Gende ke Phool A Short Story by Ali Imam Naqvi

Articles

گیندے کے پھول

علی امام نقوی

بھارت ٹرانسپورٹ کے مالک کھر بندہ صاحب میرٹھ ، بمبئی لائن پہ ٹرک چلانے والے ایمان دارجفا کش ڈرائیور افتخار کے گھر رسمی طور سے اس کی عیادت کرنے گئے تھے۔ پر اُسے دیکھتے ہی ان پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ، دو تین مہینے پہلے ، جب افتخار مال بھر کے بمبئی گیا تھا تو کیسا ہٹّاکٹّاتھا۔ بھارت ٹرانسپورٹ کے مالک کھر بندہ صاحب میرٹھ ، بمبئی لائن پہ ٹرک چلانے والے ایمان دارجفا کش ڈرائیور افتخار کے گھر رسمی طور سے اس کی عیادت کرنے گئے تھے۔ پر اُسے دیکھتے ہی ان پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ، دو تین مہینے پہلے ، جب افتخار مال بھر کے بمبئی گیا تھا تو کیسا ہٹّاکٹّاتھا۔ٍ اور اب جھلنگی چار پائی پر جو شخص انہیں دکھائی دے رہا تھا ، وہ تو کوئی دوسرا ہی بندہ تھا۔ رسمی طور پر دو چار جملے ادا کرنے کے بعد وہ باہر نکلے ، ایک کیمسٹ کی دوکان سے دفتر فون کیا۔ دوسری طرف سے رابطہ قائم ہونے پر وہ بولے۔ ــ’’ویرا میں ہوں۔سریش۔لال کرنی افتخار کے گھر ڈرائیور کے ہاتھ میری گاڑی بھیج۔ اوئے گل نہ پوچھ۔ اُسے دلّی لے جاتی ہوں۔ اسپتال میں داخل کرنے۔ٍٍ تقریباََ بیس منٹوں بعد ماروتی وین میں ڈرائیور کے برابر والی سیٹ پر وہ بیٹھے تھے، پچھلی سیٹ پر سکڑا،سمٹا افتخار اپنی بیوی شاکرہ کی گود میںسر رکھّے پڑا ہوا تھا۔ شاکرہ، حال اور مستقبل کے خدشات میں گھڑی بیٹھی تھی۔گھر میں کمانے والا، تنہا اس کا میاں تھا ۔سال دو سال کی چھوٹ بڑائی لئے تین بچیّ اور ایک بوڑھی ساس ۔ اس کے ذہن میں پچھلے دو ڈھائی مہینوں میں ہزاروں وسوسوں نے جنم لیا تھا، لیکن افتخار کی صرف ایک تھکی ماندی مسکراہٹ نے ان وسوسات کا کام تمام کرنے میں نمایں کردار ادا کیا تھا۔شاکرہ سوچ رہی تھی کہ اب تو ان کے چہرے سے وہ مسکراہٹ ہی غائب ہوگئی جو دماغ میں پنپتے تشویش کے  کیڑوں کو رسان سے کچل دیا کرتی تھی۔ طوفانی رفتار سے دوڑتی ماروتی وین ڈیڑھ گھنٹہ بعد اَ رون اسپتال کے پورچ میں رکی۔کھر بندہ صاحب کے اشارے پر وارڈ بوائز اسٹریچر اٹھا کر وین کی طرف بڑھے۔دو منٹ بعد ہی ڈاکٹر نے افتخار کا معائنہ کیا،میرٹھ میں جن ڈاکٹروں نے ا ن کی رپورٹیں Case Paperکے ساتھ نتھی کرنے کے بعد ڈاکٹر نے افتخار کو جنرل وارڈ میں داخل کرنے کی ہدایت کی اور جب وارڈ بوئے مریض کا اسٹریچر Casulaty Wardسے لے کر نکل گئے تب او۔پی۔ڈی انچارج نے کھرہ بندہ صاحب کو اطمینان دلایا۔ ’’اُس کی بیوی بھی ساتھ آئی ہے کیا وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ـ’’سوری۔ جنرل وارڈ میں ، وہ بھی مَردانے وارڈ میں اس کی ذمّہ داری ہم نہیں لے سکتے ۔ٍٍ ڈاکٹر نے جذبات سے عاری لہجے میں معذرت چاہی تو کھربندہ صاحب یہ کہتے ہوئے کرسی سے اُٹھ کھڑے ہوئے کہ میں ہفتہ پندرہ روز میں چکر لگایا کروںگا۔بائی دی وے ایمر جنسی کی حالت میں آپ نے میرا پتہ اور فون نمبر تو لکھ ہی لیا ہے۔ چوبی سال خورہ بینچ پر ہونّق بیٹھی شاکرہ نے انہیں دیکھا تو ایک دم سے کھڑی ہوگئی ، اس کے قریب، پہنچ کے بولے۔ ــ’’افتخار کے پاس تیرے بیٹھنے کی اجازت نہیں ہے۔تو، میرٹھ چل سب ٹھیک ہوجاے گا۔ ـــ’’نا ۔جی۔میں تو اِنگے ہی رہوں گی۔ اپنے میاں کے دھورے بچّوں کو ماں کنے چھوڑیائی۔بس آپ تو ان کی خبر گیری کرتے رہیٔو۔ ـ’’پرتو، یہاں کیسے رہے گی؟ ’’اجی یہیںتو مارا پپہرے گا۔ چتلی قرپہ۔ ــ’’تب تو ٹھیک ہے۔ اور سن ! اسپتال میں اپنا فون نمبر لکھوا دیا ہے میں نے۔ ضرورت پڑے تو بلوا لینا مجھے اور ہاںاب تو چتلی قبر ، اپنے میکے چلی جا۔ شام سمندھیوں کے ساتھ آجانا۔ ’’جی!۔‘‘ٍ ’’تو میں چلوں؟‘‘ کھربندہ صاحب نے پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ دو تین ہزار روپے اس کی طرف بڑھائے اور پھراس سے مخاطب ہوئے ۔ ’’افتخار، اپنا بہت پرانا ڈرائیور ہے۔ اس کی ضرورت پڑے گی۔ کھر بندہ صاحب کے چہرے پر ممنونیت کی ایک بھر پور نگاہ ڈالتے ہوئے اس نے ہاتھ بڑھا کر روپئے لیے۔اور ٹھیک جب اس لمحہ جب نوٹ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہورہے تھے۔ شاکرہ رونے لگی۔ فوراََہی کھر بندہ صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولے۔ ــ’’روتی ہے پگلی۔ اب رونے کی نہیں ، رب سے دعا مانگنے کی ضرورت ہے۔رب کو یاد کر ۔ وہ چنگا ہو جائے گا۔ دوسرے دن دس بجے کے آس پاس افتخار پھر ڈاکٹروںکے درمیان گھرا ہوا تھا ۔اکیلی نحیف ونزا ر جان تھی اور کئی ڈاکٹروں کے سوالات ۔ ’’کیاکرتے ہو؟ ’’ڈرائیونگ! ’’کار چلاتے ہو؟ ـ’’نا۔ جی۔ ٹرک پہ چلوں ہوں۔ میرٹھ سے دلّی ہوتا ہوا بمبئی جایا کروں تھا۔ٍ ’’پہلی مرتبہ بخار آیا تھا؟ٍٍ ’’دو ڈھائی مہینے ہوگئے۔ سورا، اترکے ہی نہ دیوے۔ ’’شراب پیتے ہو؟ ’’توبہ کروں اُس سے۔ ’’سگریٹ ؟ ــ’’ اجی وہ کبھی کبھار پی لیا کروں ہوں۔ ’’اجی یہ جو حلق کے نلّے ہیں گے۔سورّے اینٹھیں ہیں گے۔بدن میں جان ہی نہیں لگے۔ وزٹ کرنے والے ایم۔ ڈی ڈاکٹرنے ایک لمبی ہنکاری بھری اور جونئیر زمعا لجین کو مخاطب کیا: ’’خون ، پیشاب ،ٹٹّی اورتھوک ، سب چیک کرائیں۔ ــ’’ سر! وہ سب تومریض کے کیس پیپر میں اٹیچ ہیں۔ اس نے میرٹھ کے پیارے لال شرمامیں بھی علاج کروایا تھا۔ ’’آپ پھر چیک کریں۔‘‘ بڑے ڈاکٹر کے لبوں کی مسکراہٹ دیگر ڈاکٹروں کو بہت کچھ سمجھا گئی تھی۔اُدھر افتخار جب اپنے بستر پر لٹا دیا گیاتو سوچنے لگا۔ کیسے کیسے سوال کریں ہیں سورے ڈاکٹر ۔سبھی کچھ ہم بتا دیں اور جواب میں جھولوپیٹے دوائی کی پرچی پکڑادیویں۔کھائے جائوسسری دوائیں اور سوکھتے جائو۔پر ایسا کون روگ لگ گیا جو پیچھا ہی چھوڑنے کے نہ دیوے ہے گااب پھر خون ، پیشاب ، ٹٹی چیک ہوگی۔ دیکھیں۔ اب یہ کیا کہیوں گے۔ شام کو چتلی قبر سے شاکرہ چلی آئی تو اس نے اس سے بھی یہی باتیں دہرائیں۔وہ اللہ میاں کی گائے، میاں کو حسرت بھرے انداز میں دیکھتی رہی ، پھر اُس نے میکے کا ذکر چھیڑدیا۔کھر بندہ صاحب کی تعریفوںکے پل باندھے ، افتخار نے ساری بات خاموشی سے سنی۔ پھر آہستہ سے بولا۔ ’’اِدھر کو آئیو۔ وہ اُس کے قریب جھکی تو اس نے قدرے جھنجھلا کر کہا۔ ’’وس سسرنے ٹول کو انگے مارے سر ہانے کھینچ لے، ایک بات کہنی ہے تجھ سے۔ ’’اچّھے ہو جائو، پھر بتا دیجیؤ۔ دماغ پر زور نہ ڈالو۔ وہ جو ڈاکٹر صاحب ہے نہ۔ وے بتا دیں تھے کہ تم سوچا کروہو۔ ’’سچ ہی کہا انھوں نے ۔ سوچوں تو ہوںپر کچھ نا سوجھے ۔ایک بات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک بات کم بخت ماری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کئی روزسے تجھ سے کہنا چاہوں پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’کہانا چنگے ہونے پہ کہہ دیجیٔو۔ ’’مجھ سے وعدہ کر۔ افتخارکی لرز تی ہوئی آواز شاکرہ نے سنی تو فوراََ اس پر جھگ گئی۔ افتخار نے کچھ کہنے کے لئے ہونٹ ہلائے اور پھر سر کو بائیں طرف دال دیا۔شاکرہ نے استفہامیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔تکیہ پر ایک گیلا دائرہ پھیلتا ہی جارہا تھا۔ ’’ائے جی!  میں کہوں۔ ہمت سے کام لو۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔وے سب ٹھیک کرے گا۔ لیکن افتخار پر رحمت کے دروازے بند ہو چکے تھے۔تیسرے دن پھر جب ایم۔ڈی نے وزٹ کی اور تمام رپوٹیں پڑھیں تو اپنے جونیئر زسے کہاImmediately shift him to special ward.   ’’کیوں سر؟ ایک ساتھ کئی آوازیں سوال بن گئیں۔ He has got AIDS’’اوہ۔ پھر ایک مشترکہ گونج سے کمرہ بھر گیا۔دوسرے ہی پل ڈاکٹروں نے ترحم آمیز نگاہ افتخار پر ڈالی۔ ’’ریڈ لائٹ ایریے میں گئے ہو؟ وزٹ کرنے والے ڈاکٹر نے سوال کیا۔۔’’وہ کیاہوئے ہے جی؟ ’’ مطلب یہ کہ رنڈی بازی کا شوق ہے؟‘‘ یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نا جی۔ سینئراور تمام جونیئر ز ڈاکٹر اس کے جواب سے مطمئن نہیں تھے۔ اسے جب جنرل وارڈ سے اسپیشل وارڈ میں منتقل کیا جانے لگاتو خود اس کی اپنی سوچ اُس ٹرک سے بھی تیز دوڑ رہی تھی جسے ہائے وے پر وہ بے خطر چلایا کرتا تھا۔میرٹھ میں لال کرتی کا علاقہ، سائیکل رکشہ سے باغپت اڈّے کا سفر ، دلّی ، متھرا ، احمد آباد ہوتا ہوا بمبئی تک کا تھکا دینے والا سفر، دن میں آرام اور رات کے سنّاٹے میں گونجتے ٹائروں کی چرمراہٹ ، سفر ،سفر،سفر۔ دم لینے کو تھے تو کچھ مخصوص پٹرول پمپ یا ان سے ملحق ڈھابے یہی تو رین بسیرے تھے میرے۔ پر نہیں۔ سوچ کو ایک دم سے ایمر جنسی بریک لگااور سب کچھ ہل کے رہ گیا۔ٍ جنرل وارڈ سے کافی دور ، اسپتال کے ایک ویران سے گوشہ میں ایک منزلہ اسپیشل وارڈتھا۔ جہاں اُسی کی مانند آٹھ دس لاغر مریض پڑے ہوئے تھے۔ان سب نے نو وارد مریض کو بہ حسرت ویاس دیکھااور سوچا۔کیا سب ہی بُری عورتوں کی سنگت میں پڑنے کے بعد یہاں آئے ہیں؟ نہیں نہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی ۔ کیا کیہویںہیں ویسے؟ تشخیص ۔ ہاں مجھے تو لگے ان کی تشخیص غلط ہے گی۔ٍٍ مگر بستر پر لیٹتے ہی ذہن پہ چھائی دھند چھٹی ، اور اس کے حافظے کی ایک گرہ خود بخود کھل گئی۔وہ بمبئی کی ایک سرد شام تھی۔اس کے ساتھیوں نے سونے سے پہلے دارو پی تھی۔پھر ان میں سے چند ایک نے اُسے زبردستیاپنے ساتھ ٹیکسی میں بٹھا لیا تھااور ٹیکسی تھمی تو اس نے دیکھا کہ وہ بازارِحسن تھا۔مگر حسن کہاں تھا؟ یاروں کے کھدیڑنے پر وہ ایک عمارت کی دوسری منزل پر پہنچا تھا۔بڑی عجیب عجیب سی لونڈیاں تھیں۔چپٹی ناک ،چوندھی آنکھیں۔چھوٹے سے دہانے۔ اٹکھیلیاں شروع ہو گئیں۔ایک چھوٹی سی نیپالن اس کی گود میں آ بیٹھی۔ اسے ایک دم سے شاکرہ یا دآئی، ملائم ملائم وجود کا پیکر، اور یہ جو گود میں ڈھے گئی ہے۔کیسے ٹھکے ہوئے جسم کی لگائی ہے یہ۔نہیں ۔ہاں۔ہاں۔نہیں ۔نہیں ۔ہاں۔ہاں۔آخر اس کی رال ٹپک ہی گئی۔ واپسی بھی ٹیکسی سے ہی ہوئی۔مگر یاروں کی بہ نسبت وہ چپ چاپ ساتھا۔گاڑی میں سونے سے پہلے اس نے سوچا کہ یہ سب کیسے اور کیوں کر ہوا۔دو بول کے بدلے آخری سانسوں تک ساتھ دینے والی شاکرہ اور دس روپلّی میں خریدی اس لگائی میں کیا فرق تھا یہی نا کہ دال وہ بھی تھی اور یہ بھی، پر بگھار بازاری دال میں کچھ سوا تھالیکن۔ایک کمی تھی اس بگھار والی دال میں نمک کم تھا۔ تو کیا۔میں نے دس روپیے میں اپنی موت خریدی۔ دس روز شاید یہی بات میں شاکرہ سے کہنا چاہوں تھا۔ پر کہہ نہ سکا۔ بیسیوں بار اس کے سامنے کپڑے اتارے ہیں گے میں نے ۔ لیکن اگر اس سے اس بار ے میں کہہ دیا تو پورم پور ننگا ہوجائوں گا۔دس کی نگاہوں میں۔ دوسرے دن شاکرہ اپنے چھوٹے بھائی کو ساتھ لے کر صبح ہی جنرل وارڈ میں پہنچی تو افتخار کے پلنگ پر کوئی دوسرا مریض لیٹا کھانس رہا تھاوارڈ بوائز سے پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ اسپیشل وارڈ میں منتقل کر دیا گیا ہے۔اس نے نرسوں کو تلاش کرنے کے خاطر اِدھر اُدھرنگاہ دوڑائی ۔جنرل وارڈ کے کونے میں ڈاکٹروں اور نرسوں کا جھمگٹا نظر آیا تو دونوں بھائی بہن وہاں پہنچے۔کچھ ڈرتے جھجکتے اس نے ایک نرس سے اپنے میاں کے متعلق پوچھا۔بڑے ڈاکٹر نے مریض کامعائنہ کرتے ہوئے کنکھیوں اسے دیکھا۔اس کی بات سنی اور جس مریض کو دیکھ رہا تھا اسے چھوڑ کر شاکرہ کے قریب پہنچا۔شاکرہ کے حلق کے ابھرتے نلوں پہ نگاہ ڈالتے ہوئے اس نے اپنے جونیئر ز ڈاکٹروں سے کہا۔ ’’اسے بھی داخل کیجئے۔ خون ، تھوک ، ٹٹّی اور پیشاب سب کچھ چیک ہوگا۔ سمجھ رہے ہیں نا آپ۔۔۔