Intekhab E Kalam Khumar Barabankvi

Articles

خمار بارہ بنکوی


انتخابِ کلام خمار بارہ بنکوی

اصلی نام محمد حیدر خان تھا اورتخلص خمار۔ 19 ستمبر 1919 کو بارہ بنکی (اتر پردیش) میں پیدا ہوئے۔ نام کے ساتھ بارہ بنکوی اسی مناسبت سے تھا۔ 19 فروری 1999 کو بارہ بنکی میں انتقال کر گئے۔

1

نہ ہارا ہے عشق اور نہ دنیا تھکی ہے

دیا جل رہا ہے ہوا چل رہی ہے

سکوں ہی سکوں ہے خوشی ہی خوشی ہے

ترا غم سلامت مجھے کیا کمی ہے

چراغوں کے بدلے مکاں جل رہے ہیں

نیا ہے زمانہ نئی روشنی ہے

ارے او جفاؤں پہ چپ رہنے والو

خموشی جفاؤں کی تائید بھی ہے

مرے راہبر مجھ کو گمرہ نہ کر دے

سنا ہے کہ منزل قریب آ گئی ہے

خمارؔ بلا نوش کہ تو اور توبہ

تجھے زاہدوں کی نظر لگ گئی ہے


2

مجھ کو شکست دل کا مزا یاد آ گیا

تم کیوں اداس ہو گئے کیا یاد آ گیا

کہنے کو زندگی تھی بہت مختصر مگر

کچھ یوں بسر ہوئی کہ خدا یاد آ گیا

واعظ سلام لے کہ چلا مے کدے کو میں

فردوس گم شدہ کا پتا یاد آ گیا

برسے بغیر ہی جو گھٹا گھر کے کھل گئی

اک بے وفا کا عہد وفا یاد آ گیا

مانگیں گے اب دعا کہ اسے بھول جائیں ہم

لیکن جو وہ بوقت دعا یاد آ گیا

حیرت ہے تم کو دیکھ کے مسجد میں اے خمارؔ

کیا بات ہو گئی جو خدا یاد آ گیا


3

وہی پھر مجھے یاد آنے لگے ہیں

جنہیں بھولنے میں زمانے لگے ہیں

وہ ہیں پاس اور یاد آنے لگے ہیں

محبت کے ہوش اب ٹھکانے لگے ہیں

سنا ہے ہمیں وہ بھلانے لگے ہیں

تو کیا ہم انہیں یاد آنے لگے ہیں

ہٹائے تھے جو راہ سے دوستوں کی

وہ پتھر مرے گھر میں آنے لگے ہیں

یہ کہنا تھا ان سے محبت ہے مجھ کو

یہ کہنے میں مجھ کو زمانے لگے ہیں

ہوائیں چلیں اور نہ موجیں ہی اٹھیں

اب ایسے بھی طوفان آنے لگے ہیں

قیامت یقیناً قریب آ گئی ہے

خمارؔ اب تو مسجد میں جانے لگے ہیں


4

ہنسنے والے اب ایک کام کریں

جشن گریہ کا اہتمام کریں

ہم بھی کر لیں جو روشنی گھر میں

پھر اندھیرے کہاں قیام کریں

مجھ کو محرومیٔ نظارہ قبول

آپ جلوے نہ اپنے عام کریں

اک گزارش ہے حضرت ناصح

آپ اب اور کوئی کام کریں

آ چلیں اس کے در پہ اب اے دل

زندگی کا سفر تمام کریں

ہاتھ اٹھتا نہیں ہے دل سے خمارؔ

ہم انہیں کس طرح سلام کریں


5

ایسا نہیں کہ ان سے محبت نہیں رہی

جذبات میں وہ پہلی سی شدت نہیں رہی

ضعف قویٰ نے آمد پیری کی دی نوید

وہ دل نہیں رہا وہ طبیعت نہیں رہی

سر میں وہ انتظار کا سودا نہیں رہا

دل پر وہ دھڑکنوں کی حکومت نہیں رہی

کمزوریٔ نگاہ نے سنجیدہ کر دیا

جلووں سے چھیڑ چھاڑ کی عادت نہیں رہی

ہاتھوں سے انتقام لیا ارتعاش نے

دامان یار سے کوئی نسبت نہیں رہی

پیہم طواف کوچۂ جاناں کے دن گئے

پیروں میں چلنے پھرنے کی طاقت نہیں رہی

چہرے کو جھریوں نے بھیانک بنا دیا

آئینہ دیکھنے کی بھی ہمت نہیں رہی

اللہ جانے موت کہاں مر گئی خمارؔ

اب مجھ کو زندگی کی ضرورت نہیں رہی