Intekhab E Kalam Wamiq Jaunuri

Articles

وامق جونپوری


انتخابِ کلام وامق جونپوری

 

 

تجھ سے مل کر دل میں رہ جاتی ہے ارمانوں کی بات
یاد رہتی ہے کسی ساحل پہ طوفانوں کی بات

وہ تو کہئے آج بھی زنجیر میں جھنکار ہے
ورنہ کس کو یاد رہ جاتی ہے دیوانوں کی بات

کیا نہ تھی تم کو خبر اے کج کلاہانِ بہار
بوئے گل کے ساتھ ہی پھیلے گی زندانوں کی بات

خیر ہو میرے جنوں کی کھل گئے صدہا گلاب
ورنہ کوئی پوچھتا ہی کیا بیابانوں کی بات

کیا کبھی ہوتی کسی کی تو مگر اے زندگی
زہر پی کر ہم نے رکھ لی تیرے دیوانوں کی بات

رشتہ¿ یادِ بتاں ٹوٹا نہ ترکِ عشق سے
ہے حرم میں اب بھی زیرِ لب صنم خانوں کی بات

ہم نشیں اس کے لب و رخسار ہوں یا سیرِ گل
تذکرہ کوئی بھی ہو نکلے گی مے خانوں کی بات

بزمِ انجم ہو کہ بزمِ خاک یا بزمِ خیال
جس جگہ جاو¿ سنائی دے گی انسانوں کی بات

ابنِ آدم خوشہ¿ گندم پہ ہے مائل بہ جنگ
یہ نہ ہے مسجد کا قصہ اور نہ بت خانوں کی بات

پھول سے بھی نرم تر وامق کبھی اپنا کلام
اور کبھی تلوار ہم آشفتہ سامانوں کی بات
٭٭٭

دل کے ویرانے کو یوں آباد کر لیتے ہیں ہم
کر بھی کیا سکتے ہیں تجھ کو یاد کر لیتے ہیں ہم

جب بزرگوں کی دعائیں ہو گئیں بیکار سب
قرض خواب آور سے دل کو شاد کر لیتے ہیں ہم

تلخیِ کام و دہن کی آبیاری کے لیے
دعوتِ شیراز ابر و باد کر لیتے ہیں ہم

کون سنتا ہے بھکاری کی صدائیں اس لیے
کچھ ظریفانہ لطیفے یاد کر لیتے ہیں ہم

جب پرانا لہجہ کھو دیتا ہے اپنی تازگی
اک نئی طرزِ نوا ایجاد کر لیتے ہیں ہم

دیکھ کر اہلِ قلم کو کشتہِ آسودگی
خود کو وامق فرض اک نقاد کر لیتے ہیں ہم
٭٭٭

شمعیں روشن ہیں آبگینوں میں
داغِ دل جل رہے ہیں سینوں میں

پھر کہیں بندگی کا نام آیا
پھر شکن پڑ گئی جبینوں میں

لے کے تیشہ اٹھا ہے پھر مزدور
ڈھل رہے ہیں جبل مشینوں میں

ذہن میں انقلاب آتے ہی
جان سی پڑ گئی دفینوں میں

بات کرتے ہیں غم نصیبوں کی
اور بیٹھے ہیں شہ نشینوں میں

جن کو گرداب کی خبر ہی نہیں
کیسے یہ لوگ ہیں سفینوں میں

ہم صفیرو چمن کو بتلا دو
سانپ بیٹھے ہیں آستینوں میں
٭٭٭

نئے گل کھلے ،نئے دل بنے ،نئے نقش کتنے ابھر گئے
وہ پیمبرانِ صد انقلاب جدھر جدھر سے گزر گئے

جو شہید راہ وفا ہوئے وہ اسی خوشی میں مگن رہے
کہ جو دن تھے ان کی حیات کے غمِ زندگی میں گزر گئے

ابھی ساتھ ساتھ تو تھے مگر مجھے میرے حال پہ چھوڑ کر
مرے ہم جلیس کہاں گئے مرے ہم صفیر کدھر گئے

مری جستجو کو فقیہِ شہر بتا رہا ہے شریکِ زہر
اسے کیا خبر کہ دماغ و دل یہی زہر کھا کے نکھر گئے

ارے او ادیبِ فسردہ خو ارے او مغنیِ رنگ و بو
ابھی حاشیے پہ کھڑا ہے تو بہت آگے اہل ہنر گئے
٭٭٭

زباں تک جو نہ آئے وہ محبت اور ہوتی ہے
فسانہ اور ہوتا ہے حقیقت اور ہوتی ہے

نہیں ملتے تو اک ادنیٰ شکایت ہے نہ ملنے کی
مگر مل کر نہ ملنے کی شکایت اور ہوتی ہے

یہ مانا شیشہِ دل رونقِ بازارِ الفت ہے
مگر جب ٹوٹ جاتا ہے تو قیمت اور ہوتی ہے

نگاہیں تاڑ لیتی ہیں محبت کی اداو¿ں کو
چھپانے سے زمانے بھر کی شہرت اور ہوتی ہے

یہ مانا حسن کی فطرت بہت نازک ہے اے وامق
مزاجِ عشق کی لیکن نزاکت اور ہوتی ہے
٭٭٭