Intezar Husain ki Safarnama Nigari by Dr. Abrar Ahmad

Articles

انتظار حسین کی سفرنامہ نگاری

ڈاکٹرابراراحمد

انتظارحسین اردوکے ایک ایسے ادیب ہیں جنھوں نے ادب کے جس میدان میں بھی قدم رکھااسے اپنی فنی اورتخلیقی مہارت سے ایک نئی سمت ورفتارعطاکی ہے۔وہ کثیرالجہت ادبی شخصیت کے حامل ہیں۔انھوں نے جہاں افسانہ ،ناول،ڈراما،خاکہ ،سوانح ،تراجم ، تنقید،خودنوشت اورکالم نگاری کے میدان میں اپنے فکری وفنی کمالات دکھائے ہیں وہیں سفرنامہ میں بھی ان کی خلّاقانہ مہارت ’’زمین اورفلک اور‘‘اور’’نئے شہرپرانی بستیاں ‘‘کے سفرناموں میں اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ رنگ جماتی نظرآتی ہے۔ان کے یہ سفرنامے مختلف ممالک کے نہ صرف تاریخی وسیاحتی مقامات کی سیرکراتے ہیں بلکہ ان کی تہذیبی ،معاشرتی اورادبی زندگی پرسیرحاصل بحث بھی پیش کرتے ہیں۔اس طرح سے انتظارحسین نے اردوسفرناموں کی قدیم بنیادی روایتوں کی حدبندیوں کوتوڑکراور فنی وموضوعاتی دونوں سطح پر نت نئے تجربات کرکے اپنی ایک منفردشناخت اورپہچان قائم کی ہے۔
’’زمین اور فلک اور ‘‘ انتظار حسین کے ان تین ہندستانی اسفار کا مجموعہ ہے جوانھوں نے مختلف سمیناروں اور متعددتقریبات میں شرکت کے لیے کیے تھے ۔اس مجموعہ میں شامل پہلاسفر انھوں نے حضرت نظام الدین اولیاکے عرس کی تقریب میں شرکت کے لیے کیاتھاجسے انھوں نے ’’مور کی تلاش ‘‘کے عنوان سے قلم بند کیاہے ۔اس سفر میں تقسیم ہند سے ذراقبل ،دہلی کی جوادبی وتہذیبی صورت ِحال تھی اس کو پیش نظر رکھاہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ تقسیم ہند سے قبل کی دہلی کو تلاش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اورجب انھیں ان کے ذہن میں موجود تصویر کے مطابق دہلی نہیں ملتی تو وہ قدم قدم پر حیرت واستعجاب کااظہار کرتے ہیں ۔موجودہ دہلی میں انتظار حسین کوکوئی کشش اس لیے نظرنہیں آتی ہے کیو نکہ اس نے اونچی عمارتوں اورپررونق بازاروں کے چکرمیں اپنے ویرانوں ،درختوں اورپرندوں کو گم کر دیاہے۔ لہذاانھیں موجودہ ہندستان ماضی کے ہندستان سے کمتر معلوم ہوتاہے۔انتظار حسین نے جہاں قدیم تہذیب وثقافت کی گم شدگی پراپنی حیرانی ظاہر کی ہے وہیںبعض تبدیلیوں کی انھوں نے تعریف بھی کی ہے ۔
’’یہ اکیلی بستی نظام الدین ہی کی داستان نہیں ۔پوری دلی کااحوال یہی ہے ۔شادآباد ہونے کے شوق میں اس نے اپنے ویرانوں کوگم کردیاہے اوراپنے موروں کورخصت کردیاہے ۔ نئی دلی واہ واہ سبحان اللہ،وسیع شاہراہ ہیں پررونق بازار۔میں کناٹ پیلس کودیکھااورالف لیلہ کاابوالحسن بن گیا۔تقسیم سے پہلے والاکناٹ پیلس اب پھل پھول کر کتناشادآبادہوگیاہے۔‘‘۱؎
اس سفرنامہ کاایک اہم موضوع ادب اور ادیب ہے جہاں بھی انتظار حسین کوموقع ملاہے انھوں نے اس پر بھر پور طبع آزمائی کی ہے۔انھوں نے اردواورہندی کے ممتاز ادبا وشعرا سے ملاقاتیں کیں اورموجودہ علمی وادبی صورت حال پربات چیت بھی کی ہے۔خاص طور پر جدید ہندی شاعری کے حوالے سے جوباتیں کی ہیں وہ قابل توجہ ہیں ۔ہندی کے جدید شعرااور ان کی شاعری پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کاعالم یہ کہ وہ اردومیں نظمیں لکھتے ہیں اور اسے کویتاکانام دیتے ہیں ان کی کویتامیں رسم الخط کے علاوہ کوئی بھی چیز ہندی کی نہیں ہے کہیں یہ اردورسم الخط کوبدلنے کی سازش تونہیں ہے ۔انتظارحسین جدید ہندی شاعری پر اپنی رائے کااظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’میں سنتارہاتھااورکڑھ رہاتھاکہ کوی لوگ اردوکی نظمیں لکھ کر لائے ہیں اوراسے ہندی بتارہے ہیں۔ یہی احساس مجھے اس وقت ہوا۔جب وشنوپربھاکر جی نے سرت بابوکی سوانح جوانھوں نے ’’آوارہ مسیحا‘‘کے نام سے لکھی ہے مجھے عطاکی ۔میں اسے جہاں تہاں سے پڑھ رہاتھااورسوچ رہاتھاکہ اس کتاب میں رسم الخط کے سواکون سی بات ہندی والی ہے۔توکیااردواپنے رسم الخط میں ہے۔‘‘۲؎
انتظارحسین نے اس سفرنامہ میں ترقی پسندادیبوں اورانقلابیوں کے دورخے پن پر خوب طنز کیاہے۔اور ساتھ ہی ان کی قلعی بھی کھولی ہے کہ وہ کس طرح انقلاب کے نام پر لوگوں کے ساتھ فراڈ کرتے ہیں۔انقلاب کانعرہ بلند کرتے کرتے کس طرح وہ عیش وآرام کی زندگی بسرکرنے کابندوبست کرتے ہیں ۔ دراصل یہ وہ لوگ ہیں جو صرف نعروں سے ہی سب کچھ حاصل کرنے پر یقین رکھتے ہیں جہاں جان کاخطرہ ہوتاہے وہاں سے وہ بھاگ لیتے ہیں۔اس طرح سے انتظار حسین نے ادیبوں کے مزاج سے قوم کے مزاج کومتعین کرنے کی کوشش کی ہے۔
’’میں نے سرسے پیرتک رہبر صاحب کودیکھا۔’’رہبر صاحب آپ ابھی تک جیل جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں توانقلابی یہ عمر آنے سے پہلے ہی کوٹھی اورکار کے بندوبست میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔‘‘ ۳؎
انتظار حسین زندگی کی تلخ وترش صداقتوں میں طنزو مزاح کاعنصر شامل کرکے ایسے پر لطف انداز میں بیان کرتے ہیں کہ وہ بھی شگفتہ معلوم ہونے لگتی ہیں۔لیکن اس سے طنزکی نشتریت میں اضافہ ہوجاتاہے۔وہ انور عظیم کومرکز بناکر ترقی پسندوں پرطنز کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’میں نے عرض کیا کہ انورعظیم صاحب کوئل ایک ہی ہوا کرتی ہے کہ اس کی اکیلی آوازہی سے فضابھرجاتی ہے۔بہت سے توکوّے ہواکرتے ہیں یاترقی پسند ادیب ہوتے ہیں ۔ویسے میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ میں اگر ہجرت نہ کرتاتوہندوستان کومیری ذات سے کیافیض پہنچتا۔یہی ہوناتھاکہ میں علی سردارجعفری سے ادب کی ہدایت پاکر دوسراانورعظیم بن جاتااورہندوستان کوایک کے بجائے دوانورعظیم برداشت کرناپڑتے ۔‘‘۴؎
’’پھر ایک دن یوں ہوا کہ پاکستانی زائرین کاپوراقافلہ درگاہوں،اورمقبروں کے سفر پرنکلاـــ۔حضرت بختیارکاکی کی درگاہ،حضرت چراغ دہلوی کی درگاہ،خواجہ باقی باللہ کی درگاہ،صفدرجنگ کامقبرہ،قطب صاحب کی لاٹھ ۔اورپھر ہماری بس اچانک برلامندر کے سامنے آکھڑی ہوئی ۔میں نے منوبھائی کوٹہوکا،دیکھ رہے ہو ،پاکستانی زائرین مورتیوں کے درشن کریں گے۔‘‘۵؎
انتظارحسین نے ریوتی سرن شرماکے حوالے سے تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی ہندوتہذیب ومعاشرت ، بودوباش ،رہن سہن ،رسم ورواج غرضیکہ پوراگھریلوماحول و معاشرہ اوراس معاشرے کے بطن سے جنم لیتی ہوئی انسانی نفسیات اورطرزفکر کو بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان کیاہے ۔انھوں نے تین عہد کو چند سطورمیں اس خوش اسلوبی سے بیان کیاہے کہ وہ عہد ہماری نظروں کے سامنے جی اٹھتاہے۔
’’خیر اب میں سرلاکی بدولت پتل یگ سے نکل آیاتھااورتھال کٹوری یگ میں سانس لے رہاتھااوراب میں تھال کٹوری یگ سے بھی نکل آیاہوں اورڈنر ٹیبل کے زمانے میں ہوں ۔ریوتی کے گھر میں زمانہ بالکل بدل چکاہے۔ڈرائینگ روم کے برابر ایک ڈائننگ روم ہے۔ہم ڈائننگ ٹیبل پربیٹھ کرپوری پراٹھے کھارہے ہیں ۔میز پر کوئی تھال کوئی کٹوری نہیں ہے۔ہمارے سامنے چینی کے پلیٹ ہیں۔‘‘۶؎
انتظارحسین نے اس سفرنامہ میں دہلی اورنواح دہلی ،آگرہ اورفتح پورسکری کے تاریخی وادبی مقامات کی سیاحت سے ہندستان کی تہذیبی ،ثقافتی اورادبی تاریخ کواجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ۔اور ساتھ ہی وہ اپنی یادوں کے سہارے ہندستان کے ان نقوش اورتصاویر کوبھی پیش کرتے ہیں جنھیں ماضی کی گرد نے دھندلاکردیاہے۔ماضی کوبیان کرتے ہوئے وہ حال پر حیرت وافسوس کااظہارکرتے ہیں جس سے سفرنامہ میں ایک اداسی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔
اس مجموعہ میں شامل دوسرااورتیسراسفر انھوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سمیناروں میں شرکت کی غرض سے کیاتھا۔دوسراسفر انھوں نے ۱۹۸۰ء میںــ’’ مختصر افسانہ سمینار ‘‘ کی تقریب میں شرکت کی غرض سے کیا جسے انھوں نے ’’بندر کی دم ‘‘ کے عنوان سے لکھا اورتیسراسفر ۱۹۸۳ء میں ’’میرسمینار‘‘ کی تقریب میں شرکت کے لیے کیاتھا اسے انھوں نے ’’زمین اور فلک اور ‘‘کے زیر عنوان بیان کیاہے ۔ان دونوں سفرناموں میں انتظارحسین پر حیرت واستعجاب کے بجائے رنج وملال کی کیفیت طاری نظرآتی ہے ۔وہ جہاں بھی جاتے ہیں وہاں کی موجودہ صورتِ حال کو دیکھ کرماتم کناں ہوجاتے ہیں کہ وہ کیسے کیسے لوگ تھے اورکیاکیامناظر تھے جونظروں سے اوجھل ہوگئے۔ ان کاکہناہے کہ قدیم تہذیبوں اوراس سے وابستہ لوگوں کے گم ہونے سے صرف لوگوں کے چہرے ہی نہیں بدلے ہیں بلکہ ان لوگوں کے جانے سے زندگی کے تمام شعبے متاثر ہوئے ہیں، یہاں تک کہ کھانے پینے کی اشیابھی اس سے متاثر ہوئے بنانہ رہ سکیں ۔ یہی وجہ کہ لکھنؤکی ربڑیوں اورکھانوں میں اب وہ لطف نہیں رہاجوپہلے ہواکرتاتھا۔لکھنؤکی ربڑی اب گلے میں اٹکنے لگی ہے ۔یہی حال ناگپور کے سنترے اوربنارس کے رس گلوں کاہے کہ اب ان میں رس باقی نہیں ہے وہ بے رس ہوچکے ہیں :
’’پہلی سی بات اب کہاں رہ گئی ہے ۔سندیلہ میں لڈوئوں میں وہ پہلی سی بات نہیں رہی ۔چوک لکھنؤمیں ربڑی میں وہ پہلی سی بات نہیں رہی ۔ناگپور میں سنتروں میں وہ پہلی سی بات نہیں رہی ۔ ذائقے زوال میں ہیں ۔زمانے سے برکت اٹھ گئی ۔سب صنعتی عہد کی برکتیں ہیں صاحب!‘‘۷؎
اسی طرح لکھنؤ کے انواع واقسام کے کھانے کاذکرکرتے ہیں اورداددیتے ہیں لیکن جب ان کی نظر موجودہ لکھنؤچوک پر پڑتی ہے تووہ غمگین ہوجاتے ہیں اور افسوس کرتے ہیں کہ نادان اب اس لکھنؤ کااوراس کے اس رنگ ڈھنگ کوڈھونڈنا نادانی ہے باعث پریشانی ہے ۔وہ رنگ ،وہ ذائقے ،وہ خوشبوئیں اور وہ پری چہرہ لوگ جن سے لکھنؤکبھی عبارت تھااب خواب وافسانہ ہے ۔سو اپنے ہوش کی دواکر اور اسی کو حقیقت جان کہ اب اصل لکھنؤیہی ہے۔
’’لیجئے اب اور ہی طرح کی خوشبوئوں کی لپٹیں آنے لگی ہیں کہ زبان اور تالوکے بیچ کیسے کیسے ذائقے بھربھرانے لگتے ہیں۔ہوائی چپاتیاں ،ورقی پراٹھے اٹھارہ ورق ’’لیجئے اب اور ہی طرح کی خوشبوئوں کی لپٹیں آنے لگی ہیں کہ زبان اور تالوکے بیچ کیسے کیسے ذائقے بھربھرانے لگتے ہیں۔ہوائی چپاتیاں ،ورقی پراٹھے اٹھارہ ورق والے ،پستہ بادام کی تہ دی ہوئی پوریاں، انناس والامزعفر ،نارنجی زردہ ،شش رنگا،یاقوتی مٹی کی ورقی ہنڈیوں میں لگی ہوئی ۔مگر میری آنکھیں میرے ساتھ دغاکرتی ہیں ۔انھیں نقشہ اورنظرآتاہے ۔اے نادان ،اپنی آنکھوں پراعتبار کر۔ توکونسے چوک کاتصور لے کر یہاں آیاہے۔وہ چوک جنھوں نے دیکھاان کے لیے اب وہ خواب ہے۔ جنھوں نے سناان کے لیے افسانہ ہے ۔نہ وہ رنگ نہ وہ ذائقے نہ وہ خوشبوئیں نہ وہ پری چہرہ لوگ نہ وہ نگر سرمہ سا۔بلاخانے ویران ہیں۔ع،:خاک میں کیاصورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں‘‘۸؎
انتظارحسین ان اسفار کے دوران ہندستان کے مختلف تہذیبی شہروں جیسے دہلی، لکھنئو،علی گڈھ ،الٰہ آباد،بنارس ،پٹنہ ،بمبئی ،اورنگ آباد،حیدرآباداور جے پوروغیرہ کاسفرکرتے ہیں ۔اور ان تمام شہروں کے تہذیبی زوال پر افسوس کااظہار کرتے ہیں کہ یہ شہر کیاتھے اور اب یہ کیاہوگئے ہیں ۔انھوں نے ان قدیم شہروں کی پراگندگی اورانتشار کوموازانہ ومقابلہ کی تکنیک سے اس طرح پیش کیاہے کہ ان کی پراگندگی مزید بڑھ جاتی ہے ۔انتظارحسین لکھنئو کے تہذیبی تغیر وتبدل کوکچھ انداز سے بیان کرتے ہیںـ:
’’مگر وقت تیزی سے گزررہاہے ،بد ل رہاہے ۔چودھرائن کی عمر ڈھلتی جارہی ہے اور لکھنئوکے رئوساشرفاکااقبال گہنارہاہے۔تعلقہ داروں کے ٹھاٹ باٹ ختم ہورہے ہیں ۔چودھرائن کی محفل میں درہمی پیداہوتی چلی جارہی ہے ۔مگر وہی ٹھساوہی اللّے تللّے حویلی رہن رکھی جاتی ہے ۔اب اس حویلی سے ایک خوشبورخصت ہورہی ہے دوسری خوشبوآرہی ہے ۔ڈیرہ دارنیاں گئیں۔چودھرائن ، بڑی چودھرائن ،چوٹی چودھرائن ،گھرانے کی آخری کلی رشک منیر ،سب چہک مہک کر رخصت ہوئیں۔ اب اصغر علی محمد علی اپنی خوشبوئیں لے کر یہاں براجمان ہوتے ہیں ۔مگرجب وہ خوشبونہ رہی تویہ خوشبوکیسے رہ جائے گی ۔عطریات کازمانہ بھی تووہی تھا۔اصغر علی محمد علی کے عطر تھوڑے عرصے خوب چلے۔مگر اب یہ عمارت مقفل پڑی ہے ۔پہلے وہ جومہکتے تھے اوردوائے دل بیچتے تھے رخصت ہوئے۔اب وہ بھی جن کے عطر کی مہک دوردورتک گئی تھی یہاں نظرنہیں آتے ۔‘‘۹؎
انتظار حسین نوابوں اور مغلوں کی تہذیب وثقافت کوبہت عقیدت مندی کی نظر سے دیکھتے ہیں اس لیے وہ اس تہذیب کے زوال کوکرب وحسرت کے ساتھ پیش کرتے ہیں اوراس کے زوال پر افسوس بھی کرتے ہیں ۔لیکن اس تہذیب نے اوراس کی چمک دمک نے کتنے عام لوگوں کی زندگیوں کوبے نور اوربے رونق کیاتھااس کی طرف ان کی نظر کبھی نہیں جاتی ہے ۔وہ اس تہذیب کی قصیدہ خوانی کرتے کرتے کبھی اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ انسانوں کومختلف طبقوں میں بانٹ دیتے ہیں انھیں یہ بات پسند نہیں کہ عام آدمی ہاتھی کی سواری کرے ،یہ ان کو ہاتھی کازوال نظرآتاہے ۔ہاتھی کاعروج ان کوبادشاہوں کے یہاں نظر آتاہے حالانکہ ہاتھی کازوال تواسی وقت شروع ہوگیاتھاجب انسان نے اسے جنگل سے لاکے اپنے کھونٹوں سے باندھ دیاتھا۔
’’میں نے ہاتھی کے حال پر ایک افسوس اس وقت کیاتھاجب دلی میں جامع مسجد اورلال قلعہ کے بیچ ایک ہاتھی کولکھنئوکے کرتوں کااشتہاری بنے دیکھاتھا۔ایک افسوس اس وقت کیاجب جے پورکے قلعہ میں ہاتھیوں کوایراغیراسواریوں کوڈھوتے دیکھا۔ہندستان ترقی کررہاہے مگرہندستان کے ہاتھی پرزوال آچکاہے۔‘‘۱۰؎
انتظارحسین حیدرآباد کودیکھتے ہیں اورعش عش کراٹھتے ہیں کہ یہ شہر اب بھی اپنی آن شان اور بان کوبڑی حد تک برقرار رکھے ہوئے ہے ۔چارمینار ،مکہ مسجد،گولکنڈہ ،قطب شاہوں کے مقبرے یہ سب اس تہذیب و ثقافت کی نشانیاں ہیں جوبزبان حال ان بادشاہوں کی عظمت وسطوت کوبیان کررہی ہیں کہ وہ کتنے عظیم اوربلندمرتبت لوگ تھے ۔انتظار حسین سالار جنگ میوزیم کودیکھ کر رشک کرتے ہیں کہ یہ نوادرات تنہا ایک شخص کی کاوشوں کانتیجہ ہیں۔کاش کوئی پاکستان میں بھی اس جذبہ سے سرشارہوتاتووہاں بھی ایک شاندارمیوزیم وجودمیں آسکتاتھا۔
’’سالارجنگ میوزیم بھی دیکھا۔واہ واہ سبحان اللہ یہاں امرائووروسااس طرح کے ہواکرتے تھے ۔ یہ ایک شخص کے جمع کیے ہوئے نوادرات ہیں ۔کچھ باپ داداکے ،زیادہ اپنے کہ انہیں آراستہ کیاگیاتوہندوستان کاایک نمائندہ میوزیم وجودمیں آیا۔کاش پاکستان کے امرائووروساپربھی سالارجنگ یاکسی ایسے ہی نواب کاپرچھاواں پڑجاتا۔‘‘۱۱؎
اسی طرح بمبئی شہر کی گنجان آبادی ،تنگ وطویل گلیاں ،فلک بوس عمارتیں اوران عمارتوں میں کلبلاتی زندگیوں کی انتظارحسین نے کچھ اس اندازسے تصویرکشی کی ہے کہ بمبئی شہر اپنی تمام ترخوبیوں اورخامیوں کے ساتھ ہماری نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتاہے۔بڑھتی ہوئی بمبئی کی آبادی اورتنگ ہوتی زمین نے آج کے اس ترقی یافتہ دورمیں بھی انسانوں کوکیسے ایک بار پھر سے غاروں میں رہنے پر مجبورکردیاہے۔بمبئی کی تنگ گلیاں اوراس میں بنے فلیٹ کسی غار سے کم نہیں ہیں ۔انتظار حسین بمبئی شہر کی زندگی کوبیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’بمبئی کونیاشہر کس نے کہا۔مجھے تووہ انسانی تہذیب سے پہلے کاشہرنظرآیا۔آدمی نے غاروں سے’’بمبئی کونیاشہر کس نے کہا۔مجھے تووہ انسانی تہذیب سے پہلے کاشہرنظرآیا۔آدمی نے غاروں سے نکل کر بستیاں بسائیں۔شہرآبادکئے ۔حویلیاں تعمیر کیں۔بمبئی پہنچ کر وہ واپس غاروں میں چلاگیا۔بمبئی غاروں کاشہر ہے ۔غارنئی طرز کے ہیں ۔انہیں فلیٹ کہاجاتاہے۔ساراشہر فلک بوس غاروں سے پٹاپڑاہے اورآدم لوگ سے لبالب بھراہے۔غارہی غار۔لوگ ہی لوگ ۔غاروں سے نکلتے ہوئے ،غاروں میں داخل ہوتے ہوئے ۔مجھے اس شہر سے بہت خوف آیا۔قدم قدم پہ کھٹکالگارہتاکہ کہیں ساتھیوں سے بچھڑنہ جائوں ۔بچھڑااورکھویا۔‘‘۱۲؎
انتظارحسین نے مذکورہ بالاشہروں کے ممتازاردواورہندی کے ادیبوں وشاعروں سے ملاقاتیں کی اور ان سے ادبی وعلمی مسائل وموضوعات پر گفت وشنید بھی کی ،ساتھ ہی اردواورہندی کی موجودہ صورتِ حال پر تبادلہ خیال بھی کیا۔اس ضمن میں ہندی کہانی کاروں اور ان کی کہانیوں پر جوبات چیت ہوئی وہ خاص طورپر قابل ذکر ہے۔انتظار حسین پریم چند کے چھوٹے صاحبزادے امرت رائے کی ہندی کہانی پر کمنٹ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’امرت رائے اپناافسانہ لے کر آئے ہوئے تھے ۔امرت رائے ہندی کے لیکھک ہیں ۔میں مستعد ہوبیٹھاکہ چلوایک محفل ایسی بھی ہوئی جس میں میں ہندی کاافسانہ سنوں گامگر عجب ہندی تھی ۔میں منتظر ہی رہاکہ کوئی فقرہ کوئی مکالمہ ایساآئے کہ میں اسے ہندی جانوں ۔آخر میں میں نے طے کیاکہ یہ اردوافسانہ تھاجوہندی میں لکھاگیا۔‘‘۱۳؎
مجموعی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’’زمین اورفلک اور ‘‘اردوکاایک اہم اور قابل قدر سفرنامہ ہے ۔اس سفرنامے میں ہندستان کی ادبی، تہذیبی اورثقافتی زندگی کو ایک نئے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔اس سفرنامے میں انتظار حسین ایک گم شدہ زمین اورآسمان سے دوبارہ ملاقات کے آرزومند ہیں۔ اسی لیے موجودہ ہندستان میں انھیں کوئی کشش اوردلچسپی کی بات نظرنہیں آتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قدم قدم پر ماضی کے ان نقوش کوتلاش کرتے ہیں جو ان کی یادوں میں محفوظ ہیں ۔اس سفرنامے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں انتظار حسین نے تاریخی مقامات ،مقابر،عمارتوںاورغاروں کے تذکرے میں اپنے تاثرات کے ساتھ ساتھ تخیلات سے بھی جابجاکام لیاہے ،جن میں کثرت سے دیومالائی حوالے ملتے ہیں ،جس سے آگہی کے نئے منظر نامے روشن ہوتے ہیں ۔اس سفر نامے کی سب سے خاص بات اس کااسلوب اورانداز بیان ہے جو اپنے اندر ایک نوع کی جاذبیت لیے ہوئے ہے۔انتظار حسین اپنے داستانوی اوردیومالائی اسلوب سے اس سفرنامے میں ایک ایسی فضاتعمیرکرتے ہیں کہ قاری اس فضاکے سحر میں کھوجاتاہے ۔یہ انتظارحسین کے فن کی ایک ایسی خوبی ہے جوانھیں دوسرے سفرنامہ نگارو ں سے منفرد وممتازبناتی ہے ۔
’’نئے شہر پرانی بستیاں ‘‘انتظار حسین کے ان اسفارکامجموعہ ہے جوانھوں نے مختلف اوقات میں متعدد پروگراموں میں شرکت کے لیے ہندستان ،برطانیہ ،ایران اورنیپال جیسے ممالک کاسفرکیاتھا۔ اس سفرنامے میں انھوں نے مذکورہ بالاممالک کے متعددتہذیبی وثقافتی شہروں کی روداد سفر کوپیش کیاہے۔اس سفرنامے کو پہلی بار۱۹۹۹ء میں سنگ میل پبلی کیشنزلاہورنے زیورِطباعت سے آراستہ کرکے قارئین کے لیے کتابی شکل میں شائع کیاتھا۔یہ ۱۶۸ صفحات پر مشتمل ہے۔اس سفر نامے میں سات عناوین قائم کیے گئے ہیں جن کے تحت ان اسفارکی روداد کوبیان کیاگیاہے جوبالترتیب اس طرح سے ہیں۔’’نئے شہر میں پرانا آدمی ‘‘ ، ’’نیاتیرتھ‘‘،’’جمناسے کاویری تک‘‘،’’ایک پھیرا ایران کا‘‘،’’مندروں کے نگر میں ‘‘،’’اردودیارہند میں ‘‘ ، ’’پورب گئے پچھم گئے‘‘۔
’’نئے شہر میں پراناآدمی‘‘یہ سفرنامہ نہیں بلکہ یہ ایک مضمون ہے جسے انتظارحسین نے اردومرکز لندن کی تقریب میں اظہارتشکرکے طورپرپڑھاتھا۔اس مضمون میں انھوں نے سفر کی اہمیت وافادیت کوبیان کرتے ہوئے یورپ کے آج کے سفر اورپہلے کے اسفارکے درمیان کیافرق ہے اس پرروشنی ڈالی ہے ۔پہلے لوگ انگریزی زبان کوتمام علوم کی کنجی سمجھتے تھے اورمغربی تہذیب کوترقی کی سیڑھی گردانتے تھے۔ لہذااس نقطۂ نظر کے ساتھ وہ اس شہر کاسفرکرتے تھے اور ان کے سفر کامقصد انگریزی زبان سیکھنا ہوتاتھااس لیے وہ اس شہر کی تہذیب وثقافت سے مرعوب ہوجاتے تھے۔اور ان پر اس شہر کی تہذیب ومعاشرت کاایسااثر ہوتاکہ وہ اپنی ساری روایات بھول جاتے تھے۔اردوادب اوراردوکے ادیبوں پر ایک زمانے تک مغرب کی ادبی روایت اوران کے ادیبوں کااتنااثررہاکہ وہ اپنی ادبی روایات کوہی بھول گئے تھے اورنوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ کوئی اگر مغربی ادباوشعراکے ساتھ اردوکے کسی شاعریاادیب کانام لے لیتا تو پوچھنا پڑتا تھا کہ یہ بزرگ کیابیچتے تھے ۔ لیکن اب اس شہر کی حالت ذرامختلف ہے اب یہاں اردوزبان کابھی بول بالاہے ۔اورلوگ اس شہر کاسفر اردو سمیناروں اورمشاعروں میں شرکت کی غرض سے کررہے ہیں اس لیے اس شہر کااب وہ رعب داب نہیں جوپہلے ہواکرتاتھا۔اورنہ ہی جوائس ،لارنس اور ایلیٹ جیسے ادیب ہیں کہ جن سے لوگ رعب کھاتے تھے ۔سویہ شہر اب انتظارحسین کی قدامت پرستی پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتاہے۔
’’نیاتیرتھ‘‘اس مجموعہ کاپہلا سفرنامہ ہے جس میں انتظارحسین نے لندن کی تہذیبی ،ثقافتی ،معاشرتی اورعلمی زندگی کابہت باریک بینی سے مشاہدہ کیاہے۔ انھوں نے لندن شہر کے حوالے سے یورپ کی مصنوعی اوربناوٹی زندگی کوپیش کیاہے کہ یہاں کے گلی کوچے،ہوٹل ، بازار،بس،گاڑیاں ،پارک،حیوانات ونباتات غرض یہ کہ ہر چیز صاف ، شفاف،دھلی منجھی اورچمچماتی نظرآتی ہے لیکن یہ چمک دمک صرف نظروں کادھوکاہے حقیقی زندگی بے نوراوربے رونق ہے۔ان کے تصنع کی انتہایہ ہے کہ یہاں فطرت بھی ایک ڈسپلن میں رہتی ہے ۔پرندے ایک مخصوص وقت ہی میں چہچہاتے ہیں ۔درخت اورجھاڑیاں ایک حد تک ہی بڑھ سکتی ہیں اگر حدسے تجاوزکیاتوکتردی جاتی ہیں ۔ پھولوں کاعالم یہ ہے کہ رنگ برنگ کے پھولوں سے علاقہ بھراپڑاہے ایسالگتاہے کہ پوراعلاقہ ایک پھلواڑی ہو، مگران پھولوں سے خوشبوغائب ہے ۔ مغرب کی زندگی بھی بالکل اسی طرح کی ہے کہ دورسے دیکھنے میں بہت خوش رنگ اورپرکشش معلوم ہوتی ہے لیکن قریب جائو توپتہ چلتاہے کہ زندگی رمق وحرارت سے خالی ہے ۔اس شہر میں انسان چلتا پھرتاربوٹ معلوم ہوتاہے جوجذبات واحساسات سے خالی ہے ۔صرف انسان ہی نہیں بلکہ پوراعلاقہ ہی مصنوعی وبناوٹی نظرآتاہے ۔اس سفرنامہ کاسب سے نمایاں پہلویہ ہے کہ انتظار حسین لندن شہر کی ہرچیز کوآنکھ بند کرکے قبول نہیں کرتے ہیں بلکہ اس پرتنقیدی نگاہ بھی ڈالتے ہیں ۔
’’سبحان اللہ کیاسبزہ وگل کانقشہ جماتھا۔ڈہڈہاتے پھول ۔یہ بڑے بڑے اوراتنے خوش رنگ۔ مگرخوشبوندارد۔وہ پوراعلاقہ بس سمجھو کہ باغ تھا۔مگروہ جواپنے یہاں باغ کانقشہ ہوتاہے کہ جس روش سے گذرتے ہیں خوشبوکی ایک لپٹ آئے گی اورآپ کے دل دماغ میں بس جائے گی۔ ورڈسورتھ کی فطرت میں رنگ ہی رنگ ہے ۔خوشبواس میں نہیں ہے۔ہاں سلیقہ اس میں بہت ہے۔ فطرت اوراتنی خوش سلیقہ۔‘‘۱۴؎
انتظارحسین لندن شہر کی صرف خامیوں کوہی بیان نہیں کرتے ہیں بلکہ اس میں جوخوبیاں ہیں اسے بھی لوگوں کے سامنے رکھتے ہیں ۔وہ لندن کی اس روایت سے بہت متاثر ہیں کہ اگر وہاں کے مکان میںکسی نے چند دن بھی بتائے ہیں، چاہے وہ ان کے ملک کاہویابیرون ملک کاوہ اس کی شناخت کوباقی رکھتے ہیں ۔بس اس کے نام کے سامنے اپنے نام کی تختی لگادیتے ہیں ۔اس طرح سے ایک ہی مکان میںبیک وقت کئی ناموں کی تختیاں لگی ہوتی ہیں ۔ اورکسی کواس سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی ہے۔
’’یہ ہوٹل کیسنگٹن ہے ۔اس کے عین مقابل ایک مکان ہے جس پر سوبرس پہلے کے ایک مکین کی تختی لگی ہوئی ہے جس سے اڑتی اڑتی سی شناسائی ہماری بھی ہے ۔رابرٹ برائوننگ کہ ۱۹۸۹ء تک یہاں اس شاعر کاقیام رہا۔مطلب یہ کہ آخری سانس اسی گھر میں لیا۔مگراس ایک تختی پرکیاموقوف ہے ۔ایسے ناموں کی تختیاں اس شہر میں جانے کتنے گھروں پرلگی ہیں ۔مکان ایک ہے،مکین دودو۔ایک مکین وہ جواب قیام پذیر ہے۔ایک مکین وہ جس نے ایک زمانہ پہلے یہاں قیام کیاتھا۔تختی اس کے نام کی بھی لگی ہے ،اس کے نام کی بھی ۔تھوڑاعرصہ قیام کیاہے اورشخصیت پرائے دیس کی ہے توبھی کوئی مضائقہ نہیں ۔رسل روڈپرایک مکان میں قائد اعظم نے بس کوئی ڈیڑھ برس قیام کیاہوگا۔مگر مکان پر تختی لگ گئی ،ایم اے جناح ہائوس(۱۸۹۵ء)۔‘‘۱۵؎
اس سفر کے دوران انتظارحسین نے لندن کے مختلف تاریخی وسیاحتی مقامات کابھی مشاہدہ کیا۔نیشنل آرٹ گیلری ،برٹش میوزیم ،برٹش لائبریری ،اورینٹل کورنر،ہائیڈپارک،لیک ڈسٹرکٹ ،بی بی سی لندن اوروہاں آنے والے زائرین کودیکھااوران مشاہدات کو اپنے مخصوص انداز میں اس سفرنامہ میں پیش کیاہے ۔ساتھ ہی وہاں موجود اردوکے دانشوروں اورادیبوں سے ملاقات کی اوران سے اردوکے تعلق سے بات چیت بھی کی ۔جن شخصیات سے اس سفر میں انھوں نے ملاقات کی ان میںرضاعلی عابد،عبید صدیقی ،آصف جیلانی ،الطاف گوہر،افتخارعارف ، ڈاکٹرزہرااحسن،پروفیسرامین مغل ،تصدق حسین ،شبانہ محموداوربلوم فیلڈخاص طورپر قابل ذکر ہیں۔
اس مجموعہ کادوسراسفرنامہ ’’جمناسے کاویری تک‘‘ہے جس میں انتظارحسین نے ہندستان کے قدیم شہروں ،دہلی ، حیدرآباد ، کلکتہ ، بنگلور،میسوروغیرہ کاذکرکیاہے ۔انتظارحسین عام طورپر سیاسی مسائل اورسیاسی گفتگوسے اپنادامن بچاکر نکل جاتے ہیں لیکن اس سفرنامہ میں وہ سیاسی مسائل سے بچ نہ سکے ۔یہی وجہ ہے کہ بابری مسجد تنازعہ اوراس سے منسلک دوسرے مسائل بیچ بیچ میںاپنی جھلک دکھاتے نظرآتے ہیں ۔رامائنی تنازعہ بھی انھیں میں سے ایک ہے ، اس کاپس منظر یہ ہے کہ رامائن کے مختلف Versionجومختلف زمانوں اورمختلف علاقوں کے حوالے سے تاریخ میں ملتے ہیں جن میں رام اورسیتاکے کردارکومختلف رشتوں میں دیکھاگیاہے ۔کہیں بھائی اوربہن کے روپ میں اور کہیں پتی اورپتنی کے رشتے میں ،یعنی ہرVersionاپنی الگ کہانی بیان کرتاہے۔اس موضوع پر اس سفرنامہ میں تفصیل سے گفتگوکی گئی ہے ۔پروفیسر وجیندر شاستری جودہلی یونیورسٹی میں سنسکرت کے ہیڈآف دی ڈیپارٹمنٹ تھے وہ اس سلسلے میں کہتے ہیں ۔
’’اب رام جنم بھومی کاجھگڑاکھڑاہوگیا۔مجھے کچھ سمجھ آتی نہیں ۔پھرآہستہ سے ٹکڑالگایا۔پتہ نہیں رام جی پیداہوئے بھی تھے یانہیں ۔‘‘۱۶؎
کنڑ زبان کے مشہورناول نگار اننت مورتی جی بابری مسجد کے پورے مسئلے کومدنظررکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ تاریخی واقعات کو اس کے پورے تاریخی پس منظر میں رکھ کر دیکھناچاہیے تبھی ہم کسی صحیح نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں ورنہ ہم تضادات کے ایسے نرغے میں گھر جائیں گے کہ وہاں سے واپسی ناممکن ہوجائے گی۔
’’لوگ تاریخ کوآج کے حساب سے پڑھتے ہیں ۔وہ بادشاہ جوکچھ کررہے تھے اسے اسی زمانے کی سیاست کے پس منظر میں دیکھناچاہیے پھرکوئی ایک بات لے لیتے ہیں ۔باقی بات چھوڑدیتے ہیں ۔ یہ صحیح ہے کہ اورنگ زیب نے بنارس میں مندر ڈھاکرمسجدتعمیر کی۔مگریہ بھی صحیح ہے کہ بنارس یونیورسٹی کے بیچ ایک لاٹھ کھڑی ہے جس پراورنگ زیب کاایک حکم نامہ کندہ ہے ۔حکم نامہ یہ ہے کہ کسی مندر کوڈھانے کی کوشش نہ کی جائے ۔ٹیپوسلطان بہت غیرمتعصب اورروشن خیال حکمران تھا۔مگریوںبھی ہواکہ ایک وقت میں اس نے ہندوئوں کوزبردستی مسلمان بنانے کی کوشش کی ۔یہ اصل میں اس وقت کی سیاست تھی۔‘‘۱۷؎
اسی طرح دہلی کی سیاسی صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دہلی میں مسلم علاقوں میں جوبدحالی ،بدنظمی اورگندگی پائی جاتی ہے اس کے وہ خودذمہ دارہیں ۔کیونکہ جامع مسجد کے علاقے کی صفائی مہم کے بعد انھوں نے جس ردعمل کااظہار کیااس کے بعد کوئی بھی حکومت ان علاقوں میں کسی بھی طرح کے مثبت اقدام اورترقیاتی کام کرانے کی زحمت نہیں کرے گی کہ وہ کام بھی کرائے اورووٹ سے بھی ہاتھ دھوبیٹھے ۔ چنانچہ اب جوان علاقوں کی حالت ہے وہ اسی ردعمل کانتیجہ ہے۔
’’اس صفائی کے خلاف جوہنگامہ ہواتھااس کااحوال مجھے بتاتے ہوئے کہنے لگا،پتہ ہے اب کیاہوگا۔کوئی حکومت مسلمانوں کے علاقوں کی طرف توجہ نہیں دے گی ۔انھیں کیاپڑی ہے کہ وہ اپنے ووٹ گنوائیں ،بیشک مسلمانوں کے علاقےSlumبن جائیں۔مجھے لگاکہ دلی کے مسلمانوں کی زندگی میں شاید اب وہ منزل آگئی ہے کیونکہ اس کے بعد میں نے حضرت نظام الدین اولیاکی درگاہ پربھی حاضری دی تھی اورمیں نے اس باراس کوچے کاحال بھی ابتردیکھا۔‘‘۱۸؎
انتظارحسین عام طورپر ہندستان کے شہروں کاجب ذکرکرتے ہیں توان کی نظراس شہر کے تہذیبی ومعاشرتی زوال پرجاکے ٹھہرجاتی ہے اور وہ اس شہر کے زوال کا نوحہ پڑھناشروع کردیتے ہیں۔لیکن اس سفرنامہ میں ان کارویہ کچھ بدلاسانظر آتاہے ۔وہ حیدرآباد،بنگلوراورمیسور کاذکرکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بنگلورتوباغوں کاشہر ہے ۔ہرطرف ہریالی ہی ہریالی ہے ۔سبزہ نے پورے شہر کواپنی لپیٹ میں لے رکھاہے ۔ دہلی اورکلکتہ کی طرح اس شہر میں پالوشن ،بھیڑبھاڑ،شورغل بالکل نہیں ہے ۔انتظار حسین کوان شہروں کی آب وہوااورآبادیوں کاتناسب بہت پسندآیا۔ان شہروں کودیکھ کر وہ بے حد خوش ہوئے کہ ہندستان میں اب بھی ایسے شہر ہیں جوآلودگی اورٹریفک کی اودھم سے پاک ہیں ۔انتظارحسین نے ان شہروں کے تاریخی ،تہذیبی ، مذہبی اورادبی مقامات واداروں کی سیاحت بھی کی،خاص طور حیدرآباداورمیسور کے میوزیم ،مقابر ،مساجد اورمزاروں کی زیارت کی اوراس سے بہت متاثر ہوئے ۔ ان کامانناہے کہ حیدرآباد لٹ کر بھی اپنے دامن میںبہت کچھ لیے ہوئے بیٹھاہے۔صرف حیدرآبادہی نہیں بلکہ یہ تینوں شہر آج بھی اپنی تہذیبی شناخت کو بڑی حدباقی رکھے ہوئے ہیں ۔وہ میسورشہر کی سرسبزی وشادابی کوبیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’مصفاکوچے ،منزہ ہوا۔نہ گرد،نہ دھواں،نہ ٹریفک کاشور۔یعنی ہرقسم کی آلودگی سے پاک۔خوب شہر ہے ۔صندل سے مہکتاہے،درختوں سے بھراہے۔میسورکی دوچیزیں خاص طورپر مشہورہیں، صندل اورسلک ،جابجاصندل کی لکڑی کے کاریگراپنی کاریگری کی دکان سجائے بیٹھے ہیں ۔ان کی دکان میں قدم رکھو،صندل کی خوشبومیں بس جائوگے ۔بزازوں کی دکانوں میں جائو۔تھان کھول کھول کرسلک کی رنگ رنگ ساڑھیوں کے انبارآپ کے سامنے لگادیں گے ۔سوکوچۂ وبازارمیں گہماگہمی ہے مگربڑے شہروں کے بازاروں والااودھم نہیں ہے۔‘‘۱۹؎
اس سفر میں انتظار حسین نے اردواورہندی کے ادیبوں وشاعروں کے علاوہ کنڑزبان کے ادیبوں سے بھی ملاقات کی ۔انھوں نے دکن میں اردوکی بہتر حالت کودیکھ کر کہاکہ دہلی ،یوپی اوربہار میںاردوخوب پھولی پھلی۔اب ایسالگتاہے کہ ان علاقوں کوجوفریضہ انجام دیناتھاوہ دے چکے اب کسی اورعلاقے کے اوپر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اردوکے گیسوئے برہم کوسنوارے سجائے ۔اوردکن اس ذمہ داری کواٹھانے کے لیے اپنے آپ کوتیار کررہاہے۔اسی کے ساتھ انھوں نے گم ہوتے ہوئے دکنی لہجے پر وہاں کے ادیبوں کی توجہ مبذول کرائی کہ آپ لوگ فخرتو قلی قطب شاہ پر کرتے ہیں اورسندکے طورپر ناسخ وآتش کومانتے ہیں۔زبان کودھونے مانجھنے کے چکر میں اردوکے نہ جانے کتنے زندہ لہجے گم ہوگئے۔ان کے علاوہ انھوں نے ہندستان کی مختلف جامعات کوبھی دیکھا،وہاں کے اساتذہ و طلباسے ادب کے تعلق سے بات چیت کی اوران کواپنی کہانیاں بھی سنائی۔جواہرلال نہرویونیورسٹی کی ایک ایسی ہی محفل کاذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’لیکن جے این یویعنی جواہر لال نہرویونیورسٹی کی محفل کاذکرکروں نہ کروں ،اس یونیورسٹی کا،نہیں اس کے اردگردکاذکر ضرورکروں گا۔یونیورسٹی اپنی جگہ،مگر مجھے اس کے اردگرد نے پکڑا۔اس یونیورسٹی میں میں نے پہلی بارقدم رکھاتھا۔لیجئے ہم کیمپس میں داخل ہوگئے۔کیمپس ۔یہ کیمپس ہے۔یہاں توجنگل پھیلاہواہے۔اورپہاڑیاں ہیں ۔انتظارصاحب ،یہ اراولی کی پہاڑیاںہیں جن کاذکرمہابھارت میں آیاہے۔میں نارنگ صاحب کی بات سنتاہوں اورحیران وششدر دیکھتاہوں۔ جنگل ،پہاڑیاں ،تویہ اراولی کی پہاڑیاں ہیں ۔پھریاں سے اندرپت کتنی دورہوگا۔ اوریہ موروں کی جھنکارکہاں سے آرہی ہے۔اراولی پہاڑیوں کے بیچ سے یااندرپت کے باغوں سے جہاں سداکوئلیںکوکتی اورمورجھنکارتے رہتے تھے۔مگریہ توسامنے یونیورسٹی کی عمارت کھڑی ہے۔اراولی پہاڑیوں کاجادوکافورہوا۔ہم یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہیں جہاں ایک محفل کااہتمام ہے ۔ پروفیسرنامورسنگھ صدارت کریںگے۔میں افسانہ پڑھوںگا۔آگے وہی جوہواکرتاہے۔ طلبا، طالبات،پروفیسرحضرات،اکادکاباہرکامہمان۔کوئی مروت میںتحسین کاکلمہ کہے گا۔کوئی شایدسچے دل سے ۔پھرکچھ سوال۔میری طرف سے ان کے ٹوٹے پھوٹے جواب۔‘‘۲۰؎
’’ایک پھیراایران کا‘‘یہ سفر انتظارحسین نے انورسجاداوراصغرندیم سیدکی معیت میں جنوری ۱۹۹۰ء میںایک سمینارمیں شرکت کی غرض سے کیاتھا۔اس سفرنامہ میںانھوںنے ایرانی تہذیب ومعاشرت پراپنے تجربات ومشاہدات کی روشنی میں اظہارخیال کیاہے۔ اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں کیاکچھ تبدیلیاں رونماںہوئیںاس پر بھی انھوںنے ایک طائرانہ نظرڈالی ہے۔وہ دومثالوں کے ذریعے سے وہاں ہونے والی تبدیلی کوپیش کرتے ہیں کہ اسلامی ایران میں صرف نسوانی آوازمیں موسیقی کوغیرمستحسن قراردے دیاگیاہے اسی طرح خواتین کربلاکوکرداروں کی صورت اسٹیج پرپیش کرنابھی ممنوع ہوگیا ہے ۔انھوں نے وہاں کے اہم تاریخی و مذہبی مقامات کی زیارت بھی کی ۔ اس سفرنامہ کوانتظارحسین نے ڈائری کی تکنیک میں لکھاہے ۔ایرانی بازاروں کی رونق کووہ اپنے منفرداسلوب و اندازسے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’سامنے بازارہے کہ دورتک پھیلانظرآرہاہے۔چلوچل کرمشہد کابازاردیکھیں ۔چلتے چلتے ایک گلی میںمڑے۔گلی سے جونکلے توکیادیکھا۔ایک اورہی طرح کابازار۔زعفران کی خوشبومیں بساہوا،سرخ رنگ میں رنگاہوا۔بڑے بڑے طشت زعفران سے بھرے ہوئے۔چلوزعفران کوتوہم نے پہچان لیا۔مگربرابرمیں یہ جوشوخ قسم کاسرخ مال طشتوں میں سجارکھاہے یہ کیاہے۔ایرانی دوست نے بتایاکہ صاحب یہ زرشک ہے ۔پلائوبریانی میں پڑتاہے ۔اورلیجئے اسی بازار کے اندرایک اوربازارجیسے بڑے سے باغ میں سیرکرتے کرتے کوئی خوبصورت سی روش آجائے۔ خاکِ شفاکی سجدہ گاہیں،تسبیحیں ،رنگ رنگ کے نگینے ،قسم قسم کی انگھوٹھیاں ،چھوٹی چھوٹی زعفران کی پوٹلیاں ۔جیسے بازار نہ ہو،نمائش گاہ ہو۔‘‘۲۱؎
’’مندروں کے نگر میں‘‘اس سفرنامہ میں انتظارحسین نے نیپال کے مشہورشہر کاٹھمنڈوکے اردگردکے پس منظراوراس کے تاریخی ومذہبی مقامات اوران مقامات سے جڑی روایات اورحکایات کوپیش کیاہے۔ انھوں نے اس سفر نامہ میں دیومالائی کہانیوں کاجابجااستعمال کیاہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کاٹھمنڈومندروں کاشہر ہے۔ یہاںلوگوں کے رہنے کے لیے جتنے گھرنہیںہیں اس سے کہیں زیادہ مندر ہیں ۔یہاں لیجنڈاوردیومالاکی بہتات ہے ۔ہرشے اورہر مندرکے ساتھ کوئی نہ کوئی دیومالائی کہانی یالیجنڈچمٹی ہوئی ہے۔جس مندرمیں قدم رکھئے وہ اپنے آپ میں ایک دیومالائی جہان معلوم ہوتی ہے ۔مندروں میں نصب مورتیاں اوران سے منسوب مختلف داستانیں گویا کاٹھمنڈو شہر شہرنہ ہوکوئی دیومالائی جہان ہوجس میںانتظارحسین گھوم پھر رہے ہیں۔وہ اس شہرکی ہرشے کوحیرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اوربیان کرتے ہیں :
’’تھوڑاآگے چلواورکماری کودیکھ لو۔جیتی جاگتی ننھی دیوی ۔یہ ننھی دیوی کون ہے۔یہ اٹھارویںصدی کے بیچ کاواقعہ ہے ۔راجہ جے پرکاش مل نیپال میں راج کرتاتھا۔ایک رات عجب گھڑی آئی کہ رانی نے اعلان کرڈالاکہ میں جگت ماتاہوں ۔راجہ نے شردھاسے سرجھکادیا۔لیکن اگلے دن اس نے ایک ننھی لڑکی کودیکھاکہ اسی لہجہ میں اعلان کررہی تھی کہ میں جگت ماتاہوں ۔راجہ کواس پرسخت غصہ آیا۔حکم دیاکہ یہ لڑکی شہر سے نکل جائے ۔لیجئے نکل گئی ۔مگراگلے دن کیاہوا۔راجہ کواحساس ہواکہ اس سے کوئی بڑاپاپ ہوگیاہے ۔لڑکی کوجھٹ پٹ بلوایااوربھرے دربارمیں اس کے آگے ماتھاٹیک دیا۔حکم دیاکہ ہمارے راج محل کے پاس اس کے لیے شاندارگھرتعمیرکیاجائے۔ ننھی لڑکی کواس میں رکھاگیا۔سال کے سال تیوہارمنایاجاتااورراجہ ننھی جگت ماتاکے سامنے سیس نواتا۔‘‘۲۲؎
انتظارحسین نے یہ سفرایک ورک شاپ میں شرکت کے لیے کیاتھاجس کو اکسفورڈ(ایشین کلچرل فورم آن ڈیویلپمنٹ)اورنیٹ ورک کلچر(ایشیا)نے منعقد کیاتھا۔اس کامقصد مذہبی بنیادپرستی کی مذمت اورفرقہ وارانہ ہم آہنگی کوفروغ دیناتھا۔دراصل بابری مسجد کے انہدام نے سیکولرذہن کے لوگوں کی روح تک کوہلادیاتھا۔انھوں نے بہت غوروفکر کے بعد یہ پروگرام طے کیاکہ کیوں نہ ہم تاریخ ،آرٹ ، ادب کے حوالے سے اپنی روایات کودیکھیں اوران کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہماری روایت کیاہے اورہم کدھر جارہے ہیں ۔ اننت مورتی جی اس ورک شاپ کے مقصدکی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’دوستوسچی بات یہ ہے کہ بابری مسجد کے انہدام کاواقعہ ہماری روحوں میں گہرااترگیاہے۔ایک مسجد منہدم نہیں ہوئی ۔اس کے ساتھ بہت کچھ ڈھے گیاہے۔مسلمان صوفیوں اورہندوجوگیوں نے مل کر جومشترکہ سمبلز تخلیق کئے تھے وہ بھی مسجد کے ساتھ ڈھے گئے ۔اب کیاکریں ۔مذہب کی نفی کاکوئی فائدہ نہیں ہے ۔مذہب کی نفی کرکے توچند ہی لوگ آپس میں مل پاتے ہیں ۔ہندستان ، پاکستان ،بنگلہ دیش میں یہ جوبہت سی خلقت بسی ہوئی ہے وہ تومذہب میںایمان رکھتی ہے۔ توکیاہم ہندواورمسلمان رہتے ہوئے آپس میں نہیں مل سکتے۔مسلمان مسلمان رہے، اورہندوہندورہے اورپھرملیں۔مذہب کی اس طرح کی قبولیت ہی سے سیکولرزم کوتقویت حاصل ہوگی ۔ممکن ہے بعض لوگوں کواس میں تضادنظرآئے ۔مگر مجھے اس میں کوئی تضادنظرنہیں آتا۔توآئیں سرجوڑکربیٹھیں اورسوچیں۔‘‘۲۳؎
اس ورک شاپ میں ہندستان ،پاکستان اوربنگلہ دیش کے نامورادیبوں ودانشوروں نے حصہ لیاجن میں اصغر علی انجینئر،غلام شیخ صاحب ،اننت مورتی ،گیتانجلی،کرشناسوبتی ،سدھیر،انتظارحسین ،جاوید بھٹی ،نیلم، حناقیصر،شومی وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ان لوگوں نے اپنے اپنے اندازمیں اس پر کھل کر بحث کی ۔اس بحث کے بیچ بیچ میں تقسیم ہنداورسقوط مشرقی پاکستان کے سانحات کاذکر بھی آتاہے جس سے کچھ دیر کے لیے ماحول غمگین ہوجاتاہے۔ لیکن پھر کوئی دانشوراٹھتاہے اورلوگوں کی توجہ کومشترکہ تہذیب کی طرف مبذول کراتاہے۔ اس طرح سے یہ سفرنامہ صرف نیپال کے مندروں اوروہاں کے لوگوں کے مذہبی عقائد ورسم رواج کے بیان تک ہی محدودنہیں رہتاہے بلکہ اس میں۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی ،۱۹۴۷ء،اور۱۹۷۱ء کے واقعات کابھی ذکرکیاگیاہے جن کی وجہ سے اس کی حیثیت ایک تاریخی دستاویز کی ہوجاتی ہے ۔
’’اردودیارہندمیں‘‘اس میں انتظارحسین نے ہندستان میں اردوکی موجودہ صورت حال اور مستقبل میں اس کے امکانات کوبیان کیاہے ۔ان کامانناہے کہ اردوکوئی اینٹ مٹی کی عمارت نہیں ہے کہ جب جی میں آیاگرادیااوراس کی جگہ کوئی دوسری عمارت تعمیر کردی۔ اردوسخت جان اورزندہ زبان ہے اسے مٹاناآسان نہیں ہے بلکہ اب توہندستان میں اردوکاایک بالکل الگ ہی نقشہ نظرآرہاہے۔لوگ اب اردوکی سماجی وتاریخی حیثیت کوتسلیم کرنے لگے ہیں کہ اردوعوامی رابطہ کی زبان ہے۔ اس کے علاوہ اردوزبان کے اندر جوشیرینی ،نغمگی اورکشش ہے وہ بھی لوگوں کواپنی طرف کھینچ رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ غیراردوداں طبقہ بھی اس کی طرف کھچا چلا آرہاہے۔نئے ہندستان میںاردوکے سحر کایہ عالم ہے کہ ہندی کے ناشرین اردوکے شعراکے کلام اورافسانہ نگاروں کے افسانوں کوہندی میں منتقل کررہے ہیں ۔لیکن یہ نیالسانی عمل خوداردوکے لیے ایک بڑاچیلنج ہے ۔ اس فضااوراس نئے لسانی عمل میں کیااردواپنی شناخت کوباقی رکھ پائے گی یاتحلیل ہوجائے گی کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔
’’پورب گئے پچھم گئے ‘‘اس سفرنامہ میں انتظارحسین نے لندن ،اوسلواوربرلن جیسے شہروں کی روداد سفرکو بہت ہی مختصر انداز میں بیان کیاہے ۔وہ ان شہروں کے بازاروں پارکوں اورمیوزیم وغیرہ کی صفائی ستھرائی اورنظم وضبط کودیکھ کربہت متاثر ہوتے ہیں اور ان کے ذوق سلیم کی داددیتے ہیں کہ انھوں نے کیاخوب شہر بسایاہے ۔ان کے شہر بستی اورجنگل کاآمیزہ ہیں ۔لیکن اس آمیزش میں بھی کوئی شتر بے مہارنہیں ہے کہ جوجدھر چاہے نکل لے۔ہر ایک چیز میں نظم وضبط پایاجاتاہے۔پاکستان کی طرح نہیں ہے کہ جنگل بڑھناشروع کیاتوشہرکونگل گیااورشہر بسناشروع ہواتوجنگل اوردرختوں کونگلنے لگا۔یورپ کامعاملہ یہ ہے کہ یہاں عمارتوں کے بیچ درخت اورپہاڑیاں اس طرح سے ہیں کہ یہ طے کرنامشکل ہے کہ شہر جنگلوں اورپہاڑیوں میں بساہے یاشہر کے اندر جنگل اورپہاڑیاںآگئی ہیں ۔وہ اوسلوشہر کی اسی خوبی کوبیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اوسلووالوں نے طے کیاکہ ایساشہر بسائو کہ بستی اورجنگل کاآمیزہ ہو۔توخوب آمیزہ تیارکیا،ہرپہاڑی فلیٹوں اورگھنے درختوں کاملاجلاگلدستہ ہے ۔‘‘۲۴؎
مجموعی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انتظارحسین نے سفرناموں کی عام روش سے ہٹ کر اپنی ایک الگ راہ بنانے کی شعوری کوشش کی ہے۔انھوں نے اپنے سفرناموں میں تاثرات کے ساتھ ساتھ تخیلات سے بھی جابجا کام لیاہے ۔انھوں نے متعلقہ ممالک کی ثقافتی وتہذیبی حالات،علمی وادبی احوال کوصرف ظاہری آنکھوں سے دیکھنے پراکتفانہیں کیابلکہ اپنے تجربات اورمشاہدات کی روشنی میں اسے جانچاپرکھاہے اورپھر اسے تحریری شکل عطاکی ہے جس سے ان کے سفرنامے محض بصری مناظریاواقعات نہیں بلکہ تہذیب وثقافت کے مرقعے بن گئے ہیں ۔انھوں نے حال کوماضی کے تناظر میں پیش کرکے لوگوں کواس سے عبرت حاصل کرنے کی دعوت دی ہے کہ اگرعقل ودانش ہے تو ان واقعات سے سبق حاصل کرو۔انتظارحسین اپنے سفرناموں میں واقعاتِ سفر سے زیادہ کیفیاتِ سفر کوبیان کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے سفرناموں میں تاثرات ،جذبات واحساسات اورذاتی ردعمل کااظہارکثرت سے ملتاہے۔اسلوب اوراندازبیان کے لحاظ سے بھی ان کے سفرنامے عام سفرناموں سے بالکل الگ اورمنفرد ہیں۔انھوں نے داستانوی اوردیومالائی اسلوب کااستعمال کرکے اردوسفرنامے کونئے اسالیب سے روشناس کرایاہے۔اس طرح سے انتظارحسین نے اپنے تخلیقی انداز سے اس صنف کارشتہ ادب کی دوسری اصناف سے جوڑدیاہے جن کے باعث ان کے سفرنامے فکشن کے بہت قریب نظرآتے ہیں ۔

حواشی
۱۔ انتظارحسین ،زمین اور فلک اور،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس ،دہلی ،۲۰۱۲ء ،ص۱۱
۲۔ ایضاً، ص۱۶
۳۔ ایضاً، ص۱۴
۴۔ ایضاً، ص۳۱
۵۔ ایضاً، ص۲۸
۶۔ ایضاً، ص۱۹
۷۔ ایضاً، ص۱۴۲
۸۔ ایضاً، ص۱۱۰
۹۔ ایضاً، ص۱۱۲
۱۰۔ ایضاً، ص۱۱۳
۱۱۔ ایضاً، ص۱۵۳
۱۲۔ ایضاً، ص۶۳
۱۳۔ ایضاً، ص۷۶
۱۴۔ انتظارحسین ،نئے شہرپرانی بستیاں ،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،۱۹۹۹ء،ص۲۸
۱۵۔ ایضاً، ص۱۹۔۱۸
۱۶۔ ایضاً، ص۸۶
۱۷۔ ایضاً، ص۷۱
۱۷۔ ایضاً، ص۷۱
۱۸۔ ایضاً، ص۴۲
۱۹۔ ایضاً، ص۷۷
۲۰۔ ایضاً، ص۴۹
۲۱۔ ایضاً، ص۱۰۹
۲۲۔ ایضاً، ص۱۴۳
۲۳۔ ایضاً، ص۲۲۔۱۲۱
۲۴۔ ایضاً، ص۱۶۰

Dr.Abrar Ahmad
Assistant Professor
Department Of Urdu, Arabic& Persian
Poona College of Arts Science & Commerce, Camp, Pune
Mobile. 855400863