Intekhab E Kalam Sauda

Articles

مرزا محمد رفیع سودا


انتخابِ کلام سودا

 

گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی

اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی

کیا ضد ہے مرے ساتھ خدا جانے وگرنہ

کافی ہے تسلی کو مری ایک نظر بھی

اے ابر قسم ہے تجھے رونے کی ہمارے

تجھ چشم سے ٹپکا ہے کبھو لخت جگر بھی

اے نالہ صد افسوس جواں مرنے پہ تیرے

پایا نہ تنک دیکھنے تیں روئے اثر بھی

کس ہستئ موہوم پہ نازاں ہے تو اے یار

کچھ اپنے شب و روز کی ہے تج کو خبر بھی

تنہا ترے ماتم میں نہیں شام سیہ پوش

رہتا ہے سدا چاک گریبان سحر بھی

سوداؔ تری فریاد سے آنکھوں میں کٹی رات

آئی ہے سحر ہونے کو ٹک تو کہیں مر بھی


وے صورتیں الٰہی کس ملک بستیاں ہیں

اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں

آیا تھا کیوں عدم میں کیا کر چلا جہاں میں

یہ مرگ و زیست تجھ بن آپس میں ہنستیاں ہیں

کیونکر نہ ہو مشبک شیشہ سا دل ہمارا

اس شوخ کی نگاہیں پتھر میں دھنستیاں ہیں

برسات کا تو موسم کب کا نکل گیا پر

مژگاں کی یہ گھٹائیں اب تک برستیاں ہیں

لیتے ہیں چھین کر دل عاشق کا پل میں دیکھو

خوباں کی عاشقوں پر کیا پیش دستیاں ہیں

اس واسطے کہ ہیں یہ وحشی نکل نہ جاویں

آنکھوں کو میری مژگاں ڈوروں سے کستیاں ہیں

قیمت میں ان کے گو ہم دو جگ کو دے چکے اب

اس یار کی نگاہیں تس پر بھی سستیاں ہیں

ان نے کہا یہ مجھ سے اب چھوڑ دخت رز کو

پیری میں اے دوانے یہ کون مستیاں ہیں

جب میں کہا یہ اس سے سوداؔ سے اپنے مل کے

اس سال تو ہے ساقی اور مے پرستیاں ہیں


باطل ہے ہم سے دعویٰ شاعر کو ہم سری کا

دیوان ہے ہمارا کیسہ جواہری کا

چہرہ ترا سا کب ہے سلطان خاوری کا

چیرہ ہزار باندھے سر پر جو وہ زری کا

منہ پر یہ گوشوارہ موتی کا جلوہ گر ہے

جیسے قران باہم ہو ماہ و مشتری کا

آئینہ خانے میں وہ جس وقت آن بیٹھے

پھر جس طرف کو دیکھو جلوہ ہے واں پری کا

جز شوق دل نہ پہنچوں ہرگز بہ کوئے جاناں

اے خضر کب ہوں تیری محتاج رہبری کا

جو دیکھتا ہے تجھ کو ہنستا ہے قہقہے مار

اے شیخ تیرا چہرہ مبدا ہے مسخری کا

طالب ہیں سیم و زر کے خوبان ہند سوداؔ

احوال کون سمجھے عاشق کی بے زری کا


مقدور نہیں اس کی تجلی کے بیاں کا

جوں شمع سراپا ہو اگر صرف زباں کا

پردے کو تعین کے در دل سے اٹھا دے

کھلتا ہے ابھی پل میں طلسمات جہاں کا

ٹک دیکھ صنم خانۂ عشق آن کے اے شیخ

جوں شمع حرم رنگ جھلکتا ہے بتاں کا

اس گلشن ہستی میں عجب دید ہے لیکن

جب چشم کھلی گل کی تو موسم ہے خزاں کا

دکھلائیے لے جا کے تجھے مصر کا بازار

لیکن نہیں خواہاں کوئی واں جنس گراں کا

ہستی سے عدم تک نفس چند کی ہے راہ

دنیا سے گزرنا سفر ایسا ہے کہاں کا

سوداؔ جو کبھو گوش سے ہمت کے سنے تو

مضمون یہی ہے جرس دل کی فغاں کا


ہندو ہیں بت پرست مسلماں خدا پرست

پوجوں میں اس کسی کو جو ہو آشنا پرست

اس دور میں گئی ہے مروت کی آنکھ پھوٹ

معدوم ہے جہان سے چشم حیا پرست

دیکھا ہے جب سے رنگ کفک تیرے پاؤں میں

آتش کو چھوڑ گبر ہوئے ہیں حنا پرست

چاہے کہ عکس دوست رہے تجھ میں جلوہ گر

آئینہ دار دل کو رکھ اپنے صفا پرست

آوارگی سے خوش ہوں میں اتنا کہ بعد مرگ

ہر ذرہ میری خاک کا ہوگا ہوا پرست

خاک فنا کو تاکہ پرستش تو کر سکے

جوں خضر مست کھائیو آب بقا پرست

سوداؔ سے شخص کے تئیں آزردہ کیجیے

اے خود پرست حیف نہیں تو ہوا پرست