Intekhab e Kalam Khalilur Rahman Azmi

Articles

خلیل الرحمن اعظمی


خلیل الرحمن اعظمی کا منتخب کلام

 

 

سوتے سوتے چونک پڑے ہم، خواب میں ہم نے کیا دیکھا
جو خود ہم کو ڈھونڈھ رہا ہو، ایسا اک رستا دیکھا

دور سے اک پرچھائیں دیکھی اپنے سے ملتی جلتی
پاس سے اپنے چہرے میں بھی اور کوئی چہرا دیکھا

سونا لینے جب نکلے تو ہر ہر ڈھیر میں مٹی تھی
جب مٹی کی کھوج میں نکلے، سونا ہی سونا دیکھا

سوکھی دھرتی سن لیتی ہے پانی کی آوازوں کو
پیاسی آنکھیں بول اٹھتی ہیں ہم نے اک دریا دیکھا

چاندی کے سے جن کے بدن تھے، سورج جیسے مکھڑے تھے
کچھ اندھی گلیوں میں ہم نے ان کا بھی سایا دیکھا

رات وہی پھر بات ہوئی نا۔۔۔ ہم کو نیند نہیں آئی
اپنی روح کے سنّاٹے سے شور سا اک اٹھتا دیکھا

بنے بنائے سے رستوں کا سلسلہ نکلا
نیا سفر بھی بہت ہی گریز پا دیکھا


 

رخ پہ گردِ ملال تھی، کیا تھی
حاصلِ ماہ و سال تھی، کیا تھی

ایک صورت سی یاد ہے اب بھی
آپ اپنی مثال تھی، کیا تھی

میری جانب اُٹھی تھی کوئی نگہ
ایک مبہم سوال تھی، کیا تھی

اس کو پا کر بھی اس کو پا نہ سکا
جستجوئے جمال تھی، کیا تھی

صبح تک خود سے ہم کلام رہا
یہ شبِ جذب و حال تھی، کیا تھی

دل میں تھی، پر لبوں تک آ نہ سکی
آرزوئے وصال تھی، کیا تھی

اپنے زخموں پہ اک فسردہ ہنسی
کوششِ اندمال تھی، کیا تھی

عمر بھر میں بس ایک بار آئی
ساعتِ لا زوال تھی، کیا تھی

خوں کی پیاسی تھی پر زمینِ وطن
ایک شہرِ خیال تھی، کیا تھی

باعثِ رنجشِ عزیزاں تھی
خوئے کسبِ کمال تھی، کیا تھی

اک جھلک لمحۂ فراغت کی
ایک امرِ محال تھی، کیا تھی

کوئی خواہاں نہ تھا کہ جنسِ ہنر
ایک مفلس کا مال تھی، کیا تھی


 

نہ جانے کس کی ہمیں عمر بھر تلاش رہی
جسے قریب سے دیکھا وہ دوسرا نکلا

ہمیں تو راس نہ آئی کسی کی محفل بھی
کوئی خدا، کوئی ہمسایۂ خدا نکلا

ہزار طرح کی مے پی، ہزار طرح کے زہر
نہ پیاس ہی بجھی اپنی، نہ حوصلہ نکلا

ہمارے پاس سے گزری تھی ایک پرچھائیں
پکارا ہم نے تو صدیوں کا فاصلہ نکلا

اب اپنے آپ کو ڈھونڈھیں کہاں کہاں جا کر
عدم سے تا بہ عدم اپنا نقشِ پا نکلا


 

مری صدا کا ہے صدیوں سے انتظار مجھے
مرے لہو کے سمندر ذرا پکار مجھے

میں اپنے گھرکو بلندی پہ چڑھ کے کیا دیکھوں
عروجِ فن! مری دہلیز پر اتار مجھے

ابلتے دیکھی ہے سورج سے میں نے تاریکی
نہ راس آئے گی یہ صبحِ زر نگار مجھے

کہے گا دل تو میں پتھر کے پاؤں چوموں گا
زمانہ لاکھ کرے آ کے سنگسار مجھے

وہ فاقہ مست ہوں جس راہ سے گزرتا ہوں
سلام کرتا ہے آشوبِ روزگار مجھے

 


میں گوتم نہیں ہوں

میں گوتم نہیں ہوں
مگر جب بھی گھر سے نکلا
یہ سوچتا تھا
کہ میں اپنے آپ کو
ڈھونڈھنے جا رہا ہوں
کسی پیڑ کی چھاؤں میں
میں بھی بیٹھوں گا
اک دن مجھے بھی کوئی گیان ہوگا
مگر
جسم کی آگ جو گھر سے لے کر چلا تھا
سلگتی رہی
گھر کے باہر ہوا تیز تھی
اور بھی یہ بھڑکتی رہی
ایک اک پیڑ جل کر ہوا راکھ
میں ایسے صحرا میں اب پھر رہا ہوں
جہاں میں ہی میں ہوں
جہاں میرا سایہ ہے
سائے کا سایہ ہے
اور دور تک
بس خلا ہی خلا ہے


میں دیر سے دھوپ میں کھڑا ہوں

میں دیر سے دھوپ میں کھڑا ہوں
سایہ سایہ پکارتا ہوں

سونا ہوں، کرید کر تو دیکھو
مٹی میں دبا ہوا پڑا ہوں

لے مجھ کو سنبھال گردشِ وقت
ٹوٹا ہوا تیرا آئینہ ہوں

یوں ربط تو ہے نشاط سے بھی
در اصل میں غم سے آشنا ہوں

صحبت میں گلوں کی میں بھی رہ کر
کانٹوں کی زباں سمجھ گیا ہوں

دشمن ہو کوئی کہ دوست میرا
ہر ایک کے حق میں میں دعا ہوں

کیوں آبِ حیات کو میں ترسوں
میں زہرِ حیات پی چکا ہوں!!

ہر عہد کے لوگ مجھ سے ناخوش
ہر عہد میں خواب دیکھتا ہوں