Intekhab E Kalam Asrarul Haq Mjaz Luckhnavi

Articles

اسرارالحق مجازلکھنوی


انتخابِ کلام اسرارالحق مجازلکھنوی

 

کچھ تجھ کو خبر ہے ہم کیا کیا اے شورش دوراں بھول گئے

وہ زلف پریشاں بھول گئے وہ دیدۂ گریاں بھول گئے

اے شوق نظارہ کیا کہئے نظروں میں کوئی صورت ہی نہیں

اے ذوق تصور کیا کیجے ہم صورت جاناں بھول گئے

اب گل سے نظر ملتی ہی نہیں اب دل کی کلی کھلتی ہی نہیں

اے فصل بہاراں رخصت ہو ہم لطف بہاراں بھول گئے

سب کا تو مداوا کر ڈالا اپنا ہی مداوا کر نہ سکے

سب کے تو گریباں سی ڈالے اپنا ہی گریباں بھول گئے

یہ اپنی وفا کا عالم ہے اب ان کی جفا کو کیا کہئے

اک نشتر زہر آگیں رکھ کر نزدیک رگ جاں بھول گئے


تسکین دل محزوں نہ ہوئی وہ سعئ کرم فرما بھی گئے

اس سعئ کرم کو کیا کہیے بہلا بھی گئے تڑپا بھی گئے

ہم عرض وفا بھی کر نہ سکے کچھ کہہ نہ سکے کچھ سن نہ سکے

یاں ہم نے زباں ہی کھولی تھی واں آنکھ جھکی شرما بھی گئے

آشفتگیٔ وحشت کی قسم حیرت کی قسم حسرت کی قسم

اب آپ کہیں کچھ یا نہ کہیں ہم راز تبسم پا بھی گئے

روداد غم الفت ان سے ہم کیا کہتے کیوں کر کہتے

اک حرف نہ نکلا ہونٹوں سے اور آنکھ میں آنسو آ بھی گئے

ارباب جنوں پر فرقت میں اب کیا کہئے کیا کیا گزری

آئے تھے سواد الفت میں کچھ کھو بھی گئے کچھ پا بھی گئے

یہ رنگ بہار عالم ہے کیوں فکر ہے تجھ کو اے ساقی

محفل تو تری سونی نہ ہوئی کچھ اٹھ بھی گئے کچھ آ بھی گئے

اس محفل کیف و مستی میں اس انجمن عرفانی میں

سب جام بکف بیٹھے ہی رہے ہم پی بھی گئے چھلکا بھی گئے


ساقی گلفام باصد اہتمام آ ہی گیا

نغمہ بر لب خم بہ سر بادہ بہ جام آ ہی گیا

اپنی نظروں میں نشاط جلوۂ خوباں لیے

خلوتی خاص سوئے بزم عام آ ہی گیا

میری دنیا جگمگا اٹھی کسی کے نور سے

میرے گردوں پر مرا ماہ تمام آ ہی گیا

جھوم جھوم اٹھے شجر کلیوں نے آنکھیں کھول دیں

جانب گلشن کوئی مست خرام آ ہی گیا

پھر کسی کے سامنے چشم تمنا جھک گئی

شوق کی شوخی میں رنگ احترام آ ہی گیا

میری شب اب میری شب ہے میرا بادہ میرے جام

وہ مرا سرو رواں ماہ تمام آ ہی گیا

بارہا ایسا ہوا ہے یاد تک دل میں نہ تھی

بارہا مستی میں لب پر ان کا نام آ ہی گیا

زندگی کے خاکۂ سادہ کو رنگیں کر دیا

حسن کام آئے نہ آئے عشق کام آ ہی گیا

کھل گئی تھی صاف گردوں کی حقیقت اے مجازؔ

خیریت گزری کہ شاہیں زیر دام آ ہی گیا


یہ جہاں بارگہ رطل گراں ہے ساقی

اک جہنم مرے سینے میں تپاں ہے ساقی

جس نے برباد کیا مائل فریاد کیا

وہ محبت ابھی اس دل میں جواں ہے ساقی

ایک دن آدم و حوا بھی کیے تھے پیدا

وہ اخوت تری محفل میں کہاں ہے ساقی

ہر چمن دامن گل رنگ ہے خون دل سے

ہر طرف شیون و فریاد و فغاں ہے ساقی

ماہ و انجم مرے اشکوں سے گہر تاب ہوئے

کہکشاں نور کی ایک جوئے رواں ہے ساقی

حسن ہی حسن ہے جس سمت بھی اٹھتی ہے نظر

کتنا پر کیف یہ منظر یہ سماں ہے ساقی

زمزمہ ساز کا پائل کی چھناکے کی طرح

بہتر از شورش ناقوس و اذاں ہے ساقی

میرے ہر لفظ میں بیتاب مرا شور دروں

میری ہر سانس محبت کا دھواں ہے ساقی


خود دل میں رہ کے آنکھ سے پردا کرے کوئی

ہاں لطف جب ہے پا کے بھی ڈھونڈا کرے کوئی

تم نے تو حکم ترک تمنا سنا دیا

کس دل سے آہ ترک تمنا کرے کوئی

دنیا لرز گئی دل حرماں نصیب کی

اس طرح ساز عیش نہ چھیڑا کرے کوئی

مجھ کو یہ آرزو وہ اٹھائیں نقاب خود

ان کو یہ انتظار تقاضا کرے کوئی

رنگینی نقاب میں گم ہو گئی نظر

کیا بے حجابیوں کا تقاضا کرے کوئی

یا تو کسی کو جرأت دیدار ہی نہ ہو

یا پھر مری نگاہ سے دیکھا کرے کوئی

ہوتی ہے اس میں حسن کی توہین اے مجازؔ

اتنا نہ اہل عشق کو رسوا کرے کوئی