Intekhab E Kalam Ismaeel Merathi

Articles

اسماعیل میرٹھی


انتخابِ کلام اسماعیل میرٹھی

حمد

تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا
کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا

پاوں تلے بچھایا کیا خوب فرشِ خاکی
اور سر پہ لاجوردی اِک سائباں بنایا

مٹی سے بیل بوٹے کیا خوشنما اُگائے
پہنا کے سبز خلعت ان کو جواں بنایا

خوش رنگ اور خوشبو گل پھول ہیں کھلائے
اِس خاک کے کھنڈر کو کیا گلستاں بنایا

میوے لگائے کیا کیا ، خوش ذائقہ رسیلے
چکھنے سے جن کے مجھ کو شیریں دہاں بنایا

سورج سے ہم نے پائی گرمی بھی روشنی بھی
کیا خوب چشمہ تو نے اے مہرباں بنایا

سورج بنا کے تو نے رونق جہاں کو بخشی
رہنے کو یہ ہمارے اچھا مکاں بنایا

پیاسی زمیں کے منہ میں مینہ کا چوایا پانی
اور بادلوں کو تو نے مینہ کا نشاں بنایا

یہ پیاری پیاری چڑیاں پھرتی ہیں جو چہکتی
قدرت نے تیری اِن کو تسبیح خواں بنایا

تنکے اٹھا اٹھا کر لائیں کہاں کہاں سے
کس خوبصورتی سے پھر آشیاں بنایا

اونچی اڑیں ہوا میں بچوں کو پر نہ بھولیں
ان بے پروں کا اِن کو روزی رساں بنایا

کیا دودھ دینے والی گائیں بنائی تو نے
چڑھنے کو میرے گھوڑا کیا خوش عناں بنایا

رحمت سے تیری کیا کیا ہیں نعمتیں میّسر
ان نعمتوں کا مجھ کو ہے قدر داں بنایا

آبِ رواں کے اندر مچھلی بنائی تو نے
مچھلی کے تیرنے کو آبِ رواں بنایا

ہر چیز سے ہے تیری کاری گری ٹپکتی
یہ کارخانہ تو نے کب رائیگاں بنایا
٭٭٭

ہماری گائے

رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی

اس مالک کو کیوں نہ پکاریں
جس نے پلائیں دودھ کی دھاریں

خاک کو اس نے سبزہ بنایا
سبزہ کو پھر گائے نے کھایا

کل جو گھاس چری تھی بن میں
دودھ بنی اب گائے کے تھن میں

سبحان اللہ دودھ ہے کیساا
تازہ گرم سفید اور میٹھا

دودھ میں بھیگی روٹی میری
اس کے کرم نے بخشی سیری

دودھ دہی اور مٹھگا مسکا
دے نہ خدا تو کس کے بس کا

گائے کو دی کیا اچھی صورت
خوبی کی ہے گویا مورت

دانہ دنکا بھوسی چوکر
کھا لیتی ہے سب خوش ہو کر

کھا کر تنکے اور ٹھیڑے
دودھ دیتی ہے شام سویرے

کیا ہی غریب اور کیسی پیاری
صبح ہوئی جنگل کو سدھاری

سبزہ سے میدان ہرا ہے
جھیل میں پانی صاف بھرا ہے

پانی موجیں مار رہا ہے
چرواہا چمکار رہا ہے

پانی پی کر چارہ چر کر
شام کو آئی اپنے گھر پر

دوری میں جو دن ہے کاٹا
بچہ کو کس پیار سے چاٹا

گائے ہمارے حق میں ہے نعمت
دودھ دیتی ہے کھا کے بنسپت

بچھڑے اس کے بیل بنائے
جو کھیتی کے کام میں آئے

رب کی حمد و ثنا کر بھائی
جس نے ایسی گائے بنائی
٭٭٭

صبح کی آمد

خبر دن کے آنے کی میں لا رہی ہوں
اجالا زمانہ میں پھیلا رہی ہوں
بہار اپنی مشرق سے دکھلا رہی ہوں
پکارے گلے صاف چلا رہی ہوں
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
٭

میں سب کار بہوار کے ساتھ آئی
میں رفتار و گفتار کے ساتھ آئی
میں باجوں کی جھنکار کے ساتھ آئی
میں چڑیوں کی چہکار کے ساتھ آئی
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
٭

اذاں پر اذاں مرغ دینے لگا ہے
خوشی سے ہر اک جانور بولتا ہے
درختوں کے اوپر عجب چہچہا ہے
سہانا ہے وقت اور ٹھنڈی ہوا ہے
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
٭

یہ چڑیاں جو پیڑوں پہ ہیں غل مچاتی
ادھر سے ادھر اڑ کے ہیں آتی جاتی
دموں کو ہلاتی پروں کو پھلاتی
مری آمد آمد کے ہیں گیت گاتی
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
٭

جو طوطے نے باغوں میں ٹیں ٹیں مچائی
تو بلبل بھی گلشن میں ہے چہچہائی
اور اونچی منڈیروں پہ شاما بھی گائی
میں سو سو طرح دے رہی ہوں دہائی
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
٭

ہر ایک باغ کو میں نے مہکا دیا ہے
نسیم اور صبا کو بھی لہکا دیا ہے
چمن سرخ پھولوں سے دہکا دیا ہے
مگر نیند نے تم کو بہکا دیا ہے
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
٭

ہوئی مجھ سے رونق پہاڑ اور بن میں
ہر ایک ملک میں دیس میں ہر وطن میں
کھلاتی ہوئی پھول آئی چمن میں
بجھاتی چلی شمع کو انجمن میں
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
٭

جو اس وقت جنگل میں بوٹی جڑی ہے
سو وہ نو لکھا ہار پہنے کھڑی ہے
کہ پچھلے کی ٹھنڈک سے شبنم پڑی ہے
عجب یہ سماں ہے عجب یہ گھڑی ہے
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
٭

ہرن چونک اٹھے چوکڑی بھر رہے ہیں
کلولیں ہرے کھیت میں کر رہے ہیں
ندی کے کنارے کھڑے چر ہیں
غرض میرے جلوے پہ سب مر رہے ہیں
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
٭

میں تاروں کی چھاں آن پہنچی یہاں تک
زمیں سے ہے جلوہ مرا آسماں تک
مجھے پاو¿ گے دیکھتے ہو جہاں تک
کرو گے بھلا کاہلی تم کہاں تک
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
٭

پجاری کو مندر کے میں نے جگایا
مو¿ذن کو مسجد کے میں نے اٹھایا
بھٹکتے مسافر کو رستہ بتایا
اندھیرا گھٹایا اجالا بڑھایا
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
٭

لدے قافلوں کے بھی منزل میں ڈیرے
کسانوں کے ہل چل پڑے منہ اندھیرے
چلے جال کندھے پہ لے کر مچھیرے
دلدر ہوئے دور آئے سے میرے
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
٭

بگل اور طنبور سنکھ اور نوبت
بجانے لگے اپنی اپنی سبھی گت
چلی توپ بھی دن سے حضرت سلامت
نہیں خواب غفلت نہیں خواب غفلت
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
٭

لو ہشیار ہو جاو¿ اور آنکھ کھولو
نہ لو کروٹیں اور نہ بستر ٹٹولو
خدا کو کرو یاد اور منہ سے بولو
بس اب خیر سے اٹھ کے منہ ہاتھ دھو لو
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
٭

بڑی دھوم سے آئی میری سواری
جہاں میں ہوا اب مرا حکم جاری
ستارے چھپے رات اندھیری سدھاری
دکھائی دیے باغ اور کھیت کیاری
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
٭٭٭

بارش کا پہلا قطرہ

گھنگھور گھٹا تلی کھڑی تھی
پر بوند ابھی نہیں پڑی تھی
ہر قطرہ کے دل میں تھا یہ خطرہ
ناچیز ہوں میں غریب قطرہ
تر مجھ سے کسی کا لب نہ ہوگا
میں اور کی گوں نہ آپ جوگا
کیا کھیت کی میں بجھاو¿ں گا پیاس
اپنا ہی کروں گا ستیاناس
خالی ہاتھوں سے کیا سخاوت
پھیکی باتوں میں کیا حلاوت
کس برتے پہ میں کروں دلیری
میں کون ہوں کیا بساط میری
ہر قطرہ کے دل میں تھا یہی غم
سرگوشیاں ہو رہی تھیں باہم
کھچڑی سی گھٹا میں پک رہی تھی
کچھ کچھ بجلی چمک رہی تھی
اک قطرہ کہ تھا بڑا دلاور
ہمت کے محیط کا شناور
فیاض و جواد و نیک نیت
بھڑکی اس کی رگ حمیت
بولا للکار کر کہ آو¿!
میرے پیچھے قدم بڑھاو¿
کر گزرو جو ہو سکے کچھ احسان
ڈالو مردہ زمین میں جان
یارو! یہ ہچر مچر کہاں تک
اپنی سی کرو بنے جہاں تک
مل کر جو کرو گے جاں فشانی
میدان پہ پھیر دوگے پانی
کہتا ہوں یہ سب سے برملا میں
آتے ہو تو آو¿ لو چلا میں
یہ کہہ کے وہ ہو گیا روانہ
”دشوار ہے جی پہ کھیل جانا”
ہر چند کہ تھا وہ بے بضاعت
کی اس نے مگر بڑی شجاعت
دیکھی جرات جو اس سکھی کی
دو چار نے اور پیروی کی
پھر ایک کے بعد ایک لپکا
قطرہ قطرہ زمیں پہ ٹپکا
آخر قطروں کا بندھ گیا تار
بارش لگی ہونے موسلا دھار
پانی پانی ہوا بیاباں
سیراب ہوئے چمن خیاباں
تھی قحط سے پائمال خلقت
اس مینہ سے ہوئی نہال خلقت
جرات قطرہ کی کر گئی کام
باقی ہے جہاں میں آج تک نام
اے صاحبو! قوم کی خبر لو
قطروں کا سا اتفاق کر لو
قطروں ہی سے ہوگی نہر جاری
چل نکلیں گی کشتیاں تمہاری
٭٭٭

شفق

 

شفق پھولنے کی بھی دیکھو بہار
ہوا میں کھلا ہے عجب لالہ زار
ہوئی شام بادل بدلتے ہیں رنگ
جنہیں دیکھ کر عقل ہوتی ہے دنگ
نیا رنگ ہے اور نیا روپ ہے
ہر اک روپ میں یہ وہی دھوپ ہے
طبیعت ہے بادل کی رنگت پہ لوٹ
سنہری لگائی ہے قدرت نے گوٹ
ذرا دیر میں رنگ بدلے کئی
بنفشی و نارنجی و چمپئی
یہ کیا بھید ہے کیا کرامات ہے
ہر اک رنگ میں اک نئی بات ہے
یہ مغرب میں جو بادلوں کی ہے باڑ
بنے سونے چاندنی کے گویا پہاڑ
فلک نیلگوں اس میں سرخی کی لاگ
ہرے بن میں گویا لگا دی ہے آگ
اب آثار ظاہر ہوئے رات کے
کہ پردے چھٹے لال بانات کے
٭٭٭

رات

گیا دن ہوئی شام آئی ہے رات
خدا نے عجب شے بنائی ہے رات

نہ ہو رات تو دن کی پہچان کیا
اٹھائے مزہ دن کا انسان کیا

ہوئی رات خلقت چھٹی کام سے
خموشی سی چھائی سر شام سے

لگے ہونے اب ہاٹ بازار بند
زمانے کے سب کار بہوار بند

مسافر نے دن بھر کیا ہے سفر
سر شام منزل پہ کھولی کمر

درختوں کے پتے بھی چپ ہو گئے
ہوا تھم گئی پیڑ بھی سو گئے

اندھیرا اجالے پہ غالب ہوا
ہر اک شخص راحت کا طالب ہوا

ہوئے روشن آبادیوں میں چراغ
ہوا سب کو محنت سے حاصل فراغ

کسان اب چلا کھیت کو چھوڑ کر
کہ گھر میں چین سے شب بسر

تھپک کر سلایا اسے نیند نے
تردد بھلایا اسے نیند نے

غریب آدمی جو کہ مزدور ہیں
مشقت سے جن کے بدن چور ہیں

وہ دن بھر کی محنت کے مارے ہوئے
وہ ماندے تھکے اور ہارے ہوئے

نہایت خوشی سے گئے اپنے گھر
ہوئے بال بچے بھی خوش دیکھ کر

گئے بھول سب کام دھندے کا غم
سویرے کو اٹھیں گے اب تازہ دم

کہاں چین یہ بادشہ کو نصیب
کہ جس بے غمی سے ہیں سوتے غریب
٭٭٭