Ghazals by Dagh Dehlavi

Articles

داغ دہلوی


داغ دہلوی

داغ دہلوی کی کچھ غزلیں 

​(۱)

خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا

جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا

دل لے کے مفت کہتے ہیں کچھ کام کا نہیں

الٹی شکایتیں ہوئیں احسان تو گیا

ڈرتا ہوں دیکھ کر دل بے آرزو کو میں 

سنسان گھر یہ کیوں نہ ہومہمان تو گیا

کیا آئے راحت آئی جو کنج مزار میں

وہ ولولہ وہ شوق وہ ارمان تو گیا 

دیکھا ہے بتکدے میں جو اے شیخ کچھ نہ پوچھ 

ایمان کی تو یہ ہے کہ ایمان تو گیا

افشائے راز عشق میں گو ذلتیں ہوئیں

لیکن اسے جتا تو دیا جان تو گیا

گو نامہ بر سے خوش نہ ہواپر ہزار شکر

مجھ کو وہ میرے نام سے پہچان تو گیا

بزم عدو میں صورت پروانہ دل مرا

گو رشک سے جلا ترے قربان تو گیا 

ہوش وحواس و تاب تواں داغ جا چکے

اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا

(۲)

عجب اپنا حال ہوتا تو وصال یار ہوتا 

کبھی جان صدقے ہوتی کبھی دل نثار ہوتا 

کوئی فتنہ تا قیامت نہ پھرآشکار ہوتا 

ترے دل پہ کاش ظالم مجھے اختیار ہوتا 
جو تمھاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا 

تمھیں منصفی سے کہہ دو تمھیں اعتبار ہوتا 

غم عشق میں مزا تھا جو اسے سمجھ کے کھاتے

یہ وہ زہر ہے کہ آخر مے خوش گوار ہوتا 

یہ مزہ تھا دل لگی کا کہ برابر آگ لگتی

نہ تجھے قرار ہوتا نہ مجھے قرار ہوتا 

نہ مزہ ہے دشمنی میں نہ ہے لطف دوستی میں

کوئی غیر غیر ہوتا کوئی یار یار ہوتا 

ترے وعدے پرستم گر ابھی اور صبر کرتے 

اگر اپنی زندگی کا ہمیں اعتبار ہوتا 

یہ وہ درد دل نہیں ہے کہ ہو چارہ ساز کوئی 

اگر ایک بار مٹتا تو ہزار بار ہوتا 

مجھے مانتے سب ایسا کہ عدو بھی سجدے کرتے 

در یار کعبہ بنتا جو مرا مزار ہوتا 

تمھیں ناز ہو نہ کیوں کر کہ لیا ہے داغ دل کا 

یہ رقم نہ ہاتھ لگتی نہ یہ افتخار ہوتا 

(۳)

محبت میں آرام سب چاہتے ہیں 

مگر حضرت داغ کب چاہتے ہیں

خطا کیا ہے ان کی جو اس بت کو چاہا 

خدا چاہتا ہے تو سب چاہتے ہیں

وہی ان کا مطلوب و محبوب ٹھہرا

بجا ہے جو اس کی طلب چاہتے ہیں 

مگر عالم یاس میں تنگ آکر

یہ سامان آفت عجب چاہتے ہیں

اجل کی دعا ہر گھڑی مانگتے ہیں

غم ودرد رنج وتعب چاہتے ہیں

قیامت بپا ہو نزول بلا ہو

یہی آج کل روزوشب چاہتے ہیں

نہ معشوق فرخار سے ان کو مطلب

نہ یہ جام بنت العنب چاہتے ہیں

نہ جنت کی حسرت نہ حوروں کی پروا

نہ کوئی خوشی کا سبب چاہتے ہیں

نرالی تمنا ہے اہل کرم سے 

ستم چاہتے ہیں غضب چاہتے ہیں

نہ ہو کوئی آگاہ راز نہاں سے 

خموشی کو یہ مہر لب چاہتے ہیں

خدا ان کی چاہت سے محفوظ رکھے

یہ آزار بھی منتخب چاہتے ہیں

غم عشق میں داغ مجبور ہوکر

کبھی جو نہ چاہا وہ اب چاہتے ہیں

(۴)

ساز یہ کینہ ساز کیا جانیں

ناز والے نیاز کیا جانیں

شمع رو آپ گو ہو ئے لیکن

لطف سوزوگداز کیا جانیں

کب کسی در جبہہ سائی کی

شیخ صاحب نماز کیا جانیں

جو رہ عشق میں قدم رکھیں 

وہ نشیب و فراز کیا جانیں

پوچھیئے مے کشوں سے لطف شراب

یہ مزا پاک باز کیا جانیں

بلے چتون تری غضب ری نگاہ 

کیا کریں گے یہ ناز کیا جانیں

جن کو اپنی خبر نہیں اب تک 

وہ مرے دل کا راز کیا جانیں

حضرت خضر جب شہید نہ ہوں 

لطف عمر دراز کیا جانیں

جو گزرتے ہیں داغ پر صدمے 

آپ بندہ نواز کیا جانیں

(۵)

ناروا کہیے ناسزا کہیے

کہیے؎کہیے مجھے برا کہیے

تجھ کو بد عہد وبے وفا کہیے

ایسے جھوٹے کو اور کیا کہیے

مجھ کہیے برا نہ غیر کے 

جو ہو کہنا جدا جدا کہیے

انتہا عشق کی خدا جانے 

دم آخر کو ابتدا کہیے

میرے مطلب سے کیا غرض مطلب

آپ اپنا تو مدعا کہیے

ایسی کشتی کا ڈوبنا اچھا

کہ جو دشمن کو ناخدا کہیے

صبر فرقت میں آہی جاتا ہے

پر اسے دیر آشنا کہیے

آگئی آپ کو مسیحائی

مرنے والے کو مرحبا کہیے

آپ کا خیر خواہ میرے سوا

ہے کوئی اور دوسرا کہیے

ہاتھ رکھ کر وہ اپنے کانوں پر 

مجھ سے کہتے ہیں ماجرا کہیے

ہوش جاتے رہے رقیبوں کو 

داغ کو اور باوفا کہیے

(۶)

کعبے کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے 

مجھ کو خبر نہیں مری مٹی کہاں کی ہے

سن کے مرا فسانہ انھیں لطف آگیا

سنتا ہوں اب کہ روز طلب قصہ خواں کی ہے

پیغامبر کی بات پر آپس میں رنج کیا

میری زبان کی ہے نہ تمھاری زباں کی ہے

کچھ تازگی ہو لذت آزار کے لیے

ہردم مجھے تلاش نئے آسماں کی ہے

جاں بر بھی ہوگئے ہیں بہت مجھ سے نیم جاں

کیا غم ہے اے طبیب جو پوری وہاں کی ہو

حسرت برس رہی ہے ہمارے مزار پر

کہتے ہیں سب یہ قبر کسی نوجواں کی ہے

وقت خرام ناز دکھا دو جداجدا

یہ چال حشر کی یہ روش آسماں کی ہے

فرصت کہاں کہ ہم سے کسی وقت تو ملے

دن غیر کا ہے رات ترے پاسباں کی ہے

سن کر مرا فسانۂ غم اس نے یہ کہا

ہوجائے جھوٹ سچ یہی خوبی بیاں کی ہے

دامن سنبھال باندھ کمر آستیں چڑھا

خنجر نکال دل میں اگر امتحاں کی ہے

ہرہر نفس میں دل سے نکلنے لگا غبار

کیا جانے گرد راہ یہ کس کارواں کی ہے 

کیونکہ نہ آتے خلد سے آدم زمین پر

موزوں وہیں وہ خوب ہے سنتے جہاں کی ہے 

تقدیر سے یہ پوچھ رہاہوں کہ عشق میں

تدبیر کوئی بھی ستم ناگہاں کی ہے

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ 

ہندوستاں دھوم ہماری زباں کی ہے