Intekhab E Kalam Inamullah Khan Yaqeen

Articles

انعام اللہ خان یقین


انتخابِ کلام انعام اللہ خان یقین

 

نہیں معلوم اب کی سال مے خانے پہ کیا گزرا

ہمارے توبہ کر لینے سے پیمانے پہ کیا گزرا

برہمن سر کو اپنے پیٹتا تھا دیر کے آگے

خدا جانے تری صورت سے بت خانے پہ کیا گزرا

مجھے زنجیر کر رکھا ہے ان شہری غزالوں نے

نہیں معلوم میرے بعد ویرانے پہ کیا گزرا

ہوئے ہیں چور میرے استخواں پتھر سے ٹکرا کے

نہ پوچھا یہ کبھی تو نے کہ دیوانہ پہ کیا گزرا

یقیںؔ کب یار میرے سوز دل کی داد کو پہنچے

کہاں ہے شمع کو پروا کہ پروانہ پہ کیا گزرا


یہ وہ آنسو ہیں جن سے زہرہ آتش ناک ہو جاوے

اگر پیوے کوئی ان کو تو جل کر خاک ہو جاوے

نہ جا گلشن میں بلبل کو خجل مت کر کہ ڈرتا ہوں

یہ دامن دیکھ کر گل کا گریباں چاک ہو جاوے

گنہ گاروں کو ہے امید اس اشک ندامت سے

کہ دامن شاید اس آب رواں سے پاک ہو جاوے

عجب کیا ہے تری خشکی کی شامت سے جو تو زاہد

نہال تاک بٹھلاوے تو وہ مسواک ہو جاوے

دعا مستوں کی کہتے ہیں یقیںؔ تاثیر رکھتی ہے

الٰہی سبزہ جتنا ہے جہاں میں تاک ہو جاوے


مصر میں حسن کی وہ گرمئ بازار کہاں

جنس تو ہے پہ زلیخا سا خریدار کہاں

فیض ہوتا ہے مکیں پر نہ مکاں پر نازل

ہے وہی طور ولے شعلۂ دیدار کہاں

عیش و راحت کے تلاشی ہیں یہ سارے بے درد

ایک ہم کو ہے یہی فکر کہ آزار کہاں

عشق اگر کیجئے دل کیجئے کس سے خالی

درد و غم کم نہیں اس دور میں غمخوار کہاں

قیدی اس سلسلۂ زلف کے اب کم ہیں یقیںؔ

ہیں دل آزار بہت جان گرفتار کہاں


پڑ گئی دل میں ترے تشریف فرمانے میں دھوم

باغ میں مچتی ہے جیسے فصل گل آنے میں دھوم

تیری آنکھوں نے نشے میں اس طرح مارا ہے جوش

ڈالتے ہیں جس طرح بد مست مے خانہ میں دھوم

چاند کے پرتو سے جوں پانی میں ہو جلوے کا حشر

تیرے منہ کے عکس نے ڈالی ہے پیمانے میں دھوم

ابر جیسے مست کو شورش میں لاوے دل کے بیچ

مچ گئی اک بار ان بالوں کے کھل جانے میں دھوم

بوئے مے آتی ہے منہ سے جوں کلی سے بوئے گل

کیوں یقیںؔ سے جان کرتے ہو مکر جانے میں دھوم


کار دیں اس بت کے ہاتھوں ہائے ابتر ہو گیا

جس مسلماں نے اسے دیکھا وہ کافر ہو گیا

دلبروں کے نقش پا میں ہے صدف کا سا اثر

جو مرا آنسو گرا اس میں سو گوہر ہو گیا

کیا بدن ہوگا کہ جس کے کھولتے جامہ کا بند

برگ گل کی طرح ہر ناخن معطر ہو گیا

آنکھ سے نکلے پہ آنسو کا خدا حافظ یقیںؔ

گھر سے جو باہر گیا لڑکا سو ابتر ہو گیا

————————–