Intekhab E Kalam Joshish Azeemabadi

Articles

جوشش عظیم آبادی


انتخابِ کلام جوشش عظیم آبادی

 

 

ان دنوں وہ ادھر نہیں آتا
اپنا جینا نظر نہیں آتا

گھر بہ گھر تو پڑا پھرے ہے تو
آہ کیوں میرے گھر نہیں آتا

قاصد اس بے وفا سے یوں کہنا
لکھ تو کچھ بھیج گر نہیں آتا

گو کہ رہتا ہے یہ جرس نالاں
میرے نالوں سے پر نہیں آتا

یار راتوں کو تیرے کوچے میں
کب یہ خستہ جگر نہیں آتا

کس لئے جوشش اتنی نالہ کشی
کچھ اثر تو نظر نہیں آتا
٭٭٭

حال اب تنگ ہے زمانے کا
رنگ بے رنگ ہے زمانے کا

نہیں کوتاہ اس کا دست طلب
یہ گدا ننگ ہے زمانے کا

ایک دم چین سے نہ کوئی رہے
یہی آہنگ ہے زمانے کا

اے جفا کار دہر میں تجھ بن
کون ہم سنگ ہے زمانے کا

جھوٹ میں نے کہا ترے ہاتھوں
قافیہ تنگ ہے زمانے کا

چل نکل جلد یاں سے اے جوشش
ڈھنگ بے ڈھنگ ہے زمانے کا
٭٭٭

ہیں دل جگر ہمارے یہ مہر و ماہ دونوں
پہنچے ہیں آسماں پہ ہمراہ آہ دونوں

ہے بزم بے وفائی رونق پزیر ان سے
روشن رہیں یہ تیری چشم سیاہ دونوں

اے ترک چشم تیری خوں ریزیِ مژہ سے
پیٹیں ہیں سر گنہ گار اور بے گناہ دونوں

بیمار دل کے ہم دم اک درد و غم تھے سو بھی
بہر عیادت آتے ہیں گاہ گاہ دونوں

کوئی زلف کو کہے زلف کاکل کو سمجھے کاکل
اپنی نظر میں تو ہیں مار سیاہ دونوں

کیا شیخ کیا برہمن ہیں پھیر میں دوئی کے
گمراہ ہو گئے ہیں بھولے ہیں راہ دونوں
٭٭٭

چھوڑ دے مار لات دنیا کو
کچھ نہیں ہے ثبات دنیا کو

ہاتھ آئی ہے جس کو دولت فقر
ان نے ماری ہے لات دنیا کو

زال دنیا ہی سا ہے وہ بد ذات
جو کہے نیک ذات دنیا کو

دام الفت میں سب کو کھینچے ہے
آ گئی ہے یہ گھات دنیا کو

پشت پا مارے مسند جم پر
جو لگائے نہ ہاتھ دنیا کو

تو جو مرتا ہے اس پر اے جوشش
لے گیا کوئی ساتھ دنیا کو
٭٭٭

تجھ سے ظالم کو اپنا یار کیا
ہم نے کیا جبر اختیار کیا

مثل سیماب بے قرار رہے
ایک جا ہم نے کب قرار کیا

آنکھیں پتھرا گئیں اے سنگیں دل
یاں تلک تیرا انتظار کیا

تو جو کہتا ہے جلد آو¿ں گا
میں نے کیا تیرا اعتبار کیا

جیب توکیا ہے ناصحو ہم نے
چاک سینے کو غنچہ وار کیا

نظر آئے قیاس سے باہر
دل کے زخموں کو جب شمار کیا

تو وفا سے نہ در گزر جوشش
اس نے گو جور اختیار کیا
٭٭٭