Intekhab e Kalam Saqi Farooqui

Articles

ساقی فاروقی


انتخابِ کلام ساقی فاروقی

 

غزلیں

مجھے خبر تھی مرا انتظار گھر میں رہا
یہ حادثہ تھا کہ میں عمر بھر سفر میں رہا
میں رقص کرتا رہا ساری عمر وحشت میں
ہزار حلقۂ زنجیرِ بام و در میں رہا
ترے فراق کی قیمت ہمارے پاس نہ تھی
ترے وصال کا سودا ہمارے سر میں رہا
یہ آگ ساتھ نہ ہوتی تو راکھ ہوجاتے
عجیب رنگ ترے نام سے ہنر میں رہا
اب ایک وادیِ نسیاں میں چھُپتا جاتا ہے
وہ ایک سایہ کہ یادوں کی رہگزر میں رہا

———-

ریت کی صورت جاں پیاسی تھی آنکھ ہماری نم نہ ہوئی
تیری درد گساری سے بھی روح کی الجھن کم نہ ہوئی
شاخ سے ٹوٹ کے بے حرمت ہیں ویسے بھی بے حرمت تھے
ہم گرتے پتّوں پہ ملامت کب موسم موسم نہ ہوئی
ناگ پھنی سا شعلہ ہے جو آنکھوں میں لہراتا ہے
رات کبھی ہمدم نہ بنی اور نیند کبھی مرہم نہ ہوئی
اب یادوں کی دھوپ چھائوں میں پرچھائیں سا پھرتا ہوں
میں نے بچھڑ کر دیکھ لیا ہے دنیا نرم قدم نہ ہوئی
میری صحرا زاد محبت ابرِ سیہ کو ڈھونڈتی ہے
ایک جنم کی پیاسی تھی اک بوند سے تازہ دم نہ ہوئی

—————–

خامشی چھیڑ رہی ہے کوئی نوحہ اپنا
ٹوٹتا جاتا ہے آواز سے رشتہ اپنا
یہ جدائی ہے کہ نسیاں کا جہنم کوئی
راکھ ہوجائے نہ یادوں کا ذخیرہ اپنا
ان ہوائوں میں یہ سسکی کی صدا کیسی ہے
بین کرتا ہے کوئی درد پرانا اپنا
آگ کی طرح رہے ، آگ سے منسوب رہے
جب اسے چھوڑ دیا خاک تھا شعلہ اپنا
ہم اسے بھول گئے تو بھی نہ پوچھا اس نے
ہم سے کافر سے بھی جزیہ نہیں مانگا اپنا

————

یہ کیا کہ زہرِ سبز کا نشّہ نہ جانیے
اب کے بہار میں ہمیں افسانہ جانیے
جل جل کے لوگ خاک ہوئے نارِ خوف سے
یہ زندگی سراب ہے دریا نہ جانیے
یہ خواب نائے درد ہمیں چشمۂ حیات
ہم لوگ سیر چشم ہیں پیاسا نہ جانیے
اپنے قدم کے ساتھ ہیں آسیب کے قدم
یہ کوچۂ حبیب ہے صحرا نہ جانیے
وہ سحرِ گورکن ہے ، بدن بدحواس ہیں
ہو پُتلیوں میں جان تو مردہ نہ جانیے

—————-

یہ لوگ خواب میں بھی برہنہ نہیں ہوئے
یہ بدنصیب تو کبھی تنہا نہیں ہوئے
یہ کیا کہ اپنی ذات سے بے پردگی نہ ہو
یہ کیا کہ اپنے آپ پر افشا نہیں ہوئے
ہم وہ صدائے آب کہ مٹّی میں جذب ہیں
خوش ہیں کہ آبشار کا نغمہ نہیں ہوئے
وہ سنگ دل پہاڑ کہ پگھلے نہ اپنی برف
یہ رنج ہے کہ رازقِ دریا نہیں ہوئے
تیرے بدن کی آگ سے آنکھوں میں ہے دھنک
اپنے لہو سے رنگ یہ پیدا نہیں ہوئے

——————

دامن میں آنسوئوں کا ذخیرہ نہ کر ابھی
یہ صبر کا مقام ہے ، گریہ نہ کر ابھی
جس کی سخاوتوں کی زمانے میں دھوم ہے
وہ ہاتھ سو گیا ہے ، تقاضا نہ کر ابھی
نظریں جلا کے دیکھ مناظر کی آگ میں
اسرارِ کائنات سے پردا نہ کر ابھی
یہ خاموشی کا زہر نسوں میں اتر نہ جائے
آواز کی شکست گوارا نہ کر ابھی
دنیا پہ اپنے علم کی پرچھائیاں نہ ڈال
اے روشنی فروش اندھیرا نہ کر ابھی

——————-

خاک نیند آئے اگر دیدۂ بیدار ملے
اس خرابے میں کہاں خواب کے آثار ملے
اُس کے لہجے میں قیامت کی فسوں کاری تھی
لوگ آواز کی لذت میں گرفتار ملے
اُس کی آنکھوں میں محبت کے دیے جلتے رہیں
اور پندار میں انکار کی دیوار ملے
میرے اندر اسے کھونے کی تمنا کیوں ہے
جس کے ملنے سے مری ذات کو اظہار ملے
روح میں رینگتی رہتی ہے گنہہ کی خواہش
اس امر بیل کو اک دن کوئی دیوار ملے

———–

ہم تنگ نائے ہجر سے باہر نہیں گئے
تجھ سے بچھڑ کے زندہ رہے ، مر نہیں گئے
آج اپنے گھر میں قید ہیں ، ان سے حجاب ہے
جو گھر سے بے نیاز ہوئے ، گھر نہیں گئے
اپنے لہو میں جاگ رہی تھی نمو کی آگ
آنکھوں سے اس بہار کے منظر نہیں گئے
اُس پر نہ اپنے درد کی بے قامتی کھلے
ہم اس دراز قد کے برابر نہیں گئے
ساقیؔ اس رات کی بے حرمتی کے بعد
اچھا ہوا کہ سوئے ستم گر نہیں گئے

———-

پام کے پیڑ سے گفتگو

مجھے سبز حیرت سے کیوں دیکھتے ہو
وہی تتلیاں جمع کرنے کی ہابی
اِدھر کھینچ لائی
مگر تتلیاں اتنی زیرک ہیں
ہجرت کے ٹوٹے پروں پر
ہوا کے دو شالے میں لپٹی
مرے خوف سے اجنبی جنگلوں میں کہیں
کہیں جا چھپیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور تھک ہار کرواپسی میں
سرکتے ہوئے ایک پتھر سے بچتے ہوئے
اس طرف میں نے دیکھا
تو ایسا لگا
یہ پہاڑی کسی دیو ہیکل فرشتے کا جوتا ہے
تم کتھئی چھال کے موزے میں
ایک پیر ڈالے
یہ جوتا پہننے کی کوشش میں لنگڑا رہے ہو ۔۔۔۔۔
دوسری ٹانگ شاید
کسی عالمی جنگ میں اڑ گئی ہے

مرا جال خالی
مگر دل مسرت کے احساس سے بھرگیا
تم اسی بانکپن سے
اسی طرح
گنجی پہاڑی پر
اپنی ہری وگ لگائے کھڑے ہو
یہ ہیئت کذائی جو بھائی
تو نزدیک سے دیکھنے آگیا ہوں

ذرا اپنے پنکھے ہلا دو
مجھے اپنے دامن کی ٹھنڈی ہوا دو
بہت تھک گیا ہوں

—————

ہمزاد

شیخ زَمَن شادانی
آئو
خواب دیکھتے ہیں
یاد نگر میں سائے پھرتے ہیں
تنہائی سسکاری بھرتی ہے
اپنی دنیا تاریکی میں ڈوب چلی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔باہر چل کر مہتاب دیکھتے ہیں
شیخ زَمَن شادانی
آئو
خواب دیکھتے ہیں
ہم سے پہلے کون کون سے لوگ ہوئے
جو ساحل پر کھڑے رہے
جن کی نظریں
پانی سے ٹکرا ٹکرا کر
ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر گئی ہیں
بکھر گئی ہیں اور پانی کا سبزہ ہیں
اس سبزے کے پیچھے کیا ہے
آج عَقب میں
چھپے ہوئے گرداب دیکھتے ہیں
شیخ زَمَن شادانی
آئو
خواب دیکھتے ہیں

———————-

موت کی خوشبو

جدائی
محبت کے دریائے خوں کی معاون ندی ہے
وفا
یاد کی شاخِ مرجاں سے
لپٹی ہوئی ہے
دل آرام و عشاق سب
خوف کے دائرے میں کھڑے ہیں
ہوائوں میں بوسوں کی باسی مہک ہے
نگاہوں میں خوابوں کے ٹوٹے ہوئے آئینے ہیں
دلوں کے جزیروں میں
اشکوں کے نیلم چھپے ہیں
رگوں میں کوئی رودِ غم بہہ رہا ہے

مگر درد کے بیج پڑتے رہیں گے
مگر لوگ ملتے بچھڑتے رہیں گے
یہ سب غم پرانے
یہ ملنے بچھڑنے کے موسم پرانے
پُرانے غموں سے
نئے غم الجھنے چلے ہیں
لبوں پر نئے نیِل
دل میں نئے پیچ پڑنے لگے ہیں
غنیم آسمانوں میں
دشمن جہازوں کی سرگوشیاں ہیں
ستاروں کی جلتی ہوئی بستیاں ہیں
اور آنکھوں کے رادار پر
صرف تاریک پرچھائیاں ہیں

ہمیں موت کی تیز خوشبو نے پاگل کیا ہے
امیدوں کے سرخ آبدوزوں میں سہمے
تباہی کے کالے سمندر میں
بہتے چلے جارہے ہیں

کراں تا کراں
ایک گاڑھا کسیلا دھواں ہے
زمیں تیری مٹی کا جادو کہاں ہے

——————–

شاہ صاحب اینڈ سنز

شاہ صاحب خوش نظر تھے
خوش ادا تھے
اور روزی کے اندھیرے راستوں پر
صبر کی ٹوٹی ہوئی چپل پہن کر
اک للک اک طنطنے کے ساتھ سرگرمِ سفر تھے
اور جینے کے مرض میں مبتلا تھے
جو غذائیں دسترس میں تھیں
عجب بے نور تھیں
ان میں نمو کاری نہ تھی
وہ جو موتی کی سی آب آنکھوں میں تھی
جاتی رہی
پُتلیوں میں خون
کائی کی طرح جمنے لگا
رفتہ رفتہ
موتیا بند ان کے دیدوں پر
زمرّد کی طرح اترا
عجب پردا پڑا
سارے زمانے سے حجاب آنے لگا

مضطرب آنکھوں کے ڈھیلے
خشک پتھرائے ہوئے
اتنے بے مصرف کہ بس
اک سبز دروازے کے پیچھے
بند سیپی کی طرح
چھپ کے واویلا کریں
اور اندھیرے آئینہ دکھلائیں، استنجا کریں

صرف دشمن روشنی کا انتظار
زندگانی غزوۂ خندق ہوئی
اس قدر دیکھا کہ نابینا ہوئے

۔۔۔۔۔۔اور جب رازق نگاہوں میں
سیاہی کی سَلائی پھر گئی
چھتنار آنکھوں سے
تجلّی کی سنہری پتیاں گرنے لگیں
تو شاہ صاحب اور بے سایہ ہوئے
ان کی اندھی منتقم آنکھوں میں دنیا
ایک قاتل کی طرح سے جم گئی
جیسے مرتے سانپ کی آنکھوں میں
اپنے اجنبی دشمن کا عکس
یوں سراسیمہ ہوئے
یوں ذات کے سنسان صحرائوں میں افسردہ پھرے
جیسے جیتے جاگتے لوگوں کو دیکھا ہی نہ ہو
جوشبیہیں دھیان میں محفوظ تھیں
ان سے رشتہ ہی نہ ہو

جگمگاتی بے قرار آنکھیں
کسی سہمے ہوئے گھونگھے کے ہاتھوں کی طرح
دیکھتی تھیں، سونگھتی تھیں، لمس کرتی تھیں
وہی جاتی رہیں تو زندگی سے رابطہ جاتا رہا
ہمدمی کا سلسلہ جاتا رہا
وہ جو اک گہرا تعلق
اک امر سمبندھ سا
چاروں طرف بکھری ہوئی چیزوں سے تھا
ہنستے ہوئے ، روتے ہوئے لوگوں سے تھا
اس طرح ٹوٹا کہ جیسے شیر کی اک جست سے
زیبرے کے ریڑھ کی ہڈی چٹخ جاتی ہے ۔۔۔۔۔
برسوں بے طرح بے کل رہے
ایک دن آنکھوں میں صحرا جل اٹھا
وہ خیال آیا کہ چہرہ جل اٹھا
اپنے بیٹوں کو کلیجوں سے لگایا
جی بھرا تھا ابر کی مانند روئے
روچکے تو ایک مہلک آتشیں تیزاب کے
شعلۂ سفاک سے
ان کی فاقہ سنج آنکھوں کو جلایا
اور سجدے میں گرے
جیسے گہری نیند میں ہوں
جیسے اک سکتے میں ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔

مدتوں سے ان بیاباں راستوں پر
چار اندھے دوستوں کا ایک کورس گونجتا ہے:
’’اے سخی شہرِ سخاوت میں گزر اوقات کر
اے نظر والے نظر خیرات کر‘‘

———-

نوحہ

یہ کیسی سازش ہے جو ہوائوں میں بہہ رہی ہے
میں تیری یادوں کی شمعیں بجھا کے خوابوں میں چل رہا ہوں
تری محبت مجھے ندامت سے دیکھتی ہے
وہ آبگینہ ہوں خواہشوں کا کہ دھیرے دھیرے پگھل رہا ہوں
یہ میری آنکھوں میں کیسا صحرا ابھر رہا ہے
میں با ل رُوموں میں بجھ رہا ہوں ، شراب خانوں میں جل رہا ہوں
جو میرے اندر دھڑک رہا تھا وہ مر رہا ہے

—————–

انہدام

اے ہوائے خوش خبر ، اب نویدِ سنگ دے
میری جیب و آستیں میرے خوں سے رنگ دے
میری عمرِ کج روش مجھ سے کہہ رہی ہے ’’تو،
اک طلسم ہے تجھے ٹوٹنا ضرور ہے
تیری بد سرشت فکر تیرا قیمتی لہو
کھردری زبان سے چاٹتی چلی گئی
تو کنارِ بحر کی وہ چٹان ہے جسے
تند و تیز موجِ درد ، کاٹتی چلی گئی
اِس حریص جسم کا انہدام ہی سہی
ایک خون کی لکیر تیرے نام ہی سہی‘‘

—————–

سرخ گلاب اور بدرِ مُنیر

اے دل پہلے بھی تنہا تھے ، اے دل ہم تنہا آج بھی ہیں
اور ان زخموں اور داغوں سے اب اپنی باتیں ہوتی ہیں
جو زخم کہ سُرخ گلاب ہوئے ، جو داغ کہ بدرِ مُنیر ہوئے
اس طرح سے کب تک جینا ہے، میں ہار گیا اس جینے سے

کوئی ابر اُڑے کسی قلزم سے رَس برسے مرے ویرانے پر
کوئی جاگتا ہو ، کوئی کُڑھتا ہو،مرے دیر سے واپس آنے پر
کوئی سانس بھرے مرے پہلو میں کوئی ہاتھ دھرے مرے شانے پر

اور دبے دبے لہجے میں کہے تم نے اب تک بڑے درد سہے
تم تنہا تنہا جلتے رہے ، تم تنہا تنہا چلتے رہے
سنو تنہا چلنا کھیل نہیں ، چلو آئو مرے ہمراہ چلو
چلو نئے سفر پر چلتے ہیں ، چلو مجھے بنا کے گواہ چلو