Intekhab E Kalam Joosh Malihabadi

Articles

جوش ملیح آبادی


انتخابِ کلام جوش ملیح آبادی

شکست زنداں کا خواب

کیا ہند کا زنداں کانپ رہا ہے گونج رہی ہیں تکبیریں
اکتائے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں
دیواروں کے نیچے آ آ کر یوں جمع ہوئے ہیں زندانی
سینوں میں تلاطم بجلی کا آنکھوں میں جھلکتی شمشیریں
بھوکوں کی نظر میں بجلی ہے توپوں کے دہانے ٹھنڈے ہیں
تقدیر کے لب کو جنبش ہے دم توڑ رہی ہیں تدبیریں
آنکھوں میں گدا کی سرخی ہے بے نور ہے چہرہ سلطاں کا
تخریب نے پرچم کھولا ہے سجدے میں پڑی ہیں تعمیریں
کیا ان کو خبر تھی زیر و زبر رکھتے تھے جو روح ملت کو
ابلیں گے زمیں سے مار سیہ برسیں گی فلک سے شمشیریں
کیا ان کو خبر تھی سینوں سے جو خون چرایا کرتے تھے
اک روز اسی بے رنگی سے جھلکیں گی ہزاروں تصویریں
کیا ان کو خبر تھی ہونٹوں پر جو قفل لگایا کرتے تھے
اک روز اسی خاموشی سے ٹپکیں گی دہکتی تقریریں
سنبھلو کہ وہ زنداں گونج اٹھا جھپٹو کہ وہ قیدی چھوٹ گئے
اٹھو کہ وہ بیٹھیں دیواریں دوڑو کہ وہ ٹوٹی زنجیریں

———————————————————————

الوداع

اے ملیح آباد کے رنگیں گلستاں الوداع
الوداع اے سر زمین صبح خنداں الوداع
الوداع اے کشور شیر و شبستاں الوداع
الوداع اے جلوہ گاہ حسن جاناں الوداع
تیرے گھر سے ایک زندہ لاش اٹھ جانے کو ہے
آ گلے مل لیں کہ آواز جرس آنے کو ہے

 

آ کلیجہ میں تجھے رکھ لوں مرے ‘قصر سحر
اس کتاب دل کے ہیں اوراق تیرے بام و در
جا رہا ہوں تجھ میں کیا کیا یادگاریں چھوڑ کر
آہ کتنے طور خوابیدہ ہیں تیرے بام پر
روح ہر شب کو نکل کر میرے جسم زار سے
آ کے سر ٹکرائے گی تیرے در و دیوار سے

 

ہائے کیا کیا نعمتیں مجھ کو ملی تھیں بے بہا
یہ خموشی یہ کھلے میدان یہ ٹھنڈی ہوا
وائے یہ جاں بخش بستاں ہائے یہ رنگیں فضا
مر کے بھی ان کو نہ بھولے گا دل درد آشنا
مست کوئل جب دکن کی وادیوں میں گائے گی
یہ سبک چھاؤں ببولوں کی بہت یاد آئے گی

 

کل سے کون اس باغ کو رنگیں بنانے آئے گا
کون پھولوں کی ہنسی پر مسکرانے آئے گا
کون اس سبزے کو سوتے سے جگانے آئے گا
کون جاگے گا قمر کے ناز اٹھانے کے لیے
چاندنی راتوں کو زانو پر سلانے کے لیے

 

آم کے باغوں میں جب برسات ہوگی پر خروش
میری فرقت میں لہو روئے گی چشم مے فروش
رس کی بوندیں جب اڑا دیں گی گلستانوں کے ہوش
کنج رنگیں میں پکاریں گی ہوائیں ‘جوش جوش
سن کے میرا نام موسم غمزدہ ہو جائے گا
ایک محشر سا گلستاں میں بپا ہو جائے گا

 

صبح جب اس سمت آئے گی برافگندہ نقاب
آہ کون اس دل کشا میداں میں چھیڑے گا رباب
اس افق پر شب کو جب انگڑائی لے گا ماہتاب
چاندنی کے فرش پر لہرائے گا کس کا شباب
جگمگائے گی چمن میں پنکھڑی کس کے لئے
رنگ برسائے گی ساون کی جھڑی کس کے لئے

 

گھر سے بے گھر کر رہی ہے آہ فکر روزگار
سرنگوں ہے فرط غیرت سے اب و جد کا وقار
خلعت ماضی ہے جسم زندگی پر تار تار
پھر بھی آنکھوں میں ہے آبائی عمارت کا خمار
شمع خلوت میں ہے روشن تیرگی محفل میں ہے
رخ پے گرد بیکسی شان ریاست دل میں ہے

 

کوچ کا پیغام لے کر آ گیا مہر منیر
گھر کا گھر ہے وقف ماتم زرد ہیں برنا و پیر
رخصت بلبل سے نالاں ہیں چمن کے ہم صفیر
آ رہی ہے کان میں آواز گویاؔ و بشیرؔ
چھٹ رہا ہے ہات سے دامن ملیح آباد کا
رنگ فق ہے عزت دیرینۂ اجداد کا

 

کیا بتاؤں دل پھٹا جاتا ہے میرا ہم نشیں
آئیں گے یاں خرمن اجداد کے جب خوشہ چیں
آ کے دروازے پہ جیسے ہی جھکائیں گے جبیں
گھر کا سناٹا سدا دے گا یہاں کوئی نہیں
جود و بخشش کا کلیجہ غرق خوں ہو جائے گا
میرے گھر کا پرچم زر سرنگوں ہو جائے گا

 

آہ اے دور فلک تیرا نہیں کچھ اعتبار
مٹ کے رہتی ہے ترے جور خزاں سے ہر بہار
نوع انساں کو نہیں تیری ہوائیں سازگار
فکر دنیا اور شاعر تف ہے اے لیل و نہار
موج کوثر وقف ہو اور تشنہ کامی کے لئے
خواجگی رخت سفر باندھے غلامی کے لئے

 

آ گلے مل لیں خدا حافظ گلستان وطن
اے ‘امانی گنج کے میدان اے جان وطن
الوداع اے لالہ زار و سنبلستان وطن
السلام اے صحبت رنگین یاران وطن
حشر تک رہنے نہ دینا تم دکن کی خاک میں
دفن کرنا اپنے شاعر کو وطن کی خاک میں


 

حسن اور مزدوری

ایک دوشیزہ سڑک پر دھوپ میں ہے بے قرار
چوڑیاں بجتی ہیں کنکر کوٹنے میں بار بار

 

چوڑیوں کے ساز میں یہ سوز ہے کیسا بھرا
آنکھ میں آنسو بنی جاتی ہے جس کی ہر صدا

 

گرد ہے رخسار پر زلفیں اٹی ہیں خاک میں
نازکی بل کھا رہی ہے دیدۂ غم ناک میں

 

ہو رہا ہے جذب مہر خونچکاں کے روبرو
کنکروں کی نبض میں اٹھتی جوانی کا لہو

 

دھوپ میں لہرا رہی ہے کاکل عنبر سرشت
ہو رہا ہے کمسنی کا لوچ جزو سنگ و خشت

 

پی رہی ہیں سرخ کرنیں مہر آتش بار کی
نرگسی آنکھوں کا رس مے چمپئی رخسار کی

 

غم کے بادل خاطر نازک پہ ہیں چھائے ہوئے
عارض رنگیں ہیں یا دو پھول مرجھائے ہوئے

 

چیتھڑوں میں دیدنی ہے روئے غمگین شباب
ابر کے آوارہ ٹکڑوں میں ہو جیسے ماہتاب

 

اف یہ ناداری مرے سینے سے اٹھتا ہے دھواں
آہ اے افلاس کے مارے ہوئے ہندوستاں!

 

حسن ہو مجبور کنکر توڑنے کے واسطے
دست نازک اور پتھر توڑنے کے واسطے

 

فکر سے جھک جائے وہ گردن تف اے لیل و نہار
جس میں ہونا چاہیئے پھولوں کا اک ہلکا سا ہار

 

آسماں جان طرب کو وقف رنجوری کرے
صنف نازک بھوک سے تنگ آ کے مزدوری کرے

 

اس جبیں پر اور پسینہ ہو جھلکنے کے لیے
جو جبین ناز ہو افشاں چھڑکنے کے لیے

 

بھیک میں وہ ہاتھ اٹھیں التجا کے واسطے
جن کو قدرت نے بنایا ہو حنا کے واسطے

 

نازکی سے جو اٹھا سکتی نہ ہو کاجل کا بار
ان سبک پلکوں پہ بیٹھے راہ کا بوجھل غبار

 

کیوں فلک مجبور ہوں آنسو بہانے کے لیے
انکھڑیاں ہوں جو دلوں میں ڈوب جانے کے لیے

 

مفلسی چھانٹے اسے قہر و غضب کے واسطے
جس کا مکھڑا ہو شبستان طرب کے واسطے

 

فرط خشکی سے وہ لب ترسیں تکلم کے لیے
جن کو قدرت نے تراشا ہو تبسم کے لیے

 

نازنینوں کا یہ عالم مادر ہند آہ آہ
کس کے جور ناروا نے کر دیا تجھ کو تباہ؟

 

ہن برستا تھا کبھی دن رات تیری خاک پر
سچ بتا اے ہند تجھ کو کھا گئی کس کی نظر

 

باغ تیرا کیوں جہنم کا نمونہ ہو گیا
آہ کیوں تیرا بھرا دربار سونا ہو گیا

 

سر برہنہ کیوں ہے وہ پھولوں کی چادر کیا ہوئی
اے شب تاریک تیری بزم اختر کیا ہوئی

 

جس کے آگے تھا قمر کا رنگ پھیکا کیا ہوا
اے عروس نو ترے ماتھے کا ٹیکا کیا ہوا

 

اے خدا ہندوستاں پر یہ نحوست تا کجا؟
آخر اس جنت پہ دوزخ کی حکومت تا کجا؟

 

گردن حق پر خراش تیغ باطل تا بہ کے؟
اہل دل کے واسطے طوق و سلاسل تا بہ کے؟

 

سر زمین رنگ و بو پر عکس گلخن تا کجا؟
پاک سیتا کے لیے زندان راون تا کجا؟

 

دست نازک کو رسن سے اب چھڑانا چاہیئے
اس کلائی میں تو کنگن جگمگانا چاہیئے


 

ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں سے خطاب

کس زباں سے کہہ رہے ہو آج تم سوداگرو
دہر میں انسانیت کے نام کو اونچا کرو
جس کو سب کہتے ہیں ہٹلر بھیڑیا ہے بھیڑیا
بھیڑیے کو مار دو گولی پئے امن و بقا
باغ انسانی میں چلنے ہی پہ ہے باد خزاں
آدمیت لے رہی ہے ہچکیوں پر ہچکیاں
ہاتھ ہے ہٹلر کا رخش خود سری کی باگ پر
تیغ کا پانی چھڑک دو جرمنی کی آگ پر
سخت حیراں ہوں کہ محفل میں تمہاری اور یہ ذکر
نوع انسانی کے مستقبل کی اب کرتے ہو فکر
جب یہاں آئے تھے تم سوداگری کے واسطے
نوع انسانی کے مستقبل سے کیا واقف نہ تھے
ہندیوں کے جسم میں کیا روح آزادی نہ تھی
سچ بتاؤ کیا وہ انسانوں کی آبادی نہ تھی
اپنے ظلم بے نہایت کا فسانہ یاد ہے
کمپنی کا پھر وہ دور مجرمانہ یاد ہے
لوٹتے پھرتے تھے جب تم کارواں در کارواں
سر برہنہ پھر رہی تھی دولت ہندوستاں
دست کاروں کے انگوٹھے کاٹتے پھرتے تھے تم
سرد لاشوں سے گڈھوں کو پاٹتے پھرتے تھے تم
صنعت ہندوستاں پر موت تھی چھائی ہوئی
موت بھی کیسی تمہارے ہات کی لائی ہوئی
اللہ اللہ کس قدر انصاف کے طالب ہو آج
میر جعفرؔ کی قسم کیا دشمن حق تھا سراجؔ
کیا اودھ کی بیگموں کا بھی ستانا یاد ہے
یاد ہے جھانسی کی رانی کا زمانہ یاد ہے
ہجرت سلطان دہلی کا سماں بھی یاد ہے
شیر دل ٹیپوؔ کی خونیں داستاں بھی یاد ہے
تیسرے فاقے میں اک گرتے ہوئے کو تھامنے
کس کے تم لائے تھے سر شاہ ظفر کے سامنے
یاد تو ہوگی وہ مٹیا برج کی بھی داستاں
اب بھی جس کی خاک سے اٹھتا ہے رہ رہ کر دھواں
تم نے قیصر باغ کو دیکھا تو ہوگا بارہا
آج بھی آتی ہے جس سے ہائے اخترؔ کی صدا
سچ کہو کیا حافظے میں ہے وہ ظلم بے پناہ
آج تک رنگون میں اک قبر ہے جس کی گواہ
ذہن میں ہوگا یہ تازہ ہندیوں کا داغ بھی
یاد تو ہوگا تمہیں جلیانوالا باغ بھی
پوچھ لو اس سے تمہارا نام کیوں تابندہ ہے
ڈائرؔ گرگ دہن آلود اب بھی زندہ ہے
وہ بھگتؔ سنگھ اب بھی جس کے غم میں دل ناشاد ہے
اس کی گردن میں جو ڈالا تھا وہ پھندا یاد ہے
اہل آزادی رہا کرتے تھے کس ہنجار سے
پوچھ لو یہ قید خانوں کے در و دیوار سے
اب بھی ہے محفوظ جس پر طنطنہ سرکار کا
آج بھی گونجی ہوئی ہے جن میں کوڑوں کی صدا
آج کشتی امن کے امواج پر کھیتے ہو کیوں
سخت حیراں ہوں کہ اب تم درس حق دیتے ہو کیوں
اہل قوت دام حق میں تو کبھی آتے نہیں
بینکی اخلاق کو خطرے میں بھی لاتے نہیں
لیکن آج اخلاق کی تلقین فرماتے ہو تم
ہو نہ ہو اپنے میں اب قوت نہیں پاتے ہو تم
اہل حق روشن نظر ہیں اہل باطن کور ہیں
یہ تو ہیں اقوال ان قوموں کے جو کمزور ہیں
آج شاید منزل قوت میں تم رہتے نہیں
جس کی لاٹھی اس کی بھینس اب کس لئے کہتے نہیں
کیا کہا انصاف ہے انساں کا فرض اولیں
کیا فساد و ظلم کا اب تم میں کس باقی نہیں
دیر سے بیٹھے ہو نخل راستی کی چھاؤں میں
کیا خدا ناکردہ کچھ موچ آ گئی ہے پاؤں میں
گونج ٹاپوں کی نہ آبادی نہ ویرانے میں ہے
خیر تو ہے اسپ تازی کیا شفا خانے میں ہے
آج کل تو ہر نظر میں رحم کا انداز ہے
کچھ طبیعت کیا نصیب دشمناں ناساز ہے
سانس کیا اکھڑی کہ حق کے نام پر مرنے لگے
نوع انساں کی ہوا خواہی کا دم بھرنے لگے
ظلم بھولے راگنی انصاف کی گانے لگے
لگ گئی ہے آگ کیا گھر میں کہ چلانے لگے
مجرموں کے واسطے زیبا نہیں یہ شور و شین
کل یزیدؔ و شمرؔ تھے اور آج بنتے ہو حسینؔ
خیر اے سوداگرو اب ہے تو بس اس بات میں
وقت کے فرمان کے آگے جھکا دو گردنیں
اک کہانی وقت لکھے گا نئے مضمون کی
جس کی سرخی کو ضرورت ہے تمہارے خون کی
وقت کا فرمان اپنا رخ بدل سکتا نہیں
موت ٹل سکتی ہے اب فرمان ٹل سکتا نہیں

———————————————————————