intekhab E Kalam Qalandar Bakhsh Jura’t

Articles

قلندر بخش جرأت


انتخابِ کلام شیخ قلندر بخش جرأت

 

 

جو راہِ ملاقات تھی سو جان گئے ہم
اے خضر تصور ترے قربان گئے ہم

جمعیت حسن آپ کی سب پر ہوئی ظاہر
جس بزم میں با حال پریشان گئے ہم

اس گھر کے تصور میں جوں ہی بند کیں آنکھیں
صد شکر کہ بے منتِ دربان گئے ہم

کل واقف کار اپنے سے کہتا تھا وہ یہ بات
جرات کے جو گھر رات کو مہمان گئے ہم

کیا جانیے کم بخت نے کیا ہم پہ کیا سحر
جو بات نہ تھی ماننے کی مان گئے ہم
٭٭٭

ہم کب از خود ترے گھر یار چلے آتے ہیں
رہ نہیں سکتے تو ناچار چلے آتے ہیں

لے خبر اس کی شتابی سے کہ عاشق کو ترے
غش پہ غش شوخ ستم گار چلے آتے ہیں

میں تو حیراں ہوں مطب ہے کہ درِ یار ہے یہ
یاں تو بیمار پہ بیمار چلے آتے ہیں

گھر میں گھبراتے ہیں بے یار تو ہم وحشی سے
سر برہنہ سرِ بازار چلے آتے ہیں

کھڑے رہ سکتے نہیں در پہ تو حیران سے واں
بیٹھ کر ہم پسِ دیوار چلے آتے ہیں

کس کے نالوں کی یہ آندھی ہے کہ شکلِ پر کاہ
آج اڑتے ہوئے کہسار چلے آتے ہیں
٭٭٭

جذبہِ عشق عجب سیر دکھاتا ہے ہمیں
اپنی جانب کوئی کھینچے لیے جاتا ہے ہمیں

بزم میں تکتے ہیں منہ اس کا کھڑے اور وہ شوخ
نہ اٹھاتا ہے کسی کو نہ بٹھاتا ہے ہمیں

کیا ستم ہے کہ طریق اپنا رہِ عشق میں آہ
کوئی جس کو نہیں بھاتا وہ ہی بھاتا ہے ہمیں

اس ترقی میں تنزل میں ہے کہ جوں قامت طفل
آسماں عمر گھٹانے کو بڑھاتا ہے ہمیں

بند کر بیٹھے ہیں اب آنکھ جو ہم تو اللہ
نظر آتا جو نہیں سو نظر آتا ہے ہمیں

مل کے ہم اس سے جو ٹک سوویں تو دکھ دینے کو
بختِ بد خواب جدائی کا دکھاتا ہے ہمیں

ہم ہیں وہ مرغِ گرفتار کہ اپنے پر سے
وارنا جس کو کہ ہووے وہ چھڑاتا ہے ہمیں

لا کے اس شوخ ستم گر کے دو رنگی کے پیام
نہ ہنساتا ہے کوئی اب نہ رلاتا ہے ہمیں

سن سے جا بیٹھتے ہیں اس کے تصور میں ہم آہ
بزم خوباں میں کوئی پاس بلاتا ہے ہمیں

محوِ نظارہ ہوں کیا ہم کہ بہ قول جرات
اپنی جانب کوئی کھینچے لیے جاتا ہے ہمیں
٭٭٭

اب عشق تماشا مجھے دکھلائے ہے کچھ اور
کہتا ہوں کچھ اور منہ سے نکل جائے ہے کچھ اور

ناصح کی حماقت تو ذرا دیکھیو یارو
سمجھا ہوں میں کچھ اور مجھے سمجھائے ہے کچھ اور

کیا دیدہ¿ خوں بار سے نسبت ہے کہ یہ ابر
برسائے ہے کچھ اور وہ برسائے کچھ اور

رونے دے، ہنسا مجھ کو نہ ہمدم کہ تجھے اب
کچھ اور ہی بھاتا ہے مجھے بھائے ہے کچھ اور

پیغام بر آیا ہے یہ اوسان گنوائے
پوچھوں ہوں میں کچھ اور مجھے بتلائے ہے کچھ اور

جرات کی طرح میرے حواس اب نہیں بر جا
کہتا ہوں کچھ اور منہ سے نکل جائے ہے کچھ اور
٭٭٭

مطلب کی کہہ سناو¿ں کسی بات میں لگا
رہتا ہوں روز و شب میں اسی گھات میں لگا

محفل میں مضطرب سا جو دیکھا مجھے تو بس
کہنے کسی سے کچھ وہ اشارات میں لگا

ہوتے ہی وصل کچھ خفقاں سا اسے ہوا
دھڑکا یہ بے طرح کا ملاقات میں لگا

کل رات ہم سے اس نے تو پوچھی نہ بات بھی
غیروں کی یاں تلک وہ مدارات میں لگا

آیا ہے ابر گھر کے اب آنے میں ساقیا
تو بھی نہ دیر موسم برسات میں لگا

مسجد میں سر بہ سجدہ ہوئے ہم تو کیا کہ ہے
کم بخت دل تو بزم خرابات میں لگا

گھٹّے پہ اپنے ماتھے کہ نازاں جو اب ہوئے
یہ داغ شیخ جی کے کرامات میں لگا

گر مجھ کو کارخانہِ تقدیر میں ہو دخل
روز قیام وصل کی دوں رات میں لگا

جرات ہماری بات پہ آیا نہ یاں تو آہ
کیا جانیے کسی کی وہ کس بات میں لگا
٭٭٭