INTEKHAB E KALAM KHWAJA MEER DAR’D

Articles

خواجہ میر درد


انتخابِ کلام خواجہ میر درد

انتخابِ کلام خواجہ میر درد

مقدور ہمیں کب ترے وصفوں کے رقم کا
حقّا کہ خدا وند ہے تو لوح و قلم کا
اُس مسندِ عزت پہ کہ تو جلوہ نما ہے
کیا تاب گزر ہووے تعقل کے قدم کا
بستے ہیں ترے سائے میں سب شیخ و برہمن
آباد ہے تجھ سے ہی تو گھر دیرو حرم کا
ہے خوف اگر جی میں تو ہے تیرے غضب سے
اور دل میں بھروسا ہے تو ہے تیرے کرم کا
مانند حباب آنکھ تو اے درد کھلی تھی
کھینچا نہ پر اس بحر میں عرصہ کوئی دم کا
٭٭٭
اگر یوں ہی دل یہ ستاتا رہے گا
تو اک دن مرا جی ہی جاتا رہے گا
میں جاتا ہوں دل کو ترے پاس چھوڑے
مری یاد تجھ کو دلاتا رہے گا
گلی سے تری دل کو لے تو چلا ہوں
میں پہنچوں گا جب تک یہ آتا رہے گا
جفا سے غرض امتحانِ وفا ہے
تو کہہ کب تلک آزماتا رہے گا
قفس میں کوئی تم سے اے ہم صفیرو
خبر گل کی ہم کو سناتا رہے گا
اگر تجھ کو چلنا ہے چل ساتھ میرے
یہ کب تک تو باتیں بناتا رہے گا
خفا ہوکے اے درد مر تو چلا ہے
کہاں تک غم اپنا چھپاتا رہے گا
٭٭٭
تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا
برابر ہے دنیا کو دیکھا نہ دیکھا
مرا غنچہ دل ہے وہ دل گرفتہ
کہ جس کو کسو نے کبھو وا نہ دیکھا
یگانہ ہے تو آہ بے گانگی میں
کوئی دوسرا آہ ایسا نہ دیکھا
اذیّت، مصیبت، ملامت، بلائیں
ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا
کیا مجھ کو داغوں نے سروِ چراغاں
کبھی تونے آکر تماشا نہ دیکھا
تغافل نے تیرے یہ کچھ دن دکھائے
ایدھر تونے لیکن نہ دیکھا نہ دیکھا
حجابِ رخِ یار تھے آپ ہم ہی
کھلی آنکھ جب کوئی پردا نہ دیکھا
شب و روز اے درد در پر ہوں اس کے
کسو نے جسے یاں نہ سمجھا نہ دیکھا
٭٭٭
کچھ لائے نہ تھے کہ کھو گئے ہم
تھے آپ ہی ایک سو گئے ہم
جوں آئینہ جس پہ یاں نظر کی
ساتھ اپنے دوچار ہوگئے ہم
ماتم کدہ دہر میں جوں ابر
اپنے تئیں آپ رو گئے ہم
ہستی نے تو ٹک جگا دیا تھا
پھر کھلتے ہی آنکھ سو گئے ہم
یاروں ہی سے درد ہے یہ چرچا
پھر کوئی نہیں ہے جو گئے ہم
٭٭٭
ہم تجھ سے کس ہوس کی فلک جستجو کریں
دل ہی نہیں رہا ہے جو کچھ آرزو کریں
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
مٹ جائیں ایک دم میں یہ کثرت نمائیاں
گر آئینے کے سامنے ہم آکے ہو کریں
سر تا قدم زبان ہیں جوں شمع گو کہ ہم
پر یہ کہاں مجال کہ جو کچھ گفتگو کریں
ہر چند آئنہ ہوں پر اتنا ہوں نا قبول
منہ پھیر لیں وہ جس کے مجھے رو برو کریں
نے گل کو ہے ثبات نہ ہم کو ہے اعتبار
کس بات پر چمنِ ہوسِ رنگِ و بو کریں
ہے اپنی یہ صلاح کہ سب زاہدانِ شہر
اے درد آکے بیعتِ دستِ سبو کریں
٭٭٭
اہلِ فنا کو نام سے ہستی کے ننگ ہے
لوحِ مزار بھی مری چھاتی پہ سنگ ہے
فارغ ہو بیٹھ فکر سے دونوں جہان کی
خطرہ جو ہے سو آئینہ¿ دل پہ زنگ ہے
حیرت زندہ نہیں ہے فقط تو ہی آئینہ
یاںٹُک بھی جس کی آنکھ کھلی ہے سو دنگ ہے
اِس ہستیِ خراب سے کیا کام تھا ہمیں
اے نشّہِ ظہور یہ تیری ترنگ ہے
گل گیر منہ پسار نہ تو شمع کی طرح
اُس کی زبان ہی اسے کامِ نہنگ ہے
کب ہے دماغِ عشق بتانِ فرنگ کا
مجھ کو تو اپنی ہستی ہی قیدِ فرنگ ہے
عالم سے اختیار کی ہرچند صلحِ کل
پر اپنے ساتھ مجھ کو شب و روز جنگ ہے
میں کیا کہوں تجھے نظر آیا نہیں ہے کیا
اِس گردشِ جہان کا جو کچھ کہ ڈھنگ ہے
غنچہ شگفتہ ہووے ہی ہووے کہ اس میں درد
دیکھا چمن میں جاکے تو کچھ اور ہی رنگ ہے
٭٭٭
ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے
وحدت میں تیری حرف دوئی کا نہ آسکے
آئینہ کیا مجال تجھے منہ دکھا سکے
میں رہ فتادہ ہوں کہ بغیر از فنا مجھے
نقشِ قدم کی طرح نہ کوئی اٹھا سکے
قاصد نہیں یہ کام ترا اپنی راہ لے
اُس کے پیام دل کے سوا کون لا سکے
غافل خدا کی یاد پہ مت بھول زنہار
اپنے تئیں بھلا دے اگر تو بھلا سکے
یارب یہ کیسا ظلم ہے ادراک و فہم یاں
دوڑے ہزار آپ سے باہر نہ جاسکے
گو بحث کرکے بات بٹھائی تو کیا حصول
دل سے اٹھا خلاف اگر تو اٹھا سکے
اطفائے نارِ عشق نہ ہو آب اشک سے
یہ آگ وہ نہیں جسے پانی بجھا سکے
مستِ شراب عشق وہ بے خود ہے جس کو حشر
اے درد چاہے لائے بخود پھر نہ لا سکے
٭٭٭