Fictions
Total 132 Fictions

وہ اسٹوری ٹیلر کے نام سے اس قدر مشہور ہو چکی تھی کہ لوگ اس کا اصل نام تک نہیں جانتے تھے۔کبھی کبھی اس کے فن اور شخصیت پر کوئی مضمون شائع ہوتا تو اس کا اصل نام سامنے آجاتا تھا ورنہ وہ زمانے کے لئے اسٹوری ٹیلر ہی تھی۔ دنیا کے بہت سے ملکوں کے بڑے بڑے شہروں میں اس نے اپنے شو کئے تھے۔وہ کئی زبانوں پر عبور رکھتی تھی،اس نے کہانی سنانے کے فن کو بلندیاں عطا کی تھیں۔وہ شاندار قصّہ گو تھی۔اس کی تخلیق کردہ کہانیاں بے حد دلچسپ اور نرالی ہوتی تھیں۔ اس نے اپنی...

پورا پڑھیں

سمرین جب آفس سے گھر پہنچی تو تھک کر چور ہوچکی تھی۔ آفس میں آج کام زیادہ ہی تھا۔ جس نے تھکان پیدا کردی تھی۔وہ گھر میں داخل ہوکر پرس ایک طرف پھینکا اور بستر پر گر پڑی۔ اس میں ذرّہ برابر قوت نہیں تھی کہ وہ فریش ہوکر اپنے لیے ایک کپ چائے بنائے۔ پلنگ پر لیٹتے ہی خوابوں کی دنیا میں پہنچ کر خوابوں کے سمندر میں غوطے کھانے لگی۔ اسے اس بات کا بھی خیال نہ رہا کہ ناصر کے آنے کا وقت ہوگیا ہے۔ ابھی رات کا کھانا بنانا بھی باقی ہے۔ دوپہر کا کھانا تو...

پورا پڑھیں

بوڑھے نے بڑی احتیاط سے ہونٹوں کے ایک کونے میں بیڑی دبائی اور پھر سے وہی قصہ چھیڑا۔ یہ قصہ سناتے وقت بوڑھے پر ایک اضطرابی کیفیت چھا جاتی تھی۔ ’’چاردوست تھے۔ چاروں نے بھگوان وشو کرما سے پرارتھنا کی۔ اے بھگوان! ہمیں کوئی انوکھا فن سکھلادے۔ بھگوان وشوکرمانے ان کی پرارتھنا سوئیکار کرلی۔ انھیں بارہ برس تک سکھاتے رہے۔ وہ بھی پورے جی جان سے سیکھتے رہے ۔ پہلے نے ہڈیاں جوڑ جوڑ کر ڈھانچہ بنانا سیکھا۔ دوسرے نے اس پر ماس جمانا سیکھا، تیسرے نے اس پر چمڑے کا غلاف چڑھانا سیکھا۔‘‘ حسب عادت بوڑھے نے کئی باریہ...

پورا پڑھیں

ہدّوُ نے پیپل کے پتوں کے بڑے بڑے جھنکاڑرکشےسے اتارے، کثیف کرتے کی جیب سے چند مڑےتڑےنوٹ اورکچھ‌ریزگاری بر آمد کی، احتیاط سے گن کررکشے والے کا کرایہ ادا کیا، بقیہ رقم واپس رکھی، پھر بڑی محنت سے موٹی موٹی ڈالیاں کھینچ کر انہیں احاطے کے اندر لائے۔ہاتھی نے کسل مندی سے سونڈدائیں‌بائیں جھلائی، پھر قدرے تکلف کے سا تھ بھاری بھر کم پاؤ‌ں آگے بڑھائے۔’’ ارے بیٹا رک‘ اس سے قبل کہ لوگ تیرا حصہ کھا جائیں یہ لے لے۔‘‘  ہدّ‌و نےبڑی محبت سے ہاتھی کو مخاطب کیا اور کندھے پر لٹکےانگوچھے کے سرے پر بندھی پوٹلی کھولی‌۔پوٹلی میں...

پورا پڑھیں

وہ اپنا گھر چھوڑ کر اولڈ ایج ہوم میں آ گیا تھا اور اس کے دن آنسوؤں سے بھر گئے تھے۔ پچھلے پچاس برسوں کی زندگی بھولنا اتنا آسان تو نہ تھا۔ ہر لمحہ کچھ نہ کچھ باتیں اس کے دل و دماغ میں سوئیوں کی طرح تیرتی رہتیں اور اس کا پورا وجود چھلنی ہو کر رہ جاتا۔ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا تو اسے بستر چھوڑ کر اٹھنا پڑا۔ باہر ہو م کا نوکر کھڑا تھا۔ ’’ کیا بات ہے؟‘‘ وہ نوکر کو دیکھتا ہوا بولا۔ ’’چائے کا وقت ہے، آپ میس میں آ کر چائے پی لیں ۔...

پورا پڑھیں

آبادی سے تھوڑی دور ہٹ کر جنگلوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔ اسے گھنے جنگلوں سے خوف آتا۔ رام دین مالی کا لڑکا جو اس سے عمر میں چند سال بڑا تھا اسے لے کر جنگل کی سمت نکل جاتا۔ جہاں تک جنگل چھدرا رہتا اور سورج کی روشنی دکھائی دیتی اسے بڑا لطف آتا مگر جیسے ہی اندھیرا سروں پر چھانے لگتا وہ گھبرا کر کہتا۔” سکھو! اب گھر چلو۔“ سکھو کو اس کی گھبراہٹ پر ہنسی آجاتی۔ وہ اور اندر جانا چاہتا مگر صاحب کے ڈر سے لو ٹ جاتا۔گذرتے وقت کی دھند ہر شے پر چھاتی...

پورا پڑھیں

کافی کوششوں کے باوجودمجھے نیند نہیں آئی۔ نصف شب گزرچکی ہے۔ گھر کے تمام افراد اپنے اپنے کمروں میں سو رہے ہیں۔ آبا واجداد کی پیروی میں ہم آج بھی عشاء کے بعد عشائیہ کرتے ہیں اس کے بعد سب اپنے اپنے کمروں کے ہوجاتے ہیں۔رات کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے،شاید میری نینداس کے اعداد و شمار پر مامور کردی گئی ہے، بستر پرکروٹیں بدل بدل کر تھک چکاہوں، چاہتا ہوں کہ اٹھ کر بجلی جلادوں۔ مگر ایسا کرنا اخلاقی تقاضے کے خلاف ہے۔ میرے بازو میں لیٹی ہوئی یہ عورت،جس کے منہ سے خراٹوں کی نکلتی ہوئی آوازیں،...

پورا پڑھیں

بے ٹھکانہ کبوتروں کا غول آسمان میں پرواز کر رہا تھا۔ متواتر اڑتا جارہا تھا۔ اوپر سے نیچے آتا۔ بے تابی اور بے چینی سے اپنا آشیانہ ڈھونڈتا اور پھر پرانے گنبد کو اپنی جگہ سے غائب دیکھ کر مایوسی کے عالم میں آسمان کی جانب اڑجاتا۔ اڑتے اڑتے ان کے بازو شل ہوگئے۔ جسم کا سارا لہو آنکھوں میں سمٹ آیا۔ بس ایک ابال کی دیر تھی کہ چاروں طرف۔۔۔ لیکن یہ پڑوسیوں کے بچے بھی کم بدمعاش نہیں۔ مرغیوں کے ڈربے میں آدمی رہنے پر مجبور ہوجائیں اور مرغیاں وسیع و عریض ہال میں چہل قدمی کرنے کی...

پورا پڑھیں

سورج سوا نیزے پر کھڑا تھا ـ سر پر مئی کی برہنہ رقص کرتی ہوئی دھوپ اور قدموں تلے نڈھال بچھی ہوئی کولتار کی نم آلود لیکن شعلہ فشاں سڑک ـ سنسان اور پرسکوت ـ اس کا جسم چولہے کی تیز آنچ پر چڑھے ہوئے توے کی طرح تپ رہا تھا ـ اس کے پیروں میں پلاسٹک کی چپل تھی جو گرم کولتار کی پگھلی سڑک پر چپک چپک جاتی تھی ـ وہ بمشکل قدم اٹھاتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا ـ اسے شدت سے کسی ایسے سائے کی ضرورت محسوس ہورہی تھی جہاں وہ کچھ دیر کے لیے اپنے...

پورا پڑھیں

35 سال بعد جب دوبارہ اپنے شہراپنے محلے میں قدم رکھا تومحسوس ہوا جیسے سب کچھ بدل گیا ہے ۔ جب آہستہ آہستہ راستے اور گلیوں سے آنکھیں مانوس ہونے لگیں تو احساس ہوا کہ نہیں کچھ بھی نہیں بدلا ہے صرف لوگ بدل گئے ہیں ۔ پرانے چہروں کی جگہ نئے چہروں نے لے لی ہے۔ سڑکیں اور گلیاں آج بھی ویسی کی ویسی ہی تھیں بلکہ بد سے بدتر ہوچکی تھیں۔ دکانیں بھی کم و بیش ویسی ہی تھیں جیسی کہ آج سے پینتیس سال پہلے تھیں بس فرق صرف اتنا تھا کہ تقریباً ہر دکان چار چار پانچ...

پورا پڑھیں
1 2 3 4 14