Gujrati Story by Greesh Bapat

Articles

وہ اب ہجوم کا حصہ نہیں ہے

گریش بھٹ

 

دوپہر کی نا قابل برداشت گرمی۔ چا چا کی دوکان تنگ اور لمبی تھی ۔ اس لیے وہاں گرمی کا احساس زیادہ ہو رہا تھا ۔ دوپہر ہونے کی بنا پر گاہک بھی کم تھے ۔ مگر مالتی کو یہ وقت بے حد پسند تھا ۔ اس وقت وہ بڑے اطمینان سے اپنی کتابیں تلاش کر سکتی تھی ۔ پڑھ سکتی تھی۔ کتب فروش سلمان چا چا سے مالتی بخوبی واقف تھی ۔ سلمان چا چا بھی اس کے مطالعے کے شوق اور کتابوں کی خریداری سے واقفیت رکھتے تھے ۔ وہ سلمان چاچا کی دوکان میںآکر اپنے آپ کو بھول جاتی تھی کیوں کہ وہاں نایاب اور کمیاب کتابوں کا ذخیرہ تھا ۔
شوق بے شمار ہوتے ہیں ۔ مگر مالتی کی دنیا تو یہی تھی ۔ اس کی ممی اس شوق سے فکر مند رہتی تھیں اور سوچتی تھیں کہ یہ لڑکی بے کار میںاتنا پڑھ کرکیا کرے گی ؟ بڑی عجیب لڑکی ہے ۔ مطالعے کے علاوہ دوسرا کوئی شوق ہی نہیں ۔
ممی کی سوچ درست بھی تھی ۔ بیس برس کی دوشیزہ کے کئی شوق ہوتے ہیں ۔ نئے نئے لبا س سلوانے کا شوق، سیر و تفریح، پرفیوم، سنیما، ہیروئن بننے یا پھر بوائے فرینڈ کا شوق، مگر مالتی کے پاس ان فضول باتوں کے لیے کوئی وقت نہیں تھا ۔ اس کے لیے تو صرف اور صرف کتابیں ہی سب کچھ ہیں ۔
سلمان چاچا دل ہی دل میں سوچتے رہتے کہ یہ لڑکی آخر ڈھیر ساری کتابوں کا کیا کرتی ہے ؟ وہ جب بھی چا چا کی دوکان پر آتی ان کی دو چار بوسیدہ اور ردی کی کتابوں کا وزن کم ہو جاتا ۔ وہ کتابوں کی قیمت ادا کرتے ہوئے کہتی ’’ چا چا وقت نکال کر پھر آؤں گی ۔‘‘ اور چا چا اسے حیرت سے دیکھتے رہ جاتے ۔
مالتی اس روز چا چا کے خزانے میں کتابیں تلاش کر رہی تھی ۔ پسینے سے اس کا بدن شرابور ہوا جارہا تھا ، مگر کام ابھی پورا نہیں ہوا تھا ۔ صرف ایک کتاب کا پہلا حصہ ہی دستیاب ہوا تھا اور ایک حصہ دستیاب ہونے کے بعد دوسرا حصہ تلاش کرنا ضروری تھا ورنہ اس قدر محنت اکارت جاتی ۔ اپنی تلاش میں مگن مالتی کو دیکھ کر چا چانے پوچھا’’کیوں بھئی ، کیا تمہیں اپنی پسند کی کتاب مل گئی ؟‘‘
’’ چا چا ، آج تو کتابیں لے کر ہی گھر جاؤں گی ، بھلے ہی شام کیوں نہ ہو جائے ‘‘ پسینہ پونچھتے ہوئے مالتی نے کہا ۔
’’ بیٹی، کتابیں مل جائیں گی ۔‘‘ یہ کہہ کر چا چا اپنے دوسرے کام میں مصروف ہو گئے ۔
شام ہوئی ۔ گرمی کی شدت کم ہوئی تو گاہکوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ۔ مالتی اب مایوس ہونے لگی تھی کہ آخر اس کی پسندیدہ کتاب کا دوسرا حصہ کہاں کھو گیا !
ٹھیک اسی وقت ’’ مارو…… کاٹو… مارو … کا شور بلند ہوا ۔
مالتی نے بھی چیخیں سنی۔ چیخیں سن کر وہ چوک اٹھی ۔ مگر یہ سب کیا ہو رہا ہے ، اس کا خیال اسے کچھ دیر بعد آیا ۔ تبھی اسے کتاب کا دوسرا حصہ بھی مل گیا ۔ دوسرا حصہ ملنے پر وہ بہت خوش ہوئی ۔ اس نے پھر بھی کتاب کے چند اوراق الٹ پلٹ کر دیکھے ۔ اس کی سماعت سے شور دوبارہ ٹکرایا ۔ اسے خیال آیا کہ یہ فرقہ وارانہ فساد تو نہیں ؟ اس نے اپنی کلائی میں بندھی گھڑی میں دیکھنا چاہا کہ سلمان چاچا اس کے قریب آئے اور گھبرائے ہوئے انداز میں بولے ۔’’ بیٹی فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا ہے … چلو میرے ساتھ پیچھے کے دروازے سے ……‘‘
چا چا کی آواز میں گھبراہٹ تھی ۔ انھوں نے فوراً دوکان کا دروازہ بند کیا اور پیچھے کی بند کھڑکی کھولی ۔ سوچنے کا وقت کہاں تھا ۔ وہ چا چا کے ساتھ پچھلی گلی میں آئی ۔ دونوں گلی کے آگے بڑھے ۔ دیکھا تو سامنے شر پسندوں کا ہجوم ہے ’مارو… کاٹو…مارو… ‘‘ کی آوازیں گونج رہی ہیں ۔ مالتی اور چا چا گلی پار کر کے جلدی سے گھر پہنچے ۔ مالتی کو اب تک یہ احساس ہو چکا تھا کہ یہ کس کا محلہ ہے ۔ اسے کئی نظریں ایک ساتھ گھو رہی تھیں ۔ کچھ نظروں میں تجسس تھا تو کچھ میں نفرت۔
مالتی کے آنے سے چا چا کا مکان آباد ہو گیا ۔ مکان میں دو خواتین تھیں ۔ ایک عمر دراز اور دوسری اس کی ہم عمر ۔ دونوں اسے حیرت و استعجاب سے دیکھنے لگیں ۔ مالتی کو اطمینان تھا کہ چا چا تو ا س کے ساتھ ہیں ہی ۔
’’فساد بھڑک اٹھا ؟‘‘ عمر دراز عورت نے پوچھا۔
’’ ہاں … مگر اس بار بڑے پیمانے پہ فساد بھڑک اٹھا ہے ۔‘‘ چا چا نے جواب دیا ۔
انھیں گھر کے اندر ہی طرح طرح کی چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ ہوا میں بدبو تھی ۔
’’آمنہ ، اب مالتی بھی ہمارے ساتھ ہی رہے گی ۔ ابھی تم اسے اندر کے کمرے میں لے جاؤ ۔ تاکہ کسی کو بھی اس کی بھنک نہ لگے ۔ طوفان تھمتے ہی میں خود اسے لے جا کر اس کے والد کو بہ حفاظت سونپ آؤں گا ۔‘‘چا چا نے وضاحت کی ۔
گھر کے اندر تہہ خانے کی طرح چھوٹا سا ایک کمرہ تھا ۔ اس کمرے میں گھر کا کباڑ پڑا ہوا تھا ۔ آمنہ مالتی کو اس تہہ خانے تک لے آئی ۔’’ جب تک ابّا ہیں تب تک کوئی فکر کی بات نہیں ۔‘‘ یہ کہہ کر آمنہ تہہ خانے سے فوراً باہر نکل گئی ۔
مالتی نے سوچا کہ وہ تہہ خانے سے باہر نکل جائے کیوں کہ وہاں بیٹھنے تک کے لیے جگہ نہیں تھی۔ وہاں ہلکا سا اجالا تو تھا مگر کباڑ کی بو نا قابلِ برداشت تھی ۔ پھر اس نے سوچا کہ اب اس کے پاس اس کے علاوہ دوسرا متبادل ہی کیا ہے ؟ چا چا نے بھی اسے بلا سبب ہی اس جگہ نہیں چھپایا ہے ۔ آخر کار وہ وہیں خالی فرش پر بیٹھ گئی ۔ رکے ہوئے آنسو اچانک اس کے رخساروں کو بھگونے لگے ۔ اسے راہل، ممی، پاپا وغیرہ یاد آنے لگے ۔ وہ سبھی اس وقت کیا کر رہے ہوں گے ؟ وہ کسی کو بھی کچھ بتا کر نہیں آئی تھی ۔
اسی دوران چا چا تہہ خانے میں آئے اور بولے ’’ بیٹی گھر کا فون نمبر بتاؤ۔‘‘
اس نے فوراً اپنے گھر کا فون نمبر بتایا ۔ من کچھ ہلکا ہوا ۔ وقت آہستہ آہستہ گذرنے لگا اور باقی ماندہ اجالا بھی سمٹ گیا ۔ رات ڈھلنے لگی ۔
آمنہ آئی اور بولی ۔’’ کیا کوئی دوسرا نمبر بھی ہے ؟ تم نے جو نمبر دیا ہے وہ توڈیڈ ہے ۔‘‘
ہاں… اسے خیال آیا کہ گھر کا فون تو ڈیڈ ہی ہے ۔
مالتی اپنے ذہن پر زور دے رہی تھی کہ کسی کی دھمکی سنائی پڑی ۔’’ چا چا تم جو کررہے ہو ، یہ ٹھیک نہیں ہے ۔‘‘ آمنہ فوراً وہاں سے دوڑ پڑی ۔ وہ یوسف کو اچھی طرح جانتی تھی ۔
’’ کیوں یوسف کیا بات ہے ؟‘‘ چا چا کی آواز گونجی ۔ وہ بھی یوسف کو اچھی طرح جانتے تھے ۔ پہچانتے تھے ۔ یوسف ان کی گود میں ہی تو بڑا ہوا تھا اس سے ڈر کیسا ؟
’’ چا چا آپ مجھے وہ لڑکی سونپ دیجئے۔‘‘ یوسف کی آواز گونجی ۔ مالتی یہ سن کر کانپنے لگی ۔ یوسف کی بات سن کر چا چا کو دکھ ہوا ۔ آمنہ چونکی اور اس کی امّی بہت گھبرائی ۔
یوسف کیوں ، کیا ترا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا ہے ؟ کیابکواس کر رہا ہے !‘‘ چا چا نے گرجدا ر آواز میں کہا ۔
’’ چا چا سیدھی سی بات ہے کہ آپ اس ہندو لڑکی کو ہمیں سونپ دیں ۔‘‘ یوسف کی آواز مالتی کی سماعت سے ٹکرائی ۔
’’ چلتا بن یہاں سے ۔ تو یہاں سے نکل جا ۔ لگتا ہے تجھے کسی نے ورغلایا ہے ۔‘‘ اتنا کہہ کر چاچانے یوسف کو دروازے کی جانب دھکیلا ۔ یوسف وہاں سے چلا گیا ۔ اب چا چا بندگی کے لہجے میں بد بدایا۔
’’ اے خدا ، کیسا وقت آگیا ہے ؟‘‘
آمنہ دوڑ کر مالتی کے پاس آئی اور اس کے سامنے زمین پر بیٹھ گئی پھر بولی ’ مالتی مت گھبراؤ ۔ ابھی جو آیا تھا نا وہ یوسف ہے ۔ وہ ہمارے پڑوس میں ہی رہتا ہے ۔ ویسے تو اچھا لڑکا ہے ۔ بڑے مزے کی ایسی میٹھی باتیں کرتا ہے کہ سن کر ہنسی آجائے ، دل باغ باغ ہو جائے ۔ یوسف ابا کی بات کو ٹال نہیں سکتا ۔ آمنہ نے مالتی کے شانے کو چھوا ۔ مالتی جوں ہی مسکرائی آمنہ بھی مسکرا اٹھی۔
مالتی کو ایسا محسوس ہوا کہ آمنہ یوسف سے متعلق ہمدردی کا جذبہ رکھتی ہے ۔ پھر بھی وہ دل ہی دل میں یوسف سے خوفزدہ تھی ۔ اس کا دل نفرت سے بھرا ٹھا ۔ وہ اسے ہی کیوں پسند کرتا ہے ؟ جب کہ آمنہ مجھ سے بھی زیادہ خوبصورت ہے ۔
نہیں ، اس کا سبب دوسرا ہے …… سبب… سبب یہ ہے کہ وہ……
مالتی کانپ اٹھی ۔ اف ، کس قدر ذلالت ؟ اس کا دل چاہا کہ وہ خوب چیخے مگر وہ ایسا نہ کر سکی ۔ یوسف جا چکا تھا ۔ مالتی نے آمنہ سے پانی مانگا ۔ اسے لگا کہ اب رات ہو گئی ہے ۔
دوڑتے ہجوم کی چیخیں سنائی دے رہی تھیں ۔ یہ لوگ کہاں جا رہے ہوں گے ؟ کس کو پکڑنے کے لیے ؟ کس کو جلانے کے لیے؟ یا … اگر چا چا نہیںہوتے تو نہ جانے وہ کہاں ہوتی ؟ کسی مشتعل بھیڑکا شکا ر یا …… اسے یوسف یاد آیا ۔ جب کہ مالتی نے یوسف کی شکل تک نہیں دیکھی تھی ۔ اس نے اب تک صرف اس کی آواز ہی سنی تھی اور آواز میں کتنی نفر ت تھی ۔ کیا آدمی ایسا بھی ہو سکتا ہے ؟ یہ بھی ممکن ہے کہ ہجوم میں آدمی آدمی نہیں رہتا ۔ پھر بھی آمنہ اس کی تعریف کر رہی تھی ۔ ممکن ہے کہ یوسف میٹھی باتیں کر کے آمنہ کو خوش رکھنا چاہتا ہو ۔
ٹھیک اسی وقت دروازے پر دوبارہ دستک ہوئی ۔ مالتی دروازے سے لگ کر بیٹھ گئی ۔ اور سوچنے لگی کہ کہیں وہی تو نہیں ……؟
اس بار بھی یوسف ہی تھا ، مگر اس باروہ اکیلا نہیں تھا ۔ اس کے ساتھ اس کے ہم عمر تین نوجوان تھے ۔’’ چا چا ، کیا سوچا ہے ؟‘‘ یوسف کے ساتھ آنے والے ایک نوجوان نے بات دوہرائی ۔
’’ کس کے بارے میں ! یوسف تو پھر آگیا ؟‘‘ چا چا کی آواز میں خوف تھا کیوں کہ اس بار یوسف اکیلا نہیں تھا ۔
’’ چا چا ‘‘ آپ اس لڑکی کو ہمارے حوالے کردیں ، ہمیں کچھ بھی نہیں سننا ہے ۔‘‘ اس بار آواز زیادہ اونچی تھی ۔
’’ یہ ممکن نہیں ہے ۔‘‘ چا چا نے بڑے اعتماد کے ساتھ کہا ۔
’’ چا چا ، ہم لوگ نا سننے کے لیے نہیں آئے ؟‘‘ یوسف نے کڑک کر کہا ۔ نوجوانوں کی وجہ سے اس کی ہمت بڑھ گئی تھی ۔ مالتی یوسف کی آواز سنتے ہی ساکت ہو گئی ۔ اسے لگا کہ اب اسے کسی بھی وقت غنڈوں کے حوالے کیا جا سکتا ہے ۔ آخر ضعیف چا چا کی بساط ہی کیا ہے؟ وہ بے حس و حرکت فرش پر پڑی رہی ۔ ممی ، پا پا اس کی نظروں میں تیرنے لگے ۔ وہ کتابیں خریدنے ہی کیوں آئی ؟
تم لوگ اپنے آپ کو سمجھتے کیاہو ؟ بڑے بزرگوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتے ہیں ؟ چا چا چیخ پڑے ۔
اسی دوران یوسف کی امی نور بانو وہاں آئی ۔ وہ رو رہی تھی ۔ اس نے ایک ہاتھ اٹھا کر چا چا کو سلام کیا ۔ احتراماً جھکی اور بولی ’ چا چا ، میری شبنم اب تک گھر نہیں آئی ہے ۔ دوپہر سے ہی ڈریس خریدنے گئی ہے …… کیا ہوا ہوگا ؟‘‘ نور بانو کی آواز لرز رہی تھی۔
’’ شبنم ڈریس لینے کہاں گئی تھی ؟‘‘ چا چا نے پوچھا ۔
چا چا، ندی کے اس پار کے بازو کے بازار میں ۔ شبنم ہمیشہ وہاں جاتی رہتی ہے ۔ ویسے فکر کی کوئی بات نہیں تھی ، مگر آج تو طوفان برپا ہے ۔ سارا شہر جل رہا ہے ۔‘‘ ایک ماں نے اپنے دل کی عکاسی کی ۔
’’ یوسف!‘‘ اس نے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا ۔
نور بانو ! میں خود یوسف کے ساتھ شبنم کو ڈھونڈنے جاؤں گا ۔ تم بالکل فکر مت کرو۔‘‘ اتنا کہہ کر چا چا نے اپنی بیوی کی جانب دیکھا ۔ یوسف کے ساتھ آئے ہوئے نوجوان موقع پا کر وہاں سے غائب ہو گئے۔ اب یوسف کی حالت قابلِ رحم تھی۔ اسی وقت فون کی گھنٹی بج اٹھی ۔ چا چا نے ریسیور اٹھا کر کان سے لگایا ، ’ ہیلو!، کیا بک اسٹال والے سلمان چا چا ہی بول رہے ہیں ؟ میں سی جی روڈ سے نریندر راول بول رہا ہوں ۔ آپ کے پڑوس میں نور بی بی رہتی ہیں ، ان کی بیٹی شبنم… ٹھیک ۔ ان سے کہنا کہ فکر نہ کریں ۔ ان کی شبنم ہمارے گھر میں محفوظ ہے ۔وہ مزے میں ہے … لیجئے … آپ خود شبنم سے بات کر لیجئے ۔‘‘
یہ سنتے ہی ماحول تبدیل ہو گیا ۔
شبنم بولی ’’ یوسف بھیا‘ میں دنگے میں پھنس گئی تھی ۔ مگر نریندر انکل نے مجھے بچا لیا ۔ میری بالکل فکر مت کرنا۔ امن و امان ہونے پر انکل مجھے گھر چھوڑ دیں گے ۔‘‘
ساری تفصیل جان لینے کے بعد نور بی بی کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو چھلک آئے اور یوسف سر جھکائے چا چا کے پاس کھڑا ہو گیا ۔
اب یوسف مشتعل ہجوم کا حصہ نہیں تھا ۔


ترجمہ: قاسم ندیم
گجراتی کہانی