Intekhab E Kalam Kumar Pashi

Articles

کمار پاشی


کمار پاشی کا منتخب کلام

۱
یہ کیسی آگ برستی ہے آسمانوں سے
پرندے لوٹ کے آنے لگے اڑانوں سے

کوئی تو ڈھونڈ کے مجھ کو کہیں سے لے آئے
کہ خود کو دیکھا نہیں ہے بہت زمانوں سے

پلک جھپکتے میں میرے اڑان بھرتے ہی
ہزاروں تیر نکل آئیں گے کمانوں سے

ہوئی ہیں دیر و حرم میں یہ سازشیں کیسی
دھواں سا اٹھنے لگا شہر کے مکانوں سے

شکار کرنا تھا جن کو شکار کر کے گئے
شکاریو اتر آؤ تم اب مچانوں سے

روایتوں کو کہاں تک اٹھائے گھومو گے
یہ بوجھ اتار دو پاشیؔ تم اپنے شانوں سے

۲

لوگ جب جشن بہاروں کا منانے نکلے
ہم بیابانوں میں تب خاک اڑانے نکلے

کھل گیا دفتر صد رنگ ملاقاتوں کا
حسن کے ذکر پہ کیا کیا نہ فسانے نکلے

عشق کا روگ کہ دونوں سے چھپایا نہ گیا
ہم تھے سودائی تو کچھ وہ بھی دوانے نکلے

جب کھلے پھول چمن میں تو تری یاد آئی
چند آنسو بھی مسرت کے بہانے نکلے

شہر والے سبھی بے چہرہ ہوئے ہیں پاشیؔ
ہم یہ کن لوگوں کو آئینہ دکھانے نکلے

 

 

۳

تیری یاد کا ہر منظر پس منظر لکھتا رہتا ہوں
دل کو ورق بناتا ہوں اور شب بھر لکھتا رہتا ہوں

بھری دوپہری سائے بناتا رہتا ہوں میں لفظوں سے
تاریکی میں بیٹھ کے ماہ منور لکھتا رہتا ہوں

خواب سجاتا رہتا ہوں میں بجھی بجھی سی آنکھوں میں
جس سے سب محروم ہیں اسے میسر لکھتا رہتا ہوں

چھانو نہ بانٹے پیڑ تو اپنی آتش میں جل جاتا ہے

صرف یہی اک بات میں اسے برابر لکھتا رہتا ہوں
کیا بتلاؤں پاشیؔ تم کو سنگ دلوں کی بستی میں
موتی سوچتا رہتا ہوں میں گوہر لکھتا رہتا ہوں
————————————————————————————————————

کمار پاشی کی منتخب نظمیں

ایودھیا! آ رہا ہوں میں

ایودھیا! آ رہا ہوں میں
میں تیری کوکھ سے جنما
تری گودی کا پالا ہوں
تری صدیوں پرانی سانولی مٹی میں کھیلا ہوں
مجھے معلوم ہے تو مجھ سے روٹھی ہے
مگر اب دور تجھ سے رہ نہیں سکتا
پرائے دیش میں گزری ہے جو مجھ پر
وہ خود سے بھی کبھی میں کہہ نہیں سکتا
ذرا سر تو اٹھا اور دیکھ
کتنی دور سے تجھ کو منانے آ رہا ہوں میں
تجھے تیرے ہی کچھ قصے سنانے آ رہا ہوں میں
ایودھیا! جانتا ہوں تیری مٹی میں اداسی ہے
نہ جانے کتنی صدیوں سے
مری بھی روح پیاسی ہے
کہ ہم دونوں کی قسمت میں خوشی تو بس ذرا سی ہے
بہت دن ہو گئے ہیں مجھ کو تیرے آسماں دیکھے
سنہری دھوپ دیکھے چمچاتی کہکشاں دیکھے
تری گلیاں ترے بازار اور تیرے مکاں دیکھے
وہ دن جو تجھ میں روشن تھے وہ برسوں سے کہاں دیکھے
بچھڑ کر تجھ سے جو منظر بھی دیکھے رائیگاں دیکھے
مگر ہاں یاد آیا
ایک منظر اور بھی محفوظ ہے مجھ میں
حویلی ایک چھوٹی سی اور اس میں نیم کے سائے
کہ جس میں آج بھی زندہ ہیں شاید میرے ماں جائے
اسی منظر کے پیچھے اور بھی دھندلے سے منظر ہیں
پرانی گم شدہ تہذیب کے گھر ہیں
جہاں خوابوں کی دنیا ہیں
جہاں یادوں کے دفتر ہیں
اندھیرے روبرو میرے
ستارے میرے اندر ہیں
کہیں رادھا کہیں سیتا کہیں بیاکل سی میرا ہے
کہیں پر کربلا ہے اور کہیں پر رام لیلا ہے
ترا میرا تو ان گنت جنموں کا قصہ ہے
کہ مجھ میں دور
صدیوں دور
گوتم اب بھی زندہ ہے
ہوا رک رک کے آتی ہے
جو گونجی تھیں ہزاروں سال پہلے
وہ صدائیں ساتھ لاتی ہے
مرے اندر جو میرے روپ ہیں
مجھ کو دکھاتی ہے
ایودھیا! میں ترے مرگھٹ کا باسی ہوں
مجھے تو جانتی ہوگی
مجھے معلوم ہے مجھ کو
مرے ہر نام سے پہچانتی ہوگی
اجڑ کر رہ گیا جو میں وہ میلہ ہوں
بھرا سنسار ہے پھر بھی اکیلا ہوں
تری مٹی سے جاگا ہوں
تری مٹی میں کھیلا ہوں
تری مٹی کو پہنا ہے
تری مٹی کو اوڑھا ہے
بہت جی چاہتا ہے اب تری مٹی میں کھو جاؤں
کئی صدیوں کا جاگا ہوں
تری مٹی میں سو جاؤں
ایودھیا! میرا باہر کربلا ہے
اندروں میرا کپل وستو ہے، مکہ ہے مدینہ ہے
مجھے تیرے پرانے اور روشن دن میں جینا ہے
بدن پر ہے ترا بخشا ہوا یہ کیسری بانا
ہے بھکشا پتر ہاتھوں میں
سفر میرا ہے اب تاریک راتوں میں
ایودھیا! سر اٹھا
اور دیکھ لے مجھ کو
تھکے قدموں سے اب تیری ہی جانب آ رہا ہوں میں
سفر تاریک ہے
پگ پگ پہ ٹھوکر کھا رہا ہوں میں
مجھے آواز دے گھبرا رہا ہوں میں
تری خاطر جو برسوں سے چھپا رکھا ہے دل میں
وہ اجالا لا رہا ہوں میں
ایودھیا!
آ رہا ہوں میں
——————————————————————————

یہ گرتا ہوا شہر میرا نہیں

یہ آگ اور خوں کے سمندر میں گرتا ہوا شہر میرا نہیں
ہوا سے الجھتا ہوا میں چلا جا رہا ہوں اندھیرا ہے گہرا گھنا بے اماں
رات کے دشت میں تیرے میرے مکاں
دور ہوتے چلے جا رہے ہیں
لہو کے اجالے بھی معدوم ہیں
اور تاریک گنبد میں معصوم روحوں کے کہرام میں
بے صدا آسماں کی طرف
خوں میں لتھڑے ہوئے ہاتھ اٹھتے ہیں تحلیل ہو جاتے ہیں
اور کہیں دور اپنی فصیلوں کے اندر بکھرتی ہوئی
نامرادوں کی بستی کے اوپر
ہوا سے الجھتا ہوا میں اڑا جا رہا ہوں اندھیرا ہے گہرا گھنا بے اماں
میں بلاتا ہوں آواز دیتا ہوں اب اس حسیں شہر کو
جو پرانی زمینوں کے نیچے کہیں دفن ہے
کوئی آواز کانوں میں آتی نہیں ہے
میں شاید پرانی زمینوں کے نیچے بہت دور نیچے کہیں دفن ہوں
خوں میں لتھڑے ہوئے ہاتھ
تاریک گنبد
یہ اندھی ہوا
پھڑپھڑاتا ہوا ایک زخمی پرندہ
کہیں دور اپنی فصیلوں کے اندر بکھرتی ہوئی
نامرادوں کی بستی کے اوپر
میں جلتے پروں سے اڑا جا رہا ہوں
یہ آگ اور خوں کے سمندر میں گرتا ہوا شہر میرا نہیں ہے
———————————