Fictions
Total 132 Fictions

  ایک مرتبہ کی بات ہے ایک آدمی کا گزر پٹن سلطنت (موجودہ للت پور)سے ہوا۔ وہاں وہ رگھو نام کے آدمی کو دیکھ کر بہت حیران ہو اجو تیل نکالنے والی میل میں جانوروں کی طرح پہئے کو گول گول گھما رہا تھا۔ مسافر نے پوچھا ” تم کب تک اسے یوں ہی گھماتے رہو گے؟“ رگھو نے جواب دیا ۔” فکر مت کرومیر ے دوست کل سب بدل جائے گا!“ کچھ دنوں بعد مسافرکا دوبارہ اسی جگہ سے گزر ہوا۔اس بار وہ پہلے سے اور زیادہ حیران ہوگیا وہی رگھو جسے تیل کی میل میں جانوروں کی طرح...

پورا پڑھیں

  میں‌نے سوال کیا “آپ کافی کیوں ‌پیتے ہیں؟“ انھوں نے جواب دیا “آپ کیوں‌ نہیں پیتے؟“ “مجھے اس میں‌ سگار کی سی بو آتی ہے۔“ “اگر آپ کا اشارہ اس کی سوندھی سوندھی خوشبو کی طرف ہے تو یہ آپ کی قوتٍ شامہ کی کوتاہی ہے۔“ گو کہ ان کا اشارہ صریحاً میری ناک کی طرف تھا، تاہم رفعٍ شر کی خاطر میں‌نے کہا “تھوڑی دیر کے لیے یہ مان لیتا ہوں کہ کافی میں سے واقعی بھینی بھینی خوشبو آتی ہے۔ مگر یہ کہاں کی منطق ہے کہ جو چیز ناک کو پسند ہو وہ حلق میں انڈیل...

پورا پڑھیں

ایک فرانسیسی مفکرّکہتاہےکہ موسیقی میں مجھےجوبات پسندہےوہ دراصل وہ حسین خواتین ہیں جواپنی ننھی ننھی ہتھیلیوں پرٹھوڑیاں رکھ کر اسے سنتی ہیں ۔ یہ قول میں نےاپنی بریّت میں اس لیےنقل نہیں کیاکہ میں جوقوّالی سےبیزارہوں تواس کی اصل وجہ وہ بزرگ ہیں جومحفلِ سماع کورونق بخشتےہیں۔اورنہ میرایہ دعویٰ کہ میں نےپیانواورپلنگ کےدرمیان کوئی ثقافتی رشتہ دریافت کرلیاہے۔ حالانکہ میں جانتاہوں کہ پہلی باربان کی کھّری چارپائی کی چرچراہٹ اورادوان کاتناؤ دیکھ کربعض نوواردسیّاح اسےسارنگی کےقبیل کاایشیائی سازسمجھتےہیں۔ کہنایہ تھاکہ میرےنزدیک چارپائی کی دِلکشی کاسبب وہ خوش باش لوگ ہیں جو اس پراُٹھتےبیٹھتےاورلیٹتےہیں۔اس کےمطالعہ سےشخصی اورقومی مزاج کےپرکھنےمیں مددملتی ہے۔...

پورا پڑھیں

  اوروں کا حال معلوم نہیں، لیکن اپنا تو یہ نقشہ رہا کہ کھیلنےکھانےکےدن پانی پت کی لڑائیوں کے سن یاد کرنے، اور جوانی دیوانی نیپولین کی جنگوں کی تاریخیں رٹنے میں کٹی۔ اس کا قلق تمام عمر رہے گا کہ جو راتیں سکھوں کی لڑائیوں کے سن حفظ کرنے میں گزریں،وہ ان کےلطیفوں کی نذر ہو جاتیں تو زندگی سنور جاتی۔ محمود غزنوی لائق صد احترام سہی، لیکن ایک زمانے میں ہمیں اس سے بھی یہ شکایت رہی کہ سترہ حملوں کی بجائےاگر وہ جی کڑا کر کے ایک ہی بھرپور حملہ کر دیتا تو آنے والی نسلوں کی...

پورا پڑھیں

  جوگندر پال 5 ستمبر 1925ء کو سیالکوٹ، برطانوی ہند میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ تقسیم ہند کے وقت بھارت آگئے۔ ان کی مادری زبان پنجابی تھی تاہم ان کی ابتدائی اور وسطانوی تعلیم اردو ذریعہ تعلیم سے مکمل ہوئی اور یہی ان کے ادبی اظہار خیال کی زبان بنی۔ جوگندر نے ایم اے انگریزی ادب میں کیے اور پیشہ درس وتدریس سے جڑگئے۔ وہ مہاراشٹر کے ایک پوسٹ گریجویٹ کالج کے پرنسپل کے طور پر وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے۔ جوگندر کی تخلیقات میں دھرتی کا کال (1961ء)، میں کیوں سقیم؟ (1962ء)، کھودو بابا کا مقبرہ (1994ء)، پرندے...

پورا پڑھیں

  ’’ ہتھ لائیاں کملان نی لاجونتی دے بوٹے …‘‘ (یہ چھوئی موئی کے پودے ہیں ری، ہاتھ بھی لگاؤ کمھلا جاتے ہیں) —— ایک پنجابی گیت بٹوارہ ہوا اور بے شمار زخمی لوگوں نے اُٹھ کر اپنے بدن پر سے خون پونچھ ڈالا اور پھر سب مل کر ان کی طرف متوجہ ہوگئے جن کے بدن صحیح و سالم تھے، لیکن دل زخمی …… گلی گلی، محلّے محلّے میں ’’پھر بساؤ‘‘ کمیٹیاں بن گئی تھیں اور شروع شروع میں بڑی تندہی کے ساتھ ’’کاروبار میں بساؤ‘‘ ، ’’زمین پر بساؤ‘‘ اور ’’گھروں میں بساؤ‘‘ پروگرام شروع کردیا گیا تھا۔...

پورا پڑھیں

کہانی’ خالی گھر اور تنہا وکٹوریہ‘مارٹن آور کی تحریر کردہ ایک مضبوط ارادوں والی آسٹریائی لڑکی کی کہانی ہے۔ مارٹن آور کی شخصیت کی کئی جہات ہیں۔ تصنیف و تالیف کے علاوہ وہ اسٹیج اور صحافت سے بھی وابستہ ہیں۔ انھیں ادبِ اطفال پر آسٹریلین نیشنل ایوارڈ سے بھی سر فراز کیا جا چکا ہے۔ ————————————– ہر کوئی جا چکا تھااور وکٹوریہ گھر پر اکیلی تھی۔ ’’جب سب جاچکے ہوتے ہیں تب میرا گھر ایک جادوئی جگہ بن جاتا ہے۔‘‘ وہ اپنے والدین کی خواب گاہ میں گئی اور وہاں پھیلی ہوئی چادر کو کھینچا۔بیڈ کے بالکل درمیان میں ایک...

پورا پڑھیں

کہانی ’یہ چوزہ نہیں پلّہ ہے‘ مصری نژاد کہانی کار جرالنّبی الحلوکی تحریر کردہ ہے۔ کہانی میں ایک مصری لڑکا انسانوں اور حیوانوں کے درمیان دوستی کے بارے میں سیکھتا ہے۔ —————————————- ہم تمام مرد، عورت، لڑکے، لڑکیاں اور ہماری ماںایک بہت بڑے گھر میں رہتے تھے۔ماں میری توجہ کا مرکز ہوا کرتی تھی ۔ وہ جہاں کہیں بھی ہوتی تھی میں اسے دیکھا کرتا تھا۔ماں اکثر میرے والد کی تصویر دیوار پر لٹکانے کے لیے ہتھوڑا اور کیل لے آیا کرتی تھی۔ پھر مجھے سیمنٹ خریدنے کے لیے باہر بھیجتی تھی تاکہ دیواروں پر موجود دراڑوں کی مرمّت کی...

پورا پڑھیں

کہانی ’’ نشانِ قمر‘‘ فارسی زبان سے ماخوذ ہے۔ اس کے مصنف ناصر یوسفی تعلق ایران سے ہے ۔ فارسی لوک کہانیوں پر ان کی نظر گہری ہے ۔ کہانی ’نشانِ قمر‘ میں بھی لوک کہانیوں کے اثرات کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ——————————————– ایک مرتبہ کا ذکر ہے۔ بہت پہلے، بہت بہت پہلے۔دنیا کے بالکل کنارے کسی ایسی جگہ پر جو نہ بہت دور اور نہ ہی بہت قریب تھی ایک لڑکی رہا کرتی تھی جس کا نام چاند پری تھا۔چاند پری بہت مددگار اور رحم دل تھی۔لیکن اس پر مایوسیوں اور اداسیوں کا بوجھ بھی تھا۔پوری دنیا میں...

پورا پڑھیں

کہانی ’لمبی زبان والی بڑھیا کی مصنفہ ‘شیبا میکیو1944میں جاپان کے می یاگی پری فیکچر نامی شہر میں پیدا ہوئیں۔ادبِ اطفال کے لیے سرگرم رہنے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی آف آرٹ میں انہوں نے تقریباً نو سالوں تک تصویری کتابوں کانظریہ اور ادبِ اطفال کی تدریس کی۔انھوں نے جاپانی کہانیوں میں پائے جانے والے بھوت پریت اور عجیب الخلقت مخلوقات پر کافی کام کیا ہے یہی وجہ ہے کہ انہیں عجیب الخلقت مخلوق کا اسکالر بھی کہا جاتا ہے۔ ———————————————– اس کہانی کے تانے بانے اس وقت بُنے گئے جب بھوت پریت نہ صرف پہاڑوں پر بلکہ جنگلوں میں بھی...

پورا پڑھیں
1 9 10 11 12 13 14