Intekhab e kalam Shahryar

Articles

شہریار


انتخابِ کلام شہریار

انتخابِ کلام شہریار

غزلیں
شمع دل ، شمع تمنا نہ جلا مان بھی جا
تیز آندھی ہے مخالف ہے ہوا مان بھی جا
ایسی دنیا میں جنوں ، ایسے زمانے میں وفا
اس طرح خود کو تماشا نہ بنا مان بھی جا
کب تلک ساتھ ترا دیں گے یہ دھندلے سائے
دیکھ نادان نہ بن میرا کہا مان بھی جا
زندگی میں ابھی خوشیاں بھی ہیں رعنائی بھی
زندگی سے ابھی دامن نہ چھڑا مان بھی جا
شہر پھر شہر ہے یاں جی تو بہل جاتاہے
شہرسے بھاگ کے صحراکو نہ جا مان بھی جا
پھر نہ کچھ ہوگا اگر بعد میں پچھتایا تو
وقت ہے اب بھی ذراہوش میں آ مان بھی جا
٭٭٭
کس کس طرح سے مجھ کو نہ رسواکیاگیا
غیروں کا نام میرے لہو سے لکھا گیا
نکلا تھا میں صدائے جرس کی تلاش میں
دھوکے سے اس سکوت کے صحرا میں آگیا
کیوں آج اس کا ذکرمجھے خوش نہ کرسکا
کیوں آج اس کا نام مرا دل دکھا گیا
میں جسم کے حصار میں محصور ہوں ابھی
وہ روح کی حدوں سے بھی آگے چلا گیا
اس حادثے کو سن کے کرے گا یقیں کوئی
سورج کو ایک جھونکا ہوا کا بجھا گیا
٭٭٭
دل میں رکھتاہے نہ پلکوں پہ بٹھاتاہے مجھے
پھربھی اس شخص میں کیاکیا نظرآتاہے مجھے
ساری آوازوںکو سناٹے نگل جائیں گے
کب سے رہ رہ کے یہی خوف ستاتاہے مجھے
یہ الگ بات کہ د ن میں مجھے رکھتاہے نڈھال
رات کی زد سے تو سورج ہی بچاتاہے مجھے
اک نئے قہر کے امکان سے بوجھل ہے فضا
آسماں دھند میں لپٹا نظر آتا ہے مجھے
تذکرہ اتنا ہوا روح کی آلودگی کا
جسم صد چاک بھی آئینہ دکھاتا ہے مجھے
٭٭٭
زخموں کو رفو کرلیں دل شاد کریں پھرسے
خوابوں کی نئی دنیا آباد کریں پھرسے
مدت ہوئی جینے کا احساس نہیں ہوتا
دل ان سے تقاضا کر بیداد کریں پھرسے
مجرم کے کٹہرے میں پھرہم کو کھڑا کردو
ہو رسمِ کہن تازہ فریاد کریں پھرسے
اے اہل جنوںدیکھو زنجیر ہوئے سائے
ہم کیسے انہیں، سوچو، آزاد کریں پھرسے
اب جی کے بہلنے کی ہے ایک یہی صورت
بیتی ہوئی کچھ باتیں ہم یاد کریں پھرسے
٭٭٭
وحشتِ دل تھی کہاں کم کہ بڑھانے آئے
کس لیے یادہمیں بیتے زمانے آئے
دشت خالی ہوئے زنجیر ہوئے دیوانے
تھی خطا اتنی کہ کیوںخاک اڑانے آئے
کیاعجب رسم ہے ، دستوربھی کیاخوب ہے یہ
آگ بھڑکائے کوئی ، کوئی بجھانے آئے
وقت کی بات ہے یہ بھی کہ مکاںخوابوںکا
جس نے تعمیرکیاہو وہی ڈھانے آئے
کوئی آسان نہیں ترکِ تعلق کرنا
بزمِ اغیارمیں یاروںکو بھلانے آئے
نقش کچھ اب بھی سرجادۂ دل باقی ہیں
تیزآندھی سے کہو ان کومٹانے آئے
٭٭٭
بند دروازوںکوجب جب دستکیں سہلائیں گی
بھولی بسری ساری باتیں دیرتک یادآئیں گی
نائو کاغذکی بنانے میںہیں بچے منہمک
پانیوںسے یہ ڈھکی سڑکیں کہاںتک جائیں گی
کون ان کے واسطے روشن کرے گا راستے
ہم سے بچھڑیں گی تو یہ پرچھائیاں پچھتائیں گی
عکس اک ٹھہرا ہوا ہے کب سے سطحِ آب پر
تیزطوفانی ہوائیں کب ادھر کوآئیں گی
٭٭٭

ہم کو جس دن نہ زمانے سے شکایت ہوگی
خود سے شرم آئے گی یا تجھ سے ندامت ہوگی
ایک دن آئے گا جب آنکھیںہی آنکھیں ہوںگی
اورہرآنکھ میں بیداری کی لذت ہوگی
کس کی دستک ہے کہ دروازے کوسہلاتی ہے
اورکون آئے گا یاں، ہجرکی ساعت ہوگی
وہ ادھر اوس کی اک بوند نظر آتی ہے
جانے کس شخص کی پلکوںکی امانت ہوگی
مٹھیاںریت سے بھرلوکہ سمندرمیں تمھیں
اک نہ اک روز جزیروں کی ضرورت ہوگی
٭٭٭
شدید پیاس تھی پھربھی چھوانہ پانی کو
میں دیکھتارہا دریاتری روانی کو
سیاہ رات نے بے حال کردیا مجھ کو
کہ طول دے نہیں پایاکسی کہانی کو
بجائے میرے کسی اور کا تقرر ہو
قبول جو کرے خوابوں کی پاسبانی کو
اماں کی جا ، مجھے اے شہر، تونے، دی توہے
بھلا نہ پائوں گا صحرا کی بیکرانی کو
جو چاہتا ہے کہ اقبال ہو سوا تیرا
تو سب میں بانٹ برابر سے شادمانی کو
٭٭٭
دیکھتے ہی دیکھتے ہر شئے یہاں فانی ہوئی
لمحۂ آیندہ کو کتنی پشیمانی ہوئی
لوگ کہتے ہیں کہ کل یہ شہر بھی آباد تھے
حکمراں کب اور کیسے ان پہ ویرانی ہوئی
معجزو ں کی منتظر آنکھیں رہیں شام وسحر
اس زمانے میںہمیں سے بس یہ نادانی ہوئی
تم کو اس بے بادباں کشتی پہ کتنا ناز ہے
وہ اُدھر دیکھو ندی کچھ اور طوفانی ہوئی
ہر قدم پر موڑ تھے، ہر موڑ پر منظر نئے
عمر کی اک ایک ساعت صرفِ حیرانی ہوئی
٭٭٭
جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے
اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے
سب کا احوال وہی ہے جو ہمارا ہے آج
یہ الگ بات کہ شکوہ کیا تنہا ہم نے
خود پشیمان ہوئے اس کو پشیماں نہ کیا
عشق کی وضع کو کیا خوب نبھایا ہم نے
عمر بھر سچ ہی کہا ، سچ کے سوا کچھ نہ کہا
اجر کیا اس کا ملے گا یہ نہ سوچا ہم نے
کو ن سا قہر یہ آنکھوں پہ ہوا ہے نازل
ایک مدت سے کوئی خواب نہ دیکھا ہم نے

نظمیں

نیند سے آگے کی منزل

خواب کب ٹوٹتے ہیں
آنکھیں کسی خوف کی تاریکی سے
کیوں چمک اٹھتی ہیں
دل کی دھڑکن میں تسلسل نہیں باقی رہتا
ایسی باتوں کو سمجھنا نہیں آساں کوئی
نیند سے آگے کی منزل نہیں دیکھی تم نے

 

شب بیداری کی حمایت میں

اے ہم نفسوکچھ سوچو
آنکھیں کھولو اور دیکھو
یہ بنجر رات تمھارے
سب خوابوں کی دشمن ہے
تم اپنی شب بیداری
اس کے ہاتھوں مت بیچوں