Intekhab E Kalam Sher Mohammad Khan Emaan

Articles

شیر محمد خاں ایمان


انتخابِ کلام شیر محمد خاں ایمان

 

زندگی شکل خواب کی سی ہے

موج گویا سراب کی سی ہے

کہہ صبا وہ کھلی ہے زلف کہاں

تجھ میں بو مشک ناب کی سی ہے

گھر میں آنے سے اس پری رو کے

روشنی ماہتاب کی سی ہے

کیوں نہ دیوانہ اس بدن کا ہوں

جس میں خوشبو گلاب کی سی ہے

کچھ نہ کچھ رات شغل میں گزری

آج صورت حجاب کی سی ہے

کیوں چھپاتا ہے شب کی بے خوابی

بو دہن میں شراب کی سی ہے

میری نظروں میں تیرے بن ساغر

شکل چشم پر آب کی سی ہے

میرا ہم سایہ سوچتا تھا یہی

آج شب اضطراب کی سی ہے

کون دل سوختہ ہے گرم طپش

بو یہاں کچھ کباب کی سی ہے

رگ جاں پر ہے کون ناخن زن

کچھ صدا یاں رباب کی سی ہے

چلئے ایمانؔ بزم یار سے گھر

یاں طرح کچھ جواب کی سی ہے

٭٭٭

عالم میں حسن تیرا مشہور جانتے ہیں

ارض و سما کا اس کو ہم نور جانتے ہیں

ہرچند دو جہاں سے اب ہم گزر گئے ہیں

تس پر بھی دل کے گھر کو ہم دور جانتے ہیں

جس میں تری رضا ہو وہ ہی قبول کرنا

اپنا تو ہم یہی کچھ مقدور جانتے ہیں

سو رنگ جلوہ گر ہیں گرچہ بتان عالم

ہم ایک تجھی کو اپنا منظور جانتے ہیں

لبریز مے ہیں گرچہ ساغر کی طرح ہر دم

تس پر بھی آپ کو ہم مخمور جانتے ہیں

کچھ اور آرزو کی ہرگز نہیں سمائی

از بس تجھ ہی کو دل میں معمور جانتے ہیں

ایمانؔ جس کے دل میں ہے یاد اس کی ہر دم

ہم تو اسی کی خاطر مسرور جانتے ہیں

٭٭٭

پہنچا ہے آج قیس کا یاں سلسلہ مجھے

جنگل کی راس کیوں نہ ہو آب و ہوا مجھے

آنا اگر ترا نہیں ہوتا ہے میرے گھر

دولت سرا میں اپنے ہی اک دن بلا مجھے

وہ ہووے اور میں ہوں اور اک کنج عافیت

اس سے زیادہ چاہیے پھر اور کیا مجھے

پیدا کیا ہے جب سے کہ میں ربط عشق سے

بیگانہ جانتا ہے ہر ایک آشنا مجھے

کافر بتوں کی راہ نہ جا آ خدا کو مان

پیر خرد نے گرچہ کہا بارہا مجھے

پر کیا کروں کہ دل ہی نہیں اختیار میں

اس خانما خراب نے عاجز کیا مجھے

پہلے ہی اپنے دل کو نہ دینا تھا اس کے ہاتھ

ایمانؔ اب تو کوئی پڑی ہے وفا مجھے

٭٭٭

کس روز الٰہی وہ مرا یار ملے گا

ایسا بھی کبھی ہوگا کہ دل دار ملے گا

جوں چاہیئے ووں دل کی نکالوں گا ہوس میں

جس دن وہ مجھے کیف میں سرشار ملے گا

اک عمر سے پھرتا ہوں لیے دل کو بغل میں

اس جنس کا بھی کوئی خریدار ملے گا

مل جائے گا پھر آپ سے یہ زخم جگر بھی

جس روز کہ مجھ سے وہ ستم گار ملے گا

یہ یاد رکھ اے کافر بدکیش قسم ہے

مجھ سا نہ کوئی تجھ کو گرفتار ملے گا

ایمانؔ نہ کہتا تھا میں تجھ سے یہ ہمیشہ

جو شوخ ملے گا سو دل آزار ملے گا

٭٭٭

قصہ تو زلف یار کا طول و طویل ہے

کیوں کر ادا ہو عمر کا رشتہ قلیل ہے

گنجائش دو شاہ نہیں ایک ملک میں

وحدانیت کے حق کی یہی بس دلیل ہے

مشہد پہ دل کے دیدۂ گریاں پکار دے

پیاسا نہ جا بنام شہیداں سبیل ہے

نظریں لڑانے میں وہ تغافل ہے خوش نما

جس طرح سے پتنگوں کے پنجوں میں ڈھیل ہے

ایمانؔ کیا بیاں کروں اس شہسوار کا

حاضر جلو کے بیچ جہاں جبرئیل ہے

 ٭٭٭