Granny Long Tongue by Chiba Mikio

Articles

لمبی زبان والی بُڑھیا

شیبا میکیو

کہانی ’لمبی زبان والی بڑھیا کی مصنفہ ‘شیبا میکیو1944میں جاپان کے می یاگی پری فیکچر نامی شہر میں پیدا ہوئیں۔ادبِ اطفال کے لیے سرگرم رہنے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی آف آرٹ میں انہوں نے تقریباً نو سالوں تک تصویری کتابوں کانظریہ اور ادبِ اطفال کی تدریس کی۔انھوں نے جاپانی کہانیوں میں پائے جانے والے بھوت پریت اور عجیب الخلقت مخلوقات پر کافی کام کیا ہے یہی وجہ ہے کہ انہیں عجیب الخلقت مخلوق کا اسکالر بھی کہا جاتا ہے۔

———————————————–

اس کہانی کے تانے بانے اس وقت بُنے گئے جب بھوت پریت نہ صرف پہاڑوں پر بلکہ جنگلوں میں بھی رہا کرتے تھے۔اس وقت’ اُکوماٹا پاس‘ نامی جگہ پر واقع’ اُکویاما پہاڑ‘ پر لمبی زبان والی بڑھیا اور ریڈ بین نامی دیو رہاکرتے تھے۔بڑھیا کی زبان سانپ کے پھن سے زیادہ لمبی اور چابک سے زیادہ مضبوط تھی۔ریڈ بین کا چہرہ جھونپڑی کی کھڑکی سے زیادہ بڑا تھا۔ جب وہ اپنے دانت باہر نکال کر اپنا چہرہ اوپر کرتا تب اتنا بھیانک نظر آتا کہ خوف سے پہاڑی ریچھ بھی اپنی آنکھیں بند کرلیتے۔
لمبی زبان والی بڑھیا اور ریڈ بین اُکوماٹا پاس نامی علاقے کے گمشدہ لوگوں کو خوف زدہ کیا کرتے تھے اورانہیں اپنا یہ کام بہت پسند تھا۔بعد میں دھیرے دھیرے لوگوں نے پہاڑ کی جانب جانا بند کردیا۔
’’اے بڑھیا ! کیا تمھیں لگتا ہے کہ ہم نے تمام انسانوں کو خوف زدہ کردیا؟‘‘
’’ریڈ بین ! بے وقوف مت بنو۔یہاں اتنے انسان ہیں جتنا درختوں پر پتیاں ۔میرے دماغ میں ایک خیال آیا ہے ،کیوں نہ ہم یہاں سے باہر جائیں اور لوگوں کو ڈرائیں، خوف زدہ کریں؟‘‘
لمبی زبان والی بڑھیا ایک جست میں ریڈبین کے شانوں پر پہنچ گئی۔ بے ہنگم چال چلتے ہوئے وہ جنگلوں سے گزرے۔ انھوں نے دیکھا جنگل اب جنگل نہیں سپاٹ میدان میں تبدیل ہوچاک تھا۔ جنگل سے پہاڑ کے دامن تک موجود تمام درخت کاٹ دیے گئے تھے۔
’’اوہ! یہاں کی ہوا تازہ اور منظر بھی پر کشش ہے ۔‘‘ریڈ بین نے کہا۔
اس بات نے لمبی زبان والی بڑھیا سخت ناراض ہوئی اور پاگلوں کے انداز میں کہا۔
’’بے وقوف مت بنو!یہاں ایک بھی درخت موجود نہیں ہے۔انسانوں نے تمام درخت کاٹ دیے ہیں۔یقینا بارش کے موسم میں یہاں سیلاب آجائے گا۔ ریڈ بین جلدی گائوں میں چلو۔مجھے اس تعلق سے برے خیالات آرہے ہیں۔‘‘
دھمک ۔۔۔۔۔۔۔دھمک ۔۔۔۔۔۔د ھمک ۔۔۔۔۔۔۔۔دھمک ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ پہاڑوں کے دامن میں واقع ایک بڑی جھیل کے قریب پہنچے۔
’’دیکھو یہ راستہ سیدھے جھیل میں جاتا ہے۔اے بڑھیا !کیا تم سمجھتی ہوکے گائوں یہیں کہیں پانی کے نیچے ہے۔‘‘
’’بے وقوف مت بنو!انسانوں نے تمام درخت کاٹ دیے اور جنگلات کو برباد کردیا۔مٹی کے تودے اور لکڑیوں نے ندی کا راستہ بند کردیا ہے۔جلدی آگے بڑھو اور گائوں کی طرف چلو! سورج نیچے آتا جا رہا ہے۔‘‘
دھمک۔۔۔۔۔۔۔۔دھمک۔۔۔۔۔۔۔دھمک  جب وہ گائوں کے کنارے پہنچ گئے، انہوں نے بغیر پانی کا ایک تالاب دیکھا۔
’’بڑھیا ! دیکھو زمین پر کتنا بڑا انڈا پڑا ہوا ہے۔‘‘
’’بے وقوف مت بنو!یہ اژدھے کا موتی ہے!یہ تالاب یقینا اژدھا دیوتا کا ہے جو گائوں کے اوپر سے سب دیکھ رہا ہے۔مجھے لگتا ہے اژدھا پانی سوکھنے کے بعد کہیں اور چلا گیا ہے۔مجھے امید ہے ہر چیز ٹھیک ہی ہوگی۔ـ‘‘
گائوں میں بالکل سنّاٹا تھا۔معمولی سی آواز بھی سنائی نہیں دے رہی تھی۔حتیٰ کہ باورچی خانوں کی کھڑکھڑاہٹ اور کتوں کے بھونکنے کی آوازبھی نہیں آرہی تھیں۔
’’مجھے انسانوں کی بو آرہی ہے۔‘‘ریڈ بین نے ایک کھڑکی میں جھانکتے ہوئے چیخ کر کہا۔
کمرے کے اندر فرش پر اپنے والدین کے ساتھ دوبچے سکڑے ہوئے بیٹھے تھے۔وہ سب بہت تھکے ہوئے نظرآرہے تھے۔ان کے گھٹنے سینوں سے چمٹے ہوئے تھے۔
’’میری طرف دیکھو! میں لمبی زبان والی بڑھیا ہوں۔‘‘
اس نے اپنی لمبی زبان کسی چابک کی طرح باہر نکالی اور وہاں موجود ہر ایک شخص کے سر کے اطراف میں چاٹنا شروع کیا۔ لیکن ان لوگوں نے بس معمولی سی حرکت کی، صرف اپنے سر کو یہ دیکھنے کے لیے اوپر اٹھایا کہ کیا ہو رہا ہے۔(اور پھر پہلی حالت میںواپس ہوگئے)
’’لوگو! تمہیں کیا ہوا ہے؟ کیا تم بھوت پریت سے خوف زدہ نہیں ہوتے؟ ‘‘لمبی زبان والی بڑھیا نے حیرت سے پوچھا۔والد نے بالکل باریک اور دھیمی آواز میں جواب دیا۔’’ہمارے پاس ڈرنے اور خوف زدہ ہونے کی بھی طاقت نہیں ہے۔ ہمارے پاس کل سے کھانے کے لیے روٹی کا ایک ٹکڑا بھی نہیں ہے۔جب سے ندی خشک ہوئی ہے ہم چاول اور آلو بھی اگا نہیں سکے۔‘‘
’’تب تو ٹھیک ہے! لیکن تم جھیل سے پانی کیوں نہیں لے آتے؟‘‘
’’ہم اس کے قریب جانے سے بہت ڈرتے ہیں۔جب کبھی ہم اس کے قریب جاتے ہیں تب زمین حرکت کرنے اور لرزنے لگتی ہے۔اب ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم تمہارے جیسی خوفناک اور ڈراونی مخلوق سے مدد مانگیں۔کیا تم کنارے پر راستہ بنانے میں ہماری مدد نہیں کروگے تاکہ پانی بہتا ہوا دوبارہ ندی میں آجائے؟‘‘
جب کوئی مصیبت میں ہوتا ہے تب عفریت بھی اس کی مدد کردیتے ہیں۔لمبی زبان والی بڑھیا اور ریڈ بین عجلت میں جھیل کی طرف جانے لگے۔
’’ریڈ بین! ٹھیک ہے، ہم یہاں زمین میں ایک راستہ بنانے جارہے ہیںتاکہ پانی بہہ سکے۔‘‘
’’لیکن بڑھیا! ہمارا کام تو لوگوں کو ڈرانا اور خوف زدہ کرنا ہے۔ہم کیوں ان کی مدد کریں؟‘‘
’’جب انسان آسودہ حال ہوجائے گا ،تب وہ دوبارہ ہم سے ڈرنے لگے گا۔‘‘
اس طرح سے لمبی زبان والی بڑھیا اور ریڈ بین جھیل کے راستے میں پھنسے ہوئے لکڑی کے بڑے بڑے ٹکڑوں اور مٹی کے تودوں کو ہٹانے لگے۔
جیسے ہی پانی نے دوبارہ بہنا شروع کیا ، ان لوگوں نے اتنی تیز آواز سنی کہ پانی بھی دہل گیا۔
ـ’’اے! تم کیا سوچ رہے ہو :یہ تم نے کیا کیا؟‘‘
انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک دیو قامت اژدھا ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کا جسم اتنابڑا تھا کہ اس سے پوری جھیل بھری جا سکتی تھی۔
’’خدا رحم کرے! دیکھو تم کتنے بڑے ہو۔یقینا تم وہ اژدھے ہو جو اژدھا دیوتا کے اس تالاب میں رہتے تھے۔تم اتنے بڑے کیسے ہوگئے؟‘‘
’’ہم اژدھے اسی طرح کے ہوتے ہیں۔اگر ہم تالاب میں رہیں تو ہم تالاب جتنے ہی بڑے ہو جاتے ہیں۔اگر ہم جھیل میں رہیں تب جھیل اتنے بڑے ہوجاتے ہیں۔اگر ہم آسمان میں اڑنا شروع کردیں تب ہم بادلوں کے برابر جسامت اختیار کرجائیں گے۔‘‘
اژدھا اپنے جسم کو لپیٹتا ہوا قریب سے قریب تک آتا گیا۔
“میں ان لوگوں کو سبق سکھانے جا رہا ہوں جنھوں نے اس تالاب کو خالی کردیا جہاں میں رہا کرتا تھا۔لیکن اس سے پہلے میںتم دونوں سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہوں۔”
“او! ریڈ بین ! بھاگو یہاں سے، جلدی بھاگو”
بڑھیا نے جنگل کی طرف بھاگتے ہوئے اپنی لمبی زبان ایک درخت کے اطراف میں لپیٹ دی۔لیکن ریڈ بین کی رفتار بہت سست تھی، اژدھے نے اسے اپنی گرفت میں لے کر ہوا میں اڑا دیا۔
’’ریڈ بین ! ہوا میں لٹکے رہو میں تمھیں بچا لوں گی۔‘‘
’’اوہ! تم اپنی زبان مجھ سے دور رکھو۔‘‘اژدھا اپنے جسم کو ادھر ادھر کرتے ہوئے چیخنے لگا۔
ریڈ بین اژدھے کے پھن سے آزاد ہو کر جھیل میں گر چکا تھا۔اس کے بعد بڑھیا نے حیرت انگیز طور پر اژدھے کی ناک باندھ دی۔
اوہ! اوہ! اوہ! اژدھا پھڑپھڑانے لگااور ایک زوردار چھینک ماری۔اتنی زوردار چھینک کہ پانی جھیل سے تیزی کے ساتھ کناروں کی طرف بہنے لگا۔اچانک کنارے پر ایک راستہ بن گیا۔پانی سیلاب کی طرح تیزی سے ندی میں بہنے لگا۔بڑھیا اور ریڈبین دونوں بھی گائوں کی جانب بہنے لگے۔
پانی نے انہیں اژدھا دیوتا کے تالاب تک پہنچا دیا۔
’’بڑھیا ! دیکھو اژدھا دیوتا کا تالاب اپنی پہلی حالت میں واپس آگیا۔‘‘
’’ریڈبین ! اس جانب دیکھو، تالاب میں اژدھا دیوتا کا موتی بھی نظر آ رہا ہے۔ دیکھو یہ کتنا چمک رہا ہے۔اژدھے کا موتی سات الگ الگ رنگوں میں چمک رہا تھا۔بڑھیا نے اسے آسمان کی طرف اٹھایا اور ناگ کو آواز دی۔
’’اے ناگ! تمہارا موتی دوبارہ پہلے کی طرح چمکنے لگا ہے۔ایک اچھا اژدھا بن جائو اور ہمیشہ کے لیے اندر چلے جائو۔یہی تمہارا گھر ہے۔‘‘
اتنا سنتے ہی اژدھا کہرے سے باہر نکلا اور اپنے موتی میں چلا گیا۔بڑھیا نے اس موتی کو آہستہ سے تالاب کے گہرے حصے میں رکھ دیا۔اب گائوں کی ہر چیز اپنی پرانی حالت پر لوٹ چکی تھی۔لیکن بڑھیا کے چہرے پر فکر مندی کے آثار نمودارتھے۔
اس نے گائوں والوں سے کہا،’’یہ سب بھیانک واقعات صرف اس لیے ہوئے کہ آپ لوگوں نے تمام درخت کاٹ دیے۔جائو اورابھی دوبارہ پہاڑوں کے دامنوں اور جنگلوں میں درخت لگائو،بالکل اسی طرح جس طرح پہلے تھے۔‘‘
لوگوں نے پہاڑوں کے دامن اور جنگلوں میں بالکل اسی طرح درخت لگا دیے جس طرح کا مشورہ بڑھیا نے دیا تھا۔ہر سال درخت بڑھتے ہی گئے۔جنگل بھی پہلے کی طرح ہوگیا۔ہر چیز اچھی ہوگئی۔ بارش بھی بھرپور ہونے لگی۔اب جب کبھی گائوں کے لوگ جنگلات کی طرف آتے تب وہ گمشدہ ہونے کا بہانہ کرتے اور لمبی زبان والی بڑھیا کی جھونپڑی کی طرف چلے جاتے۔وہ سورج ڈوبنے تک وہیں رہتے اور انتظار کرتے کہ بڑھیا اپنی زبان سے ان کے سروں کو چاٹے گی۔جبکہ ریڈ بین انہیں اب بھی ڈراتا تھا۔ لیکن اب وہ اچھے دوست بن چکے تھے اور خوشی خوشی رہنے لگے تھے۔
——————————————————

انگریزی سے ترجمہ : ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر

مترجم نور الاسلام جونیئر کالج ، گوونڈی ممبئی میں انگریزی کے استاد ہیں

مضمون نگار سے رابطہ:

[email protected]

09987173997