Ghazals by Irtiza Nishaat

Articles

ارتضیٰ نشاط


ارتضیٰ نشاط کی غزلیں

ارتضیٰ نشاط کی غزلیں

1

مجھے چند باتیں بتا دی گئیں
سمجھ میں نہ آئیں تو لادی گئیں

مسائل کی تہہ تک نہ پہنچا گیا
مصائب کی فصلیں اُگا دی گئیں

بڑا شور گونجا ، بڑا شر اُٹھا
رگیں دکھ رہی تھیں ہلا دی گئیں

سہولت سے مہمان کھیلیں شکار
درختوں پہ چڑیاں سجا دی گئیں

سفر واپسی کا بھی ہے ناگزیر
تو پابندیاں کیوں لگا دی گئیں

کڑی دھوپ میں دوپہر کی نشاط
درختوں کی شاخیں جلا دی گیں
———

2

کیا رات کوئی کاٹ سکے رات کی طرح
گھر میں بھرے ہیں لوگ حوالات کی طرح

یہ زندگی کہ جس کا کوئی اُور ہے نہ چھور
ہم سب میں بٹ گئی ہے کرامات کی طرح

یہ دور ، شکر ہے کہ بڑی مدتوں کے بعد
الجھا ہوا ہے میرے خیالات کی طرح

ارمان یوں تو دل کے نکلتے ہیں دوستو
لیکن کسی غریب کی بارات کی طرح

میرے ہی شعر مجھ کو لگے ہیں بصد خلوص
کچھ بے تکے عجیب سوالات کی طرح

مرنے کے بعد خواب میں آتے ہیں کس لیے
ماں باپ بد نصیب علامات کی طرح

حیرت ہے اپنے گھر کے بھی حالات ارتضیٰ
نازک بہت ہیں ، ملک کے حالات کی طرح
———

3

اردو ادب کے ساتھ رہیں پستیاں بہت
ساحر کی اک کتاب بکی تلخیاں بہت

اے دوست بتاﺅ کہ مقصد ہے اس سے کیا
تم ہال میں بچھا تو چکے کرسیاں بہت

میں سو گیا تو خواب میں پیچھا کیا مرا
کل رات مجھ پہ چھائی رہیں مستیاں بہت

رسّی خدا کی ہم بھی پکڑ لیں کہ ان دنوں
بٹنے لگے ہیں لوگ نئی رسّیاں بہت

اس احتمال سے کہ مبادا غلط چلوں
چلتی ہیں میرے ساتھ پریشانیاں بہت

روداد کیا ہے میرے سفر کی ابھی نہ پوچھ
دیکھی نہیں ہیں میں نے ابھی بستیاں بہت

تنگ آکے کینسر نے کہا بند کر نشاط
جب لے چکا شراب کی میں چُسکیاں بہت
———-

4

زندگی ڈوبتی نبضوں کی صدا لگتی ہے
کوئی رد کی ہوئی مخصوص دعا لگتی ہے

پیٹ کی آگ بھی لگتی ہے تو کیا لگتی ہے
نیند بھی سو کے جو اٹھتا ہوں غذا لگتی ہے

جیسے ہر شخص کوئی جرم کیے بیٹھا ہو
گھر میں گھستے ہی عجب گھر کی فضا لگتی ہے

سب سے دلچسپ یہی غم ہے مری بستی کا
موت پسماندہ علاقے میں دوا لگتی ہے

آئیے آج اسی سوچ کو پختہ کرلیں
بے حسی حد سے گزرتی ہے تو کیا لگتی ہے
———-

5

اچانک یوں کوئی بھولا ہوا سا خواب ملتا ہے
سمندر میں سفینہ جس طرح غرقاب ملتا ہے

نہ جانے کیوں تمھارے در پہ آجاتا ہوں میں ورنہ
جہاں میں ہوں ، سکوں میرے لیے بے تاب ملتا ہے

بڑی تیزی سے کشتی ، جس طرف بہتی چلی جائے
ہمیشہ یاد رکھنا اس طرف گرداب ملتا ہے

ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم کھدّر پہنتے ہیں
اسی قیمت پہ لینے جائیں تو کمخواب ملتا ہے

ہمیشہ کے لیے اے کاش یہ لمحے ٹھہر جائیں
کہ میری نیند سے اِس وقت اس کا خواب ملتا ہے

محبت میں ہمیشہ مرتبے نیچے اترتے ہیں
صدف سے ابرِ گوہر بار زیرِ آب ملتا ہے

حقیقت ارتضیٰ کی آم کے پھل کی طرح سمجھو
بہت بکتا ہے لیکن پھر بہت نایاب ملتا ہے
————

6

ایک سے ایک ہے رستم کے گھرانے والا
ہے کوئی قبلہ¿ اول کو چھڑانے والا

قہر آلود نگاہیں ، نہ بڑے دانت مگر
چہرہ چہرہ نظر آتا ہے ڈرانے والا

دھوپ سے آبلے پتھر میں پڑے جاتے ہیں
کون ہے ، کون ہے دنیا کو چلانے والا

میرے چہرے پہ ندامت کی کہانی لکھ کر
آئینہ دیکھنے لگتا ہے دکھانے والا

اپنے سوکھے ہوئے ہونٹوں پہ زباں پھیر چکا
پیاس اک عمر زمانے کی بجھانے والا

خوف کی ایک لہر ریڑھ کی ہڈی میں مری
اور ایک سانپ مرے سر میں خزانے والا

آپ بھی ساتھ اگر ہوں تو مزا آجائے
رات کے ساتھ اندھیرا بھی ہے آنے والا
————-

7

مری زندگی کا عجب بھاﺅ ہے
خدا کی طرح سب کا برتاﺅ ہے

کٹی ہیں پتنگیں تو لوٹی ہے ڈور
نہ جوجھو بہت اس میں الجھاﺅ ہے

بڑی تلخ ہوتی ہے سرکار کی
گلے سے کلیجے تلک گھاﺅ ہے

نہ سوچو کسی میں محبت نہیں
دلوں میں اترتے چلے جاﺅ ، ہے

سمندر میں منجھدار کی راز دار
کنارے پہ ٹوٹی ہوئی ناﺅ ہے

اجل کے ہوئے دستخط اور پھر
نمک ہے نہ زخموں پہ چھڑکاﺅ ہے

سنادی غزل ، خوب تھی ارتضیٰ
مگر اب یہ مونچھوں پہ کیوں تاﺅ ہے
———-

8

نظروں سے گرے دل سے اتر کیوں نہیں جاتے
حد ہوگئی ہم حد سے گزر کیوں نہیں جاتے

وہ قبر نئی کس کی بنی ہے یہ بتا دو ! !
کیا بات ہے دانستہ اُدھر کیوں نہیں جاتے

اُکساتے ہو کیوں غوطہ لگانے پہ ہمیں تم
موتی ہو تو ساحل پہ بکھر کیوں نہیں جاتے

صحرا میں روانی سے گزرنا نہیں ممکن
اے اہل جنوں خاک بسر کیوں نہیں جاتے

محرومی کا اپنی یہ سبب ہے کہ ابھی تک
سوچا ہی نہیں ہم نے کہ مر کیوں نہیں جاتے

ساغر کو مرے موت کے زہراب سے بھر دو
میخانے میں کہتے ہو کہ گھر کیوں نہیں جاتے

اللہ کا ڈر ارتضیٰ جب دل سے نکالا
ہم اپنے ہی پھر سائے سے ڈر کیوں نہیں جاتے
———

9

دیکھئے اور ابھی سامنے آتا کیا ہے
آئینہ دیکھنے والوں کو دکھاتا کیا ہے

ہم کو معلوم ہے پانی پہ کھڑی ہے دنیا
ڈوبنا سب کا مقدر ہے ڈراتا کیا ہے

کیا عجب ہے کہ سفر تیرا سفارت بن جائے
لوٹ کے آنے کی امید میں جاتا کیا ہے

بیل بوٹے سے کوئی راہ میں کاڑھے جیسے
ہر قدم پھول کھلاتا ہے وہ آتا کیا ہے

یاد میری نہ مٹا ، نام مٹا دے میرا
نقش مٹتا ہے تو دیوار گراتا کیا ہے

شاعری ہے کوئی نوشاد کا میوزک تو نہیں
شعر اچھا ہے تو پھر گا کے سناتا کیا ہے

میں تو آدھا نہ رہا ارتضیٰ دے دے کے ادھار
دیکھ لے میری طرف ہاتھ بڑھاتا کیا ہے
———-

10

مجھے بات آگے بڑھانی نہیں ہے
سمندر میں پینے کا پانی نہیں ہے

اٹھوں منہ اندھیرے چلوں سیر کو بھی
مری صبح اتنی سہانی نہیں ہے

بڑا معجزانہ تھا انداز اُن کا
کسی دور میں کوئی ثانی نہیں ہے

خدا کی ہے ، گھر کی ہے ، کچھ دوستو کی
ہماری تو یہ زندگانی نہیں ہے

ضروری سمجھتا ہے تردید ، کردے
حقیقت ہے کوئی کہانی نہیں ہے

ہواﺅں کا رُخ موڑ سکتے ہیں یوں بھی
ہمارا ہنر بادبانی نہیں ہے

قیامت زبردست ہتھیار ہوگا
خدا نے مری بات مانی نہیں ہے

تخلص نشاط اس لیے رکھ لیا ہے
کہ تقدیر میں شادمانی نہیں ہے
——-