Intekhab e Kalam Yas Yagana Changezi

Articles

یگانہ چنگیزی


انتخابِ کلام یگانہ چنگیزی

انتخابِ کلام یگانہ چنگیزی

غزلیں
ادب نے دل کے تقاضے اٹھائے ہیں کیا کیا؟
ہوس نے شوق کے پہلو دبائے ہیں کیا کیا؟
نہ جانے سہوِ قلم ہے کہ شاہکارِ قلم
بلائے حسن نے فتنے اٹھائے ہیں کیاکیا؟
نگاہ ڈالی دی جس پر، وہ ہوگیا اندھا
نظر نے رنگِ تصرّف دکھائے ہیں کیا کیا؟
پیامِ مرگ سے کیا کم ہے مژدۂ ناگاہ
اسیر چونکتے ہیں تلملائے ہیں کیاکیا؟
پہاڑ کاٹنے والے ، زمیں سے ہار گئے
اسی زمین میں دریا سمائے ہیں کیا کیا؟
بلند ہو کے کُھلے تجھ پہ زور پستی کا
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیاکیا؟
خدا ہی جانے یگانہؔ! میں کون ہوں کیا ہوں؟
خود اپنی ذات پہ، شک دل میں آئے ہیں کیا کیا؟
٭٭٭
کون جانے وعدۂ فردا وفا ہوجائے گا
آج سے کل تک خدا معلوم کیا ہو جائے گا
بڑھتے بڑھتے اپنی حد سے بڑھ چلا دستِ ہوس
گھٹتے گھٹتے ایک دن دستِ دعا ہوجائے گا
ہے ذرا سی ٹھیس کا مہماں حبابِ جاں بہ لب
اک اشارے میں ہوا کے دم فنا ہو جائے گا
سانس لیتا ہوں تو آتی ہے صدائے بازگشت
کون دن ہوگا کہ اک نالہ رسا ہوجائے گا
کیا سمجھتے تھے یگانہؔ محرمِ رازِ فنا
غرق ہوکر آپ اپنا ناخدا ہوجائے گا
٭٭٭
قفس میں بوئے مستانہ بھی آئی دردِ سر ہوکر
نویدِ ناگہاں پہنچی ہے مرگِ منتظر ہو کر
زمانے کی ہوا بدلی نگاہِ آشیاں بدلی
اٹھے محفل سے سب بیگانۂ شمعِ سحر ہوکر
کہاں پر نارسائی کی ہے پروانوں کی قسمت نے
پڑے ہیں منزلِ فانوس پر بے بال وپر ہوکر
خدا معلوم اس آغاز کا انجام کیا ہوگا
چھڑا ہے سازِ ہستی مبتدائے بے خبر ہوکر
مبارک نام ِ آزادی ،سلامت دامِ آزادی
دعائیں دوں کسے یارب اسیرِ بال و پر ہوکر
نگاہِ یاس ؔکا عالم جو آگے تھا سو اب بھی
ہزاروں گل کھلے بازیچۂ شام و سحر ہوکر
٭٭٭
دل لگانے کی جگہ عالمِ ایجاد نہیں
خواب آنکھوں نے بہت دیکھے مگر یاد نہیں
تلملانے کا مزہ کچھ نہ تڑپنے کا مزہ
ہیچ ہے دل میں اگر دردِ خداداد نہیں
سر شوریدہ سلامت ہے مگر کیا کہیے
دستِ فرہاد نہیں تیشۂ فرہاد نہیں
نکہتِ گل کی ہے رفتار ،ہوا کی پابند
روح قالب سے نکلنے پہ بھی آزاد نہیں
فکرِ امروز نہ اندیشۂ فردا کی خلش
زندگی اس کی جسے موت کا دن یاد نہیں
٭٭٭
ہے جان کے ساتھ اور ایمان کا ڈر بھی
وہ شوخ کہیں دیکھ نہ لے مڑکے ادھر بھی
وہ کشمکشِ غم ہے کہ میں کہہ نہیں سکتا
آغاز کا افسوس اور انجام کا ڈر بھی
دیکھے کوئی جاتی ہوئی دنیا کا تماشا
بیمار بھی سر دھنتا ہے اور شمع سحر بھی
صحرا کی ہوا کھینچے لیے جاتی ہے مجھ کو
کہتا ہے وطن دیکھ ذرا پھر کے ادھر بھی
کیا وعدۂ دیدار کو سچ جانتے ہو یاسؔ
لو فرض کرو آئی قیامت کی سحر بھی
٭٭٭
انوکھی معرفت اندھوں کو حاصل ہوتی جاتی ہے
حقیقت تھی جو کل تک آج باطل ہوتی جاتی ہے
بلندی کیا ہے پستی کیا، ہوا کی کار فرمائی
سراسر موجِ دریا غرقِ ساحل ہوتی جاتی ہے
کہاں لے جائے گی یہ وسعتِ آفاق کیا جانے
مکان و لا مکاں سے دور منزل ہوتی جاتی ہے
مجھے دیکھو تو سمجھو حسن کے معنیِ وجدانی
وہ معنی جس سے روشن خلوت ِ دل ہوتی جاتی ہے
یگانہؔ لکھنؤ کی سیر کر آتے تو اچھا تھا
طبیعت سان پر چڑھنے کے قابل ہوتی جاتی ہے
٭٭٭
جان پیاری ہے حیاتِ جاوداں پیاری نہیں
زندگی کیا موت کی جب گرم بازاری نہیں
صبر کہتا ہے کہ رفتہ رفتہ مٹ جائے گا داغ
دل یہ کہتا ہے کہ بجھنے کی یہ چنگاری نہیں
جلوہ گر رہنے لگا چشمِ تصور میں کوئی
حضرتِ دل بے سبب راتوں کی بیداری نہیں
چھوڑ کر جائیں کہاں اب اپنے ویرانے کو ہم
کون سی جا ہے جہاں حکمِ خزاں جاری نہیں
جھیل لیں گے ہجر کے مارے قیامت کا بھی دن
آج کی شب تو کٹے پھر کوئی دشواری نہیں
٭٭٭
ازل سے سخت جاں آمادۂ صد امتحاں آئے
عذابِ چند روزہ یا عذابِ جاوداں آئے
بہارستانِ عبرت میں یہ گل کیا خار کیا خس کیا
سراپا سب کے سب آلودۂ رنگِ خزاں آئے
حق اپنی دھن کا پکّا باطل اپنے زعم میں پورا
الہیٰ گفتگوئے صلح کیوں کر درمیاں آئے
خیالِ خام ہے یا معنیِ موہوم کیا جانیں
سمجھ میں رازِ فردا کیوں نصیبِ دشمناں آئے
حریمِ ناز کیا ہے جلوہ گاہِ بے تماشا ہے
نگاہِ یاسؔ کہتی ہے کدھر آئے کہاں آئے
رباعیات

دل کیا ہے اک آگ ہے دہکنے کے لیے
دنیا کی ہوا کھاکے بھڑکنے کے لیے
یا غنچۂ سربستہ چٹکنے کے لیے
یا خار ہے پہلو میں کھٹکنے کے لیے
٭٭٭
منزل کا پتہ ہے نہ ٹھکانا معلوم
جب تک نہ ہو گم ، راہ پہ آنا معلوم
کھولیتا ہے انسان تو کچھ پاتا ہے
کھویا ہی نہیں تونے تو پانا معلوم
٭٭٭
کیوں مطلبِ ہستی و عدم کھُل جاتا
کیوں رازِ طلسمِ کیف و کم کھُل جاتا
کانوں نے جو سن لیا وہی کیا کم ہے
آنکھیں کھلتیں تو سب بھرم کھُل جاتا
٭٭٭
صیّادِ ازل کی شعبدہ کاری ہے
آزادی کیا ، عین گرفتاری ہے
اسرارِ طلسمِ زندگی کیا کہیے
یہ رات کٹی تو کل کا دن بھاری ہے
٭٭٭
چارہ نہیں جلتے رہنے کے سوا
سانچے میں فنا کے ڈھلتے رہنے کے سوا
اے شمع تری حیاتِ فانی کیا ہے
جھونکا کھانے سنبھلتے رہنے کے سوا
٭٭٭
تھمنے کا نہیں قافلۂ موجِ سراب
کٹنے کا نہیں مرحلۂ موجِ سراب
آغاز ہی آغاز ہے انجام کجا
عالم ہے عجب سلسلۂ موجِ سراب
٭٭٭
ہوں صید کبھی اور کبھی صیاد ہوں میں
کچھ بھی نہیں بازیچۂ اضداد ہوں میں
مختار مگر اپنی حدوں میں محدود
ہاں وسعتِ زنجیر تک آزاد ہوں میں
٭٭٭
ہر رنگ کو کہتا ہے فریبِ نظری
ہر بو کو ہوائے منزلِ بے خبری
ہر حسن کو فلسفی کی آنکھوں سے نہ دیکھ
دشمن کو مبارک ہو یہ بالغ نظری
٭٭٭
یارانِ چمن یہ رنگ و بو مجھ سے ہے
تم سے کیا ہوگا لکھنؤ مجھ سے ہے
میں جانِ سخن ہوں بلکہ ایمانِ سخن
دنیائے ادب کی آبرو مجھ سے ہے