Irfan Siddiqui : Collection of Poetry

Articles

عرفان صدیقی


انتخاب کلام عرفان صدیقی

شعلۂ عشق بجھانا بھی نہیں چاہتا ہے

وہ مگر خود کو جلانا بھی نہیں چاہتا ہے

 

اس کو منظور نہیں ہے مری گمراہی بھی

اور مجھے راہ پہ لانا بھی نہیں چاہتا ہے

 

جب سے جانا ہے کہ میں جان سمجھتا ہوں اسے

وہ ہرن چھوڑ کے جانا بھی نہیں چاہتا ہے

 

سیر بھی جسم کے صحرا کی خوش آتی ہے مگر

دیر تک خاک اڑانا بھی نہیں چاہتا ہے

 

کیسے اس شخص سے تعبیر پہ اصرار کریں

جو ہمیں خواب دکھانا بھی نہیں چاہتا ہے

 

اپنے کس کام میں لائے گا بتاتا بھی نہیں

ہم کو اوروں پہ گنوانا بھی نہیں چاہتا ہے

 

میرے لفظوں میں بھی چھپتا نہیں پیکر اس کا

دل مگر نام بتانا بھی نہیں چاہتا ہے

 

2

 

شہاب چہرہ کوئی گم شدہ ستارہ کوئی

ہوا طلوع افق پر مرے دوبارہ کوئی

 

امید واروں پہ کھلتا نہیں وہ باب وصال

اور اس کے شہر سے کرتا نہیں کنارہ کوئی

 

مگر گرفت میں آتا نہیں بدن اس کا

خیال ڈھونڈھتا رہتا ہے استعارہ کوئی

 

کہاں سے آتے ہیں یہ گھر اجالتے ہوئے لفظ

چھپا ہے کیا مری مٹی میں ماہ پارہ کوئی

 

بس اپنے دل کی صدا پر نکل چلیں اس بار

کہ سب کو غیب سے ملتا نہیں اشارہ کوئی

 

گماں نہ کر کہ ہوا ختم کار دل زدگاں

عجب نہیں کہ ہو اس راکھ میں شرارہ کوئی

 

اگر نصیب نہ ہو اس قمر کی ہم سفری

تو کیوں نہ خاک گزر پر کرے گزارہ کوئی

 

3

 

اس سے بچھڑ کے باب ہنر بند کر دیا

ہم جس میں جی رہے تھے وہ گھر بند کر دیا

 

شاید خبر نہیں ہے غزالان شہر کو

اب ہم نے جنگلوں کا سفر بند کر دیا

 

اپنے لہو کے شور سے تنگ آ چکا ہوں میں

کس نے اسے بدن میں نظر بند کر دیا

 

اب ڈھونڈ اور قدر شناسان رنگ و بو

ہم نے یہ کام اے گل تر بند کر دیا

 

اک اسم جاں پہ ڈال کے خاک فرامشی

اندھے صدف میں ہم نے گہر بند کر دیا

 

4

 

حق فتح یاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا

تو نے کہا تھا تیرا کہا کیوں نہیں ہوا

 

جب حشر اسی زمیں پہ اٹھائے گئے تو پھر

برپا یہیں پہ روز جزا کیوں نہیں ہوا

 

وہ شمع بجھ گئی تھی تو کہرام تھا تمام

دل بجھ گئے تو شور عزا کیوں نہیں ہوا

 

واماندگاں پہ تنگ ہوئی کیوں تری زمیں

دروازہ آسمان کا وا کیوں نہیں ہوا

 

وہ شعلہ ساز بھی اسی بستی کے لوگ تھے

ان کی گلی میں رقص ہوا کیوں نہیں ہوا

 

آخر اسی خرابے میں زندہ ہیں اور سب

یوں خاک کوئی میرے سوا کیوں نہیں ہوا

 

کیا جذب عشق مجھ سے زیادہ تھا غیر میں

اس کا حبیب اس سے جدا کیوں نہیں ہوا

 

جب وہ بھی تھے گلوئے بریدہ سے نالہ زن

پھر کشتگاں کا حرف رسا کیوں نہیں ہوا

 

کرتا رہا میں تیرے لیے دوستوں سے جنگ

تو میرے دشمنوں سے خفا کیوں نہیں ہوا

 

جو کچھ ہوا وہ کیسے ہوا جانتا ہوں میں

جو کچھ نہیں ہوا وہ بتا کیوں نہیں ہوا