Irfan-e-Jamaal ka Shayar – Irfan Siddiqui

Articles

عرفانِ جمال کاشاعر: عرفان صدیقی

ڈاکٹر رشید اشرف خان

عرفان صدیقی اترپردیش کے تاریخی شہر بدایوںمیں۸جنوری۹۳۹۱ءکوپیداہوئے تھے۔معروف فکشن نگارسیدمحمداشرف کے مضمون ” عرفان صدیقی کی شاعری میں سوانحی اشارے“ کے درج ذیل اقتباس سے ضلع بداےوںکی ادبی وتاریخی اہمیت واضح ہوجاتی ہے:
”بداےوں،فردفریدپیانظام الدین اولیاکابدایوں،صوبے دارالتمش کابداےوں،مورخ عبدالقادر بداےونی کابداےوں،سلطان العارفین اورشاہ ولایت جیسے تاجدارانِ ولایت کابداےوں،شاہ فضل رسول اور حضرت تاج الفحول جیسے بادشاہانِ علم و معرفت کا بدایوں، فانی ، شکیل، آل احمد سرور، اداجعفری ، جیلانی بانواور اسعد بدایونی جیسے اصحاب قلم کا بدایوں اور عرفان صدیقی کا بدایوں۔ امیر خسرو اس محترم شہر کی خاک کو اپنے پیر مرشد کی نسبت سے سرمہ¿ چشم کے استعار ے بیان کرتے ہیں“
( نیا دور لکھنو¿ عرفان صدیقی نمبراکتوبر ۔ نومبر۰۱۰۲ءص ۳۶۱)
عرفان صدیقی کی ولادت ایک علمی خانوادہ میں ہوئی جس میں مذہب اور شعر گوئی کی روایت کئی پشتوں سے چلی آرہی تھی۔ ان کے پردادا مولانا محمد انصا ر حسین حمیدی زلالی بدایونی شمس العلما خواجہ الطاف حسین حالی کے شاگرد تھے اور دادا مولوی اکرام احمد شاد صدیقی ،مولانا سید علی احسن مارہروی( عرف شاہ میاں تلمیذ داغ دہلوی )کے شاگرد تھے۔ عرفان کے والد مولوی سلمان احمد صدیقی ہلالی بدایونی ایک وکیل اور صاحب طرز ادیب وشاعر تھے۔ان کی والدہ ¿ مرحومہ رابعہ خاتون کوبھی شعر وادب سے خاص انسیت تھی اور خودشعربھی کہتی تھیں۔
عرفان صدیقی نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی وطن ضلع بدایوں کے محلہ ”سُوتھا“میں اپنے گھر میں حاصل کی ۔پھر کرسچین ہائر سکنڈری اسکول بدایوں سے میٹرک کا امتحان ۳۵۹۱ءمیں پاس کیا۔ حافظ صدیق میسٹن اسلامیہ انٹر کالج بدایوں سے انٹر میڈیٹ ، بریلی کالج بریلی سے ۷۵۹۱ءمیں بی۔اے اور ۹۵۹۱ءمیں ایم۔اے کیا۔ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونی کیشن سے صحافت کا ڈپلوما کیا ۔ ۲۶۹۱ءمیں حکومت ہند کے محکمہ¿ اطلاعات و نشریات اور وزارت دفاع کے مختلف شعبوں میں اطلاعات، خبر نگاری اور رابطہ¿ عامّہ کی مختلف ذمہ داریوں کو انجام دیتے رہے ۔ ڈپٹی پرنسپل انفارمیشن افسر کے عہدے سے ۸۹۹۱ءمیں وظیفہ یاب ہوئے اور لکھنو¿ میں آخری دم تک قیام رہا۔
جنوری ۹۳۹۱ءمیں اس دنیاے رنگ و بو میں قدم رکھنے کے بعد عرفان صدیقی نے اس وقت شعر کہنا شروع کیا جب وہ مشکل سے ۴۱۔۵۱ برس کے تھے۔عرفان صدیقی کے کلیات ”دریا“ جو ۹۹۹۱ءمیں کراچی پاکستان سے شائع ہواکا بالاستعیاب مطالعہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان کی شاعری کے کئی ادوار تھے۔۴۵۹۱ءتک ان کی مشق سخن کا ابتدائی دور کہا جاسکتا ہے۔اس دورکا بیشتر کلام ان کے پہلے مجموعے میں ملے گا جو ”کینوس“ کے عنوان سے ۸۷۹۱ءمیں شائع ہوا تھا۔
”کینوس“ میں عموماََ غزلوں کی تعداد زیادہ ہے کیوں کہ غزل گوئی عرفان کی پہلی پسند تھی لیکن اس مجموعے میں چند نظمیں بھی شامل ہیںجو بطور خاص غور وفکر کی متقاضی ہیں۔ وہ نظم جس میں”سفر کی زنجیر“ کی سرخی قائم کی گئی ہے، خصوصی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس پوری نظم میں عرفان صدیقی نے اپنا تہذیبی اور ادبی پس منظر پیش کیا ہے اور اپنے وطن بدایوں کی عظمت و رفعت کو بیان کیا ہے ۔اس نظم کو مجموعہ ¿ کلام کینوس کا ابتدائیہ قرار دیا گیا ہے۔نظم کا آغاز غالب کے ایک شعر سے ہوتا ہے:
”شوق اس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کوکہ جہاں
جادہ ، غیر از نگہہ دیدہ¿ تصویر نہیں“
جلتی دوپہر میں پیڑی کا پُر اسرار درخت
جس سے لپٹا ہوا ، گزری ہوئی صدیوں کا طلسم
پہلوئے خاک میں آسودہ کوئی مرد شہید
طاق میں رات کے افسردہ چراغوں کا دھواں
یہ گلی گنج شہیداں کی طرف جاتی ہے
مصحفی نے جو کہا ہے تمھیں معلوم نہیں
سرمہ¿ چشم ہے یہ خاک تو خسرو کے لیے
ہم اسی مٹی سے اگنے کے لیے آئے ہیں
اس نظم کو پڑھ کر جہاں ایک طرف یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عرفان صدیقی نے استعارہ بدوش نظم اور تلمیح آمیز مصرعوں کی صورت میں اپنے وطن اور اپنے اسلاف کا تذکرہ کیا ہے وہیں ان کے شعور جمالیات نے بھی اپنی کارفرمائی شروع کردی ہے۔ کیوں کہ ہیگل Hegelجمالیات کے لفظ کو فنون لطیفہ کے فلسفے کے مفہوم میں استعمال کرنے پر اصرار کرتا ہے چنانچہ نظم مذکور کے اشعار میں حسب ذیل مصرعے اسی احساس جمال کے آئینہ دار ہیں:
میں کہاں کے رکوں گا ؟مجھے معلوم نہیں
حسن کب تجزیہ¿ ذات میں ڈھل پائے گا
ظلمتیں ، روشنیاں ، سلسلہ¿ شام وسحر
سب تماشا ہے تو تقریب تماشا کیا ہے؟
حلقہ در حلقہ پُر اسرار سفر کی زنجیر
دیکھتے جاو¿ کہ تم نے ابھی دیکھا کیا ہے
ان اشعار میںشاعر نے علامتوں اور اشاریوں کے سہارے اپنے احساس جمال کی بڑی کامیاب ترجمانی کی ہے۔ آخر مصوری بھی تو ایک فن لطیف ہی ہے جو رنگوں کی شکل میں جنت نگاہ بن جایا کرتا ہے اور شاعرانہ مصور ی ایسے ہی رنگین خیالات کو محاکات یا شاعرانہ مصوری کا لباس پہنا دیتے ہیں۔یہی شعور جمال کی ایک پُرکشش فن کاری ہے۔
”کینوس“ بظاہر شاعر کے ابتدائی کلام کا مجموعہ ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شروع ہی سے عرفان کا شعور جمال کافی بالغ اور پُر جوش تھا۔ عموماََ ہمارے شعرا کے یہاں حسن پرستی تو ہوتا ہے مگر شعور جمال نہیں ،جب کہ حسن پرستی ، شعور جمال کا صرف ایک جزو یا Elementہے نہ کہ کل۔ کینوس میں شامل غزلوں کی چند مثالیں دیکھیے:
کہیں کسی کے بدن سے ، بدن نہ چھو جائے
اس احتیاط میں خواہش کا ڈھنگ سا کچھ ہے
چلو زمیں نہ سہی آسمان ہی ہوگا
محبتوں میں بہر حال تنگ سا کچھ ہے
ان دو اشعارمیں شاعر نے نفسیات انسانی کی ہلکی سی جھلک دکھلائی ہے۔پہلے شعر میں وہ کہنا چاہتا ہے کہ میرا جذبہ¿ شوق اور شعور جمال دونوں ہی بیک وقت مجھ پر حاوی ہیں یعنی میں صرف Beauty is to See, Not to touchوالے فارمولے پرعمل کرنا چاہتا ہوںاور سی جذبے کے ساتھ میں بوسہ بہ پیام کے بجائے لب بہ لب والی ملاقات کا خواہاں ہوں۔
کینوس میں بعض غزلیں ایسی بھی ملتی ہیںجو یقینا پردیس میں کہی گئی ہیں۔ وطن سے دوری ، شدید احساس غریب الوطنی ، تنہائی اور بیتے ہوئے دنوں کی چبھتی یادیں،ان باتوں نے شاعر کے دل ودماغ میں ایک ہلچل سی مچا رکھی ہے:
بڑھا کے ربط وفا اجنبی پرندوں نے
وہ ہنس اپنے وطن کو پلٹ گیا آخر
دنیا کا دستور ہے کہ وہ ظاہری واقعات و حوادث ، خوش آیند باتوں اور امید افزا ماحول کا فوری طور پر اثر لیتی ہے لیکن شاعر وہ بھی جمالیاتی ذوق رکھنے والا عرفان صدیقی جیسا شاعر واقعات و حوادث کی بنیاد ،خوش آیند باتوں اور امید افزا ماحول کی اصل حقیقت کو جانتا ہے تب کہیںاس موادکو موضوع ِ گفتگو بناتا ہے۔ سانحہ¿ کربلا کو گزرے چودہ سو سال سے زیادہ کا عرصہ ہوا لیکن عرفان کی نگاہوں میں وہ آج بھی تازہ ہے۔صرف سانحہ نہیں بلکہ اس کی جزئیات بھی موجود ہے۔ شاید اسی لیے انھوں نے کہا تھا:
تم،جو کچھ چاہو،وہ تاریخ میں تحریر کرو
یہ تو نیزہ ہی سمجھتا ہے کہ سر میں کیا تھا؟
جمالیاتی نقطہ¿ نظر سے عرفان صدیقی کے کلام کا مطالعہ کرتے وقت اس نکتے کو یاد رکھنا چاہیے کہ جمالیات کا حقیقی ظہور اس وقت ہوا جب فنون لطیفہ یعنی فن تعمیر،فن موسیقی، فن شاعری، فن رقاصی، فن سنگ تراشی اور فن مصوری وغیرہ کا ارتقا ہوچکا تھا۔
مذکورہ بالا تمام فنون کے آغاز میں فن کار کا احساس جمال حسن پرستی بڑی حد تک زیریں لہر کی طرح شعور میں وجود تھا لیکن پختہ جمالیاتی شعور تکمیل فن کے بعد ہی جلوہ گر ہوا۔اجنتا ایلورا اور تاج محل کا مجرد مشاہدہ جمالیات نہیں بلکہ ان عمارتوں کو دیکھ کر جو مسرت حاصل ہو تی ہے دراصل وہی مطالعہ¿ جمالیات ہے۔
اس تمہید اور وضاحت کے بعد ہم سمجھ سکتے ہیں کہ عرفان صدیقی کی شاعری میں جمالیاتی رنگ کہاں کہاں اور کیسے کیسے رونما ہواہے۔ اس عنصر نے ان کے کلام میں کس کس طرح تازگی ، جدت ، انفرادیت اور اثر انگیزی کے جوہر پیدا کردیے ہیں؟ کبھی اپنی بے چین روح اور مضطرب جوان دل کی نفسیاتی کیفیت کو پیش کرتے کرتے اپنے احساس جمال کو درد تنہائی کا مداوا بنایا ہے۔ مثلاََ:
بند کمرے میں پراگندہ خیالوں کی گھٹن
اور دروازے پہ اک آوازِ پا جیسے ، ہوا
پانیوں میں ڈوبتی جیسے رُتوں کی کشتیاں
ساحلوں پر چیختی کوئی صدا ، جیسے ہوا
کتنا خالی ہے یہ دامن ، جس طرح دامانِ دشت
کچھ نہ کچھ تو دے اسے میرے خدا ، جیسے ہوا
محولہ¿ بالااشعار میں بند کمرہ، پراگندہ خیالوں کی گھٹن، دروازہ، رتوں کشتیاں، چیختی صدا،دامن اور دشت وغیرہ ایسے الفاظ وتراکیب کا برجستہ و بر محل استعمال اور” ہوا“ جیسی غیر مرئی شے سے ردیف کا کام لینا اگر عرفان کی جمالیاتی تخلیق کا نادرو نایاب رنگ سخنوری نہیں تو پھر کیا ہے۔ غور کیجیے کہ شاعر کا اپنے رب کو یہ مشورہ دینا کہ دامانِ دشت کو کسی اور چیز سے بھرنا نہیں چاہتا تو کم ازکم ہوا جیسی ہلکی پھلکی چیز سے ہی بھردے۔بظاہر یہ مشورہ کتنا مضحکہ خیز لیکن بہ باطن کس درجہ اہم شاعرانہ مشورہ ہے جو بغیر ایک لطیف تصور ِجمال کے سوچا ہی نہیں جاسکتا۔
عرفان صدیقی کی شاعری کا دوسرا دور ان کے دوسرے مجموعہ کلام” شب درمیاں“ سے شروع ہوتا ہے جو ۴۸۹۱ءمیں مرتب ہوا تھا۔ اس مجموعے میں سب سے پہلی چیز جو ہمارے دامن دل کو اپنی طرف کھینچتی ہے وہ ایسے اشعار ہیں جو افتتاحیہ کی سرخی کے تحت کہے گئے ہیں۔ آغاز یوں ہوتاہے:
مجھ کو لکھنا اگر آجائے تو کیا کیا لکھوں
کبھی اپنا کبھی دنیا کا سراپا لکھوں
گویا شاعر کوکچھ انہونی یا اچھوتی بات کہنے کا خواہش مند ہے لیکن وہ بڑے پس وپیش اور تذبذب میں ہے کہ آخر لکھے تو کیا لکھے۔ قلم اٹھانے کے بعد بھی اس کے لیے یہ فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ آپ بیتی لکھے یا جگ بیتی؟اس کو اس تلخ حقیقت کا بخوبی اعتراف ہے کہ:
جو مرا دکھ ہے وہ، ہر شخص کا دکھ لگتا ہے
میں کسے غیر کہوں اور کسے اپنا لکھوں؟
بہ الفاظ دیگر شاعر غمِ جاناں کے ساتھ غمِ دوراں کو بھی اپنے سینے سے لگائے رکھنا چاہتا ہے۔ اس خیال کے ذہن میں آتے ہی شاعر اپنی ذات کی طرف سے نظریں ہٹا کر کائنات کا جائزہ لینے لگتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ کائنات تو اپنی ذات سے بڑھ کر سیکڑوں اورہزاروں نئے موضوعات کا خزانہ ہے۔وہ کسی منشور یا(Prism) کی طرح اپنی فکرکی جمالیاتی خوردبین یا ذرہ بین(Microscope)کو گھماتا ہے تو رنگ برنگے جلوے اس کی نگاہ احساس کے سامنے آتے ہیںمثلاََ:
ریت پر دھوپ ، کوئی عکس تو دکھلائے کہ میں
ایک بوسہ سر پیشانیِ صحرا لکھوں
بوسہ کسی چیز یا انسان کے جسم پر لیا جاتا ہے یا ہوا میں اڑایا جاتا ہے لیکن اس شعر کو پڑھ کر ہمارے علم میں یہ اضافہ بھی ہوا کہ بوسہ سر پیشانیِ صحرا کا بھی لیا جاسکتا ہے۔ یقینا یہ ایک بالکل نیا اور عجوبائی بیان ہے جوشاعر کے ذہن کی خالص جمالیاتی سوچ سے تعلق رکھتا ہے۔شاعر کو ہر اس چیز میں جمالیاتی حسن نظر آتا ہے جو اس کے خیالات کو شعر کہنے پر اکساتی ہے خواہ وہ مناظر فطرت ہوں ، پرندے ہوں یا ماضی کی حسین یادیں ہوں۔ ”شب درمیان“ کے اشعار دیکھیے:
چڑیوں ، پھولوں ، مہتابوں کا
مرا منظر نامہ خوابوں کا
یہی بستی میرے پُرکھوں کی
یہی رستہ ہے سیلابوں کا
اگرعرفان صدیقی اپنی غزل کے مطلع میں محض چڑیوں، پھولوں اور مہتابوں کا ذکربھی کردیتے تو غزل میں کافی رعنائی پیدا ہوجاتی لیکن ان چیزوں کو خوابوں کا منظر نامہ کہہ دینے سے شعر کہیں سے کہیں پہنچ گیااسی طرح پُرکھوں کی بستی اور سیلابوں کا تذکرہ لاجواب ہے۔
شعور جمال کا ایک انعام چشم بصیرت کا کھل جانا یعنی قبل ازوقت آنے والے یا وقوع پذیر حالات کی آہٹ مل جانا بھی ہے۔جس طرح گھوڑا میلوں دور سے سانپ کے وجود کو محسوس کرکے اپنے پاو¿ں پٹخنے لگتا ہے یا آلہ¿ زلزلہ شناسی زلزلہ آنے سے پہلے اس کے وقت اور محل وقوع سے ہمیں آگاہ کردیتاہے وہی حالت اس شاعر کی ہے جسے اللہ نے غیر معمولی شعور جمال ودیعت فرمایا ہو۔ عرفان صدیقی کے حسب ذیل اشعار اس حقیقت کے ترجمان ہیں:
اگلے دن کیا ہونے والا تھا ، یہ اب تک یاد ہے
انتظار صبح میں وہ سارے گھر کا جاگنا
آخری امید کا مہتاب جل بجھنے کے بعد
میرا سوجانا ، مرے دیوار و در کا جاگنا
مذکورہ بالا اشعار میں انتظار صبح اور مرے دیوارودرکا جاگنااسی دور اندیشی اور پیش بینی کی طرف اشارا کرتے ہیںجس کا ایک صحت مند اور مثالی احساس جمال شاعر سے مطالبہ کرتا ہے۔دیگر بہت سے اجزاے شعور جمال کی طرح آزادیِ فکر ونظر اور تلاش ہم سفر بھی اس کی تکمیل میں از بس ضروری بلکہ لازمی ہے۔ ”شب درمیان“ کی پانچ اشعار پر مشتمل ایک غزل جو عرفان صدیقی نے اپنے دیرینہ حبیب مرحوم شہر یار کے نام معنون کی ہے، ہمارے دعوے کی انتہائی خوبصورت دلیل کہی جاسکتی ہے:
دلوں سے درد کا احساس گھٹتا جاتا ہے
یہ کشتگاں کا قبیلہ ، سمٹتا جاتا ہے
کھلے پروں پہ فضا تنگ ہوتی جاتی ہے
اور آسمان زمینوں میں بٹتا جاتا ہے
ہزار قرب کے امکان بڑھتے جاتے ہیں
مگر وہ ہجر کا رستہ جو کٹتا جاتا ہے
ان اشعار کا خلاصہ یہ ہے کہ شاعر کے ساتھ ساتھ پہلے بہت سے ایسے ہم خیال اور ہم جذبہ شعرا تھے جنھوں نے مبتلائے درد عشق میں اپنی جانیں دے دیں اور جانباز صرف گنتی کے رہ گئے۔جغرافیائی تقسیم نے ہمیں اپنے ہم نواو¿ں سے دور کردیا۔سچ پوچھو تو مستقل ہجرت وجدائی نے ہمیں ان تکالیف کا عادی بنادیا ہے۔ درد فرقت میں ہمیں لذت ملنے لگی۔اب اگر کوئی ہم سے پرانے احباب کے ساتھ مل بیٹھنے پر اکساتا ہے تو ہمیں وحشت سی ہونے لگتی ہے یہ ایک نفسیاتی کیفیت ہے جو ہمیں شعور جمال نے عطا کی ہے ۔ گویا اب ہم غالب کے اس شعر کو سمجھے ہیںکہ:
عشرت قطرہ ہے ، دریا میں فنا ہوجانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہوجانا
اطالوی مفکر کُروچے(Bendetto Croce) نے( جو اٹلی میں نیپلز کے پاس ایک قریہ میں ۶۶۸۱ءمیں پیدا ہوا )فلسفہ¿ جمالیات کے بارے میں بہت کچھ لکھا ۔ اظہاریت اس کے یہاں مرکزی حیثیت رکھتا ہے اس اظہاریت(Expressionalism)کو کُروچے کے جمالیات کی اساس سمجھنا چاہیے۔ وہ کہتا ہے کہ دیکھنا یہ چاہیے کہ شاعر یاا دیب کے اظہارفن کا انداز کیسا ہے۔
اس قول کی روشنی میں جب ہم عرفان صدیقی کے کلام پر عمومی نقطہ¿ نظر سے اور شب درمیان کی غزلوں پر خصوصی زاویہ¿ نگاہ سے غور کرتے ہیںتو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ان کے یہاں اظہار جذبات وخیالات پر مکمل گرفت موجود ہے ۔ اس گرفت کا بدیہی ثبوت یہ ہے کہ وہ اظہار کے بیشتر وسائل سے کام لیتے ہیںاور لفظ ومعنی کے انتہائی دلکش ادغام سے اپنی ایک ایسی غیر معمولی شعری کائنات کے خالق بن جاتے ہیںجوان کے وضع کردہ اصولوں کے منفرد معیار کوقائم رکھ سکے۔ہم بڑی حیرت انگیز نگاہوں سے دیکھتے ہیںکہ ان کی شاعری خود اپنے ہی وضع کردہ اصولوںکے سانچوںمیں اتنی مہارت کے ساتھ ڈھلی ہے کہ وہ ہمارے سامنے فکری میلانات ورجحانات کے رنگ برنگے مرقعے پیش کردینے پر قادر ہے ۔نمونے کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:
عقدہ¿ جاں بھی رمزِ جفرہے ، جتنا جتنا غور کیا
جو بھی جواب تھا میرا پنہاں، میرے حرف سوال میں تھا
تیغ ستم کے گرد ہمارے خالی ہاتھ حمائل تھے
اب کے برس بھی ایک کرشمہ ،اپنے دست کمال میں تھا
علم جفر کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ چند نمایاں سوال کیے جاتے ہیں جن کا جواب پوشیدہ طور پر ملتا ہے۔ شاعر اپنے عقدہ¿ جاں یعنی زندگی کے بارے میں کچھ جاننے کا خواہش مند ہے۔ جواب غیب سے ملتا ہے لیکن چند علامتوں کے ذریعہ۔مختصریہ کہ شاعر جو جاننا چاہتا ہے اس کا جواب بھی اتنا ہی نا معلوم ہے جتنا مبہم کہ اس کا سوال تھا ۔ یہ ایک معمہ ہے۔شاعر کے نزدیک معمہ بنانا اور پہیلیاں بجھا کر سننے والے کو حیرت واستعجاب میں مبتلا کردینابھی اس کے شعور جمال کی تشنگی کو مٹا دیتا ہے۔ مذکورہ¿ بالا دونوں اشعار اپنے اپنے رنگ میں اسی قبیل کے فن پارے ہیں۔
عرفان صدیقی کی شاعری کا تیسرا دور اپنی تمام تر خصوصیات وامتیازات کے ساتھ ان کے تیسرے مجموعہ¿ کلام ” سات سمٰوات“میں جلوہ فگن ہے جو ۲۹۹۱ءمیں شائع ہوا تھا ۔ سات سمٰوات کا مطالعہ کرتے وقت قاری کے دل میں جو کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ اپنے مقام پر عجیب وغریب ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے تمثال گری (Visualisation)کے جس ہنر کے ساتھ کینوس اور شب درمیان میں شامل سخنوری کے جوہر دکھائے تھے وہ ان کی مسلسل جمالیاتی ریاضت کے نتیجہ میں نقطہ¿ کمال تک پہنچ گئے ہیںاور اس تیسرے مجموعے سات سمٰوات سے ثابت ہوتا ہے کہ شاعر نے اپنا وہ رنگ بالآخر پا ہی لیا ہے جس کا وہ متلاشی تھا۔یہ مجموعہ اپنے قاری پر یہ راز افشا کرتا ہے کہ اب شاعر نے ساتوں آسمانوں میںبکھری ہوئی ساری آفاقیت کو اپنے شعور جمال کی مدد سے شعری استعارہ بنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے ۔ خاک، ہوا، چاند، سورج، ستارے، شفق ، قوسِ قُزح ، بادل ، برق وباراں،شبنم اور کہکشاںغرض کہ تمام اجرام فلکی کے حوالے بار بار ان کے اشعارمیں ملتے ہیںاور ہر بار نئے مفاہیم کی طرف اشارا کرتے ہیں:
یاد آتی ہوئی خوشبو کی طرح زندہ ہم
کسی گزرے ہوئے موسم کے نمایندہ ہم
اڑ گئے آنکھ سے سب لمحہ¿ موجود کے رنگ
ہوگئے نقش گر رفتہ و آیندہ ہم
اس اندھیرے میں کہ پل بھر کا چمکنا بھی محال
رات بھر زندہ و رخشندہ و تابندہ ہم
ان اشعار میں ’خوشبو کی طرح زندگی‘ تشبیہ کی ندرت کا اشاریہ ہے۔’ گزرے ہوئے موسم‘ خوشگوار ماضی ہے۔ دوسرا شعر اس حقیقت کا غماز ہے کہ فی الحال ہم دنیا میں مشہور و معروف نہ سہی لیکن ہمارا ماضی بے حد شاندار اور مستقبل ہمارے نرالے ذوق کا آئینہ ہے۔ہم مایوسی میں بھی رجائیت ، حوصلہ مندی اور امید پیدا کرلیتے ہیںیہی ہماری زندگی اورپر جوش و بامقصد فعالیت اور سرگرمیوں کا راز سر بستہ ہے جس سے ہماری موجودہ نسل قطعاََ ناواقف ہے۔
موجودہ زمانے کے بد مذاق ماحول اور تہذیبی وتمدنی زوال کا تقاضہ تو یہ تھا کہ عرفان صدیقی کی شاعری فانی کی غزل یا میر انیس کا مرثیہ بن جاتی لیکن ان کی جمال آشنا فکر نے یہاں بھی ایک نئے انداز کی شان دکھائی ہے ۔ نئی تشبیہات ، جدید ترین علامات واستعارات، خود ساختہ الفاط اور تازہ بہ تازہ شعری اصطلاحات کے نئے طرزاحساس نے ان کی شاعری کو جو اچھوتا آہنگ بخشا اس میں میر وغالب کی شعری روایت بھی موجود ہے اور وہ روایت بھی جو شاعری کے نئے اور پائیدار معیار بھی قائم کرتی ہے۔
اب عرفان جمال کا شاعر ، عرفان صدیقی کے آخری شعری شاہکار”عشق نامہ“ جو ۷۹۹۱ءمیں چھپا تھاعرفان کی شاعری کے تعلق سے ان کے ایک قریبی دوست سید عقیل حیدر لکھتے ہیںکہ:
”عرفان صدیقی ، دوسرے شاعروں کی طرح کسی غزل کو ایک نشست میں مکمل کرنے کے قائل نہیں تھے بلکہ ایک ایک شعر پر کئی کئی گھنٹے اور کئی کئی دن تک غور کرتے۔ مثال کے طور پر ان کے مشہور مطلع کا ثانی مصرعہ” نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے“ انھوں نے یوں ہی روانی میںایک دن کہہ کر کسی کاغذ پر تحریر کرلیا تھا لیکن مطلع کے لیے انھوں نے مصرعہ¿ اولیٰ قریب چھ ماہ کی کوششوں کے بعد لگانے میں کامیابی حاصل کی“
(ماہ نامہ نیادور لکھنو¿ عرفان صدیقی نمبر اکتوبر ۔نومبر۰۱۰۲ءص ۳۶)
مطلع اس طرح سے ہے:
اٹھو ، یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لیے
کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے©©
مذکورہ غزل کاپہلا شعر جسے بیت الغزل کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔حریف یا رقیب کا ذکر تو اکثر شعرا کے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے لیکن عرفان کے اس شعر میں کہ ایک ایسا شخص جو اپنے حریف کی موت کو دیکھنے کے لیے خود اپنی جان گنوا بیٹھتاہے۔ ایسی نظیر شاید ہی کسی شعرا کے یہاں نظر آئے:
عجب حریف تھا ، میرے ہی ساتھ ڈوب گیا
مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے
”عشق نامہ“ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ عرفان نے سراپاے محبوب کی تجسیم(Personification)کے بجائے ،جمال محبوب کے نقش کو کافی گہرائی عطا کی ہے اور اس مقصد کے حصول کی خاطر انھوں نے بجائے پیار کی تجسیم نہ کرتے ہوئے محبوب کے سراپا کو اس کے عمل سے مربوط کردیا یہ ان کی غیر معمولی ہنر مندی ہی کہی جائے گی مثلاََ ”ستارہ ادا“ کی ترکیب وضع کرکے اسے محبوب کے ساتھ تواتر کے ساتھ استعمال کرنا جس میں حسن ، فاصلہ اور فنا پذیری کی صفت بھی شامل ہے:
عجب ہے میرے ستارہ ادا کی ہم سفری
وہ ساتھ ہو تو بیاباں میں رت جگا ہوجائے
عشق نامہ کا ایک اختصاص یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے محبوب کے لیے بانوئے شہر کی خوبصورت ترکیب وضع کی ہے:
ناقہ¿ حسن کی ہم رکابی کہاں؟ خیمہ¿ ناز میں باریابی کہاں؟
ہم تو آئے بانوئے کشوردلبری پاسداروںمیں ہیں، ساربانوں میں ہیں
مختصر یہ کہ ”عشق نامہ“ عرفان صدیقی کے دیگر تمام شعری مجموعوں سے بہ اعتبار کیفیت و کمیت مختلف ہے اور اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ مرحوم نے کلاسیکی شعری روایات کو جدید ترین آہنگ شاعری کے امتزاج سے ایک نئی شعری ”بوطیقا“ مرتب کردی ہے جو صدیوں تک اس عظیم اور طبع زاد شاعر کی یاد دلاتی رہے گی۔
عرفان صدیقی مرحوم کی شاعرانہ فتوحات ذکرکرتے ہوئے ہم ان کے مجموعہ کلام ”ہواے دشت ماریہ“کو یکسر فراموش نہیں کرسکتے ۔ یہ مجموعہ منقبتوں ، سلاموں اور نوحوںپر مشتمل ہے جسے ادارہ¿ تمدن اسلام(کراچی پاکستان) نے ۸۹۹۱ءمیں شائع کیاتھا ۔ یہ ایک وقیع ترمجموعہ ہے کیونکہ اس میں تاثر، عقیدت ، سبق آموزی اور شعریت سبھی کچھ بہ یک وقت اکٹھا ہوگئے ہیں۔ پاکیزگیِ جذبات ، حق گوئی اور ظلم وستم کے خلاف مہذب احتجاج کی حیثیت سے یہ مجموعہ ہمیں ایک بالکل نئے عرفان صدیقی سے متعارف کراتا ہے۔بے شک ہواے دشت ماریہ میں سرکار دوعالم صلعم ، ان کے اہل بیت علی الخصوص مسلمانوں کے خلیفہ¿ چہارم حضرت علی کے چھوٹے فرزند حضرت امام حسین اور ان خانوادے پر کربلاے معلی میں ہونے والے مظالم کا پُردرد تذکرہ ہے لیکن اس تذکرہ میں بھی عرفان صدیقی کی فکر نَو نے ہزاروںنئے گوشے پیدا کیے ہیںجو انھیں کا حصہ تھے:
دل ِ سوزاں پہ جیسے دست شبنم رکھ دیا دیکھو
علیؑ کے نام نے زخموں پہ مرہم رکھ دیا دیکھو
۔۔۔۔
گلوئے خشک میںسوکھی پڑی ہے پیاس کی نہر
خبر نہیں کہ ہے پانی کا ذائقہ کیسا
یہ لوگ دست جفا سے کسے پکارتے ہیں
یہ بازگشت سناتی ہے مرثیہ کیسا
مذکورہ اشعارکی پوری نظم میں اگرچہ واضح طور پر سانحہ¿ کربلا کی جملہ جزئیات باالترتیب بیان نہیں کی گئی ہے پھر بھی چیدہ چیدہ اشعار میں بڑافنکارانہ ربط پایا جاتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو بے ربطی میں ربط بھی تذکرہ¿ جمال کا ایک انداز ہے۔ہر شعر میں یا تو سوالیہ طرز ہے یا علامت استفہام کی کیفیت موجود ہے ۔استعاروں کے تسلسل میں سبھی اشعار کو معنی آفریں بنادیا ہے۔علم بیان کی اصطلاح میں اسے خوش فضائی کہا جاسکتا ہے۔
عرفان صدیقی کے تعلق سے ایک سب سے اہم یہ ہے کہ ان کے احباب اور شناساو¿ ں کی روایت کے مطابق نہ تو انھیں اخبار ورسائل میں اپنا کلام چھپوانے کا شوق تھا نہ مشاعروں میں کلام سنانے کا۔ ان کی بیشتر غزلوں میں مقطع کہنے کا التزام بھی نہ تھا ۔ وہ تو ایک قلندر صفت انسان تھے ۔ بلا شبہ ان میں احساس خودداری اور حفظ مراتب بہت تھا۔ ہوائے دشت ماریہ کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں شامل ایک نظم (جو عرفان کی مشہور ترین نظموں میں شمار ہوتی ہے)ان کے تخلص سے شروع ہوتی ہے:
دست تہی میں ، گوہر نصرت کہاں سے لائے؟
عرفان! تم یہ درد کی دولت کہاں سے لائے؟
پانی نہ پائیں ساقیِ کوثر کے اہلِ بیت
موج فرات اشک ندامت کہاں سے لائے؟
مذکورہ بالا سلام کے سلسلے میں ڈاکٹر نیّر مسعود رضوی نے ایک عجیب وغریب واقعہ بیان کیا ہے ۔ اس وقعہ کو یہاں بیان کرنانامناسب نہ ہوگا۔ نّیر مسعود لکھتے ہیں:
”مجھے اردو صاحب دل ، مذہبی شاعر مرحوم وفا ملک پوری یاد آرہے ہیں۔ وہ عرفان صدیقی سے اچھی طرح واقف نہیں تھے ۔ میں نے انھیں یہ سلام سنایا:
عرفان!تم یہ درد کی دولت کہاں سے لائے؟
پورا سلام مرصع ہے لیکن وفا خاموش بیٹھے سنتے رہے۔ میں نے سلام ختم کرکے حیرت سے ان کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا، چپکے چپکے رو رہے ہیں ۔ کہنے لگے :صاحب میںنے پورا سلام سنا ہی نہیں۔ میں تو اس کے ایک ہی شعر میں کھو کر رہ گیا :
پانی نہ پائیں ساقیِ کوثر کے اہلِ بیت
موج فرات اشک ندامت کہاں سے لائے؟
عرفان صدیقی بہت جلد مذہبی شاعروں کی صف اول میں آگئے“
( مضمون : عرفان صدیقی ، کینسر، آخری ملاقاتیں۔مشمولہ نیادور لکھنو¿ اکتوبر۔نومبر ۰۱۰۲ءص ۸۸)
اس مضمون میں ہماری بنیادی Themeیہ تھی کہ عرفان صدیقی کی شاعری کی بنیاد جمال عاشقی پر ہے یعنی وہ زندگی کے جس شعبہ کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہیںاس میں فن جمالیاتAesthetics Artکی کارفرمائی کے جلووں ست ضرور کام لیتے ہیں۔ابن آدم کی سب سے بڑی دولت کا نام احساس جمال ہے اوریہ احساس جمال کسی بھی شکل میں ظاہر ہوسکتا ہے کیوں کہ اظہاریت ہی اس کا کامیاب ترین وسیلہ ہے۔ عرفان صدیقی نے اس وسیلے سے اپنی مٹھی بھر شاعری سے جمال عاشقی کا مرقع چغتائی تیار کردیا ہے۔
۵۱۶۱اپریل ۴۰۰۲ءکی درمیانی شب میں لکھنو¿ میں عرفان صدیقی اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ شاید اسی لیے انھوں نے کہا تھاکہ:
بجھ رہی ہیں میری شمعیں ، سورہے ہیں میرے لوگ
ہورہی ہے صبح ، قصہ مختصر کرتا ہوں میں