Intekhab – e – Kalam Qabil Ajmeri

Articles

قابل اجمیری


انتخابِ کلا م قابل اجمیری

 

1
تم نہ مانو مگر حقیقت ہے
عشق انسان کی ضرورت ہے

کچھ تو دل مبتلائے وحشت ہے
کچھ تری یاد بھی قیَامت ہے

میرے محبوب مجھ سے جھوٹ نہ بول
جھوٹ صورت گِر صداقت ہے

جی رہا ہوں اس اعتماد کے سَاتھ
زندگی کو مری ضرورت ہے

حُسن ہی حُسن جلوے ہی جَلوے
صرف احساس کی ضرورت ہے

اُس کے وعدے پہ ناز تھے کیا کیا
اب در و بام سے ندامت ہے

اس کی محفل میں بیٹھ کر دیکھو
زندگی کتنی خوبصورت ہے

راستہ کٹ ہی جائے گا قابل
شوقِ منزل اگر سَلامت ہے

2
حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں تک آ گئے
ہم نظر تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آ گئے

نامرادی اپنی قسمت ، گمرہی اپنا نصیب
کارواں کی خیر ہو ہم کارواں تک آ گئے

ان کی پلکوں پر ستارے اپنے ہونٹوں پر ہنسی
قصہ غم کہتے کہتے ہم کہاں تک آ گئے

اپنی اپنی جستجو ہے اپنا اپنا شوق ہے
تم ہنسی تک بھی نہ پہنچے ہم فغاں تک آ گئے

زلف میں خوشبو نہ تھی یا رنگ عارض میں نہ تھا
آپ کس کی آرزو میں گلستاں تک آ گئے

رفتہ رفتہ رنگ لایا جذبہ خاموشِ عشق
وہ تغافل کرتے کرتے امتحاں تک آ گئے

خود تمہیں چاکِ گریباں کا شعور آ جائے گا
تم وہاں تک آ تو جاو¿ ہم جہاں تک آ گئے

آج قابل میکدے میں انقلاب آنے کو ہے
اہلِ دل اندیشہ سود و زیاں تک آ گئے

3
آسودگی شوق کا سَاماں نہ کر سکے
جلوے مِری نگاہ پہ احساں نہ کر سکے

تم نے مسرتوں کے خزانے لٹا دیئے
لیکن علاجِ تنگئی داماں نہ کر سکے

آنکھوں سے ٹوٹتے رہے تارے تمام رات
لیکن کسی کو زینتِ داماں نہ کر سکے

شائستہِ نشاطِ ملامت کہاں تھے ہم
اچھا ہوا کہ چاک گریباں نہ کر سکے

اک والہانہ شان سے بڑھتے چلے گئے
ہم امتیازِ ساحل و طوفاں نہ کر سکے

ہم جانِ رنگ و بو ہیں گلستاں ہمیں سے ہے
یہ اور بات خود کو نمایاں نہ کر سکے

کچھ اس طرح گزر گیا طوفانِ رنگ و بو
غنچے بہار سے کوئی پیماں نہ کر سکے

ہر صبح جاگتا ہوں نئی آرزو کے سَاتھ
غم مجھ کو زندگی سے گریزاں نہ کر سکے

قابل فراقِ دوست میں دل بجھ کے رہ گیا
جینے کے حوصلے بھی فروزاں نہ کر سکے

4
بہاروں کا فسوں ٹوٹا گلستانوں کی نیند آئی
خزاں آئی کہ تیرے چاک دامانوں کو نیند آئی

سُنے کوئی تو سَاحل کا سکوت اب بھی سناتا ہے
ہمیں خاموش کر کے کتنے طوفانوں کو نیند آئی

تِرے ہی حسن کی تابانیوں میں آنکھ کھولی تھی
تِری ہی زلف کے سائے میں ارمانوں کو نیند آئی

یہ اہل بزم کیا خود شمع بھی محروم ہے اس سے
سکونِ دل کے جس عالم میں پروانوں کو نیند آئی

جنوں محوِ تجسس ہے خرد آواز دیتی ہے
نہ جانے کون سے عالم میں دیوانوں کو نیند آئی

ہمارے ساتھ ساری بزم بے آرام ہے سَاقی
صراحی کو سکوں آیا نہ پیمانوں کو نیند آئی

زمانہ دیکھ لے گا اور تھوڑی دیر باقی ہے
ہمیں نیند آ گئی قابل کے طوفانوں کو نیند آئی

5
نئے چراغ لئے شامِ بیکسی آئی
کہ دل بجھا تو ستاروں میں روشنی آئی

جنونِ شوق نے پہنچا دیا کہاں مجھ کو
نگاہِ دوست بھی اکثر تھکی تھکی آئی

ہمارے پاس کہاں آنسو¿وں کی سوغاتیں
کسی کو اپنا بنا کے بڑی ہنسی آئی

جہانِ دار و رسن ہو کہ بزمِ شعر و شراب±
ہمَارے سَامنے اپنی ہی زندگی آئی

تمہَاری یاد کو آرامِ جاں بنایا تھا
تمہَاری یاد بھی لیکن کبھی کبھی آئی

ہزار رنگ دیئے جس نے زندگانی کو
اُسی نظر سے محبت میں سَادگی آئی

مِرے خلوص کا عَالم نہ پوچھئے قابل
شکستِ جَام سے آوازِ زندگی آئی

6
اعتبار نگاہ کر بیٹھے
کتنے جلوے تباہ کر بیٹھے

آپ کا سنگِ در نہیں چمکا
ہم جبینیں سیاہ کر بیٹھے

موت پر مسکرانے آئے تھے
زندگانی تبَاہ کر بیٹھے

شمعِ امید کے اُجالے میں
کتنی راتیں سیاہ کر بیٹھے

صرف عذرِ گناہ ہو نہ سکا
ورنہ سارے گناہ کر بیٹھے

کِس توقع پہ اہل دل قابل
زندگی سے نباہ کر بیٹھے

7
ہم تِری رہگزر میں رہتے ہیں
دونوں عَالم نظر میں رہتے ہیں

تیرے در کا طواف کر کے بھی
فکرِ شام و سحر میں رہتے ہیں

زندگانی کے سب نشیب و فراز
حلقہ چشمِ تر میں رَہتے ہیں

کتنے شعلے سکونِ جَاں بن کر
نرگسِ بے خبَر میں رہتے ہیں

ڈھونڈنے پر کہَاں ملیں گے ہم
راہرو ہیں سفَر میں رہتے ہیں

لاکھ ہم خانماں خراب سہی
حادثوں کی نظرَ میں رہتے ہیں

ایک دن پوچھتی پھرے گی حَیات
اہلِ دل کِس نگر میں رہتے ہیں!

منزلِ زیست کی کشش مت پوچھ
راستے بھی سفر میں رہتے ہیں

صاحبِ درد ہو کے ہم قابل
کوچہ چارہ گر میں رہتے ہیں

8
آپ اپنے رقیب ہوتے ہیں
اہلِ دل بھی عجیب ہوتے ہیں

ہجر کی پُرخلوص راتوں میں
آپ کتنے قرَیب ہوتے ہیں

راحتوں سے گریز ، غم سے فَرار
بعض لمحے عجیب ہوتے ہیں

تم جنہیں عُمر بھر نہیں ملتے
وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں

اہلِ دانش کے قافلے گمُ راہ
منزلوں کے قریب ہوتے ہیں

گردشیں رک گئیں زمَانے کی
آج دو دل قریب ہوتے ہیں

اُس کے طرزِ کلام سے قابل
کتنے وحشی ادیب ہوتے ہیں

9
وہی اضطراب فراق ہے وہی اشتیاقِ وصال ہے
تری جستجو میں جو حال تھا تجھے پا کے بھی وہی حال ہے

نہ مآلِ زیست کی فکر ہے نہ تباہیوں کا خیَال ہے
مجھے صرف اس کا ملال ہے کہ تمہیں بھی میرا ملال ہے

تری آرزو ہی کا فیض ہے تیری یاد ہی کا کمال ہے
کبھی مجھ کو تیرا خیال تھا مگر آج اپنا خیال ہے

نہیں کوئی راہ نما تو کیا ہے خلاف ساری فضا تو کیا
مجھے فکرِ سو دو زیاں ہو کیوں تری یاد شاملِ حال ہے

ہے جنونِ شوق عجب جنوں نہ خلش خلش نہ سکوں سکوں
کبھی خار وجہِ نشاط ہے کبھی پھول وجہِ ملال ہے

مرا حال آج زبوں ہے کیوں مرا درد آج فزوں ہے کیوں
مرے مہرباں مرے چارہ گر تیری آبرو کا سوال ہے

10
تضادِ جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کرو گے
میں رو رہا ہوں تو ہنس رہے ہو میں مسکرایا تو کیا کرو گے

مجھے تو اس درجہ وقتِ رخصت سکوں کی تلقین کر رہے ہو
مگر کچھ اپنے لئے بھی سوچا میں یاد آیا تو کیا کرو گے

کچھ اپنے دل پر بھی زخم کھاو¿ مرے لہو کی بہار کب تک
مجھے سہارا بنانے والو میں لڑکھڑایا تو کیا کرو گے

تمہارے جلووں کی روشنی میں نظر کی حیرانیاں مُسلّم
مگر کسی نے نظر کے بدلے دل آزمایا تو کیا کرو گے

اتر تو سکتے ہو پار لیکن مآل پر بھی نگاہ کر لو
خدا نہ کردہ سکونِ ساحِل نہ راس آیا تو کیا کرو گے

ابھی تو تنقید ہو رہی ہے مرے مذاقِ جنوں پہ لیکن
تمہاری زلفوں کی برہمی کا سوال آیا تو کیا کرو گے

ابھی تو دامن چھڑا رہے ہو ، بگڑ کے قابل سے جا رہے ہو
مگر کبھی دل کی دھڑکنوں میں شریک پایا تو کیا کرو گے

11
ترے دیار میں ہم سر جھکائے پھرتے ہیں
نگاہِ ناز کے احساں اٹھائے پھرتے ہیں

کسی کی زلف پریشاں کسی کا دامن چاک
جنوں کو لوگ تماشا بنائے پھرتے ہیں

خیالِ منزل جاناں تری دہائی ہے
ابھی نگاہ میں اپنے پرائے پھرتے ہیں

قدم قدم پہ لیا انتقام دنیا نے!
تجھی کو جیسے گلے سے لگائے پھرتے ہیں

تمہیں خبر بھی ہے یارو کہ دشتِ غربت میں
ہم آپ اپنا جنازہ اٹھائے پھرتے ہیں

نئی سحر کے اجالے بھی اجنبی نکلے!
نگاہِ شوق سے دامن بچائے پھرتے ہیں

جہاں میں آج اندھیروں کا بول بالا ہے
ہم آستیں میں ستارے چھپائے پھرتے ہیں

فراقِ دوست سلامت کہ اہل دِل قابل
نفس نفس کو زمانہ بنائے پھرتے ہیں

12
کوئے قاتل میں ہمیں بڑھ کے صدا دیتے ہیں
زندگی آج ترا قرض چُکا دیتے ہیں

حادثے زیست کی توقیر بڑھا دیتے ہیں
اے غمِ یار تجھے ہم تو دعا دیتے ہیں

کوئے محبوب سے چپ چاپ گزرنے وَالے
عرصہ زیست میں اِک حشر اٹھا دیتے ہیں

تیرے اخلاص کے افسوں ترے وعدوں کے طلسم
ٹوٹ جاتے ہیں تو کچھ اور مزہ دیتے ہیں

ہاں یہی خاک بسر سوختہ ساماں اے دوست
تیرے قدموں میں ستاروں کو جھکا دیتے ہیں

سینہ چاکانِ محبت کو خبر ہے کہ نہیں
شہرِ خوباں کے در و بام صدا دیتے ہیں

ہم نے اُس کے لب و رخسار کو چھو کر دیکھَا
حوصلے آگ کو گلزار بنا دیتے ہیں

13
ٹوٹا نہیں ہے بند قبائے سحر ابھی
نامحرمِ جمال ہے اہلِ نظر ابھی

شاید پھر اس قدر بھی تعلّق نہیں رہے
کچھ لوگ ڈھونڈتے ہیں ترا سنگ در ابھی

کتنی حقیقتیں ہیں توجہ کی منتظر
منزل سے بے نیاز ہے ذوقِ سفر ابھی

خُوشبو روش روش ہے اُجالا ہے شاخ شاخ
گذری ہے گلستاں سے نسیمِ سحر ابھی

احباب کے فریب مُسلسل کے باوجود
کھنچتا ہے دل خلوص کی آواز پر ابھی

کچھ حُسن آ چلا تھا شبِ انتظار میں
کاش اور تھوڑی دیر نہ ہوتی سحر ابھی

انگڑائی لے رہی ہے بہاریں خیال میں
مہکی ہوئی ہے نگہتِ رخ سے نظر ابھی

دل میں مچل رہی ہے مسیحا کی آرزو
قابل نشاطِ درد نہیں معتبر ابھی

14
ازل سے مائلِ پرواز ہوں میں
تری انگڑائیوں ، کا راز ہوں میں

بڑا دلچسپ ہے انجام میرا
غرورِ دوست کا آغاز ہوں میں

ابھی مشکل سے سمجھے گا زمَانہ
نیا نغمَہ نئی آواز ہوں میں

مجھ ہی پر ختم ہیں سَارے ترانے
شکستِ ساز کی آواز ہوں میں

غمِ خود آگہی میں کھو گیَا ہوں
تمنائے نگاہِ ناز ہوں میں !

مجھے کیوں ہو غمِ انجام قابل
خراب عشرتِ آغاز ہوں میں
———————————-

مشمولہ ’’اردو چینل‘‘ شمارہ ۲۸ ۔اس شمارے کی پی ڈی ایف فائل ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔