافی ہے بعض محققےن کا دعویٰ ہے کہ اس کی اےجاد کا سہرا لارنس جان زورکوسٹر (Lawrence Janzoor Coster) باشندہ ہارلم (ہالےنڈ) کے سر ہے مگر بعض محققےن مُصِر ہےں کہ جان گٹن برگ(John Guten Berg) باشندہ منےز(جرمنی) نے جان فسٹ اور پےٹر شوفر کی مدد سے اےجاد کےا بعض کا قول ہے کہ جو ہالس برےٹو باشندہ بروگسن (بےلجےم) نے ےہ کارنامہ سر انجام دیا لےکن بعض نے بامفےلو کاسٹےلڈے باشندہ فےلٹر(اٹلی) سے منسوب کےا ہے۔

جان گٹن برگ نے ۴۵۵۱ءمےں منےز (جرمنی) مےںمطبع قائم کےا جس مےں سانچے مےںٹائپ کے حروف ڈھالے گئے اور کچھ دستاوےز طبع کےں دوسال بعد انجےل طبع کی اس کے اےک سال بعد رنگےن طباعت کا بھی تجربہ کےا گےا۔منےز سے ےہ فن سارے ےورپ مےں پھےل گےا دو جرمن اٹلی پہنچے اور انھوں نے روم کے قرےب ۴۶۴۱ءمےں اےک مطبع قائم کےا لےکن طباعت کا اصل مرکز وےنس قرار پاےا جہاں مختلف ماہرےن فن نے ٹائپ کی نوک پلک درست کی اور اس مےں نفاست پےدا کی ۴۶۴۱ءمےں اندلس فن طباعت سے آشنا ہوا ۸۶۴۱ءمےں ےہ فن سوئٹزرلےنڈ پہنچا ۰۷۴۱ءمےں دو جرمنوں نے فرانس کو اس فن شرےف سے متعارف کراےا اور ساربون کے مقام پر مطبع قائم کےا ۱۷۴۱ءمےں ہالےنڈ روشناس ہوا اور انگرےزی مےں اوّلےن مطبوعہ کتاب تارےخ ٹرائے (History of Troy) ۴۷۴۱ءمےں طبع ہوئی اس کا دوسرا اےڈےشن ولےم کاکسٹن پرےس لندن سے شائع ہوا ۔ڈنمارک اور سوےڈن مےں علی الترتےب ۲۸۴۱ءاور ۳۸۴۱ءمےں مطابع وجود مےں آئے ۵۹۴۱ءمےں پرتگال اور ۳۰۵۱ءمےں ےہ فن روس پہنچا۔

امرےکہ مےں فن طباعت ہندوستان کے بعد پہنچا چنانچہ لاطےنی امرےکہ کی پہلی مطبوعہ کتاب(Cathecism on Lengna Jamuguana Castellance)مصنفہ فرانسسکو پارنےجہ ۷۲۶۱ءمےں مےکسےکو مےں طبع ہوئی اور امرےکہ کی پہلی مطبوعہ کتاب(Bay Psalm Book)۰۴۶۱ءمےں طبع ہوکر شائع ہوئی۔
انگلستان مےں ولےم کاکسٹن نے فن طباعت کی بنےاد رکھی ےہ شخص کےنٹ کا باشندہ اور نہاےت عالم فاضل انسان تھا تےن سال ہالےنڈ اور بےلجےم مےں فن طباعت کے علم کے حصول مےں بسر کیے کولون(جرمنی) کے زمانہ ¿ قےام مےں رسوخ پےدا کےا اور بالآخر انگلستان واپس آکر اپنا پرےس جاری کےا اس نے ۳۱ دسمبر۶۷۴۱ءکو اےک مذہبی دستاوےز طبع کی اور آئندہ پندرہ سال کے دوران تقرےباََ اےک سو کتابےں طبع کرکے شائع کےں۔اکثر مطبوعات کا مصنف اور مترجم تھا ۱۹۴۱ءمےں وفات پائی۔
ےورپ کے اکثر ممالک مےں فن طباعت جرمنوں کی وساطت سے پہنچا لےکن ےہ انگلستان ہی کی انفرادےت اور امتےاز ہے کہ جہاں اس کے نو نہال ولےم کاکسٹن نے اپنے ملک مےں اس عظےم الشان فن کی بنےاد ڈالی اس کے علاوہ ےورپ کے ہر اےک ملک مےں لاطےنی زبان سے طباعت کاآغاز ہوا لےکن انگلستان واحد ملک تھا جہاں قومی زبان مےں کتابےں طبع ہوکر شائع ہوئےں مزےدبراں کاکسٹن کے تےار کردہ ٹائپ کے حروف منفرد حےثےت کے مالک تھے ےعنی ان کا انداز گاتھک تھا،نہ کہ رومن۔
انےسوےں صدی کے اوائل مےں سلنڈر مشےن اور بھاپ کی اےجاد نے فن طباعت کی ترقی کی دوسری منزل طے کی ،ہاتھ سے چھاپنے کی مشےن دوسو کاپےاں فی گھنٹہ چھاپتی تھی۔مگر اس کے بعد اےک گھنٹے مےں دوہزار کاپےاں نکلنے لگےں۔

ہندوستان مےں فن طباعت کا آغاز و ارتقا:
۸۹۴۱ءمےں پرتگال کا اےک اولوالعزم واسکوڈی گاما بحر اوقےانوس اور بحر ہند کی لرزہ خےز زہرہ گداز اور جاں گسل فضاو ¿ں اور ہوشرباموجوں سے کھےلتا ہوا ساحل مالابار پہنچا اور اپنی گوناگوں صفات اور کمالات کے وسےلے سے مالا بار کے راجہ کے دربار تک رسائی حاصل کی اور مقرب بار گاہ سلطانی بن کر اعزاز واکرام سے سرفرازہوا ۔ہندوستان مےں اس کی آمد تارےخ مےں اےک نئے باب کا اضافہ تھی چنانچہ مالابار کے راجہ نے الوداع کہتے ہوئے نہ صرف داد ودہش کا بھر پور اظہار کےا بلکہ شاہ پرتگال کو لکھا:
”آپ کے ملک کے اےک شرےف فرد واسکوڈی گاما مےری مملکت مےں واردہوئے جس سے مجھے بڑی مسرت ہوئی مےری قلمرو مےں دارچےنی، بونگ سےاہ مرچ اور جواہرات کی بہتات ہے آپ کے ملک سے مجھے سونا، چاندی اور سرخ رنگ درکار ہے۔“۱

واسکوڈی کی مراجعت وطن کے بعد شاہ پرتگال کے اےما اور سر پرستی مےں سفر کے نامساعدحالات کے باوجود اےک طرف پرتگالی تجار کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تو دوسری طرف مسےحےت کے داعی عےسائےت کی تروےج و اشاعت کے لیے مضطراب گواپہنچ کر مصروف کار ہوگئے چنانچہ ۱۴۵۱ءمےں ان کے دو کالج سےنٹ پال اور رےشول قائم ہوگئے لےکن انھوں نے اسی پر اکتفا نہےں کےا بلکہ شاہ پرتگال جان سوم کے امروتحرےک سے پرتگالی وائسراے جان ڈی کےٹرو مقےم گوانے مضافات مےں ابتدائی مدارس بھی قائم کیے تاکہ ہندوستانی عےسائےوں کی تعلےم و تربےت صحےح نہج پر ہوسکے۔۱

تےن چار سال کی فکر وتدبر سے تعلےم و تربےت کے نظام مےں جو فروغ حاصل ہوا،اس کا تذکرہ کرتے ہوئے پادری جانس دی بےرانے ۰۲نومبر ۵۴۵۱ءکو پاپائے روم کے نام اےک خط مےں لکھا:
”اس کالج مےں جوپاک عقےدہ کا گھر“کے نام سے موسوم ہے، مختلف اقوام کے ساٹھ نوجوان جو اےک دوسرے سے بالکل جدا نو مختلف زبانوں کے بولنے والے ہےں رہتے ہےں ان مےں سے بےشتر ہماری ہی زبان پڑھتے اور لکھتے ہےں اور ساتھ ہی اپنی زبان بھی پڑھنا اور لکھنا جانتے ہےں ان مےں کچھ لاطےنی اچھی طرح جانتے ہےں اور شاعری کا مطالعہ کرتے ہےں لےکن استاد اور کتابوں کی کمی کی وجہ سے کماحقہ فائدہ نہےں اٹھا سکتے عےسائی مجموعہ عقائد کو ان تمام زبانوں مےں شائع کےا جاسکتا ہے اگر اعلیٰ اقدس اس کی اجازت دےں“۔
ہندوستان کے علاوہ حبشہ مےں پرتگال مشزےوں کے اےثار وقربانی اور فکر وجہد سے نومسےحوں کا اےک معتدبہ طبقہ وجود مےں آچکا تھا حتیٰ کہ شاہ حبشہ عےسائےت کی دعوت و فروغ مےں پےش پےش تھا،چنانچہ ۶۲۵۱ءمےں شاہ حبشہ نے پرتگال کے سلطان ڈی مونےل سے فرمائش کی کہ”آپ چند اےسے افراد جو کتابےں تےار کرنے مےں مہارت رکھتے ہوں حبشہ روانہ فرمادےں۔لےکن سو ئے اتفاق اس خط کے پہنچنے سے قبل ہی ڈی مونےل کا انتقال ہوگےا اس لےے ےہی درخواست اس کے جانشےن ڈی جاو ¿ سے کی گئی اور شرف ِقبولےت کو پہنچی۔ بالآخر ۹۲ مارچ ۶۵۵۱ءکو مسےحی راہبوں کی اےک جماعت جو چودہ افراد پر مشتمل تھی اور جس کا غالب حصہ حبشہ مےں دعوت وتبلےغ اور تعلےم وتربےت کے لیے مختص تھا جاو ¿ننس براٹواسقف حبشہ کی سرپرستی اور نگرانی مےں اےک چھاپہ خانہ اور چند ماہرےن طباعت (راہب جان دی بسنا مانتے،جاو ¿ گونسا بو مےں اور اےک ہندوستانی ماہر اور رمزشناس فن طباعت)کی معےت مےں حبشہ کے لیے روانہ ہوکر ۶ دسمبر ۶۵۵۱ءکو گوآپہنچی طوےل بحری سفر کے بعد چند ماہ گو ا مےں قےام کا مقصد تھا مگر بعض وجوہ کے باعث مزےد قےام ناگزےر تھا۔

راہبوں کی تازہ دم جماعت اور پرےس کی آمد سے گوا کے کارکنوں کی چمن مےں بہار آگئی اور برسوں کا خواب شرمندہ تعبےر ہوتا نظر آےا چنانچہ گوا پہنچتے ہی طباعت کا کام شروع ہوگےا اور اکتوبر ۷۵۵۱ءمےں فلسفہ اور منطق کے بعض مقالات بھی طبع ہوکر شائع ہوگئے ۔۷۵۵۱ءمےں جاو ¿ دی مانتے نے ہندوستانی ماہر طباعت کی معاونت سے سےنٹ زےوےر(St. Tramics xavier)کی دو ترےناکر سٹا(نصاب الاطفال)طبع کرکے کتب خانے مےں محفوظ کیاہے۔

بچوں کی صحےح تعلےم کی غرض سے زےوےر نے اےک کاٹی کزم (کاٹی کزم آف دی کرسچن ڈاکٹرن ےعنی مسےحی تعلےمات بطول سوال جواب)تےارکی جو گوا مےں ۷۵۵۱ءمےں طبع ہوئی۔۳
بستا مانتے کے رفےق کار اور فن طباعت کے ماہر جان گونسالوس (John Gonsalves)نے تامل زبان کے چوٹی ٹائپ تےار کیے راہب جان ڈی فےرےا John de Feriaنے موصوف سے ےہ فن حاصل کےااور اس کی نوک پلک درست کی بالآخر اول الذکرنے ۸۷۵۱ءکوئلن مےں ہندوستانی زبان کا سب سے پہلا پرےس قائم کےا اور سن مذکور مےں سےنٹ فرانسس زےوےر کی کاٹی کزم آف دی کرےسچن ڈاکٹرن(مسےحی تعلےمات بطور سوال و جواب)کا تامل ترجمہ (کھرےشٹےہ و ناکم)طبع کرکے شائع کےا اس کتاب مےں جان گونسالوس اور جان ڈی فےرےا دونوں کے تےار کردہ ٹائپ استعمال ہوئے چنانچہ پہلی آٹھ سطروں مےں جوٹائپ استعمال کیے گئے وہ ۷۷۵۱ءمےں گوا مےں تےار ہوئے تھے اور جو باقی سطور مےں استعمال ہوئے وہ ۸۷۵۱ءمےں کوئلن مےں تےار کیے گئے تھے لےکن کاٹی کزم کے تامل ترجمے کی طباعت کے بعد ےہ پرےس قلعہ کوچےن مےں منتقل کےا گےا اور ۹۷۵۱ءمےں وہےں سے مارکوس جارج کی ۰۲۱ صفحات پر مشتمل کتاب (۶۶۵۱ءکی مطبوعہ پرتگالی کتاب کا ترجمہ)طبع ہوکر شائع ہوئی مگر اس کے بعد اےسے مواقعات پےش آئے کہ تامل طباعت کا سلسلہ زےادہ عرصے تک قائم نہ رہ سکا چنانچہ پادری ہوسٹن کا بےان ہے کہ:
”بالآخر تامل چھپائی ۲۱۶۱ءکے بعد بند ہوگئی کےونکہ نوےلی اور مےنول مارٹن کی متعدد تصانےف ۹۴۶۱ءاور ۰۶۸۱ءمےں غےر پڑی رہےں۔۱

۶جنوری ۳۶۶۱ءکو قلعہ کو چےن چھ ماہ کے مسلسل محاصرے کے بعد ڈچوں کے قبضے مےں آےا تو انھوں نے قلعے کی اےنٹ سے اےنٹ بجا دی راہبوں کا زبردست نقصان ہوا اور انھےں خارج البلد کےا گےا بشپ کی قےام گاہ،شاندار کالج، تےرہ گرجے ،دوشفاخانے اور متعدد راہب خانے پےوند خاک ہوگئے۔ ۵۹۷۱ءمےں کوچےن پر انگرےزوں کا تسلّط ہوا تو انھوں نے ۶۰۸۱ءمےں پرتگال دور کے تمام آثار کو بارود سے اڑادےا،بہت سی پبلک عمارتےں اور اےک عظےم الشان کےتھڈرل جو ڈچوں کی دست برد سے بچ گئے تھے اس بارود سے وہ بھی نےست ونابود ہوگئے۔

پُنی کےل:
راہب جان ڈی فےرےا نے ۸۷۵۱ءمےں اےک مطبع اپنی کےل(ضلع ٹناولی) مےں قائم کےا موصوف نے تامل زبان کے حروف خود کاٹے اور پھر ان کو ڈھال کر مذہبی تعلےم کے لئے چھوٹی چھوٹی کتابےں طبع کرکے شائع کےں مزےد برآں تامل زبان کا قاعدہ اور دےگر نصابی کتابےں طبع کےں تاکہ اس علاقے مےں کام کرنے والے مشنری تامل زبان مےں مہارت پےدا کرسکےں۔ےہ بات خصوصےت سے قابل ذکر ہے کہ پنی کےل کے مطبع مےں جو ٹائپ استعمال ہوتا تھا اس کا اےک اےک حروف جماےا جاتا تھا کوچےن کے مطبع کی طرح سالم صفحے کا ٹھپّہ تےار نہےں کےا جاتا تھا۔۱

وپی کوٹہ:
سےنٹ ٹامس کلےسا سے معاہدہ کے کچھ عرصے بعد ۹۷۵۱ءمےں مسےحی راہبوں نے وپی کوٹہ(چنا منگلم)کو اپنا مستقر بناےا ۱۸۵۱ءمےں عبادت خانہ تےار کےا اور ۴۸۵۱ءمےں مدرسہ الہٰےات قائم کےا حتٰی کہ ۷۸۵۱ءمےں اےک کالج وجود مےں آگےا تو انھوں نے پاپائے روم سے استد عا کی باشندگان مالا بار کی مذہبی تعلےم کے لئے مخصوص دےنی کتابےں ارسال کی جائےں موصوف نے کتابوں کے بجائے اےک پرےس اور کلدانی زبان کا ٹائپ بھےج دےا جو ۲۰۶۱ءمےں ہندوستان پہنچا چنانچہ پادری البرٹ لارشی نے اسے وپی کوٹہ مےں قائم کےا جس سے قلےل عرصے مےں کئی مذہبی کتابےں کلدانی زبان مےں طبع ہوکر شائع ہوئےں۔۲

امبلا کاڑ:

امبلا کاڑ عےسائی مشنرےوں کی مصروفےت کا مرکزی مقام تھا جو ترےچورسے بےس مےل کے فاصلے پر واقع تھا انھوں نے ۰۷۶۱ءمےں وہاں اےک مدرسہ الہٰےات قائم کےا جو سےنٹ پال سےمزی کے نام سے مشہور تھا اس کے بعد اےک پرےس بھی جاری کےا جس سے سب سے پہلی کتاب تامل پرتگےزی ڈکشنری ۹۷۶۱ءمےں طبع ہوکر منظر عام پر آئی اس کے لئے اےک مالا باری مسےحی نے تامل زبان کے ٹھپّے تےار کیے تھے ۔ڈکشنری کی طباعت کے بعد اور بہت سی کتابےں طبع ہوکر شائع ہوئےں ابتدا مےں تامل حروف کے لیے جو ٹھپّے تےار کیے جاتے تھے اور ےورپی زبانوں کے لئے سےسے کے حروف ڈھالے جاتے تھے لےکن کچھ عرصے کے بعد تامل حروف بھی ڈھال لیے گئے چنانچہ ۰۰۷۱ءکے بعد متعدد تامل کتابےں سےسے کے حروف سے طبع ہوئےں۔
ابتداََ جو مشنری ہندوستان وارد ہوئے مذہبی جوش سے سرشار اور فروغ مسےحےت کے زبردست داعی تھے چنانچہ اپنے مذہب کی تروےج و اشاعت کے پےش نظر مقامی السنہ کے حصول مےں پےش پےش تھے اور انھوں نے اسی پر اکتفا نہےں کےا بلکہ نصابی کتابےں اور لغات بھی تےار کیے بعد مےں ہندوستانی اموال کی فراوانی نے غےر مخلصےن کو بھی دعوت وتبلےغ سے وابستہ کردےا اور جوق درجوق ہندوستان پہنچنے لگے چنانچہ ۶۰۶۱ءمےں صوبہ جاتی کونسل نے حکم جاری کےا کہ:
”کسی پادری کوحلقہ ¿ کلےسا کا منتظم مقرر نہ کےا جائے تا و قتےکہ وہ مقامی زبان نہ سےکھ لے اور حلقہ کلےسا کے جو پادری مقامی زبان سے ناواقف ہےں اگر چھ ماہ کے اندر مقامی زبان کا امتحان پاس نہےں کرےں گے تواپنے موجودہ منصب سے دست بردار ہوجائےں گے۔۲

مذکورہ بالا قوانےن بھی ہوس زر کے شتربے مہار کو گرفتار نہ کر سکے اور دےن مسےحی کے داعی اپنے فرائض منصبی سے بے نےاز افزائش اموال کی فکر سے سرشار داد عےش دےنے لگے چنانچہ فرانسےسی سےاّح اےبے کارلے ۲۷۶۱ءمےں گوآپہنچا تو وہاں کے مذہبی ،معاشرتی اور معاشی احوال کا مشاہدہ کرکے بےحد مترد د ہوا اور لکھا:
”اگر تم مال و دولت کے متمنی ہوتو پرتگالی خانقاہوں مےں جانا چاہےے۔وہاں تم دلّال ،تجار اور دوسرے مقامی لوگوں کو دےکھو گے جو صرف پرتگالی پادرےوں سے تجارت کرتے ہےں غرض کہ اس قوم کی کل تجارت ان کے ہاتھ مےں ہے“۔۱
رفتہ رفتہ عےش وعشرت اور حصول زر کی ہوس نے دعوت کے اس آتش کدے کو سرد کردےا جس کی حرارت سے طلب دنےا اور حب جاہ کے عناصر جل کر خاکستر ہوجاتے تھے اور ان کی فکر و نظر کاسارا سرماےہ اس تدبےر پر صرف ہوا کہ مقامی السنہ کے جوئے کو کس طرح گردن سے اتار پھےنکا جائے اوربالآخر اس مشن مےں کامےاب ہوگئے چنانچہ ۴۸۶۱ءمےں اےک حکم نامہ جاری ہوا جس کی رو سے ”۳سال کے اندر باشندگانِ گو آکو دےسی زبان ترک کرکے پرتگالی کا اختےار کرنا لازم تھا“۔انجام کار عےسائےت کی تروےج و اشاعت کے ذےل مےں السنہ ¿ ہند کے رسائل اور کتب کی اشاعت کے فقدان کے ساتھ ساتھ فن طباعت بھی معرض خطر مےں آگےا چنانچہ اس کے بعد۱۲۸۱ءتک گوا مےں پرےس کا سراغ نہےں ملتا۔اس پر مستزادےہ تحرےک صرف گوا تک محدود نہےں تھی بلکہ سارے ہی تبلےغی مراکز اس کا شکار تھے۔
اس کے شانہ بہ شانہ سےاسی اقتدار کے رسےا کلےسا کو اپنا حرےف سمجھ کر سرپےکار تھے وہ عےسائےت کی دعوت تبلےغ کو سےاسی مصَالح کے پےش نظر مضر سمجھتے تھے چنانچہ ۴۵۷۱ءمےں حکومت پرتگال کی طرف سے وائسرائے مقےم گو اکو متنبہ کےا گےا کہ وہ ہندوستان مےں طبع کے قےام کی درخواست کو مسترد کردے بلا امتےاز اس کے کہ وہ درخواست کسی عےسائی خانقاہ ےا کالج سے ہوےا کسی بارسوخ فرقے کی جانب سے۔۳

۶۱ستمبر ۱۲۸۱ءکو وائسرائے گوا معزول کردےا گےا چنانچہ جابرا نہ حکومت کے علی الرغم حرےت پسند عناصر بر سراقتدار آگئے اس وقت حکومت بمبئی سے اےک پرےس گوا لانے مےں پےش قدمی کی اور اےک ہفتہ وار اخبار بنام”گرےٹ دی گوا“جاری کےا لےکن پانچ سال کے بعد پھر انقلاب آےا اور ۹۱ اگست ۶۲۸۱ءکو ےہ اخبار بند ہوگےا اس کے بعد ۳۱ جون۵۳۸۱ءکو”کرونستا کانستی ٹےوشنال دی گوا“کے نام سے دوسرا اخبار جاری ہوا لےکن ۰۳ نومبر ۷۳۸۱ءکو ےہ بھی بند ہوگےا تےسرا اخبار ۷ دسمبر ۷۳۸۱ءکو جاری ہوا۔
دےونا گری مےں طباعت کا آغاز ۳۵۸۱ءمےں ہوا جب کہ حکومت نے دےوناگری ٹائپ بمبئی سے خرےدے تاکہ ان کو اشتہارات اور دسرے اعلانات کی طباعت کے لیے استعمال کرے چنانچہ سب سے پہلا اعلان ۳۲ مئی ۳۵۸۱ءکو طبع ہوکر شائع ہوا۔۱

ٹراونکور (مدراس):
ہندوستان مےں کےتھولک مشنری تو برسرکار اور منہمک تھے مگر پروٹسٹنٹ مشنرےوں نے ۶۰۷۱ءمےں ہندوستان پہنچ کر دعوت و تبلےغ کا آغاز کےا فرےڈرک چہارم (شاہ ڈنمارک)، مقرب اور مخصوص پادری لٹکنس نے اسی غرض سے شاہ تبخور سے اےک قطعہ زمےن خرےدا اور زےگنبالگ اور ہنری پلتشو کا اس مہم کے لئے انتخاب کےا چنانچہ دونوں ۶۰۷۱ ءمےں ہندوستان وارد ہوئے ،اس وقت پرتگال نسل کے بہت سے افراد نے جنوبی ہند مےں سکونت اختےار کرلی تھی اور اس علاقے مےں پرتگالی زبان عام طور سے بولی جاتی تھی اس لیے انھوں نے دورانِ سفر پرتگالی مےں استعدادپےدا کی اور اےک ہندوستانی پنڈت کی خدمات حاصل کےں جو پرتگالی جانتا تھا۔
آغاز کار مےں عےسائی مشنرےوں کو دوکام درپےش تھے۔اےک تو اپنے مذہب کے اصولوں کی اشاعت وتروےج دوسرے مقامی باشندوں کو اپنے آبائی ادےان سے متنفر اور برگشتہ کرنا، چنانچہ زےگنبالگ نے اپنی کامل توجہ ہندوستانی مخلوطات جمع کرنے مےں صرف کی تاکہ ان کے عمےق مطالعے سے روآسان تر ہوجائے لےکن پرےس کے بغےر ےہ کام آسان نہ تھا اس لیے موصوف نے صد ردفتر سے اےک پرتگالی اور مالاباری ٹائپ کے مطبع کی درخواست کی:
ہماری دلی خواہش ہے کہ ہمےں اےک مالاباری اور پرتگالی مطبع فراہم کےا جائے تاکہ ہم اےسی کتب جو ہمارے کام کے لئے ناگزےر ہےں ان نقل کے خرچ مےں بچت کرسکےں(چونکہ اس علاقے مےں فن طباعت ےکسر غائب تھا اس لیے طباعت کی جگہ نقل نوےسی نے لے لی تھی)۔مےں نے اب تک مالا باری کاتب اپنے مستقر پر لگا رکھے ہےں لےکن موجودہ حالات کے پےش نظر کچھ عرصے کے بعد وہ اےک بڑی مدخرچ ہوں گے۔ بے شک وہ کتابےں جو ہمےں مالاباری کا فروں سے دستےاب ہوئی ہےں ان کو تمام تر نقل کرانا ضروری ہے اس کے علاوہ جو کتابےں ہمارے مذہب کی اساس ہےں اور جنھےں کافروں مےں تقسےم کرنا ضروری ہے حتماََاحتےاط کے ساتھ طبع کرانا ناگزےر ہے۔۱
ڈنمارک کی مشنرےوں کی آمد سے بےس سال قبل انگلستان مےں انجمن برائے ترقی علوم مسےح(سوسائٹی فارپروموٹنگ کرسچےن کالج)قائم ہوچکی تھی ڈنمارک کے شہزادے جارج کے جرمن پادری اے۔ڈبلو۔بوھمی نے مذکورہ درخواست کا ترجمہ انجمن مذکورکو ارسال کےا بالآخر ۱۱۷۱ءمےں انجمن کے ارباب حل وعقدنے پرتگالی زبان مےں انجےل کے کچھ نسخے،اےک مطبع جو پائےکاٹائپ (درس پوائنٹ)تھا مطبع اور دےگر لوازمات کے ہندوستان بھےجنے کا انتظام کےا لےکن اس جہاز کو برازےل کے قرےب فرانسےسےوں نے روک لےا اور طابع جونس فنک کو گرفتار کر لےا چنانچہ دوسرے سال پرےس بغےر طابع ہندوستان پہنچا۔
پرےس اور متعلقہ سامان رےگنبالگ اور اس کے رفقائے کار کے لئے نعمت غےر مترقبہ سے کم نہ تھا چنانچہ انھوں نے پرےس کے آتے ہی تمام انتظامات درست کرکے طباعت کا کام شروع کردےا حسن اتفاق انھےں اےک جرمن ماہر فن ہاتھ آگےا جو پرےس مےن اور کمپوزےٹر کی حےثےت سے امتےاز رکھتا تھا۔
ابتدا مےں طباعت کا کام پرتگالی تک محدود تھا چنانچہ ۳۱۷۱ءکے اواخر مےںپرتگالی طباعت کے نمونے منظر عام پر آگئے اور پہلی کتاب(اےکس پلے نےشن آف کرسچےن ڈاکٹر ائن آف دی مےتھڈ آف کےچسزم)طبع ہوئی۔اس کے بعد مالاباری ڈھالا خانہ بھی قائم ہوگےا اور ۴۱۷۱ءمےں اےک کاغذسازی کا کارخانہ بھی وجود مےںآگےا۔

اگرچہ ڈنمارکی مشنرےوں نے مراٹھی زبان کی طباعت مےں براہ راست کوئی حصہ نہےں لےا لےکن اےک ڈنمارکی مشنری فرےڈرک شوراٹز،سرفوجی بھونسلے شاہ تبخور۔۹۹۷۱ئ۔ ۳۸۸۱ءکا سرپرست ،اتالےق اور رہنما بن گےا اس نے اس روشن خےال سردار کو تبخور مےں طبع قائم کرنے پر آمادہ کےا جس مےں کچھ سنسکرت اور مراٹھی کی کتابےں طبع ہوئےں سرسوتی محل مےں حسب ذےل دو کتابےں اب تک محفوظ ہےں:
ےدھ کانڈ ۹۰۸۱ئ
سسوپلوادھا ۲۱۸۱ئ
اس مطبع مےں جو دےوناگری ٹائپ مستعمل تھے وہ چارلس ولکنس نے ڈھالے تھے۔
بمبئی:
بمبئی مےں فن طباعت کے پےش رو بھےم جی پارےکھ ہےں جنھوں نے اولاََ۶جنوری ۰۷۶۱ءکو اےسٹ انڈےا کمپنی سے اےک پرےس اور اےک طابع کی فرمائش کی کمپنی نے پذےرائی کی اور وہ ۵۷۶۱ءمےں اےک ماہر طابع ہنری ہلس کے ہمراہ اےک پرےس،ٹائپ،کاغذ اور دوسرے لوازمات ہندوستان روانہ کیے مگر ہلس بنےان رسم الخط(Vanra shalir lipi)کے ٹائپ تےار کرنے سے قاصر رہا مجبوراََبھےم جی نے اےک قالب گر (Founder)کی درخواست کی جو شرف قبولےت کو پہنچی اور ۸۷۶۱ءمےں اےک قالب گر ہندوستان پہنچ گےا لےکن بھےم نے قالب گر کے انتظار مےں اوقات ضائع نہےں کیے بلکہ اپنی ذاتی ملازمےن کی مدد سے بنےان رسم خط مےں حروف تےار کیے اور طباعت مےں پےش قدمی کی چنانچہ ۳۲ جنوری ۶۷۶۱ءکے سرکاری خط مےں مذکورہے کہ ”ہم نے بنےان حروف مےں کچھ مطبوعہ کاغذات دےکھے جن کو بھےم جی کے ملازموں نے تےار کےا ہے جو صاف اور خوبصورت ہےں اور ےہ بتاتے ہےں کہ ےہ کام قابل عمل ہے۔

بھےم جی کے نادر اقدام کے بعد اےک صدی تک کامل سکوت رہا اور ملکی ےا غےر ملکی کسی نے اس عجےب و غرےب فن کی طرف التفات نہےں کےا البتہ ۷۷۷۱ءمےں رستم جی کےشاپتی نے اپنا ذاتی مطبع جاری کےا جس مےں انگرےزی کے علاوہ اردو،گجراتی، مراٹھی،کنڑی اور پرتگےزی زبان مےں طباعت ہوتی تھی اخبار بمبئی کورےر کا اجرا ہوا تو ابتدا”اسی مطبع سے حلےہ ¿ طباعت سے آراستہ ہوکر شائع ہوتا تھا اس کے بعد ۰۸۷۱ءمےں رستم جی کارے ساجی کے مطبع کا سراغ ملتا ہے جس کے بارے مےں مدےر بمبئی ٹائمز کا بےان ہے کہ:
”اےک دےسی دوست نے ہم کو کچھ اخبارات کے اصل نسخے بھےجے ہےں جوبمبئی کی ابتدائی تارےخ کی عکاسی کرتے ہےں حالانکہ ےہ زےادہ اہم تو نہےںلےکن اس قابل ضرور معلوم ہوتے ہےں کہ ان کو محفوظ رکھا جائے۔ان مےں پہلا کلنڈر برائے سال خداوند (عےسیٰ مسےح)۰۸۷۱ءمطبوعہ بازاررستم کارے ساجی ،قےمت دو روپئے ہے۔ےہ ۴۳ صفحات پر پھےلی چھپائی پر مشتمل ہے۔ےہ مضبوط سرکاری وزےری (فل اسکےپ)کاغذ پر چھپاہے جو اپنے واٹر مارک اور انھےں تارےخوں کے منسلکہ سرکاری خطوط سے پہچانا جاتا ہے۔۱
ڈبلو۔اےس۔کوپر نے ۵۲جون ۰۹۷۱ءکو بمبئی گزٹ جاری کےا ۔۲ ےہ ہفتہ وار اخبار تھا اور چالےس روپئے سالانہ قےمت مقرر تھی۔اس مےں بمبئی کی تجارتی اور تفرےحی خبروں کے علاوہ ڈچ اور پرتگالی نوآبادےات کی خبرےں بھی درج ہوتی تھےں ۔اس کے علاوہ خلےج فارس،جزےرہ آرتوز اور مالابار کے ساحلی علاقوں سے لے کر کےپ کےمرون تک دےسی شہروں کی خبرےں بھی شائع کی جاتی تھےں اگرچہ اخبار کمپنی کا مطےع ومنقاداور وفادار تھا مگر اےک مرتبہ پولےس پر نکتہ چےنی کے باعث معرضِ خطرمےں آےا اور سنسر کا شکار ہوگےا۔
بمبئی گزٹ کے بعد دوسرا اخبار بمبئی ہےرلڈ کے نام سے ۳۱جولائی ۰۹۷۱ءکو جاری ہوا ۳ اور تےسرا بمبئی کورےر(Bombay Courier)کے نام سے منصہ شہود پرآےا اس کے مالک ڈگلس نکلسن(Dougles Nichalson)اور مدےر لک آش برنر (Luke Ash Burner)تھے اس کے بعد ۱۹۷۱ءمےں بمبئی آبزرور کے نام سے اےک اور ہفتہ وار اخبار جاری ہوا:

”بمبئی کی اولےن مطبوعہ کتاب جو ہےرس انسٹی ٹےوٹ آف ہسٹری اےنڈ کلچر بمبئی مےں محفوظ ہے ۳۹۷۱ءمےں حسب ذےل عنوان سے طبع ہوکر شائع ہوئی:
Remarks and occurance of Henry Baker during his imprisonment of two years and a help in the domains of Tipu Sultan fromwhere he made his escape.
”مسٹر ہنری بےکر کے واقعات کا بےان جو انھےں ٹےپوسلطان کی حکومت مےں ڈھائی سال کی قےد اور فرار کے دوران پےش آئے“
اس کتاب کے مقدمہ مےں خصوصےت سے اس امرکی وضاحت کی گئی ہے کہ ےہ بمبئی سے طبع ہونے والی سب سے پہلی کتاب ہے۔

آغاز کار مےں بمبئی کورےر رستم جی کےشاپتی کے مطبع مےں طبع ہوکر شائع ہوتا تھا لےکن جب حالات نے مساعدت کی تو جی جی بھائی بہرام جی نگرانی مےں ذاتی مطبع جاری کےا کورےر پرےس اپنے حسن انتظام اور صحت طباعت کے باعث ہم عصر مطابع پر فوقےت رکھتا تھا اس لئے کئی سال تک سرکاری کاغذات اور اشتہارات کی طباعت پر اس کا تصرف اور اجارہ رہا۔انجام کار جلد ہی مراٹھی اور گجراتی حروف کے ٹائپ کی ضرورت محسوس ہوئی تو جی جی بھائی بہرام جی نے گجراتی ٹائپ تےار کرلےا اور گجراتی حروف مےں پہلا اشتہار بمبئی کورےر مورخہ ۹۲ جنوری ۷۹۷۱ءکے شمارے مےں طبع ہوکر شائع ہوا اور پہلی گجراتی کتاب (ترجمہ:ژند اوستا)اسی مطبع سے چھپ کر منظر عام پرآئی۔

کلکتہ:
بنگال مےں اےسٹ انڈےا کمپنی کے سےاسی اقتدار نے فرنگےوں کو مقامی زبان کی تحصےل کی طرف متوجہ کےا ،انہوں نے نہ صرف مقامی زبانوں کے حصول پر کامل توجہ صرف کی بلکہ اس کے قواعد اور لغات بھی مرتب کیے اور طباعت و اشاعت کا بھی مناسب انتظام کےا چنانچہ بنگالی زبان اور بنگالی رسم الخط کی سب سے پہلی کتاب”بنگالی زبان کے قواعد“سولفہ نےتھےنل براسے ہال ہےڈ ۸۷۷۱ءمےں ہگلی سے طبع ہوکر شائع ہوئی۔
مذکورہ قواعد کے بعد جےمس اگسٹس ہکّی نے جنوری ۰۸۷۱ءمےں اپنا ذاتی مطبع قائم کےا اور اسی مطبع سے ہکےنز بنگال گزٹ ےا کلکتہ جنرل اےڈورٹاےزر کے نام سے ۹۲جنوری ۰۸۷۱ءکو ہفتہ وار اخبار جاری کےا۔ہکّی کے پے درپے حملوں سے مجبور ہوکر حزب مخالف نے اےک پرےس کی بنےاد ڈالی اور نومبر ۰۸۷۱ءمےں انڈےا گزٹ کے نام سے اےک ہفتہ وار اخبار جاری کےا ۴ مارچ ۴۸۷۱ءکو بنگال گزٹ منصہ شہود پرآےا ےہ بھی صاحب مطبع تھا اور اس کے مالک ومدےرفرانسس گلےڈون فارسی کے مستند عالم تھے اس کے بعد تو دےکھتے ہی دےکھتے بنگال طباعت کا بڑا مرکز بن گےا اور اٹھاروےں صدی کے اواخر تک ےکے بعد دےگرے متعدد مطابع جاری ہوئے اور ان سے متعدد اخبارات اور رسائل کا اجرا بھی ہوا۔
۱۔اےشےا ٹک مسےلےنی اےنڈ بنگال رجسٹر ۵۸۷۱ء(سہ ماہی رسالہ)۔۲۔بنگال جرنل فروری ۵۸۷۱ء(ہفتہ وار اخبار)۔۳۔اورےنٹل مےگزےن اپرےل۵۸۷۱ء(ماہانہ رسالہ)۔ ۴۔اےشےاٹک رےسرچ ۸۸۷۱ء(رسالہ)۔۵۔بنگال ہرکارو ۵۹۷۱ء(ہفتہ وار اخبار)۔ ۶۔اےشےاٹک مرر ۹۹۷۱ء(ہفتہ وار اخبار)۔۷۔مارننگ پوسٹ ۹۹۷۱ء(ہفتہ وار اخبار)۔ ۸۔ٹےلی گراف ۰۹۷۱ئ(ہفتہ وار اخبار)۔۹۔اورےنٹل اسٹار ۹۹۷۱ئ(ہفتہ وار اخبار)۔
مدراس:
مدراس مےں فن طباعت کاآغاز اےک سےاسی حادثے سے منسلک ہے،کےوں کہ جب ۱۶۷۱ءمےں سرابرکورٹ نے فرانسےسےوں سے پانڈےچےری فتح کےا تو مال غنےمت مےں اےک پرےس اور ٹائپ بھی ہاتھ آئے لےکن فورٹ سےنٹ جارج کے متوسلےن مےں سے اےک فرد بھی اس فن سے واقف نہےں تھا اس لیے سارا سازو سامان مشہور تامل عالم فےبرےسس مقےم وپےری کواس شرط پر حوالے کےا گےا کہ اگر مسقبل مےں کسی وقت کمپنی کو کچھ طبع کرانا ہوگا تو موصوف ےہ کام انجام دےں گے فےبرےسس نے اسی مطبع سے اولاََاےک دعا کی کتاب شائع کی اس کے بعد ۲۸۷۱ءمےں تامل انگرےزی اور انگرےزی تامل لغات شائع کیے۔