Intekhab E Kalam Saleem Ahmad

Articles

سلیم احمد


انتخابِ کلام سلیم احمد

 

دلوں میں درد بھرتا آنکھ میں گوہر بناتا ہوں

جنہیں مائیں پہنتی ہیں میں وہ زیور بناتا ہوں

غنیم وقت کے حملے کا مجھ کو خوف رہتا ہے
میں کاغذ کے سپاہی کاٹ کر لشکر بناتا ہوں

پرانی کشتیاں ہیں میرے ملاحوں کی قسمت میں
میں ان کے بادباں سیتا ہوں اور لنگر بناتا ہوں

یہ دھرتی میری ماں ہے اس کی عزت مجھ کو پیاری ہے
میں اِس کا سر چھپانے کے لیے چادر بناتا ہوں

یہ سوچا ہے کہ اب خانہ بدوشی کر کے دیکھوں گا
کوئی آفت ہی آ تی ہے اگر میں گھر بناتا ہوں

میرے خوابوں پے جب تِیرہ شبی یلغار کرتی ہے
میں کِرنیں گوندھ کر چاند سے پیکر بناتا ہوں


2

جس کا انکار بھی انکار نہ سمجھا جائے

ہم سے وہ یارِطرحدار نہ سمجھا جائے

اتنی کاوش بھی نہ کر میری اسیری کے لیے

تو کہیں میرا گرفتار نہ سمجھا جائے

اب جو ٹھہری ہے ملاقات تو اس شرط کے ساتھ

شوق کو درخورِ اظہار نہ سمجھا جائے

نالہ بلبل کا جو سنتا ہے تو کھل اُٹھتا ہے گل

عشق کو مفت کی بیگار نہ سمجھا جائے

عشق کو شاد کرے غم کا مقدر بدلے

حسن کو اتنا بھی مختار نہ سمجھا جائے

بڑھ چلا آج بہت حد سے جنونِ گستاخ

اب کہیں اس سے سرِ دار نہ سمجھا جائے

دل کے لینے سے سلیمؔ اُس کو نہیں ہے انکار

لیکن اس طرح کہ اقرار نہ سمجھا جائے

—————-
3

ترک ان سے رسم و راہِ ملاقات ہو گئی

یوں مل گئے کہیں تو کوئی بات ہو گئی

دل تھا اُداس عالمِ غربت کی شام تھی

کیا وقت تھا کہ تجھ سے ملاقات ہو گئی

رسمِ جہاں نہ چھوٹ سکی ترکِ عشق سے

جب مل گئے تو پُرسشِ حالات ہو گئی

خو بُو رہی سہی تھی جو تجھ میں خلوص کی

اب وہ بھی نذرِ رسمِ عنایات ہو گئی

وہ دشتِ ہول خیز وہ منزل کی دھن وہ شوق

یہ بھی خبر نہیں کہ کہاں رات ہو گئی

کیوں اضطراب دل پہ تجھے آ گیا یقیں

اے بدگمانِ شوق یہ کیا بات ہو گئی

دلچسپ ہے سلیمؔ حکایت تری مگر

اب سو بھی جا کہ یار بہت رات ہو گئی

——————————-
4

ہر چند ہم نے اپنی زباں سے کہا نہیں

وہ حال کون سا ہے جو تونے سنا نہیں

ایسا بھی اب نہیں ہے کہ نازِ صبا اُٹھائیں

محفل میں دیکھتا ہے تو پہچانتا نہیں

یوں بھی ہزار روگ ہیں دل کو لگے ہوئے

پھر اس پہ یہ ملال کہ وہ پوچھتا نہیں

کتنا دیارِ درد کا موسم بدل گیا

تجھ کو نگاہِ ناز ابھی کچھ پتہ نہیں

تو بدگماں سہی پہ کبھی مل سلیمؔ سے

یہ امرِ واقعہ ہے کہ دل کا بُرا نہیں

———————————
5

جنابِ دل کی بھی خوش فہمیاں بلا کی ہیں

اسی سے داد کے طالب ہیں جس سے شاکی ہیں

جو چپ رہے ہیں کبھی لب بنازِ خوش گوئی

تو اس نگاہ نے ہزار ہا باتیں کی ہیں

خبر تو زُلف کی کچھ دے تری گلی کی ہوا

کہ الجھنیں تو وہی جانِ مبتلا کی ہیں

تمہارے حسن کی باتیں بھی لغزشیں ٹھہریں

تو لغزشیں یہ محبت میں با رہا کی ہیں