The Great Lord Pabori

Articles

خدائے پابوری

مترجم : حیدر شمسی

ایک مرتبہ کی بات ہے گیدڑ کھانے کی تلاش میں شہر میں داخل ہوگیا۔ایک طرف سے آنے والی مرغیوں کی آوازکو اس نے سنا۔اندھیری رات میں آنے والی اس آواز کی طرف وہ بڑھتا چلا گیا اور اس بات کا خیال رکھا کہ کوئی کتّا اسے دیکھ نہ لے۔اسی راستے میں ایک نیل سے بھرا دھوبی گھاٹ بھی تھا۔ مرغیوں کی آواز نے اسے اپنی گرفت میں لے رکھا تھاجس کی وجہ سے گیدڑ نے گھاٹ کو نہیں دیکھااور سر کے بل اس میں گرگیا۔
پانی کے چھینٹوں کی آوا ز سن کر کتّوں کے کا ن کھڑے ہوگئے۔لیکن جب تک وہ وہاں پہنچتے گیدڑ نے گڑھے سے باہر چھلانگ لگائی اور وہاں سے بھاگ نکلا ۔ اس نے اپنے پیروں پر خوب زور لگایا اور سیدھا جنگل کے کنارے جا کر رکا۔وہاں پہنچ کر اس نے چاروں طرف دیکھا اور اطمینان کی سانس لی کہ کوئی کتا وہاں پر نہیں ہے۔سکون پا لینے کے بعد اس نے اپنے بدن کو دیکھا جو پوری طرح نیلا ہو چکا تھا۔ تھوڑا سا سوچنے کے بعد اسے ایک خیال آیااور وہ جنگل میں چلا گیا۔
تھوڑی دیر یہاں وہاں گھومنے کے بعد اس نے شیر کے غار پر اپنی قسمت آزمانا چاہی۔وہ غار کے باہر جا کر بیٹھ گیا۔اس نے دیکھا کہ اندر شیرنی موجود ہے اسے دیکھ کرگیدڑنے اپنے بالوں کو کھڑا کرلیا اور زور دار آواز میں پوچھا ’’ تم کون ہو؟‘‘ شیرنی نے جواب دیا’’ہم شیر ہیں جنگل کے بادشاہ، تم کون ہو جو اپنی جان گنوا نے کے لیے ہماری غار کے پاس آکربیٹھے ہو؟ اگر تمھیں اپنی جان کی ذرا بھی فکر ہے تو یہاں سے چلے جائوورنہ میرے شوہر کے آنے کے بعد تم اس کے منہ کا نوالا بن جائو گے۔‘‘ گیدڑ نے ڈرائونی آواز میں کہا ’’ میں خدائے پابوری ہوں ،جس کی ایک وقت کی خوراک سات شیروں کابھونا ہوا گوشت ہے!‘‘ آنے دو تمہارے شوہر کو میں اسے بھی بہترین سبق سکھائوں گا!‘‘
ٍ یہ سنتے ہی شیرنی کے دل کی دھڑکن تھم گئی اور وہ ڈر کے مارے غار سے نکل کر گیدڑ سے تھوڑے فاصلے پر سر جھکا کر بیٹھ گئی۔اسی وقت شیر غار پر پہنچا۔شیر نے اپنی پونچھ کو زمین پرزور سے مارا اور گرج دار آواز میں دھاڑا۔ ظالم شیر کو دیکھ کر گیدڑ کی ساری ہمت ختم ہوگئی اور وہ بھاگنے لگا۔
گیدڑ کو بھاگتا ہوا دیکھ کر شیرنی نے کہا’’او ۔۔۔۔۔۔۔۔۔خدائے پابوری اتنی جلدی میں کہاں جارہے ہو۔ رکو ذرا ہماری مہمان نوازی کا مزہ بھی چکھتے جائو۔‘‘
گیدڑ کو بھاگتا دیکھ کر شیر اس کے تعاقب میں لگ گیا۔دونوں بھاگ رہے تھے ۔ گیدڑ آگے آگے اور شیر پیچھے پیچھے۔ شیر نے اپنی رفتار بڑھا دی ۔فاصلہ بہت کم رہ گیا تھا یہ دیکھ کر گیدڑ نے ڈر سے راستہ چھوڑ کر جھاڑیوں کا رُخ کر لیا۔اس نے مورپنکھی کے درخت کے اوپر سے چھلانگ لگائی اور سیل ورٹ کی جھاڑیوں میں جاکرچھپ گیا۔ شیر مسلسل اس کے تعاقب میں لگا رہا۔شیر سے ڈر کر آخر کار گیدڑ نے بندر کی طرح ایک سوکھے ہوئے درخت پر چھلانگ لگائی اور اس کی سوکھی ہوئی ٹہنی پر جاکر بیٹھ گیا۔ شیراب تک اس کا پیچھا کر رہا تھا۔ شیر نے اپنی جسامت کی پرواہ نہیں کی اور پیڑ پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ ایک نوکیلی شاخ کا سرا شیرکولگا جس سے اس کا پیٹ شق ہو گیا۔ یہ منظر دیکھ کر گیدڑ بہت خوش ہوا۔وہ شیرنی کے پاس پہنچا اور کہا’’او ۔۔۔بیوہ شیرنی جائو اور جاکر دیکھو تمہارے شوہر کا کیا حال ہوا ہے۔تو مجھے چڑاتی تھی اور میرا مذاق اڑاتی تھی کہ’’خدائے پابوری، ہماری مہمان نوازی کا بھی مزہ چکھ کے جائو ۔آج سے میں تیرا شوہر ہوں اور تم میری بیوی ۔اگر تجھے کوئی اعتراض ہے تو تیرا و ہی حشر کروں گا جو تیرے شوہر کا کیا ہے۔‘‘ شیر کی موت کی خبر سن کر وہ بھاگتے ہوئے شیر کی لاش کے پاس پہنچی۔ اس نے دیکھا کہ شیر پیڑ کی شاخ پر لٹکا ہوا ہے اورشیر کے خون سے سوکھا ہوادرخت مکمل لال ہوچکا ہے۔وہ یہ منظر دیکھ کر سہم گئی اور واپس لوٹ آئی اور گیدڑ کی بات کو مان لیا اور کہا ’’جناب ۔۔۔۔آج سے آپ میرے شوہر ہیں اور میں آپ کی بیوی ہوں۔آپ جہاں کہیں مجھے لے جانا پسند کریں گے میں وہاں چلوں گی۔‘‘ گیدڑ نے جواب دیا’’ ہم دونوں ایک ساتھ ایک ہی جگہ زندگی بسر نہیـں کرسکتے ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ میں خدائے پابوری ہوں تمام وحشی جانوروں کا خدا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ مجھے شیر کا شکار کرنا بہت پسند ہے۔جدھر بھی مجھے شیر ملتا ہے میں اسے مار کر اپنے منھ کا نوالا بنا لیتا ہوں۔‘‘
شیرنی نے کہا’’او خدائے پابوری آپ مجھ سے جیسا کہو گے میں ویسا ہی کروں گی۔‘‘ لیکن یہ اچھا ہو گا کہ ہم اپنا گھر بسائیں اور ایک ساتھ زندگی بسر کریں۔تھوڑی سی بحث کے بعد گیدڑ نے شیرنی کی بات مان لی اور وہ راضی ہوگیا ۔ دونوں چلے گئے اور جنگل کے پاس انھوں نے ایک غار تلاش کیا اور اسے اپنا گھر بنا لیا۔پھر اس کے بعد گیڈر جب کبھی گھر سے باہر جاتا تو شیرنی کو بھی ساتھ لے جاتا تھا ۔شیرنی ہمیشہ شکار کرتی اور دونوں ساتھ مل کر اپنے شکار کو کھاتے۔
ایک دن شیرنی نے گیدڑ سے کہا ’’میری طبیعت آج ٹھیک نہیں ہے، آج تم اکیلے شکار کر کے لائو۔‘‘ گیدڑ نے جواب دیا’’ جیسی تمہاری مرضی!‘‘ اورسیدھا جنگل کی طرف چلاگیا۔ لیکن اس کا دل گھبرا رہا تھا کہ وہ کس طرح اکیلے شکار کرے۔ جس دوران وہ یہ سوچھ رہا تھا اسے اونٹنی کا ایک غول نظر آیا۔ جیسے ہی گیدڑ نے انھیں دیکھا اسے ایک ترکیب سوجھی اور وہ خوش ہوگیا۔نالے کے پاس جا کر اس نے پیشاب کردیااور اپنی پونچھ سے رگڑ کر وہاں کی زمین کو چکنا بنا دیا۔پھر اس کے بعد وہ اونٹنی کے غول کے پاس بھاگتا ہواگیا اور انھیں ڈرا دیا۔ تمام اونٹنیاں ڈر کے مارے نالے کے سمت بھاگنے لگیں۔ایک کو چھوڑ کرسبھوں نے نالے کو پار کرلیا۔ایک بوڑھی اونٹنی کا پیر چکنی زمین پر پڑا اور وہ سیدھا نالے میں گر گئی۔گیدڑ نے موقع کا فائدہ اُٹھا تے ہوئے فوراََاس پر حملہ کیا اور اپنے دانتوں سے اس کا پیٹ شق کردیا۔اونٹنی تڑپ تڑپ کر مر گئی۔ گیدڑ اونٹنی کے پاس بیٹھ گیا اور سوچنے لگاکہ اتنی بڑھی اونٹنی کو میں کھینچ کر اپنے گھر کیسے لے جائوں۔
شیرنی غار میں اس کا انتظار کر رہی تھی اس نے بڑ بڑاتے ہوئے اپنے آپ سے کہا ’’کیا بات ہوئی ہوگی گیدڑ کے ساتھ جو بے وقوف ابھی تک نہیں آیا؟ــ‘‘ وہ بھی اس کی تلاش میں نکل پڑی اور نالے کے پاس پہنچ گئی۔اس نے دیکھا کہ گیدڑ مری ہوئی اونٹنی کے پاس بیٹھا ہوا ہے۔یہ منظر دیکھ کر شیرنی نے سوچا واقعی گیدڑ بہت بڑا درندہ ہے جس نے اکیلے اتنے بڑے جانور کو مار گرایاہے۔
اس نے گیدڑ سے کہا’’ اب ہمیں اپنے شکار کو گھر لے جانا چاہے۔‘‘ گیدڑ نے کہا ’’بہت اچھا! اب تم آہی گئی ہو تو چلو اپنے شکارکو اٹھا کر گھرلے چلتے ہیں۔‘‘ شیرنی نے اونٹنی کو گھسیٹنا شروع کیا اور اس کے اندر کی انتڑیاں گیدڑ کو اٹھا نے کے لیے چھوڑ دیں۔شیرنی کے جانے کے بعد انتڑیاں اٹھا نے کی اس نے بڑی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکا۔ جب وہ اسے کھینچنے اور اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا وہ تمام اس کے اوپر گر گئی اور وہ اس کے نیچے دب گیا۔
جب بہت وقت بیت گیا اور گیدڑ گھر نہیں پہنچا تو شیرنی واپس اسی جگہ آئی اور اس نے گیدڑ کو تلاش کیا مگر وہ نظر نہیں آیا۔اس کی نظر انتڑیوں پر پڑی اور اس نے اسے ہٹایا اوراس کے اندر سے گیدڑ کود کر باہرنکلااور غصّے سے بولا’’ او بے وقوف عورت کیا تجھے معلوم نہیں کہ میں یہاں کوّں کا شکار کرنے کے لیے چھپ کر بیٹھا ہوا تھا؟ میں نے فیصلہ کیا تھا کہ آج ہم پرندوں کی دعوت کریں گے۔تم نے انھیں اڑا دیا، وہ ڈر گئے اور اب وہ نہیں آئیں گے ۔ لہٰذا سزا کہ طور پر تمھیں یہ انتڑیاں بھی گھر تک لے جانا ہوں گی۔ مجھے جب آنا ہوگا میں گھر آجائوں گا۔‘‘ شیرنی اسے بھی کھینچ کر گھر لے گئی اور فریبی گیدڑ یہاں وہاں گھومتا رہا اور اپنے وقت پر گھر پہنچا۔
ایک دن معمول کے مطابق شیرنی اور گیدڑ گھر سے جنگل کی طرف نکلے، انھوں نے شیروں کے دھاڑنے کی آواز سنی ۔شیرنی نے کہا’’ شیر جشن منارہے ہیں اور ناچ گا رہے ہیں۔‘‘
جب گیدڑ نے سنا تو خوف سے کپکپانے لگا ۔شیرنی نے اس سے پوچھا’’ خدائے پابوری کیا ہوا؟ تم کیوں کپکپا رہے ہو؟ گیدڑ نے یہ سن کرجواب دیاــ’’جب کبھی میں شیر کی دھاڑنے کی آواز سنتا ہوں یا کوئی شیر میرے قبضہ میں آجاتا ہے تو فوراَ َ میرا خون کھول جاتا ہے اورمیں کپکپانے لگتا ہوں۔ یہ تمہارے لیے اچھا ہوگا کہ تم آگے آگے چلواور یہ کہتی رہو۔
’’ تم ناچتے ہو تو تھوڑا فاصلہ برقرار رکھو۔
نہیں تو تم اس کے پنجو ں کے نیچے آجائوگے۔‘‘
گیدڑ کے کہنے پر شیرنی آٹھ دس قدم آگے چلی گئی اور جیسا گیدڑ نے کہا تھا کہنے لگی۔جب وہ شیر کے سامنے آئی تب بھی وہ کہہ رہی تھی کہ:
’’ تم ناچتے ہو تو تھوڑا فاصلہ برقرار رکھو۔
نہیں تو تم اس کے پنجو ں کے نیچے آجائوگے۔‘‘
شیر وں نے شیرنی سے کہا’’تم کون ہو محترمہ ،جو ہمارے جشن کے بیچ میں مداخلت کر رہی ہو۔‘‘
شیرنی نے کہا’’اپنی زبان کو لگام دو! اور دیکھو اس ٹیلے پر جو مخلوق بیٹھی ہے۔‘‘
شیروں نے پوچھا ’’کون ہے وہ؟‘‘
شیرنی نے جوب دیا’’ وہ جو بیٹھا ہے وہ خدائے پابوری ہے۔جس کا ایک وقت کا کھانا سات بھونے ہوئے شیر ہیں۔ میں تمھیں مشورہ دیتی ہوں کہ تم لوگ اپنی جان بچا کر بھاگو یہاں سے ورنہ وہ تم لوگوں کو وہ قتل کر کے پیڑ پر لٹکا دے گا۔اگرتمھیں یقین نہیں آتا تو چلو میرے ساتھ میں تمھیں دکھاتی ہوں۔ـ‘‘ وہ ان لوگوں کو مرے ہوئے شیر کی لاش کے پاس لے گئی۔تمام شیر اس منظر کو دیکھ کر ڈر گئے اور خدائے پابوری کا ڈر ان کے دل میں بیٹھ گیا۔
وہ لوگ گیدڑ سے محفوظ فاصلے پر آکر بیٹھ گئے او راپنے سروں کو جھکا لیااور کہا’’ او، خدائے پابوری ہمیں بخش دو ۔ ہم آپ کے بچوں جیسے ہیں ۔ ہم شادی کی تقریب کا جشن منا رہے تھے۔ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آیئے اور ہمارے جشن میں شامل ہو جائیے ۔ ہمیں امید ہے کہ آپ ہمیں بخش دیں گے اور اپنے بچوں کی طرف سے دی گئی دعوت کو قبول کریں گے ۔پھر اس کے بعدچاہے جو کرنا ہو آپ ہمارے ساتھ وہ کر سکتے ہیں۔سب کے دلوں کی دھڑکن تھم گئی۔ گیدڑ ساکت بیٹھا ہوا تھا اس نے شیر کی دعوت کو قبول کرلیا اور دوڑتا ہوا آیا اور شیر کے جھنڈ کے درمیان میں بیٹھ گیا۔ تمام شیر خوف زدہ ہوگئے اوراپنے گھیرے کو اور وسیع کرلیا اس ڈر سے کہ گیدڑ انھیں مار نہ ڈالے۔
شیروں نے پوچھا’’او خدائے پابوری اگر آپ اجازت دیں توہم گانا بجانا واپس شروع کریں ۔‘‘
گیدڑ نے کہا’’ٹھیک ہے لیکن مجھ سے دور ہو کر ناچنا نہیں تو تم میرے پنجو ں کے نیچے آجائوگے۔‘‘
شیروں نے ناچ دوبارہ شروع کر دیا شیرنی اور گیدڑ بیچ میں بیٹھے دیکھتے رہے۔
گیدڑ ڈرسے سانس بھی نہیں لے پا رہاتھا اور مسلسل چاروں طرف گھور رہا تھا کہ کہیں وہ شیروں کے پنجو ں کے نیچے نہ آجائے۔
ناچتے ناچتے سارے شیرتھک گئے تب انھوں نے گانا شروع کردیا۔ گانا ختم کرنے کے بعد سارے شیر گیدڑ کے پاس گئے اور انھوں نے کہا’’یہ ہمارا رواج ہے کہ ہم شادی کی تقریب میں اپنے مہمان کو بھی اپنے ساتھ ناچ گانے میں شامل کرتے ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ آپ بھی ہمارے ساتھ تھوڑاسا ناچ گا لیجئے۔‘‘
گیدڑ نے منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے اپنے آپ سے کہا’’ اب تو میرا کھیل ختم ،جب میں گائوں گاتب دوسرے گیدڑ بھی میری آواز پر یہاں تک آجائیں گے اور میری شامت آجائے گی۔‘‘ یہ سوچتے ہوئے اس نے شیروں سے کہا ’’ مجھے گاناگانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن میری آواز میں اتنی شدّت اور طاقت ہے کہ یہ سارے درخت اور جھاڑیاں چھوٹے اور بڑے سب کپکپانے لگ جائیں گے اور جڑ سے اکھڑ جائیں گے۔میں مشورہ دوں گا کہ چلو کسی اونچی جگہ یاپہاڑ پر چلتے ہیں تاکہ میں تمہارے خواہش پر عمل کر سکوں۔‘‘
گیدڑ اور تمام شیر پہاڑ پر چڑھ گئے ۔ گیدڑ نے تمام شیروں کو اپنے سے دور ایک جگہ کھڑے ہونے کوکہا اور خود اور اونچائی پر چلا گیا۔وہاں پہنچنے کے بعد اس نے شیروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’میں اب گاناگانے جارہا ہوں۔ آپ سب لوگ اپنی آنکھیں بند کر لیجئے اور درخت کے تنے کو پکڑ کر کھڑے ہو جایئے۔
جیسے ہی شیروں نے اپنی آنکھیں بند کیں اور تنے کو پکڑ کر کھڑے ہوئے انھوں نے گیدڑ کی آواز سنی۔ان لوگوں نے اپنی آنکھیں کھولیں اور اُس فریبی کو دیکھا واقعی وہ گیدڑ تھاجو پہاڑ کی اونچائی پر گا رہا تھا۔سب کو غصّہ آیا کہ ان کے ساتھ ایسا مذاق کیا گیا۔گیڈر نے ان کی خواہش کو پورا کیا اور وہاں سے بھاگ نکلا اور اس نے جھیل میں چھلانگ لگادی ۔اس نے اپنا نیلا رنگ صاف کیاپھر اس نے کبھی کوئی نئی ترکیب نہیں سوچی۔
٭٭٭

اردو چینل ڈاٹ اِن کے لیے اس سندھی لوک کہانی کا حیدر شمسی نے انگریزی سےترجمہ کیا ہے۔