Hijrat E Nabwi ke Nataej

Articles

ہجرتِ نبوی کے نتائج

ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر

امت مسلمہ کے تمام محدثیں، مفسرین، علما اور فقہا نے بالاتفاق اور علی الإعلان اس بات کا اظہار کیا ہے کہ

 اصح الکتب بعدِ کتابِ اللہ الصحیح البخاری

 اسی بخاری شریف کی پہلی حدیث موضوعِ کا احاطہ کرنے میں معاون و مددگار ہے۔ اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے کہ

          اعمال کا دارومدار نیتوں ہی پر ہے۔ اور ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی۔ پس جس کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی جانب ہے تو اس کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ ہی کی جانب ہے۔ اور جس کی ہجرت دنیا کے لیے ہے کہ اسے کمائے یا عورت کے لیے ہے کہ اس سے نکاح کرے تو اس کی ہجرت انہی کی جانب ہے

یہ چھوٹی سی حدیث بے شمار راز ہائے سربستہ سے پردہ اٹھاتی ہے۔ ہجرت اور اس کی روح کو سمجھاتی ہے۔ نیرنگیئ حیات میں نیت و اخلاص کا پتہ دیتی ہے۔ یہ حدیث حبِّ رسول اوراطاعت باریِ تعالیٰ کا سرچشمہ ہے۔ اسی حدیث سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ معاش و معیشت کے لیے کی جانے والی ہجرت کس شمار و قطار میں ہے اور خدا اور محبوبِ خدا کے حکم پر کی جانے والی ہجرت کے نتائج کیا ہوتے ہیں۔        

          ہجرتِ نبویﷺ اسلامی تاریخ کا محیر العقول واقعہ، اہم ترین موڑ اور عظیم تر اسلامی انقلاب کا سرچشمہ ہے۔ اسی طرح سیاسی، اقتصادی، آفاقی، معاشی اور معاشرتی امن و سکون کا منبع ہے۔ یقینا نبی کریم سے پہلے بھی نبیوں نے اپنے اپنے شہروں کو خیرباد کہا تھا لیکن  ہجرت نبوی عام ہجرتوں سے بالکل الگ نوعیت کی ہجرت تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت آرام وراحت کے حصول کے لیے نہیں تھی اورنہ ہی آپ کا مقصد طلبِ شہرت، حصولِ جاہ ومنصب اور حبِّ سلطنت تھا۔۔خوداشرافِ قریش آپ کو حاکم بنانے اور آپ کے قدموں تلے مال وزر کے ڈھیر بچھانے لیے تیار تھے، لیکن آپ کا مقصد اُس سے حد درجہ اعلی وارفع تھا، إسی لیے جب آپ کے چچاابوطالب نے آپ کے پاس آکر اُن کے معبودوں سے تعرض نہ کرنے کی گزارش کی توآپ نے عزم وہمت کا پیکر بن کرکہا:

چچا جان! بخدا اگر وہ ہمارے دائیں ہاتھ میں سورج اوربائیں ہاتھ میں چاند بھی لاکر رکھ دیں پھربھی میں اس کام کو ہرگز نہیں چھوڑ سکتا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اِسے غالب کردے یا اس راہ میں اپنی جان دے دوں۔      

          اسی توکل اور بھروسے پر آپﷺ نے ہجرت کی اور پھر تاریخ عالم نے دیکھا کہ کس طرح عرب کے ریگستانوں سے افریقہ کے چٹیل میدانوں تک، نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر، انجمِ کم ضو اور کجرو گرفتارِ طلسمِ ماہتاب ہوتے چلے گئے۔ دنیا نے دیکھا کہ جب  بامِ گردوں سے احکامِ خداوندی کے ساتھ جبینِ جبرئیل نمودار ہوئی تب ساقئی کوثر نے اپنے نالہ شبگیر اور حکمت و تدبیر سے کفر و الحاد اور دہریت و ارتداد کا قلع قمع کرتے ہوئے عظیم اسلامی سلطنت کی داغ بیل ڈالی۔ بقول شاعر

یوں ہی نہیں یہ برگ و ثمر لہلائیں ہیں

پیڑوں نے موسموں کے بہت دکھ اٹھائے ہیں

          یہ ہجرت کی عظمت کا اعلان ہی ہے کہ قرآن حکیم میں کئی جگہوں پر اس کا تذکرہ کیا گیا ہے مثلا سورہ انفال آیت نمبر 30، سورہ بقرہ آیت نمبر 207، سورہ یسین آیت نمبر 9، سورہ توبہ آیت نمبر 40، سورہ نسا آیت نمبر 97 وغیرہ

          ہجرت کے نتائج کا بغور و غایت مطالعہ نہیں صرف سرسری ہی نظر ڈالیں تو یہ بات ہمیں روزِ روشن کی طرح عیاں نظر آئے گی کہ 9 ستمبر 622 ء سے شروع ہوکر 14 اکتوبر 622 ء پر ختم ہونے والے اس 26 روزہ سفرِ ہجرت نے نوع انسانی کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ عالمِ انسانیت کو ایک نیا رخ عطا کیا۔ ناقابلِ تسخیر قیصر و کسریٰ کو تاراج کرتے ہوئے اسلامی تمدن کی بنیاد رکھی، مال و دولت کی چاہت کو ختم کرتے ہوئے ایثار و قربانی کے جذبے کو فروغ دیا۔ جوانمردی، عزم و استقلال اور ہمت کی داستانیں رقم کیں۔عربی و عجمی، رنگ و نسل، خاک و خون کے امتیاز کو ختم کیا،پاکبازی، ایمانداری اور دیانتداری کو اعلیٰ ترین اقدار قرار دیا۔ گمرہی، ضلالت، شراب نوشی، قمار بازی، توہم پرستی، حقوق کی پامالی، ظلم و استبداد اور معاشی استحصال کا قلع قمع کرتے ہوئے انسان کو “ولقد کرمنا بنی آدم” کے اعزاز سے سرفراز کیا،اطمینانِ قلب سے محروم ذہنی اور فکری سطح پر مضطرب اہلِ عرب کے سامنے ایمان و یقین کی مشعلیں روشن کیں، مستحقین کو امداد فراہم کی، غریبوں، نادروں اور بے کسوں کی خبر گیری کی، بیواؤں کی دادرسی کی، بے گھروں کو گھر عطا کیے، یتیموں کو کے سر پر دستِ شفقت رکھا، انصار و مہاجرین کے دلوں میں الفت و محبت ڈال کر اخوت و مودّت کا بے حد مستحکم اور اٹوٹ رشتہ قائم کیا۔ دینی، مذہبی، اخلاقی، سیاسی، سماجی،  غرض کہ زندگی کے ہر شعبہ میں فلاح و کامیابی کے جامع اور رہنما اصول وضع کیے، دین و دنیا،دونوں جہان میں کامیابی و کامرانی کے گر سکھلائے سیاسی تدبیر و حکمت اورتنظیم سے صالح معاشرے اور اسلامی سیاست کی بنیاد رکھی سیاست اور دین کو لازم و ملزوم رکھا یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال کو بھی کہنا پڑا کہ

جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

          حضورﷺ کی ہجرت کے آثار ونتائج صرف اورصرف عرب کی تپتی ہوئی ریت ہی تک محدود نہیں تھے بلکہ ہجرت کے سبب کاروانِ بشریت و انسانیت، بت پرستی اور جہالت کی تاریکیوں سے نکل کر علم اور توحید پرستی کی طرف گامزن ہوگئے۔ حضورﷺ کے ہجرت نے  انفرادی،اجتماعی اخلاقی قدروں سے ناآشنا اہلِ مدینہ کے ہاتھوں میں علم وتوحید کا پرچم دے کراخلاق و آداب سے آشنا ایک نئے اسلامی معاشرے کی داغ بیل ڈالی۔ مدینے میں پہلی باراسلامی حکومت کا سنگِ بنیاد رکھا۔ ہجرت سے قبل سر زمین عرب میں اسلامی حکومت اورسیاسی نظام سیاسی کا وجود نہیں تھا، خاندانی اورقبائلی جنگیں سالہا سال جاری رہا کرتی تھیں۔ لیکن حضور ﷺ کی تشریف آوری پر تمام مشکلات،اور جنگوں کا خاتمہ ہوگیا اور اسلام دھیرے دھیرے پوری دنیا میں پھیلتا چلا گیا گیا۔

          ہجرت کا واقعہ ہمیں درس دیتا ہے کہ مال و دولت، عزت و شرف،جاہ و حشمت، زمین و جائداد، اہل و اعیال اور رشتے ناطے بوقتِ ضرورت دین و ایمان کی حفاظت کے لیے قربان کیے جا سکتے ہیں۔ اوس و خزرج کی طرح سالہا سال کے دشمنی بھلا کر باہم شیر و شکر رہا جاسکتا ہے۔ کوشش، تدبیر، محنت، حکمت، عزم، حوصلے اور ہمت سے مقصد کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔

          اگر یہ کہا جائے تو بے جان نہ ہوگا کہ اس دنیائے آب و گِل نے اعتماد و یقین اور تدبیر و حکمت کے روپ میں ہجرت کے دو بڑے نتائج دیکھے۔ مکہ میں اخلاق حسنہ کا فراخ دلی کے سا تھ مظاہرہ کرنے کے باوجو آپ کو دارِارقم میں پو شیدہ طو ر پر ”تعلیم ِدین“کا کا م کرنا پڑتاتھا، نما زیں خفیہ طور ادا کرنی پڑتی تھیں لیکن ہجرت نے وہ اعتماد بحال کیا کہ مغلوبیت غالبیت میں تبدیل ہو گئی، اسلامی احکام نافذ ہوئے، اس طرح کے بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ اعتماد و یقین اور تدبیر و حکمت کو ہجرت کا واقعے سے بہ آسانی سمجھا جا سکتا۔  بیعتِ عقبہ ثانیہ میں اہلِ مدینہ کو دولتِ اسلامیہ کے قیام پر آمادہ کرنا، اُنہی میں سے 12 آدمیوں کو ان کا نقیب بنا کر حضرتِ عیسی کے حوارین کا ہم پلہ قرار دینا، صحابہ کرام کو پہلے مدینہ روانہ کردینا،خود بعد میں ہجرت کرنا، سواریوں کو کئی ماہ پہلے سے تیار رکھنا، رہبر کا انتظام کرنا، اپنے بستر پر حضرت علی کو سونے کی تلقین کرنا، غارِ ثور میں قیام کرنا یہ تدبیر و حکمت یا دانائی نہیں تو اور کیا ہے۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں.لیکن افسوس ہوتا ہے کہ آج ہم نے ہجرت کی روح کو فراموش کردیا، اس کے نتائج سے روگردانی کی، اس کے پیغام کو اپنی زندگیوں سے غائب کردیا، انصار و مہاجرین سا رویہ تو درکنار ہمارے اپنے گھروں میں  تعلقات کا بگاڑ بامِ عروج پر پہنچا ہوا ہے۔ ہم محنت سے کوسوں دور لیکن گلی کوچے ہم سے آباد، محنت کے نام پر ہاتھ پر ہاتھ دھرے ہوئے ہم لیکن بازاروں کی رونق بھی ہم سے۔۔۔۔کاش کے ہم ذرا ہجرت کے نتائج اور اس کے تقاضوں پر بھی غور کرلیتے!

 سورہ نسا کی آیت نمبر 100 میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ

”اورجو کوئی اللہ کی راہ میں اپنے وطن کو خیرباد کہہ دے وہ زمین میں رہنے کی بہت جگہ اورروزی میں کشادگی پائیگا“

ہم کہہ سکتے ہیں کہ  جوشخص اللہ کی خاطر کوئی چیزچھوڑدیتاہے اللہ تعالی اسے اُس سے بہترچیز عنایت کرتا ہے،مہاجرین کی مثال ہمارے سامنے ہے،جب صحابہ کرام نے اپنے گھربار،اپنے اہل وعیال اوراپنے مال ودولت کوخیربادکہہ کر مدینہ کی طرف ہجرت کی تواللہ تعالی نے رزمینِ عرب کو ان کے لیے مسخر کردیا،انہیں شام، ایران اوریمن کے خزانوں کی چابیاں عطا فرمادیں،اورقیصروکسراکے خزانے ان کے قدموں میں لا کر ڈال دیے۔کیا ہجرت کے نتائج سمجھنے کے لیے اتنا کافی نہیں؟

……. مضمون نگار اردو کے ممتاز شاعر اور ترجمہ نگار ہیں