Ganga Jamuni Tahzeeb ki Tashkeel mein Sufia

Articles

گنگا جمنی تہذیب کی تشکیل میں صوفیائے کرام کاحصہ ازپروفیسر صاحب علی

ہندوستان کی سرزمین ہمیشہ سے مذہبی اورروحانی عظمت کی حامل رہی ہے ۔ یہاں مختلف مذاہب کے رشی منی اورصوفی سنتوں نے تصوف اوربھکتی کی تعلیمات کو عام کرنے میں اہم کرداراداکیاہے ۔ہندودھرم کے رشی منی اورسنت نے عبادت وریاضت کے علاوہ نفس کشی میں سرگرم عمل رہے۔بدھ دھرم اورسکھ مذہب کی اشاعت اور تعلیمات بھی ہندوستان ہی سے شروع ہوئیں ۔ مسلمان صوفی اوربزرگان دین نے بھی اسی دیارِ ہند کو اپنی رشدوہدایت ، اخلاص ومحبت کی تعلیم وترویج کے لیے پسندکیا۔
مذہب ِ اسلام جنوبی ہندوستان میں پہلے پہل ملابار کے ساحلی علاقوں میں پھیلا۔ اِنھیں ابتدائی ایام میں خانہ بدوش زندگی گزارنے والے صوفیائے کرام نے رشدوہدایت کے ساتھ ساتھ صلح وآشتی ،محبت وبھائی چارگی کی تعلیم کی تبلیغ واشاعت شروع کی ۔ ہندوستان میں باہرسے تشریف لانے والے سب سے پہلے صوفی غالباً حضرت خواجہ غریب نواز سید معین الدین چشتی اجمیری ہیں جوراجا پرتھو ی راج کے عہد حکومت میں 592ہجری میں اجمیرتشریف لائے اورمحبت واخلاق کا سبق دینا شروع کیا ۔ آپ کی خانقاہ میں امیروغریب اورحکومت کے اراکین سبھی لوگ حاضری دیتے اورفیضیاب ہوتے ۔ آج بھی لاکھوں بندگانِ خدا بلاتفریق مذہب وملت آپ کے آستانے اجمیرشریف پرحاضر ہوتے ہیں اورخیروبرکت حاصل کرتے ہیں۔خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ کی تعلیمات کے حوالے سے وفیسر آرنلڈ نے لکھا ہے کہ :
’’ وہ دہلی جس پر اہل دہلی کا تصرف تھا اور کفر والحاد کی ہوا میں پوری فضا بکھری ہوئی تھی ۔حضرت خواجہ کے چند روزہ قیام میںسات سو سے زیادہ ہندو ان کے فیض سے مشرف بہ اسلام ہوئے اور اجمیر میں جو پہلی جماعت ان کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئی ان میں راجہ کا پجاری اور گُرو بھی تھا‘‘
( پریچنگ آف اسلام اردو ترجمہ ص ۲۸۱)
حضرت خواجہ غریب نوازنے متعدد مریدوںکواجازت وخلافت سے نوازااوراپنا جانشیں حضرت قطب الدین بختیارکاکیؒ کو بنایااوردہلی میں رہنے کی تاکید فرمائی۔
ایک طرف دہلی میں حضرت قطب الدین بختیارکاکیؒ جو بے نیازی اور ضبط نفس کی ایک زندہ مثال تھے، اپنے صوفیانہ خیالات کو عوام میں پھیلارہے تھے تودوسری طرف آپ کے مرید وجانشیں حضرت بابافریدالدین گنج شکرؒ پنجاب میں رشدوہدایت اورتبلیغ اسلام کی اشاعت کررہے تھے ۔ کچھ ہی عرصے میں ہندوستان کے مختلف حصوں اورخطوںمیں حضرت کے مریدین وخلفا لوگوں میں خلوص ومحبت، باہمی اتحاد اوراطاعت خداوندی کی تبلیغ کرنے لگے ۔ حضرت بابا فریدؒ نے اپنا جانشیں اپنے چہیتے مرید وخلیفہ حضرت محبوب الٰہی نظام الدین اولیاکو نامزد کیا اوردہلی کی ولایت آپ کو تفویض کی ۔ آپ کی خدمت میں اراکینِ سلطنت اوربادشاہ وقت خیروبرکت کے لیے حاضرہوتے تو آپ انھیں عدل وانصاف ، رعایاپروری اورغربانوازی کی تاکید فرماتے۔ آپ نے اپنی وفات سے کچھ دن پہلے اپنے مریدین اورخلفا کوتبرکات سے نوازا اوران کو خاص خاص مقامات پر رشدوہدایت کرنے کا حکم صادرفرمایا۔حضرت برہان الدین غریبؒکو دکن کاعلاقہ عطافرمایا ۔ حضرت اخی سراج کو بنگال ، جن کے مرید وخلیفہ علاء الحق پنڈوی ؒ سے یوپی اوربہارکا خطہ فیضیاب ہوا۔ حضرت شیخ نصیرالدین چراغ دہلی کو اپنا جانشیں بنایا۔ ان تمام صوفیائے کرام نے تصوف کی تعلیمات عام کرنے میں اہم رول اداکیا ۔ ان کی خانقاہیں آج بھی رشدوہدایت کا سرچشمہ بنی ہوئی ہیں۔صوفیا کی خانقاہوں کے تعلق سے پروفیسر نثاراحمد فاروقی نے لکھا ہے کہ :
’’چشتی صوفیانے اپنے خلفا کو دوردراز علاقوں میں بھیج کررشدوہدایت کافیضان عام کردیاتھا۔ آٹھویں صدی ہجری کے طلوع ہونے تک بنگال کے مشرقی علاقے میں جنوب میں دیوگری اورگلبرگہ ، شمال میں کشمیر اورجنوب مغرب میں گجرات کاٹھیاواڑ تک چشتی خانقاہیں قائم ہوچکی تھیں۔ … چشتی خانقاہوں میں جوگیوںکی آمدورفت تھی اوران سے روحانی تجربوں کے اصول ورسوم پر تبادلۂ خیال بھی ہوتاتھا۔‘‘
(اردواورمشترکہ ہندوستانی تہذیب : مرتبہ ڈاکٹرکامل قریشی،ص:216-17)
تاریخ شاہد ہے کہ محمد تغلق نے جب دیوگری کو اپنی سلطنت کادارالخلافہ بنایاتو جنوبی ہند میں صوفی سلسلے کو کافی تقویت ملی ۔ حضرت برہان الدین غریب ؒ نے دکن اورمہاراشٹرمیں تصوف کی تعلیمات اورپیغام حق کاکام انجام دیا۔ آپ دیوگری اورخلدآباد کے علاقے میں تقریباً 28برس تک رشد وہدایت کا کام انجام دیتے رہے ۔ اکابر صوفیا اور مشائخ میں مولانا زرداری ،امیرحسن سنجری ، سید یوسف والدخواجہ بندہ نواز گیسودراز ، خواجہ حسین اورخواجہ عمرشمال کی جانب سے دارالخلافہ دیوگری میں تشریف لائے ۔ ان صوفیائے کرام نے یہاں کی سماجی ، تہذیبی ادبی ، مذہبی اوراخلاقی زندگی کو متاثرکیا۔ تصوف کی تعلیمات کے ذریعے ربط ضبط بڑھاجس سے شمالی اورجنوبی ہند کی تہذیبی اورلسانی مشکلیں کسی حد تک دورہوگئیںلہٰذا مختلف تہذیبوں اورمذہبوں میں میل ملاپ ہوا۔ ایک دوسرے کو جاننے اورسمجھنے کی راستے ہموارہوئے چنانچہ لوگوں کے دلوںمیں بغض وتعصب اورنفرت کی جگہ رفتہ رفتہ بھائی چارگی نے لے لی۔اصل میں صوفیاے کرام نے اپنی روحانی طاقت ،اپنے کرداراور اپنی گفتار،اپنے ایثار اور اپنے خلوص و رواداری سے ایسی فضا خلق کی جو امن و آشتی، تزکیہ نفس اور اصلاح معاشرہ کی ضامن تھی۔
صوفیائے کرام کی خانقاہیں مختلف مذاہب اورمختلف زبان بولنے والوں کی آماجگاہ ہوتی تھیںاوراب بھی ہیں ۔ یہیں پر مختلف تہذیبوں اورزبانوں کا آپسی لین دین ہوا۔ ان کی خانقاہیں بنی نوع انسان کی ہم آہنگی کاذریعہ بنیں ۔ لوگ ایک دوسرے کے قریب آئے ۔ ذات پات اوررنگ ونسل سے ہٹ کر تمام انسانوں کے لیے صوفیانے عزت ووقار چاہا۔چنانچہ ان کی عوامی ہمدردی ، خدمت خلق، روادارانہ اخلاق اورحُسنِ سلوک نے اُنھیں سماج میں ایک معتبر مقام دیا۔ صوفیائے کرام کی عملی زندگی غیرمسلموں کے لیے بھی ایک بہترین نمونہ تھی ۔ اس لیے غیروں کا متاثرہونا لازمی تھا ۔ عملی زندگی میں صوفیوں اورسادھوسنتوں میں کافی مشابہت رہی ہے۔ ایک طرف پیرومرشد کارشتہ ہے تودوسری طرف گرو اورچیلے کا۔یہی وہ طور تھے جن کے تحت کبھی شنکراچاریہ اوررامانج نے بھکتی تحریک کے ذریعے منزل حقیقت تک پہنچنے کا راستہ بتایااورکبھی پریم مارگی سنتوں نے ذات پات کی تفریق کے خلاف بغاوت کانعرہ بلند کیا اورتمام انسانوںمیں محبت اوراخوت کی تبلیغ کوبنیادی مقصد قراردیا۔ہم یہاں کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے صوفی سنت گنگا جمنی تہذیب کے علم بردار ہیں۔
صوفیائے کرام نے تصوف کی تعلیمات کی نشرواشاعت پر زوردیا ۔ ان کے نزدیک فقروقناعت ، تزکیۂ نفس، تصفیۂ قلب، نفسیاتی خواہشات سے پرہیز اورمعبودحقیقی کی عبادت وریاضت کو خاص اہمیت حاصل تھی ۔صوفیا تصوف کی تعلیمات کے تحت ملک کے عوام وخواص میں اتحادواتفاق اورجذباتی ہم آہنگی قائم کرنا چاہتے تھے اورسارے ملک کو انسانیت کے رشتے میں جوڑنا چاہتے تھے ۔ غالباً اسی لیے خانقاہوں پر قوالی کی محفلیں منعقد کی جانے لگیں ۔ مزاروں پر پھولوںکی چادریںچڑھائی جانے لگیں ۔ گاگراورصندل وغیرہ کی رسمیں اداکی جانے لگیں۔اس طرح وطن سے محبت کاجذبہ بھی ابھرا اوروطنیت کا شعوربھی جاگا۔
گنگا جمنی تہذیب کے حوالے سے ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تصوف کی تعلیمات کے بعض پہلو بھکتی تحریک سے گہری مماثلت رکھتے تھے ۔ یعنی دونوں طرزفکر میں انسانی عظمت ومساوات ، احترامِ آدم ورواداری، ایک دوسرے سے محبت اورایسے عشق کاتصور پایاجاتاہے جس میں ہرطرح کے امتیازات مٹ جاتے ہیں ، خاص طورسے تصوف میں تو منافرت کے بجائے محبت ،وسیع المشربی ، عوام دوستی اورآزاد خیالی کو اس حد تک اہمیت دی جانے لگی کہ ہرمذہب کو محبوبِ حقیقی تک پہنچنے کاذریعہ سمجھاگیا اوریہاں تک کہہ دیا گیا اگر خلوصِ دل سے خدا کی عبادت کی جائے تو وہ بت خانے میں بھی ہے اورکلیسا میں بھی ۔ اس طرح یہ با ت واضح ہوجاتی ہے کہ صوفیائے کرام ہرمذہب کی انفرادیت کے قائل بھی تھے اورایک دوسرے میں اتحاد واتفاق اورجذباتی ہم آہنگی بھی قائم ودائم دیکھنا چاہتے تھے ۔یہی اصل میں گنگا جمنی تہذیب ہے ۔اس تہذیب کی رواداری کے تمام عناصر ہمارے صوفی سنتوں کی عملی زندگی میںدیکھنے کو ملتے ہیں۔
حضرت بندہ نواز گیسودراز جید عالمِ دین تھے ۔ آپ نے اسلامیات کے علاوہ ہندودھرم کامطالعہ بھی کیاتھا اورسنسکرت زبان سے بھی واقف تھے ۔ آپ نے دکن میں لوگوں کی سماجی ، مذہبی اورروحانی زندگی پر زبردست اثر چھوڑاہے ۔ آپ کی خانقاہ سے تمام لوگ آج بھی فیض حاصل کرتے ہیں ۔آپ کی رواداری اوروسیع القلبی کا یہ عالم تھا کہ آپ ایسے لوگوں کی سخت تنقید کرتے تھے جو ضدی اورکٹر مزاج ہوتے تھے اورجو مختلف مذاہب اورزبان کے میل جول میں مانع ہوتے ۔ رواداری کی ایک مثال سید محمد غوث گوالیاری کی بھی ہے ۔آپ ہندومسلم دونوں مذاہب کے ماہرتھے ۔ حضرت گوالیاری نے ہندوئوں کے تصوف کی ایک کتاب ’’امرت کنڈ‘‘ کافارسی میں ترجمہ کرکے مسلم صوفیوں کے سامنے پیش کیااس ترجمے کے ذریعے ہندو یوگی روایات بھی تصوف میں شامل ہوگئیں جو تصوف کے فروغ میں نہایت موثر ثابت ہوئیں۔ان کی خانقاہ میں ہندواورمسلمان دونوںکو ایک نظرسے دیکھاجاتاتھا ،کہاجاتاہے کہ مشہور موسیقارتان سین ،حضرت گوالیاری کے بڑے معتقد تھے ۔ اسی طرح اجمیرکے حمیدالدین شیخ نے اپنے ایک مریدکو صرف اس لیے اپنے حلقے سے خارج کردیا تھا کہ وہ مذہب کی ثانوی چیزوں کو زیادہ اہمیت دیتاتھا اورغیر مسلم کی اصل روح کے اندر جھانکنے سے قاصرتھا۔ مذکورہ گفتگوسے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مسلم صوفیوں کے دیگر تمام مذاہب کے سادھوسنتوں ،رشی منیوں اورگروئوں سے تعلقات استوارتھے ۔ وہ آپس میں عبادت وریاضت اورروحانی معاملات میں ایک دوسرے سے تبادلۂ خیال بھی کرتے تھے ۔ اصل میں ان میں باہم محبت بھی ہوتی تھی۔
عرض کیاجاچکاہے کہ مسلمانوں کی طرح ہندوئوں میں بھی اصلاحی اورروحانی تحریکیں شروع ہوئی تھیں۔شمالی ہند میں جے دیو، میرابائی ، رامانند ،کبیر مہاراشٹرااورگجرات میں گیانیشور، بنگال میں جیتنیہ اورکرناٹک میںلنکایت کی تعلیمات عوام الناس کے لیے تھیں۔بلاتفریق مذہب وملت ہرطبقے کے لوگوںکو ان تحریکوںمیں شریک ہونے کی دعوت عام تھی ۔ان تحریکوںمیںہندوئوںکے علاوہ مسلمانوںنے بھی شرکت کی۔ یہ خیال عام ہے کہ انھیں تحریکوں سے مسلمانوںمیں ہندی شاعری مقبول ہوئی۔چنانچہ مُلّا قطبن، ملک محمد جائسی ،عبدالرحیم خانخاناں،علاء الدین ،شیخ عثمان، شیخ نبی ،نورمحمد اورفاصل شاہ وغیرہ نے اپنی ہندی شاعری میں ہندوئوں اورمسلمانوںکو ایک دوسرے سے قریب لانے کی کوشش کیں۔ مختصریہ کہ ہندوئوں کی اصلاحی اورروحانی تحریکوںکافیضان ہرایک کے لیے عام تھاخواہ وہ کسی بھی مذہب اورپنتھ کاپیروکارہو۔
اس بات کواورواضح کرتاچلوں کہ صوفیائے کرام سماج اور گنگا جمنی تہذیب کی تشکیل میں کس طرح اپنارول اداکرتے رہے ؟ انھیں قوت کہاں سے ملتی رہی کہ وہ اپنے کام میں کامیاب ہوتے گئے ۔ قرآن اور حدیث سے اس کے اشارے ملتے ہیں کہ صوفیا کا مطمحِ نظر اللہ رب العزت سے محبت کرناتھا اوربس۔ خداسے محبت کرنے کاطریقہ خود خدانے بتایاہے کہ اس کے نبی کی اتباع کی جائے اوراتباع اُسی صورت میں ممکن ہے کہ نبی سے محبت کی جائے ۔ معلوم ہواکہ اللہ سے محبت کرنے کے لیے نبی سے محبت کرنا لازمی ہے ۔ یعنی بغیرعشقِ محمد خداپر ستی چہ معنی دارد ،اورجب آدمی اللہ اوراس کے رسول دونوں سے والہانہ محبت کرنے لگتاہے تو اس کے اورخدا کے درمیان فاصلے ختم ہوجاتے ہیں ۔ نگارخانۂ رحمت کے دَراُس کے لیے واہوجاتے ہیں ، اوربقول علامہ اقبال اُس کاہاتھ خداکاہاتھ ہوجاتاہے ۔اس منزل پر پہنچنے کے بعد صوفیائے کرام تہذیب اورمعاشرے کی تشکیل واصلاح کاکام اللہ کی اُسی دی ہوئی قوت سے لیتے تھے ۔ چنانچہ وہ جس طرف بھی نظرِکرم کرتے تھے قوم کی قوم معاشرے کامعاشرہ سنورجاتاتھا اورقوموںکے ذہن وشعورمیں انقلاب ِ عظیم برپا ہوجاتا تھا۔ اس حقیقت کااعتراف ہمارے علمائے دین نے کیاہے کہ صوفیائے کرام اوراولیائے عظام کی طاقت وتوانائی کاندازہ لگانا محال ہے۔تاہم مولوی عبدالحق اشارہ کرتے ہیںکہ:
’’…علماوامرابلکہ حکومتوں اوربادشاہوںسے بھی وہ کام نہیں ہوسکتاجوفقیراوردرویش کرگزرتے ہیں۔ بادشاہ کادربار خاص ہوتاہے اورفقیرکادربارعام ہے، جہاںبڑے چھوٹے، امیرغریب، عالم جاہل کاکوئی امتیاز نہیں ہوتا۔ بادشاہ جان ومال کامالک ہے ۔ لیکن فقیر کاقبضہ دلوںپرہوتاہے اس لیے ان کااثرمحدودہوتاہے اوراِن کابے پایاں۔ اوریہی سبب ہے کہ درویش کو وہ قوت واقتدارحاصل ہوجاتاہے کہ بڑے بڑے جبّاراورباثروت بادشاہوں کو بھی اس کے سامنے سر جھکاناپڑتا ہے‘‘
(ابتدائی نشوونمامیں صوفیائے کرام کاحصہ،ص:7)
صوفیائے کرام نے اپنے حسن سلوک سے سماج میں پھیلی ہوئی تمام خرابیوں مثلاً بھید بھائو، اونچ نیچ اور چھوٹے بڑے کو دورکیا۔ ان کاسلوک سب کے ساتھ یکساں تھا خواہ وہ ہندوہویامسلمان ، آزادہویاغلام ، چھوٹاہویابڑا، شاہ ہویاگدا، غریب ہویامحروم سب کے لیے ان کا سلوک ہمدردانہ تھا۔ انھوں نے اپنی روحانی طاقت سے تمام لوگوںکے لیے خوش گوار سماجی ماحول پیداکیا۔ ایساماحول جہاں اتحادواتفاق اورجذباتی ہم آہنگی ہو۔ نظیراکبرآبادی کے الفاظ میں صوفیانے اس بات کی تبلیغ کی:
جھگڑانہ کرے مذہب وملت کاکوئی یاں
جس راہ میں جوآن پڑے خوش رہے ہرآں
زنّار گلے میں کہ بغل بیچ ہو قرآں
عاشق تو قلندرہے نہ ہندونہ مسلماں
کافرنہ کوئی صاحب اسلام رہے گا
آخر وہی اللہ کا اک نام رہے گا
مذکورہ بالا معروضات سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے فروغ میں صوفیوں اور سنتوں کی تعلیمات جو ہر دور میں انسانی قدروں کی تشکیل اور تزکیۂ قلب و تطہیر کی ضامن رہی ہے جو ذات پات ،مذہب اور عقیدے کی قیود سے آزاد بھی تھیں ۔قرون وسطیٰ میں ہندوستان کی روحانی فضا میںہماری گنگا جمنی تہذیب نشوونما پائی۔ اس کے برعکس جب ہم موجودہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تہذیب سیاسی، سماجی ،معاشی اور اخلاقی ہر طور سے ذات پات، فرقہ وارانہ گروہ بندیوں میں جکڑی ہوئی ہے ۔اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ان گونا گوں مسائل کو حل کرنے کے لیے ہندوستانی معاشرے کو صوفیا اور بھکتی سنتوں کی روحانی تعلیمات کی جتنی ضرورت آج درپیش ہے اتنی ضرورت شاید ماضی میں بھی نہیں رہی ہوگی۔
مختصر یہ کہ صوفیوں اورسنتوں کی تعلیمات کو مشعل راہ بنا کرہمیں اس پر عمل پیراہونا چاہیے تاکہ ایک پُر امن اور ہم آہنگ سماج کی تشکیل میںجو ناقابل مصالحت اختلافات در آرہے ہیں ان کا خاتمہ ہو۔ انسان دوستی ،اعتدال پسندی ،صلح وآشتی اورخلوص ومحبت کا استحکام اُسی وقت ممکن ہے جب ہم تصوف کے سیاق میں صوفیاے کرام کی تعلیمات کا مطالعہ کریں۔مزید براں اپنے اپنے مذہب پر عمل پیرارہتے ہوئے دوسروںکے مذاہب کااحترام بھی کریں کیونکہ تہذیبی ہم آہنگی کے فروغ میں مذہبی رواداری کا جذبہ ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے ،یہ جذبہ اخوت، بھائی چارگی ، مساوات کے مقصد کی نشوونما کرسکتا ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ایک اچھے سماج کی تشکیل اور دور حاضر کے اخلاقی، تہذیبی اور ثقافتی طور سے پسماندہ معاشرے کو صحت مند بنانے کے لیے ہمیں صوفیوں اور سنتوں کی تعلیمات کوعملی جامہ پہنانے کا عہد علامہ اقبال کے ان اشعارسے کرنا چاہیے:
آ ، غیریت کے پردے اک بار پھر اٹھادیں
بچھڑوں کو پھر ملادیں نقشِ دُوئی مٹادیں
سونی پڑی ہوئی ہے مدت سے دل کی بستی
آ ، اِک نیا شوالہ اس دیس میں بنادیں
شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے
٭٭٭