Iqbal ki Ghazal Goey ki Chan Infaradi Pahloo by Roshni Khan

Articles

اقبال کی غزل گوئی کے چند انفرادی پہلو

روشنی خان

اردوغزل پر حالی کی سخت ترین تنقید کے باوجود اس صنف کا نہ تو مملکت شعر سے دیس نکالا ہوسکا اور نہ ہی شائقین ادب کے درمیان اس کی مقبولیت میں کمی آئی۔اردو کی شعری روایت میں بارہا ہدف ملامت بننے کے باوجود یہ صنف آج بھی نہ صرف اپنی جلوہ سامانی سے ایوان شاعری کو درخشندگی عطا کر رہی ہے بلکہ بعض حیثیتوں سے یہ دنیا کی ان زبانوں کی شاعری کے مابین امتیازی شان کی حامل ہے جن کا حوالہ دینے کا رواج اردو تنقید میں ایک فیشن کے طور پر رائج ہو چکا ہے۔اردو غزل کا تخلیقی سفر جن مراحل سے گزر کر عصر حاضر تک پہنچا ہے اس میں ایک طبقہ ان شعرا کا ہے جو غزل کے روایتی مضمون کے اسیر رہے اور فکر و خیال کی سطح پر کسی جدت کو برتنے سے اجتناب کرتے رہے۔ایسے شاعروں کو بجا طور پر حالی کی زبان میں اسلاف کے چبائے ہوئے نوالوں کی جگالی کرنے والے شعرا کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی غزل کی دنیا میں ایسے شاعر بھی نظر آتے ہیں جنھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے اس صنف کو موضوع و معنی کے نئے جہانوں سے متعارف کرایا۔ اقبال کا شمار بھی اردو کے ایسے غزل گو شعرا میں ہوتا ہے جن کی غزلیں اسلوب بیان اور مضمون کی تازہ کاری کی نمایاں مثال ہیں۔ اقبال کی مشق سخن کا آغاز غزل کے ذریعہ ہوا اور ان کی شاعری کا تدریجی ارتقا اس حقیقت کی وضاحت کرتا ہے کہ ابتدا میں روایتی طرز کو اختیار کرنے والا یہ شاعر غزل کو وہ نیا آہنگ عطا کرتا ہے جو آج تک صرف اس سے ہی مخصوص ہے۔ اقبال کی ابتدائی دور کی غزلوں میں زبان اور مضمون پر اردو غزل کے اس روایتی انداز کا پرتو صاف نظر آتا ہے جسے امیر اور داغ نے اپنے دور میں مقبولیت عطا کی تھی۔بانگ درا میں شامل بیشتر غزلوں میں شاعری کے اسی رنگ کو دیکھا جا سکتا ہے تاہم اس کے بعد بال جبریل کی اشاعت ہوئی تو اہل نقد و نظر نے یہ تسلیم کیا کہ اقبال نے غزل کو نئے تخلیقی امکانات سے روشناس کرنے میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو اس طور سے استعمال کیا ہے کہ غزل کو عرض مدعا کی تنگ دامانی کے الزام سے بری کر دیا۔
اقبال کی شاعرانہ عظمت جن حوالوں سے ترتیب پاتی ہے ان میں ایک حوالہ اردو غزل کو نئی تخلیقی جہت عطا کرنے کا بھی ہے۔وہ شاعری کو حیات و کائنات کے متعلق ایک خاص نصب العین کے اظہار کا وسیلہ سمجھتے ہیں اور اس اظہار میں اس سلیقہ مندی کو ملحوظ رکھنے کی کوشش پر بھی خاص توجہ رہی جس کے بغیر شاعری کو فنی اعتبار و وقار حاصل نہیں ہوپاتا۔اپنے اس تخلیقی رویہ کا اظہار انھوں نے کچھ اس طور سے کیا ہے
فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا
حرف تمنا جسے کہہ نہ سکے روبرو
اقبال شاعری میں برہنہ گفتاری کو مستحسن نہیں سمجھتے تھے بلکہ اس فن سے وابستہ ان تقاضوں کی تکمیل بھی ان کے پیش نظر تھی جو شاعری کو فن کا مرتبہ عطا کرتی ہے۔ بانگ درا کی غزلوں میں واردات قلب و نظر کی ترجمانی جس روایتی پیرائے میں ہوئی اس میں معاصر شعری ماحول سے اثر پذیری کا انداز نمایاں ہے لیکن اس کے بعد کی غزل کا ارتقائی سفر جن منزلوں سے ہمکنار ہوا وہ ان کی ریاضت فن کا ثبوت فراہم کرتا ہے ۔ ان کی شاعری اور شخصیت کا سرسری مطالعہ بھی اس حقیقت کو واضح کر دیتا ہے کہ وہ زندگی میں تقلید و جمود کی بجائے اجتہاد اور حرکت و عمل کو ترجیح دیتے تھے اور اس سلسلہ میں ان کا مطمح نظر خوب سے خوب تر کی تلاش کے رویہ کی عکاسی کرتا ہے۔ انھوں نے بڑے واضح طور پر کہا کہ :
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی
رستہ بھی ڈھونڈ، خضر کا سودابھی چھوڑ دے
اس شعر کو اگر اردو غزل کے تخلیقی مزاج کے سیاق میں دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ تقلید کو خود کشی کے مترادف قرار دے کر اگر ایسے اجتہادی اقدام کیے جائیں جو غزل کی تہذیب سے یکسر مختلف ہوں تو شاعر غزل کے فارم میں جو کچھ بھی پیش کرے گا وہ سب کا سب فنی معیار پر پورا اترے، اس کا دعویٰ بہرحال نہیں کیا جا سکتا۔ اقبال کے ساتھ بھی کسی حد تک یہ معاملہ ضرور ہا اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب اہل زبان نے ان کی غزلوں میں زبان کے استعمال پر اعتراض کیے تو انھوں نے بڑی انکساری سے یہ اعتراف کر لیا کہ وہ شاعری سے زیادہ اپنے اس پیغام کی ترسیل کو فوقیت دیتے ہیں جو خواب آلود ذہنوں میں بیداری کی رمق پیدا کر سکے۔جب شاعری کسی بڑے مقصد کے تحت تخلیقی شاہراہ پر محو سفر ہوتی ہے تو اس طرح کے مراحل کا درپیش آنا فطری بات ہے۔لیکن اقبال کے فراہم کردہ اس جواز کی بنیاد پر ان کی غزلوں کو فنی معیار سے یکسر خارج بھی نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ اگر ایک طرف وہ اپنے پیغام کی ترسیل سے کوئی مفاہمت کرنے کو تیار نہ تھے تو دوسری جانب انھوں نے غزل میں برہنہ گفتاری سے بھی حتیٰ الامکان گریز کیا ہے۔انھوں نے اردو غزل کی روایتی زبان کو نئے معنوی جہات سے روشناس کیا اور بعض فرسودہ موضوعات کو بالکل نئے انداز میں نظم کر کے غزل کے تخلیقی کینوس کو وسعت عطا کی۔
بانگ درا کے بعد بال جبریل کی غزلوں میں اقبال کا وہ اجتہادی رنگ پورے آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوا جس نے اردو غزل کے روایتی حصار کو توڑ کر اس کے لیے نئے تخلیقی امکانات کے آثار پیدا کیے۔اقبال کی غزل گوئی کے اس ارتقائی سفر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پروفیسر شمیم حنفی نے لکھا ہے:
’’اقبال کی غزل نے جس ذائقے کا احساس دلایا تھا بال جبریل کی غزلوں تک پہنچتے پہنچتے ایک واضح شکل اختیار کر لیتا ہے چنانچہ اس
دور کی غزلیں ان کی نظم کے مزاج سے زیادہ قریب ہیں ۔ یہ دور اقبال کے فکری اور تخلیقی تنوع کا دور ہے کہ اب اقبال اپنی ادبی روایت
کے امکانات کی تسخیر کے بعد بہ ذات خود شعر کی ایک نئی روایت کا سرچشمہ بن چکے تھے۔‘‘
(اقبال اور عصر حاضر کا خرابہ ، شمیم حنفی صفحہ ۹۹؍ غالب اکیڈمی نئی دہلی، ۲۰۱۰ء)
پروفیسر شمیم حنفی نے اقبال کی غزل گوئی کے حوالے سے جس تخلیقی رویہ کی طرف اشارہ کیا ہے اس کا اعتراف کم و بیش ہر شارح ادب نے کیا ہے۔اقبال کے یہاں شعر کی اس نئی روایت کا معاملہ کچھ ایسا بھی نہیں ہے کہ انھوں نے غزل کی تہذیب کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا ہو اور اس صنف کو برتنے میں ان فنی لوازم کا لحاظ ہی نہ رکھا ہو جو غزل کو غزل بناتے ہیں۔انھوں نے اپنے مخصوص پیغام کے اظہار کے لیے غزل کا فارم اختیار کرتے ہوئے اس کے فنکارانہ لوازم کی پاسداری کو بھی ملحوظ رکھا۔ غزل کے تخلیقی مزاج میں رمز و ایما کی کارفرمائی نہ صرف یہ کہ شعر کو صوتی حسن عطا کرتی ہے بلکہ فکری سطح پر کئی جہات سے ہمکنار کرتی ہے۔اقبال کی غزلوں میں بھی اس فنی رویہ کو بہ آسانی دیکھا جا سکتا ہے لیکن اس التزام کے ساتھ کہ مضمون کی جدت بھی آشکار ہو اور غزل کے فنی تقاضوں کی تکمیل پر بھی کوئی حرف نہ آئے۔ انھوں نے غزل کی روایتی لفظیات کو معنی و مفہوم کا نیا پیکر عطا کیا اس لیے ان کی غزلوں میں استعمال ہونے والی زبان کو روایتی پس منظر میں دیکھنے سے یہ غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے کہ ان کے یہاں بھی بیشتر وہی باتیں دہرائی گئی ہیں جن کو اسلاف بارہا غزل میں بیان کر چکے ہیں۔اس سلسلے کی سب سے نمایاں مثال عشق کے مضمون کو برتنے کے حوالے سے دی جا سکتی ہے ۔ اقبال کی غزلوں میں جس عشق کا بیان ہے وہ ماقبل شعرا کے اس عشق سے یکسر مختلف ہے جو انسان کو محرومی و یاسیت کی فضاوں کا اسیر بنا دیتا ہے اور وہ کارزار حیات میں نبرد آزما ہونے کی بجائے گوشہ نشینی کو اپنا شیوہ بنا لیتا ہے۔انھوں نے اردو غزل کے روایتی عشق کے تصور کو نئے رنگ میں پیش کیا ہے اور اسے زندگی کی کامرانی و فتح مندی کا موثر وسیلہ قرار دیا بلکہ اس سے بھی آگے یہ تسخیر کائنات کا جوش و ولولہ پیدا کرنے میں ایک اہم محرک کے طور پر اقبال کی غزلوں میں نظر آتا ہے۔ اقبال کے نظام فکر میں عشق کی عقل پر جو فوقیت نظر آتی ہے وہ اس کی واضح دلیل ہے کہ جب جذب�ۂ عشق سے سرشار انسان زندگی کی راہوں پر گامزن ہوتا ہے تو کامیابی و کامرانی کا ایک لامتناہی سلسلہ اس کا استقبال کرتا ہے۔بال جبریل کی غزلوں میں جس عشق کی ترجمانی کی گئی ہے وہ دراصل یہی عشق ہے جو انسان کو بے خطر آتش نمرود میں کود پڑنے کی تحریک و ترغیب عطا کرتا ہے:
عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم
عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوز دم بہ دم
آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق
شاخ گل میں جس طرح باد سحر گاہی کا نم
عشق کی ایک جست نے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
عشق کے تصور کو نئے معنی و مفہوم سے روشناس کرانے میں اقبال نے تاریخ و تہذیب کے ان حوالوں سے استفادہ کیا ہے جو انسانی فضیلت کا نشان امتیاز ہیں۔ اقبال کی غزلوں میں عشق کو جو مرکزی مقام حاصل ہے وہ ایسی انسانی فضیلت کے اظہار کا وسیلہ ہے جس کی بنا پر وہ مسجود ملائک رہا ہے۔اس عشق سے بہرہ ور ہونے کے بعد حیات کو وہ جاودانی حاصل ہوتی ہے کہ جسے وقت کی گردش بھی مضمحل نہیں پاتی۔
عشق کے علاوہ خودی کا تصور بھی اقبال کے شعری نظام میں اہمیت کا حامل ہے۔اقبال سے قبل اردو شاعری میں اس تصور کوبیشتر منفی معنوں میں استعمال کیا گیا اور بیشتر شاعروں نے خود ی کو تکبر و انانیت کا ہم معنی قراردیا لیکن اقبال نے اسے زندگی کی ایسی مثبت قدر کے طور پر پیش کیا ہے جو انسانی صفات کو جلا بخشتی ہے اور جس کے بغیر زندگی کا کارواں منزل مقصود تک پہنچنے میں سرخرو نہیں ہو پاتا۔اقبال نے خودی کو ایک باقاعدہ فلسف�ۂ حیات کے طور پر اپنی شاعری میں برتا ہے اور ان کی غزلوں میں اس قبیل کے اشعار جا بجا نظر آتے ہیں جن میں اس فلسفہ کی ترجمانی مختلف حوالوں اور سیاق کے ساتھ ہوتی ہے:
حیات کیا ہے؟ خیال و نظر کی مجذوبی
خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گوناں گوں
اقبال نے خودی کے اس فلسفہ کے ذریعہ وحد ت الوجود کے اس نظریہ کی تردید کی جو انسان کو تقدیر کا محکوم بناتا ہے جس کے سبب بے عملی اور مسائل حیات کے روبرو سپر اندازی کا رویہ اس کی شخصیت کا جزو بن جاتا ہے۔اقبال کی غزلوں میں خودی کا تصور اس حرکی قوت کا استعارہ ہے جو مشت خاک کو آسمانوں کی سیر کرنے اور ستاروں پر کمندیں ڈالنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔اگر چہ اس تصور کی بسیط ترجمانی بیشتر ان کی نظموں میں ہوئی ہے لیکن غزلوں میں بھی اکثر ایسے اشعار نظر آتے ہیں جن میں اس تصور کو انسانی فضیلت کے سیاق میں پیش کیا گیا ہے۔اقبال کی خودی کا تصور تو اس قدر بلند و بالا ہے کہ جس نے آدم کو فرشتوں سے بھی آگے لے جا کر خدا کے روبرو سوال و جواب کے لائق بنادیا۔جنت سے نکالے جانے کے واقعے کو سزا نہیں بلکہ جزا تصور کرتے ہوئے خدا کو بھی انتظار کراتا ہے لیکن یہ گفتگو اور لہجے کی بیباکی غیر مہذب یاطبیعت پر گراں نہیں گزرتی۔مثلاً:
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
تونے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سین�ۂ کائنات میں
ہوئی نہ عام جہاں میں کبھی حکومت عشق
سبب یہ ہے کہ محبت زمانہ ساز نہیں
اقبال کی غزلوں میں مضامین کی جدت و ندرت ان کے اس نظام فکر کو آشکار کرتی ہے جس میں حیات و کائنات کے متعلق ایک واضح تصور ملتا ہے اور اس تصور میں اگر کوئی چیز شرف و فضیلت کی حامل ہے تو وہ عظمت انسانی ہے ۔ایسا نہیں کہ اقبال سے قبل اردو غزل کا دامن اس قسم کے موضوع سے یکسر خالی رہا ہو لیکن جن شعرا کے یہاں اس قسم کے موضوعات ملتے ہیں ان کے یہاں حیات و کائنات کے متعلق ایسا واضح فکری نظام اکثر مفقود رہا ہے۔اردو غزل کے طرز بیان کو کسی حد تک کلاسیکی شعری روایت سے مربوط رکھتے ہوئے اقبال نے موضوعی اعتبار سے اس کے خزینہ میں جو اضافہ کیا وہ ان کی فنکارانہ انفرادیت کو واضح کرتا ہے۔
اقبال کی شاعری حیات و کائنات کا احاطہ کرتی ہے جس میں ایسی ہمہ گیری ہے جو حب الوطنی کے جذبات سے ہم وطنوں کو گرماتی ہے تو فلسف�ۂ خودی دے کر ایک مردہ قوم میں نئی جان پھونکنے اور عقل و منطق کے ساتھ ساتھ عشق کی رہنمائی میں زندگی کا راز تلاش کرتی ہے ۔ان کی شاعری حرکت و عمل اور سخت کوشی کا درس دیتے ہوئے بنی نوع انسان اور ان پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے جو حیات انسانی کا محور ہیں۔
*****
روشنی خان شعبہ اردو، ممبئی یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔