Ghazal : Tarjumanul AS’R BY DR. ZAKIR KHAN ZAKIR

Articles

غزل :ترجمان العصر

ڈاکٹر ذاکر خان

غزل :ترجمان العصر

ڈاکٹر ذاکر خان

غزل کی پشت برسہا برس کی تاریخ اور عظیم روایتوں کے بوجھ کو سنبھالے ہوئے ہے۔دنیا کی تمام اصنافِ سخن میں غزل کی طرح مقبولیت کسی اور صنفِ سخن کو حاصل نہیں ہوئی۔وہ تمام شعراء جنھوں نے غزل کو عروج بخشا، سماج اور معاشرے نے انھیں بھی اوجِ ثریّا پر پہنچا دیا۔غزل عہدِ حاضر کے تقاضوں کو حتیٰ المقدور پورا بھی کرتی ہے اور انتہائی شاندار روایتوںکو نا صرف برقرار رکھتی ہے بلکہ اپنی شناخت بھی قائم کیے ہوئے ہے۔ یہ اردو غزل ہی ہے جو کبھی محبوب و معشوق کے دلوں کی آواز ہوا کرتی تھی جس سے عاشقی کے تار جھنجھنا اٹھتے تھے آج یہی غزل رومانیت،محبوبیت اور اعشاریت کو پیکر بنا لینے کے باوجود عہدِ حاضر میں ہونے والی تمام تر تبدیلیوں کی ترجمانی بھی کرتی ہے۔ حالات سازگار نہ ہو تو شاعر کے دل سے نکلی ہوئی آواز غزل کے شعر کا پیکر بنتی ہے اور یہ کہہ اٹھتی ہے
ابھی نہ چھیڑ محبت کے گیت اے مطرب
ابھی حیات کا ماحول ساز گار نہیں
حالی اور اقبال نے غزل کو حدیثِ دلبراں سے صحیفہء کائنات بنایاہے۔ آج غزل کے پاس شاعر انقلاب، شاعرِ شباب، امامِ یاسیئت، فردوسیہء اسلام ،شاعرِ مزدور، یگانہء روزگار، شاعرِ رومان، شاعرِ مشرق، جانشینِ داغ اور رئیس المتغزلین حسرت موہانی کی عظیم روایات ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو آرائشِ خم وکاکل اور اندیشہ ہائے درودراز ہماری زندگی کے محور ہیں اور یہی غزل کی بساط بھی، ادب ہماری زندگی کی عکاسی کرتا ہے بقول ڈاکٹر قمر رئیس”احساسات کی بے نام پرچھائیاں اپنی ذات اور تجربات کے تناظر میں واضح روپ اختیار کرتی ہیں تو غزل کی تہہ داریاں بڑھ جاتی ہیں”یہ غزل کی ہمہ جہتی کا اعتراف ہی ہے۔ لفظیات اور اسالیب و الائم تجربات کی بھٹی میں تپ کر کندن بنتے ہیں تب شعر کے پیکر میں ڈھلتے ہیں۔ انسان جس قدر نہاں خانہء دل میں نظر ڈالتا ہے اتنا ہی نیا ہوتا اسکا ایمان تازہ ہوتاہے۔
بے گھری کا دکھ اور لامکانی کا غم روزِ آفرینش سے ہی اولادِ آدم کی میراث ہے۔ اسی سبب اس کو روح کو قرار نہیں، اسے دکھ ہوتا ہے کہ آرزومند آنکھیں، بشارت طلب دل اور دعائوں کو اٹھتے ہوئے ہاتھ بے ثمر ہوگئے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے شاعری کو پیمبری اور شاعر کو قوم کی آنکھ کہا ہے جو دکھ پر چینخ اٹھتی ہے ، ہر کرب پر چھلک پڑتی ہے تب ہی تو امیر مینائی بھی کہتے ہیں
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
اسی خیال کو انیسؔ اپنے انداز میں ڈھالتے ہوئے کہتے ہیں
خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہردم
انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینے کو
فرقہ وارانہ فسادات ہمارے اس دور کا المیہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بابری مسجد سانحے کے تناظر میں نظم کا جیالا شاعر کیفی ؔ ،غزل ہی کے پیرائے میں کہتا ہے
اس کو مذہب کہو یا سیاست کہو
خودکشی کا چلن تم سکھا تو چلے
اتنی لاشیں میں کیسے اٹھا پائوں گا
آپ اینٹوں کی حرمت بتا تو چلے
بیلچے لائو کھودو زمیں کی تہیں
مَیں کہاں دفن ہوں کچھ پتہ تو چلے
آل احمد سرور کہتے ہیں کہ “مَیں غزل کو اردو شاعری کی آبرو سمجھتا ہوں، ہماری تہذیب غزل میں اور غزل ہماری تہذیب میں ڈھلی ہوئی ہے”غزل حسن و عشق کی داستان بھی ہے اور کاکل و رخسار کا قصّہ بھی، یہ ہجرووصال کی کہانی بھی ہے اور غمِ روزگار کی حکایت بھی، بیک وقت مسرت و شادمانی کا نغمہ بھی ہے اور یاس و حرماں نصیبی کا تذکرہ بھی۔ وہ کون سا عصری جذبہ ہے جو شرمندہء اظہار نہیں؟ وہ کون سا احساس ہے غزل نے جس کی ترجمانی نہ کی ہو؟ہمارے دکھ سکھ، ارمان و آرزومندی کی موثر عکاسی غزل کے اشعار ہی سے ہوتی ہے۔ افتخار عارف کہتا ہے کہ
ہوس لقمہء تر کھا گئی لہجوں کا جلال
اب کسی حرف کو حرمت نہیں ملنے والی
یا
کہاں کے نام و نسب علم کیا فضیلت کیا
جہانِ رزق میں توقیرِ اہلِ حاجت کیا
شکم کی آگ لیے پھر رہی ہے شہر بہ شہر
سگِ زمانہ ہیں ہم کیا ہماری ہجرت کیا
غزل نے عہدحاضر کے ہر تقاضے کو چھوا ہے۔ آج غزل دامنِ محبوبیت سے نکل کر سسکتی، چینختی، چلّاتی انسانیت کی غمازی بھی کرتی ہے۔ وہ بھوک اور افلاس پر، جنگ و جدال پر، رونے چینخنے اور چلّانے پر ، اناج پر، پیاز پر، بدحالی اور بے قراری پر، غرض انسانی زندگی کے جتنے مسائل ہیں اسے غزل نے پگڈنڈیوں سے نکال کر شاہراہِ عظیم پر لے آیا ہے۔ اپنے لوچ، اپنی گہرائی و گیرائی، تاثر اور تاثیر کی بنا پر غزل نے ان مسائل میں ایک نئی روح، ایک نئی تحریک اور ایک نیا انقلاب برپا کردیا ہے۔
ہم غزل کو صرف غزل ہی کی طرز پر دیکھتے ہیں یہی ہماری اصل بھول ہے۔ غزل نے ہمیشہ عصرِ حاضر کے تقاضوں کا حق ادا کیا اور ہر اعتبار سے ببانگِ دہل نعرہء انقلاب بلند کیا ہے۔ وہ غریبوں کی جھونپڑیوں سے سسکنے والی صدائوں کو ایوانوں میں پہنچانے کاکام کرتی ہے۔ غریبوں اور مزدوروں کو احترامِ زندگی سکھاتے ہوئے کہتی ہے
سوجاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے
وزراء کا طمطراق، زندگی کے نشیب و فراز، اہلِ امن کی امن پسندیاں، مذہبی عقائد، اسلاف کی روایات، اقدار کی پامالی، اخلاق کا فقدان، اندھے عقائد اور ہماری توہم پرستیوں جیسے موضوعات پر غزل لب کشائی کرتے ہوئے کہتی ہے
لوگ پیپل کے درختوں کو خدا کہنے لگے
مَیں تو بس دھوپ سے بچنے کو یہاں آیا تھا
وہ لوگ جو اپنے آپ کو صاحبِ ثروت وزیروں اور درندہ صفت امیروں کی صف میں کھڑا کرتے ہیں، جن کے لیے انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہیں، وہ لوگ جن کے نزدیک بیوائوں کے آنسوئوں کی کوئی قیمت نہیں، جو مظلوم کی آہوں پر اپنے کان بند کرلیتے ہیںاور انسانیت کو اپنے پیروں تلے کچل دیتے ہیں۔ غزل ان سے مخاطب ہوکر کہتی ہے
عیب شہرت میں نہیں اس کا نشہ قاتل ہے
یہ ہوا کتنے چراغوں کو بجھا دیتی ہے
غزل نے عصرِ حاضر کے تمام تقاضے پورے کیے ہیں۔ اس نے مجبوریوں کا ذکرکیا، بے ایمانیوں کو سڑکوں پر لایا، بدکاریوں کا پردہ فاش کیا، مزدوروں کو صف آرا کیا، حکومتوں کو تبدیل کیا، رشوت ستانی کے خلاف آواز میں آواز ملائی اور شیطانیت سے برسرِپیکار رہی ہے۔ غرض دورِ حاضر کے ہر شعبہ ہائے حیات پر غزل نے حقیقت بیانی سے کام لیا۔ نفرت کے خلاف محبت کے میٹھے راگ الاپے ہیں۔ خوشی مسرت اور انسانیت کے نغمے گائے ہیں۔
غزل نے اہلِ سیاست کو سیاست کا گردیا، اہلِ علم کو سچی علمیت سے آگاہ کیا، مجبوروں اور بے کسوں کی دادرسی کرتے ہوئے حقیقت کو اس انداز سے آشکار کیا کہ پتھر دل انسان کی آنکھیں بھی اشکبار ہوجائیں۔
جس طرح لوگ الگ الگ طرزِ فکر اور روش اختیار کرتے گئے، غزل اسی طرح اپنا انداز اور لب و لہجہ بدلتی گئی۔ زندگی کے ہر موڑ پر ہماری رہنمائی کرتے ہوئے قدم سے قدم ملا کر چلتی رہی۔ روز اوّل ہی سے ادب مختلف تحریکوں کا حصّہ رہا ہے اور غزل ہر تحریک کا بساط بھر ساتھ دیتی رہی ہے۔غزل کی عظیم روایات ہماری میراث ہیں، اس کی بقا و پرورش ہماری ادبی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔