Iqbal Ka Tasawwar E Fuqr o Darweshi by Prof. Saheb Ali

Articles

اقبال کا تصورِ فقر و درویشی

پروفیسر صاحب علی

مولانا صلاح الدین احمد نے تحریر کیا ہے کہ ’’ اقبال کا فکر و فلسفہ تاریخی عوامل کی پیداوار ہے۔‘‘ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اقبال کے فکر و فلسفہ کے ان تاریخی عوامل کا نقطۂ آغاز کیا ہے؟ مولانا صلاح الدین احمد نے تحریر کیا ہے کہ ’’ اقبال کا فکر و فلسفہ تاریخی عوامل کی پیداوار ہے۔‘‘ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اقبال کے فکر و فلسفہ کے ان تاریخی عوامل کا نقطۂ آغاز کیا ہے؟ بادی النظر میں اقبال کے فکر پر بیک وقت مشرقی و مغربی مفکرین کے اثرات صاف محسوس کیے جاسکتے ہیں لیکن ذرا باریک بینی سے مشاہدہ کریں تو اقبال کے فکر و فلسفہ کا بنیادی رویہ قرآن اور سنّتِ رسول ؐ کے اتباع اور بلادِ مشرق کے ممتاز دانشوروں جلال الدین رومی اور مجدد الف ثانی  ؒ وغیرہ کے افکار و خیالات سے استفادہ کا ہے۔ مثلاً اقبال کا ’’مردِ مومن‘‘ بادی النظر میں نطشے کے ’’سپر مین‘‘ کا تتبع محسوس ہوتا ہے لیکن اقبال کے’’ مردِ مومن‘‘ میں جو درمندی اور تنوع ہے وہ نطشے کے ’’سپر مین‘‘ میں نہیں۔ نطشے کا ’’سپر مین‘‘ اخلاقی خوبیوں کو کمزوری پر محمول کرتا ہے اور خیر و شر کو محض اضافی قدر گردانتا ہے جبکہ اقبال کے ’’مردِ مومن ‘‘ کی بنیاد ہی اخلاقیات پر ہے۔ اقبال کا ’’مردِ مومن‘‘ ،’لا‘ کے ساتھ ’الّا‘ کا بھی قائل ہے اور ایمان اور یقین کے اِس اعلیٰ ترین جوہر کو خلق کرنے میں اقبال نے مشرقی خصوصاً اسلامی فکر و فلسفہ سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نطشے کے ’’سپر مین‘‘  کے برخلاف اقبال کے ’’مردِ مومن‘‘ کی قوت کا سرچشمہ محض جسمانی قوت نہیں بلکہ انسان کی روحانی اور اخلاقی قوت ہے۔ اقبال نے ’’مردِ مومن کے لیے اپنی شاعری میں ’’شاہین‘‘ کا استعارہ استعمال کیا ہے مثلاً
کیا میں نے اس خاک داں سے کنارہ
جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ
بیاباں کی خدمت خوش آئی ہے مجھ کو
ازل سے ہے فطرت مری راہبانہ
ہوائے بیاباں سے ہوتی ہے کاری
جواں مرد کی ضربتِ غازیانہ
یہ پورپ ، یہ پچھم ‘ چکوروں کی دنیا
مرا نیلگوں آسماں بے کرانہ
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
متعدد نظموں میں اقبال نے ’’شاہین‘‘ کو مختلف زاویے سے پیش کیا ہے گویا ’’شاہین‘‘ اقبال کا محبوب پرندہ ہے۔ بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ’’شاہین ‘‘ اقبال کے فکر و فلسفہ کا کلیدی استعارہ ہے۔ اقبال نے اپنے فکر و فلسفہ کی اکائی کے طور پر ’’شاہین‘‘ کو اس لیے استعارہ بنایا ہے کیونکہ ’’ اس کی غیرت ، خود داری ، تیز نگہی ، خلوت پسندی انھیں بے حد عزیز ہے۔ یہ بلند پرواز کی علامت ہے۔ جس کے پروں کے نیچے ساری دنیا ہے، آشیاں بندی جس کے لیے باعثِ ذلّت ہے۔ شاہین میں بحیثیت مجموعی تین خوبیاں بدرجۂ اتم موجود ہیں جو اقبال کے فسلفیانہ افکار پر محیط ہیں ۔ ’’عمل‘‘ ، ’’خودی‘‘ اور ’’فقر‘‘۔(اقبال کی شعری و فکری جہات۔ از : عبد الحق ۔ صفحہ ۲۳۳) علامہ اقبال کے کلام میں خودی کی بلندی ، عشق کی روحانی کیفیت اور حرکت و عمل کے ایک پہلو کا نام فقر بھی ہے۔ ظاہری نظر سے فقر افلاس کا نام ہے مگر اقبال کے یہاں فلسفیانہ اصطلاح میں یہ ترکِ نفس ہے، تیاگ ہے۔ دنیا کی احتیاج سے بلند ہونا ہے۔ جس میں فقر ہو اسے اقبال نے اصطلاحاً قلندر یا درویش بھی کہا ہے ۔ اسی قلندری اور درویشی میں ہی سکندری یعنی فاتح ہونے کا راز ہے۔
اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیور
قلندری مری کچھ کم نہیں اسکندری سے
قلندر روحانیت کا مالک ، دنیا سے بے نیاز اور جبر کا فاتح ہے۔ اقبال کی نظر میں انسان کی بلندی کی معراج یہی قلندری ہے۔ جس میں قلندری ہو وہ قوموں کا قائد بن سکتا ہے اور اس کے ہاتھوں دوسروں کو غلامی سے نجات ملتی ہے۔ ’’جاوید نامہ‘‘ میں جن ہستیوں کا ذکر ہے ان میں درویش سوڈانی یعنی مہدی سوڈانی بھی شامل ہے۔ جس نے برطانوی سامراج کے خلاف بغاوت کی اور شہادت پائی۔ ایسے تارک نفس درویشوں سے بڑے بڑے جابر ڈرتے ہیں کیونکہ ان کی بے غرضی قوموں میں آزادی کی روح پھونک دیتی ہے۔ مثنوی’’ اسرارِ خودی‘‘ میں ہے:
از شکوہ بوریا لرزد سریر
یعنی ایسے درویش کے بوریے سے عظمت کے تخت بھی لرزتے ہیں ۔ اسی طرح نظم ’’قلندر کی پہچان‘‘ میں قلندر کی عظمت کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:
کہتا ہے زمانے سے یہ درویش جواں مرد
جاتا ہے جدھر بندۂ حق تو بھی ادھر جا
ہنگامے ہیں میرے تری طاقت سے زیادہ
بچتا ہوا بہ نگاہِ قلندر سے گزر جا
میں کشتی و ملاح کا محتاج نہ ہوں گا
چڑھتا ہوا دریا ہے اگر تُو تو اتر جا
توڑا نہیں جادو مری تکبیر نے تیرا
ہے تجھ میں مکر جانے کی جرأت تو مکر جا
اقبال کے تصورات شاعری میں ’’فقر‘‘ ایک بنیادی تصور ہے ۔ خصوصاً اقبال کے وہ تصورات جو فرد کے ارتقا اور انفرادی سیرت سے متعلق ہیں وہ اسی تصورِ ’’فقر‘‘ سے مملو ہیں ۔ اقبال کا مردِ مومن ہو ، مردِ درویش ہویا اس مردِ مومن کا احساسِ خودی ، یہ سب منصبِ فقر کے احساس کے ہم معنی ہیں۔ تصور ِ فقر کا جلوہ اقبال کے ابتدائی کلام میں بھی کسی نہ کسی طور ظاہر ہوجاتا ہے۔ چنانچہ ’’بانگِ درا‘‘ کی بعض نظموں میں اس تصور کا عکس کسی نہ کسی صورت جھلکتا نظر آتا ہے:
بندۂ مومن کا دل بیم دریا سے پاک ہے
قوتِ فرماں روا کے سامنے بے باک ہے
جیسے جیسے اقبال کا شعری سفر اپنی منزلیں طے کرتا جاتا ہے یہ تصور واضح اور روشن ہونے لگتا ہے۔ بلکہ ’’پیامِ مشرق‘‘ اور ’’جاوید نامہ‘‘ تک آتے آتے اقبال کے تصورِ فقر میں ایک نوع کی برّاقی اور تیزی پیدا ہوجاتی ہے۔ مولانا صلاح الدین احمد تحریر کرتے ہیں ’’ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فقر اس کے ہاتھ میں ایک تلوار کی مانند ہے جس سے وہ کائنات کو تسخیر کیا چاہتا ہے۔‘‘ (تصوراتِ اقبال ۔ صفحہ ۵۹)
علامہ اقبال کے نزدیک فقر کی دو قسمیں ہیں ایک قسم وہ ہے جو بہادر کو بزدل بنادیتی ہے اور دوسری قسم شاہانہ تمکنت عطا کرتی ہے اور انسان مردِ کامل بنتا ہے ۔ مثلاً ’’بالِ جبریل‘‘ میں شامل نظم ’’فقر‘‘ ملاحظہ فرمائیں:
اک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچیری
اک فقر سے کھلتے ہیں اسرارِ جہانگیری
اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری
اک فقر سے مٹی میں خاصیتِ اکسیری
اک فقر ہے شبّیری اس فقر میں ہے میری
میراثِ سلیمانی ، سرمایۂ شبّیری
اس نظم میں اقبال نے فقر کے دو رویوں کا موازنہ پیش کیا ہے۔ ایک وہ جو پست ہمتی کی طرف لے جاتا ہے اور دوسرا وہ رویہ ہے جس سے قلب انسانی پر اسرارِ جہانگیری منکشف ہوتے ہیں۔’’ یہاں تضاد، حیات کے اثبات اور اس کے انکار کے درمیان ہے۔ ’’اسرارِجہانگیری‘‘ سے مراد ہوس اور خواہشاتِ دنیاوی کے بھنور میں اپنے آپ کو ڈال دینے سے نہیں ہے بلکہ موجودات کے وجدانی ادراک سے ہے اور نخچیری سے مراد ترغیبات کے سامنے سپر اندازی نہیں ہے۔ اسی طرح خاصیتِ اکسیری سے غرض یہ ہے کہ صحیح اور صالح قسم کا فقر ، فرد کی کجروی اور بے بصری سے دور رکھ کر ہمیں اشیا کا عرفان بخشتا ہے ۔اسی طرح ایک لفظ ’’شبّیری ‘‘ میں دنیاوی لذات سے بے رغبتی ، کردار کی صلابت اور اس کے ساتھ نظر کی پختگی رضائے الہیٰ کے سامنے بہ تمام کمال سرنگوں ہونے کا جذبہ اور روحانی اہتزاز کا وہ تجربہ شامل ہے جس سے تصوف اور فقر عبارت ہیں۔(اقبال آئینہ خانے میں ۔ از : ڈاکٹر اسلوب احمد انصاری۔ صفحہ نمر: ۵۰)
اقبال کا تصورِ ’’فقر و درویشی‘‘ در اصل رہبانیت یا مردم بیزاری نہیں بلکہ یہ دل و نظر کی عفّت و طہارت سے عبارت ہے۔ جس کے ذریعہ انسان جسمانی اور ارضی زندگی کی ترغیبات ترک کرکے انفس و آفاق پر غلبہ اور تفوق حاصل کرنے کی طرف رجوع ہو:
فقر کے ہیں معجزات تاج و سریر و سپاہ
فقر ہے میروں کا میر ، فقر ہے شاہوں کا شاہ
اقبال نے اپنے تصورِ فقر میں ظاہری شان و شوکت اور جاہ و حشم کی در پردہ نفی کرکے نفسی اور روحانی طمانیت کو سراہا ہے۔ یہی روحانی طمانیت فقر کا حاصل اور اس کا اصل جوہر ہے وگرنہ گدائی اور فقر میں تمیز مشکل ہے:
جو فقر ہوا تلخیٔ دوراں کا گلہ مند
اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی
اقبال کے شاعرانہ افکار میں فقر کی اہمیت کو اس طرح بھی محسوس کیا جاسکتا ہے کہ انھوں نے علم و فقر کو متضادات کے طور پر بھی سامنے لایا ہے:
علم کا مقصود ہے پاکیٔ عقل و خرد
فقر کا مقصود ہے عفّتِ قلب و نظر
علم فقیہہ و حکیم ، فقر مسیح و کلیم
علم ہے جویائے راہ ، فقر ہے دانائے راہ
فقر مقامِ نظر ، علم مقامِ خبر
فقر میں مستی ثواب ، علم میں مستی گناہ
اقبال کو علم ضرورت و اہمیت سے انکار نہیں لیکن ان کے نزدیک نفس و روح کی کائنات بھی کچھ اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ علم اور فقر کے مابین کیفیاتی فرق کے ماسوا فقر کے مفہوم میں وقت کے ساتھ جو تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ اقبال کا ذہن اس سے بھی غافل نہیں ہے۔دولتِ فقر کے کھوجانے کا غم اس کے لیے باعثِ اضطراب ہے۔ مثلاً یہ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
مومن پہ گراں ہیں یہ شب و روز
دین و دولت قمار بازی
ناپید ہے بندۂ عمل مست
باقی ہے فقط نفس درازی
ہمت ہو اگر تو ڈھونڈ وہ فقیری
جس فقر کی اصل ہے حجازی
مومن کی اسی میں ہے امیری
اللہ سے مانگ یہ فقیری
اقبال کے نزدیک ’’فقر ‘‘ محض فکری آماجگاہ نہیں بلکہ یہ انسان کی عملی زندگی کا حصّہ ہے۔ اقبال نے ’’فقر ‘‘کو جمالِ الہیٰ کا ایک کرشمہ گردانا ہے۔ اس ضمن میں ’’فقر و ملوکیت‘‘ کے یہ اشعار توجہ طلب ہیں:
فقر جنگاہ میں بے ساز دیراق آتا ہے
ضرب کاری ہے اگر سینے میں بے قلبِ سلیم
اُس کی بڑھتی ہوئی بے باکی و بے تابی سے
تازہ ہر عہد میں ہے قصہّ فرعون و کلیم
اب ترا دور بھی آنے کو ہے اے فقرِ غیور
کھاگئی روحِ فرنگی کو ہوائے زردسیم
نظم میں ’’بے سازدیراق‘‘ کہنے کے باوجود ‘ فقر ، مسکینی و محرومی نہیں بلکہ ایک انقلابی قوت ہے جو اشیائے عالم کی شیرازہ بندی کرنا چاہتی ہے۔ ’’ حق و باطل کی جنگ میں ’’فقر‘‘ حق کی قوت ہے اور اس کے مدِّ مقابل ملوکیت ایک طاغوتی قوت ہے۔ جسے یہ شکست دے کر زیر کرنا چاہتی ہے۔‘‘( اقبال آئینہ خانے میں ۔ از : ڈاکٹر اسلوب احمد انصاری۔ صفحہ نمر: ۵۰)’’ہوائے زرد سیم‘‘ کو جو قوت متوازن کرسکتی ہے وہ فقر کی قوت ہے اُس سے ایسے نفسی انقلاب اور اندرونی تغیر کی بنیادپڑتی ہے جس سے انسان کے اندازِ نظر کو مثبت انداز سے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔٭٭٭