Intekhab E Kalam Ashraf Ali FughaN

Articles

اشرف علی فغاں


انتخابِ کلام اشرف علی فغاں

 

ڈرتا ہوں محبت میں مرا نام نہ ہووے

دنیا میں الٰہی کوئی بدنام نہ ہووے

شمشیر کوئی تیز سی لینا مرے قاتل

ایسی نہ لگانا کہ مرا کام نہ ہووے

گر صبح کو میں چاک گریبان دکھاؤں

اے زندہ دلاں حشر تلک شام نہ ہووے

آتا ہے مری خاک پہ ہم راہ رقیباں

یعنی مجھے تربت میں بھی آرام نہ ہووے

جی دیتا ہے بوسہ کی توقع پہ فغاںؔ تو

ٹک دیکھ لے سودا یہ ترا خام نہ ہووے

٭٭٭

ہرگز مرا وحشی نہ ہوا رام کسی کا

وہ صبح کو ہے یار مرا شام کسی کا

اس ہستئ موہوم میں ہرگز نہ کھلی چشم

معلوم کسی کو نہیں انجام کسی کا

اتنا کوئی کہہ دے کہ مرا یار کہاں ہے

باللہ میں لینے کا نہیں نام کسی کا

ہونے دے مرا چاک گریباں مرے ناصح

نکلے مرے ہاتھوں سے بھلا کام کسی کا

٭٭٭

حیف دل میں ترے وفا نہ ہوئی

کیوں تری چشم میں حیا نہ ہوئی

یار نے نامہ بر سے خط نہ لیا

میری خاطر عزیز کیا نہ ہوئی

رہ گیا دور تیرے کوچہ سے

خاک بھی میری پیش پا نہ ہوئی

کٹ گئی عمر میری غفلت میں

کچھ تری بندگی ادا نہ ہوئی

دود دل تیری زلف تک پہنچے

آہ یاں تک مری رسا نہ ہوئی

چشم خوں خوار سے فغاںؔ دیکھا

دل بیمار کو شفا نہ ہوئی

٭٭٭

دیکھیے خاک میں مجنوں کی اثر ہے کہ نہیں

دشت میں ناقۂ لیلیٰ کا گزر ہے کہ نہیں

وا اگر چشم نہ ہو اس کو نہ کہنا پی اشک

یہ خدا جانے صدف بیچ گہر ہے کہ نہیں

ایک نے مجھ کو ترے در کے اپر دیکھ کہا

غیر اس در کے تجھے اور بھی در ہے کہ نہیں

آخر اس منزل ہستی سے سفر کرنا ہے

اے مسافر تجھے چلنے کی خبر ہے کہ نہیں

توشۂ راہ سبھی ہم سفراں رکھتے ہیں

تیرے دامن میں فغاںؔ لخت جگر ہے کہ نہیں

٭٭٭

اے تجلی کیا ہوا شیوہ تری تکرار کا

مر گیا آخر کو یہ طالب ترے دیدار کا

کیا بنائے خانۂ عشاق بے بنیاد ہے

ڈھل گیا سر سے مرے سایہ تری دیوار کا

روز بہ ہوتا نظر آتا نہیں یہ زخم دل

دیکھیے کیا ہو خدا حافظ ہے اس بیمار کا

نو ملازم لعل لب کو لے گئے تنخواہ میں

بے طلب رہتا ہے یہ نوکر تری سرکار کا

دیکھ نئیں سکتا فغاںؔ شادی دل آفت طلب

یہ کہاں سے ہو گیا مالک مرے گھر بار کا

٭٭٭