The Father A Short Story by Bjornstjerne Bjonson

Articles

والد

بیورنسِٹے بیورنسن

وہ اس علاقے کا سب سے زیادہ بااثر آدمی تھا۔ایک دن وہ درازقد آدمی پادری کی لائبریری میں بے حد سنجیدگی سے کہہ رہا تھا کہ اس کے یہاں لڑکا تولد ہوا ہے اور وہ اس کا بپتسمہ کروانا چاہتا ہے۔
’’اس کا نام کیا ہوگا؟‘‘پادری نے پوچھا۔’’فِنّا،میرے باپ کے نام پر۔‘‘
’’او رمذہب،والدین؟‘‘
’’ان کا انتخاب کرلیا گیا ہے۔وہ ہمارے گائوں کے قابلِ احترام میاں بیوی ہیں۔ ان کا تعلق میرے خاندان سے ہے۔‘‘
’’کچھ اور؟‘‘پادری نے آنکھیں اٹھاکر اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔کسان کچھ لمحے خاموش رہا اورپھربولا،’’میں اپنے بیٹے کا اپنی مرضی سے بپتسمہ کروانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’اس ہفتے میں کسی بھی دن؟‘‘
’’آئندہ سنیچر بارہ بجے۔‘‘
’’اور کچھ؟‘‘پادری نے پوچھا۔’’کچھ نہیں۔‘‘کسان نے اپنی ٹوپی ٹھیک کرلی۔اس سے ظاہر ہوا کہ وہ جانے والاہے۔اسی وقت پادری اٹھا۔’’بس!یہ کچھ۔‘‘کہتے ہوئے پادری تھورد کے پاس گیا۔اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے او راس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنے لگا،’’خدا کرے یہ بچہ تمہارے لیے خوش بخت ثابت ہو۔‘‘ٹھیک سولہ سال بعد تھورد پھر پادری کے کمرے میں موجود تھا۔’’تھورد،تم تو ویسے ہی ہشاش بشاش نظرآرہے ہو۔‘‘پادری نے کہا۔اسے تھورد میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی۔’’مجھے کسی بات کی کوئی فکر لاحق نہیں ہے۔‘‘تھورد نے جواب دیا۔
پادری خاموش رہا۔پھر چند لمحوں کے بعد پوچھا،’’آج اِدھر کیسے؟‘‘
’’آج میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ کل میرے لڑکے کا ’کنفرمیشن‘ہے۔‘‘
’’وہ ایک ہونہار لڑکا ہے۔‘‘
’’میں پادری کو اس وقت تک کچھ نہیں دینا چاہتا تھا ،جب تک کہ یہ پتہ نہ چلے کہ اسے رسم میں کون سا مقام ملا ہے؟‘‘
’’وہ اول مقام پر ہے!‘‘پادری نے کہا۔’’میں یہ جان کر بے حد خوش ہوں۔لیجیے یہ دس ڈالر پادری کے لیے ہیں۔‘‘
’’کیا اور کچھ؟‘‘پادری نے پوچھا۔اس کے بعد مزیدآٹھ سال بیت گئے۔ایک بار پھر پادری کے کمرے میں ہلچل ہوئی۔ اس مرتبہ تھورد کے ساتھ بہت سے لوگ آئے تھے۔پرلسٹ نے دیکھتے ہی اسے پہچان لیا۔’’آج تم بہت سے لوگوں کے ساتھ آئے ہو!‘‘
’’میں اپنے بیٹے کی شادی کا اعلان اس چرچ سے کروانا چاہتا ہوں۔ اسے گُڈ منڈ کی لڑکی کارین استور لبدن سے شادی کرنی ہے۔وہ بھی یہاں آئی ہوئی ہے۔‘‘
’’اور وہ اس علاقے کی سب سے امیر لڑکی ہے۔‘‘پادری نے کہا۔
’’آپ کا کہنا درست ہے۔‘‘تھورد نے جواب دیااور ایک ہاتھ سے اپنے بال ٹھیک کیے۔
پادری چند لمحوں تک خاموشی سے سوچتا رہا۔بولا کچھ نہیں۔اس نے ناموں کا اندراج کرلیا اور لوگوں کے دستخط کروالیے۔تھورد نے تین ڈالر میز پر رکھ دیے۔
’’میں صرف ایک ڈالر لوں گا۔‘‘پادری نے کہا۔
’’میں جانتا ہوں،مگر میرا اکلوتا لڑکا ہے۔میں اس کے نام سے کچھ بھلائی کے کام کرنا چاہتا ہوں۔‘‘پادری نے تین ڈالر قبول کرلیے۔’’تھورد،تم اپنے لڑکے کے لیے یہاں تیسری بار آئے ہو۔‘‘
’’یہ آخری بار ہے۔‘‘تھورد نے کہا۔اس نے اپنی ڈائری بند کرکے اپنی جیب میں رکھ لی اور پادری سے اجازت لے کر چل پڑا۔دھیرے دھیرے لوگ بھی اس کے پیچھے ہولیے۔اس کے ٹھیک چودہ روز بعد باپ بیٹے،ایک سہانے دن،کشتی پر سوار ہوکر لبدن سے شادی کے متعلق بات چیت کرنے جارہے تھے۔’’میری سیٹ ہل رہی ہے۔‘‘کشتی میں بیٹھے بیٹھے بیٹے نے کہا اور کہتے ہی وہ سیٹ کو ٹھیک کرنے کے لیے کھڑاہوا۔اس وقت لکڑی کا وہ تختہ پھسل گیا،جس پر وہ کھڑا تھا۔توازن برقرار رکھنے کی کوشش میں اپنے ہاتھ پھیلائے،چیختے ہوئے وہ پانی میں جاگرا۔’’چپوئوں کو پکڑو!‘‘باپ چلایا۔اس نے کھڑے ہوکر جلدی چپوں نکالا۔لڑکا کچھ دور تک تیرتا رہا پھر بھنور میں پھنس گیا۔’’ٹھہرو!‘‘باپ پھر چلایا۔اس نے چپوئوں کوتیزتیز چلایا۔لڑکا پھر اپنی پیٹھ کے بل اوپر نیچے ہوا۔اپنے باپ کی جانب دیکھا اور پھر ڈوب گیا۔تھورد کو یقین نہیں آیا۔کشتی کو مضبوطی سے پکڑکر وہ اس جگہ کو اس امید سے گھورتا رہا کہ شاید اس کا لڑکا پھر سے اوپرآجائے!
مگر وہاں کچھ بلبلے اٹھے،پھر کچھ اور۔آخر میں ایک بڑا سا بلبلہ پھٹا اور بس!پانی پر سکوت طاری ہوگیا۔لوگوں نے دیکھا باپ تین دن اور تین راتیں بنا کچھ کھائے پیئے،بنا پلک جھپکائے اس جگہ لگاتار نائو چلاتا رہا،جہاں اس کا لڑکا ڈوباتھا۔اس نے تلاش جاری رکھی کہ شاید اس کا لڑکا اوپر آجائے۔ تیسرے دن کی صبح اس کا بیٹا مل گیا۔بیٹے کو اٹھائے وہ اس پہاڑی پرگیا جہاں اس کا گھر تھا۔
اس کے تقریباًڈیڑھ سال بعد پت جھڑکی ایک شام کو پادری نے اپنے دروازے پر دستک سنی۔باہر کوئی بڑی احتیاط سے کنڈی ٹٹول رہا تھا۔پادری نے دروازہ کھولا۔تو دیکھا کہ ایک دراز قد،کمزور، جھکی ہوئی کمر اور سفید بالوں والا انسان اندر داخل ہورہا ہے۔پادری کو اسے پہچاننے میں وقت لگا۔وہ تھوردہی تھا۔’’تم!اس وقت!‘‘پادری نے پوچھا اور پھر سامنے کھڑاہوگیا۔
’’او،ہاں۔اس وقت آنا پڑا۔‘‘تھورد نے جواب دیااور بیٹھ گیا۔پادری بھی وہیں بیٹھ گیا۔بڑی دیر تک خاموشی کی دبیز چادر تنی رہی۔پھر تھورد نے بتایا اس نے جو دولت کمائی ہے اسے وہ غریبوں میں تقسیم کردینا چاہتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑاہوااور اس نے ڈھیر سارے روپے میز پر رکھ دیئے اور پھر بیٹھ گیا۔پادری نے روپے گنے۔’’یہ تو بہت بڑی رقم ہے!‘‘وہ بولا۔
’’میرا ایک فارم ہائوس تھا،جسے میں نے آج ہی فروخت کیا ہے۔‘‘تھورد نے بتایا۔ پادری بڑی دیر تک خاموش بیٹھا رہا۔آخر خاموشی کو توڑتے ہوئے سوال کیا،’’اب کیا کروگے؟‘‘
’’اس سے کچھ اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘وہ دونوں بیٹھے رہے،تھورد زمین پر نظریں جھکائے اور پادری اس پر نظریں جمائے۔پھر آہستگی سے پادری نے کہا،’’تمہارا بیٹا تمہارے لیے آخرت کا ذریعہ بن گیا ہے۔‘‘تھورد نے جواب دیا۔’’ہاں،میرا بھی یہی خیال ہے۔‘‘یہ کہتے ہوئے اس نے اوپر دیکھا اور غم کے آنسوئوں کے قطرے اس کی آنکھوں سے ڈھلک گئے۔
٭٭٭

اس کہانی کو معروف مترجم قاسم ندیم نے ’اردو چینل‘ کے لیے انگریزی سے ترجمہ کیا ہے۔

بیو رنسٹنے بیورنسن ۱۸۳۲ء میں ناورے میں پیدا ہوئے اور ۱۹۱۰ء میں انتقال فرماگئے۔انہوں نے نارویجین ادب کو نیا روپ عطا کیا۔وہ شاعر،ناول نگار،ناقد،ڈرامہ نگار کے علاوہ اپنے زمانے کے مشہور و معروف سیاسی رہنما بھی رہے۔انہیں شاعری کے لیے ۱۹۰۳ء میں نوبل سے نوازا گیا۔ ان کی تصانیف میں سنووے سولواکین،آرنے،اے ہیپی بوائے،بِروین دَ بیٹلز،دَ گریٹ ٹرولوجی،سیگرڈ دَ بیٹرڈ وغیرہ شامل ہیں۔