Iqbaal ka Tasawwar-e-Maut

Articles

اقبال کا تصورِ موت

قمر صدیقی

موت ایک ایسا عام فہم لفظ ہے جس کے تصور سے ہر انسان واقفیت رکھتا ہے۔ دن رات کے مشاہدات موت کے بے شمار مناظر پیش کرتے رہتے ہیں۔ ہم میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو اپنے عزا و اقربا کے وداعِ دائمی کے وقت موجود نہ رہاہو۔ حیرت کی بات ہے کہ جو چیز اس قدر ہمہ گیر اور دن رات کے

معمولات میں شامل ہے اس کے تصور سے انسان گھبراہٹ اور پریشانی محسوس کرتاہے۔ ہم یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ موت ناگزیر ہے اور حیاتِ ابدی ممکن نہیں لیکن ہمارا دل و دماغ موت کے تصور سے کوسوں دور بھاگتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم موت کو زوالِ زندگی یا اختتامِ زندگی سمجھتے ہیں ۔ ہمارے ذہن و تصور پر یہ خوف چھایا رہتا ہے کہ موت کے بعد ہم لذائذِ دنیا و کوائفِ زندگی سے یک لخت محروم ہوجائیں گے اور موت ہمارے سارے ولولوں ، آرزوؤں اور تمناؤں کا خاتمہ کردے گی۔ ہم زندگی کا سفر طے کرنے کے بعد اپنی آخری منزل پر پہنچ جائیں گے جہاں دائمی جمود اور ابدی تعطل کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا۔

موت کے تعلق سے مذکورہ بالا خیالات ایک عالمگیر تصور کی صورت انسانی نفسیات میں رچ بس گئے ہیں۔ علامہ اقبال نے اس تصور کے علی الرغم موت کے اسلامی تصور کو اپنی شاعری میں کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اقبال کے نزدیک موت کے یہ معنی نہیں کہ یہ ہمیں ابدی نیند سلادیتی ہے بلکہ اقبال موت کو دوسری بہتر اور لازوال زندگی کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں:
موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے

موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی

ہے یہ شامِ زندگی ، صبحِ دوامِ زندگی

اقبال کے نزدیک موت سے وہی لوگ ہراساں و پریشان ہوتے ہیں جن کا ایمان آخرت کے یقین سے محروم و تہی دامن ہوتا ہے۔ جو لوگ آخرت پر یقین رکھتے ہیں موت کو آئندہ زندگی کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں۔موت کے خوف کو علامہ اقبال دنیائے اسلام کا سب سے بڑا فتنہ تسلیم کرتے ہوئے یہ خیال پیش کیا کہ انسان ذاتی منفعت جیسی ادنیٰ ترین چیز کے لیے توہزار ذلت و رسوائی برداشت کرلیتا ہے جبکہ موت جو کہ محض ہوش و حواس کا کچھ عرصہ موقوف ہونے کا نام ہے اس سے ہمہ وقت خائف رہتا ہے۔
ہمچو کافر از اجل ترَسِندہ ئی
سینہ اش فارغ ز قلب زندہ ئی
(کافر کی طرح موت سے ڈرتا ہے۔ اس کے سینے میں زندہ رہنے کا والا دل نہیں ہے۔)

ایک بار سرورکائنات حضور ؐ نے فرمایا کہ:
’’ ایک زمانہ آنے والا ہے جبکہ مسلمان نہایت ذلیل و خوار ہوں گے ۔ ان کی زندگی باعثِ ننگ و عار ہوجائے گی۔‘‘ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ کیا اس وقت مسلمانوں کی تعداد کم ہوجائے گی۔ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ اُس وقت تو ان کی تعداد اب سے بہت زیادہ ہوگی۔ اصحاب نے پھر دریافت کیا یا رسول اللہؐ کیا اُس وقت مسلمانوں میں افلاس آجائے گا۔ آپ ؐ نے فرمایا نہیں وہ اُس وقت کافی خوش حال و دولت مند ہوں گے۔ اصحاب نے استفسار کیا یا اللہ کے رسولؐ پھر ناتوانی و بے چارگی کی کیا وجہ ہوگی۔ حضور ؐ نے ارشاد فرمایا کہ سب سے بڑی لعنت جو ان پر مسلط ہوچکی ہوگی وہ موت کا غیر معمولی خوف اور دنیا سے انتہائی محبت ہوگی۔‘‘
مذکورہ بالا حدیث کی کا تجزیہ کیا جائے تو احساس ہوجائے گا کہ موت کا خوف ارفع و اعلیٰ مقاصد میں کس طرح سد راہ ہوتاہے۔ اقبال کی نظر میں موت سے خوف کھانا ایک سطحی جذبہ ہے کیوں کہ اُس چیز سے خوف کھانا جو اٹل اور ہمہ گیرہو بزدلی کی علامت اور سراسر حماقت ہے۔ انسان اپنی ہزاروں کوششیں، لاکھوں تدابیر، فنِ طب کے مسلسل و لا محدود تراکیب سے بھی موت کو زیر نہیں کرسکا ہے۔ موت کے اٹل ہونے کواقبال نے کچھ اس طرح پیش کیا ہے:

زندگی انساں کی ہے مانندِ مرغِ خوش نوا

شاخ پر بیٹھا کوئی دم ، چہچہایا ، اُڑ گیا

آہ! کیا آئے ریاضِ دہر میں ہم ، کیا گئے

زندگی کی شاخ سے پھوٹے ، کھلے مرجھا گئے

زندگی انساں کی اک دم کے سوا کچھ بھی نہیں

دم ہوا کی موج ہے ، دم کے سوا کچھ بھی نہیں

موت کی اس ہمہ گیر اور عالم گیر حقیقت کو سمجھانے کے بعد اقبال یہ بتاتے ہیں کہ موت کیوں ضروری و لازمی ہے۔ فلسفہ کا یہ مشہور مسئلہ ہے کہ کسی چیز کا صحیح تعارف اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی ضد موجود نہ ہو۔ روشنی کے لیے تاریکی، بیداری کے لیے خواب ، خوشی کے لیے غم اور زندگی کے لیے موت۔ اقبال اس نکتہ کو نظم ’’فلسفۂ غم ‘‘ میں کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں:

گو سراپا کیفِ عشرت ہے شرابِ زندگی

اشک بھی رکھتا ہے دامن میں سحابِ زندگی

موجِ غم پر رقص کرتا ہے حبابِ زندگی

ہے الم کا سورہ بھی جزوِ کتابِ زندگی

ایک بھی پتی اگر کم ہو تو وہ گل ہی نہیں

جو خزاں نادیدہ ہو بلبل ، وہ بلبل ہی نہیں

اقبال کے تصورِ موت میں موت کتابِ زندگی میں ایک نئے باب کے اضافے سے عبارت ہے اور یہ یقینی امر ہے کہ یہ نیا باب پہلے سے زیادہ حسین ، زیادہ رنگین و دلفریب ہے۔ اپنے اس دعوے کے ثبوت میں کہ ہر موت یا فنا کے بعد انسان ارتقا کا ایک درجہ طے کرتا ہے اقبال نے نظم میں بے شمار خوشنما تشبہیوں و استعاروں سے کام لیا ہے۔غروب و طلوع آفتاب دن رات کا قصہ ہے۔ کون نہیں جانتا کہ پھولوں کی شاخ میں پہلے کی پھوٹتی ہے جو بڑھ کر پھول کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ جانتے تو سب ہیں دیکھتا بھی ہر شخص ہے مگر اقبال کی دور رس و حقیقت شناس نظر اسی چیز کو اور ہی زاویے سے دیکھتی ہے ۔ وہ نہ صرف دیکھتی ہے بلکہ اس سے وہ سبق حاصل کرتی ہے جس سے موت کی حقیقت بے نقاب ہوجاتی ہے ۔ لہٰذا اس نظم کے آخری بند میں

اقبال کچھ اس طرح گویا ہوتے ہیں:

مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں

یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں

مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں

جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں

اقبال کا تصورِ موت فکر اسلامی کے عین مطابق ہے۔ اُن کے نزدیک خواب و بیداری اور موت و حیات کا تعلق یکساں ہے۔ جس طرح سوتے وقت انسان دنیا و مافیہا سے کچھ دیر کے لیے بے خبر ہوجاتا ہے اسی طرح موت گو ظاہر بین نظروں کے لیے کتابِ زندگی کو تہ کردیتی ہے۔ لیکن باطن بیں نگاہیں حیاتِ مابعد کے مناظر سے آشنا ہوجاتی ہیں۔