Fareeb A Short Story by Mohammad Ansar

Articles

فریب

محمد انصر

 

میں مسجد کی سیڑھیوں سے نیچے اترہی رہا تھا کہ ایک بوڑھی عورت کو دیکھ کر کچھ ٹھٹک سا گیا۔وہ عورت یہ دیکھتے ہی میرے پاس آگئی اور اپنا ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہنے لگی ،میں بہت بھوکی ہوں۔میں نے اس کی باتیں بے دھیانی میں سنیں اور جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے یہ خیال آیا کہ سارے پیسے تو مسجد میں دے دیے ، میں نے کہا ..پیسے نہیں ہیں..یہ باتیں کہتے ہوئے میری نظریں اس کے چہرے پر مرکوز تھیں ،میں جب سے رکا تھااسے دیکھے جا رہا تھا،اس نے اس طرح دیکھنے پر فوراً کہا’میرے بیٹوں نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے‘میں نے جلدی سے کہا… اچھا… اچھا. .. اور پھر اپنی جیب دکھاتے ہوئے کہنے لگا کہ میرے پاس ایک بھی پیسہ نہیں ہے۔ لیکن اسے لگامیں بہانے کر رہا ہوں… وہ پلٹ کر سیڑھیوں کی طرف بڑھنے لگی…. میں تھوڑی دیر رک کر اسے دیکھتا رہا کہ اس بوڑھی عورت کی شکل ہو بہو میری ماں کی طرح ہے۔اس عورت نے نہ جانے کیا سوچتے ہوئے میری طرف دوبارہ رخ کیااور پھر ہاتھ دراز کرتے ہوئے بولی.. میں رات سے بھوکی ہوں…. میں نے پھر کہا…. میرے پاس پیسے نہیں ہیں…. نہیں تو میں ضرور دیتا….وہ کسی دوسرے شخص کی طرف تیز قدموں سے بڑھنے لگی… . مجھے ایک عجیب سا خیال آیا کہ کیوں نہ اس کا پتہ پوچھ لوں…. اسے دیکھنے کے بعد ماں کے چہرے کا کچھ عکس دیکھ لیا کروں گا …. میں اس کی طرف بڑھا تو وہ رک گئی…. میں نے کہا…. آپ کہاں رہتی ہیں…. اس نے بغیر کچھ کہے گھور کر دیکھا.. ..تو میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کہوں…. میں نے جلدی سے کہنا چاہا کہ آپ کی شکل میری ماں سے…. ابھی جملہ پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ غصے سے دیکھتے ہوئے تیز قدموں سے آگے بڑھ گئی…. میں نے ادھر ادھر دیکھا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا ہے…. اور پھر گھر کی طرف بڑھنے لگا…. گھر سے مسجد دور ہونے کی وجہ سے تنہا چلنا مشکل ہو رہا تھا…. ابھی کچھ دور ہی چلا تھا کہ اس بوڑھی عورت کا چہرہ نظر کے سامنے گھومنے لگا ….اور میں سوچنے لگا.. ..میری ماں کے چہرے پر اتنی جھریاں نہیں تھیں ۔انہوں نے شروع میں کچھ پریشانیاں ضرور اٹھائی تھیں لیکن بعد کے دنوں میں ہم لوگوں نے انہیں خوب آرام دیا تھا…. اور ہاں…. اس بوڑھی عورت کے چہرے پر بے شمار جھریاں تھیں… اس کی پیشانی پر بل پڑتے پڑتے ایک نصف دائرہ سا بن گیا تھا.. ایسا لگ رہا ہے اس کے چہرے کی دونوں جانب نقش نگاری کی گئی ہو.. اس کی ٹھوڑی نیچے کی جانب لمبی نکلی ہوئی تھی.. شاید چمڑی لٹک گئی تھی اور پھر اس خیال پر بہت افسوس ہوا کہ میں اسے کچھ بھی نہ دے سکا.. ..تبھی پیچھے سے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا ،میں نے چونک کر دیکھا تووہ میرا دوست شاداب تھا جس کی قصبے میں پرچون کی دوکان ہے،ابھی کچھ روز پہلے ہی اس کا دیپک سے جھگڑا ہو گیا تھا۔اس کی بھی پرچون کی ہی دوکان ہے چونکہ دیپک بھی میرا دوست ہے۔اس لیے بیچ بچائو کے لیے جانا ہوا تھا۔ شاداب مسکرا تے ہوئے کہنے لگا،کس خیال میں گم ہو دوست اور پھرکچھ گپ شپ کے بعد اپنی دوکان کی جانب جاتے ہوئے بولا… ارے بھئی…کیا بات ہے… آج کل داڑھی بہت لمبی ہو رہی ہے…ملا بن رہے ہو کیا،اور ہم دونوں نے ایک ساتھ ایک قہقہہ لگایا… میں دوکان سے کچھ دور نکلا ہی تھا کہ شور سنائی دیا،اور پھر کیا دیکھتا ہوں کہ کچھ لوگ سامنے کی گلی سے وندے ماترم اور بھارت ماتا کی جئے کے نعرے لگا تے ہوئے آرہے ہیں،میں نے سوچا کوئی حکومت کے خلاف مظاہرہ ہوگا۔لیکن ان کے نعروں اور اسلحوں نے مجھے خوف زدہ کر دیا اورمیں نے راستے سے ہٹ کر انھیں راستہ دینا چاہا، تبھی ایک آواز آئی…ارے! یہ ملا بھی ساداب کا مِتر ہے۔اتنا کہنا تھا کہ دو لوگ دوڑتے ہوئے آئے ۔ایک کم عمر لڑکے نے داڑھی پکڑتے ہوئے کہا….وند ے ماترم کہو…میں یکایک ایسے حادثے سے گھبرا گیا اور میری گھگھی بندھ گئی۔تبھی میرے منھ پہ دو گھونسے یہ کہتے ہوئے پڑے کہ ملّے، آتنک وادی وندے ماترم نہیں کہے گا۔میں نے خوف سے چلاتے ہوئے کہا…وندے ماترم…اور پھر ایک سانس میں کئی بار کہا….لیکن ایسا لگا انھیں کسی بھی بہانے سے مجھے پیٹنا منظور ہے۔دو تین لڑکوں نے موٹی گالیوں کے ساتھ اتنا مارا کی میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا….اورپھر نہیں معلوم کہ کیا ہوا۔تھوڑی دیر کے بعد ایسا لگا مجھے کوئی اٹھا رہا ہے،میں نے ڈرکر چیختے ہوئے کہا …. وندے ماترم…بھارت ماتا کی….ابھی جملہ ادھورا ہی تھا کہ کسی نے قدرے دھکا دیتے ہوئے زوردار طمانچہ مارااور کہا….ایمان فروش …وندے ماترم کہتا ہے۔میں ہکا بکا..آنکھیں مل کر دیکھنے لگا،تب تک پولس کی گا ڑیوں کی آوازیں سنائی دیں۔میں نے اپنے حواس درست کیے اور ایک گلی کی جانب بھاگا کہ مجھے گواہ کے طور پر تھانے جانا پڑسکتا ہے۔ اس گلی سے چلتا ہوا سبزی منڈی کی طرف مڑا ہی تھا کہ وہی بوڑھی عورت دکھائی دی۔ وہ پاگلوں کی طرح کوڑے دان میں کچھ تلاش کر رہی تھی۔ اس نے مجھے دیکھا لیکن نظر انداز کر دیا اور اپنے کام میں لگی رہی۔ میں چند قدم کے فاصلے پر ٹھہر گیا اور اس دوران وہ کچھ تربوز کے ٹکڑوں کو لیکر آگے بڑھی، اس پر لگی گندگی کو اپنے کپڑوں سے صاف کیا اور جلدی جلدی کھانے لگی۔یہ دیکھ کر میں ششدر رہ گیا۔دوڑکر اس کے پاس پہنچا ،سوچا اسے روکوں، لیکن وہ ہوں..ں..ں کہتے ہوئے کھڑی ہو گئی۔ میں نے کہا‘ میرا گھر یہاں سے کچھ فاصلے پر ہے،آپ میرے گھر چلیں میں پیٹ بھر کھانا کھلائوں گا ،لیکن اس نے چہرے کی چوٹ کو گھورکر دیکھا اور شیطان کی طرح کھانے لگی، میں نے قریب پہنچ کر کہا….آپ میری ماں…ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ اس نے غصے سے تربوز کے چھلکوں کو پھینکتے ہوئے کہا…تو میں کیا کروں؟ماں کہنے سے میرا پیٹ نہیں بھرتا،اس سے میرا کوئی فائدہ نہیں ہے اور خدا کے لیے..تم میرا پیچھا چھوڑ دو..تم سے ڈر لگ رہا ہے۔بوڑھیا کی باتوں سے چونک کر میں نے آس پاس کے ماحول پر نظر ڈالی تو سب کچھ پہلے جیسا تھا، ابھی بھی بوڑھیا بھوکی تھی یعنی ’وندے ماترم اور بھارت ماتا کی جئے ‘کے نعروں سے میرے ملک کا کوئی فائدہ نہیں ہواتھا، بھارت ابھی بھی ترقی پذیر ملک تھا۔میں سوچ میں گم تھا کہ کسی آواز سے چونکا ‘اب بوڑھیا پیٹ دبائے رو رہی تھی، چہرہ آنسوئوں سے تر تھا اور درد کی شدت کی وجہ سے تمتما رہا تھا۔ مایوسی کے عالم میں اس کے چہرے کو دیکھا تو ایسا لگا کہ جھریاں کوئی نقش بنا رہی ہیں ،میں نے پاس جاکر غور سے دیکھا تو اس میں بھارت کا نقشہ نمایاں ہو رہا تھا۔

———————————–