Jazbi ki Fankari by Fuzail Jafri

Articles

جذبی کی فن کاری

فضیل جعفری

معین احسن جذبی ؔسے متعلق بطور تمہید جو دو چار قسم کے حقائق بیان کیے جا سکتے ہیں ، ان سے شعر و ادب کا ہر سنجیدہ طالب علم واقف ہے ۔ مثال کے طور پریہ کہ جذبی کی نوجوانی کا زمانہ کم و بیش وہی تھا  جو جنگ ِ آزادی کے شباب کا دور تھا ۔ اسی طرح وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے با قاعدہ ممبر یا عہدے دارنہ رہے ہوں، لیکن ان کا حلقہ وہی تھا جن سے فیض، مخدوم، سردار جعفری ، جاں نثار اختر اور مجاز وغیرہ وابستہ تھے ۔ جذبی نے بھی اپنے ساتھیوں کی طرح ترقی پسند تحریک کے زیر اثرخاصی تعداد میں سیاسی اشعار لکھے ہیں ۔ ان کے یہاں دار و رسن کا بھی ذکر ہے اور اجڑے ہوئے چمن کا بھی۔انھوں نے بھی فطرت اور دنیا کے دلکش نظاروں کو ایک مفلس کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے ۔ ان کا دل بھی ’’ کاکلِ گیتی‘‘ کو سنوارنے کی خواہش سے معمور رہا ہے ۔ لیکن ان تمام باتوں کے با وجود انھوں نے عملی سیاست میں کبھی حصہ نہیں لیا ۔ باکل اسی طرح انھوں نے اپنے آپ کو ادبی ہنگاموں اور معرکہ آرائیوں سے بھی ہمیشہ دور رکھا ۔ معین احسن جذبی ؔسے متعلق بطور تمہید جو دو چار قسم کے حقائق بیان کیے جا سکتے ہیں ، ان سے شعر و ادب کا ہر سنجیدہ طالب علم واقف ہے ۔ مثال کے طور پریہ کہ جذبی کی نوجوانی کا زمانہ کم و بیش وہی تھا  جو جنگ ِ آزادی کے شباب کا دور تھا ۔ اسی طرح وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے با قاعدہ ممبر یا عہدے دارنہ رہے ہوں، لیکن ان کا حلقہ وہی تھا جن سے فیض، مخدوم، سردار جعفری ، جاں نثار اختر اور مجاز وغیرہ وابستہ تھے ۔ جذبی نے بھی اپنے ساتھیوں کی طرح ترقی پسند تحریک کے زیر اثرخاصی تعداد میں سیاسی اشعار لکھے ہیں ۔ ان کے یہاں دار و رسن کا بھی ذکر ہے اور اجڑے ہوئے چمن کا بھی۔انھوں نے بھی فطرت اور دنیا کے دلکش نظاروں کو ایک مفلس کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے ۔ ان کا دل بھی ’’ کاکلِ گیتی‘‘ کو سنوارنے کی خواہش سے معمور رہا ہے ۔ لیکن ان تمام باتوں کے با وجود انھوں نے عملی سیاست میں کبھی حصہ نہیں لیا ۔ باکل اسی طرح انھوں نے اپنے آپ کو ادبی ہنگاموں اور معرکہ آرائیوں سے بھی ہمیشہ دور رکھا ۔
جذبی ؔ صاحب علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے برسوں وابستہ رہے ۔ لیکن انھوں نے اپنے ارد گرد وفا دار شاگردوں اور مداحوں کا کو ئی ایسا گروہ جمع نہیں کیا جو ان کی شاعرانہ عظمت جا ڈھول بجاتا پھرتا ۔ در اصل وہ شرو ع سے ہی ایک کم گو،حلیم الطبع، منکسر المزاج اور گوشہ گیر قسم کے آدمی رہے ہیں ۔ ان خصوصیات کی پرچھائیاں ان کی شاعری میں بھی جا بجا بکھری ہوئی دکھائی دیتی ہیں ۔ اس حقیقت سے بھی ہر شخص آگا ہ ہے کہ انھوں نے اپنے فوری پیش روؤں، اپنے ہم عصروں اور اپنے بعد آنے والے تمام اہم شاعروں کے مقابلے میں بہت کم لکھا ہے ۔ یہ تمام باتیں اپنی جگہ سچ ہیں ، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جذبی کسی بھی دور میں نہ صرف یہ کہ گمنام نہیں رہے بلکہ ہر دور میں ان کا شمار صف اول کے غزل گو شعرا میں ہو تا رہا ہے ۔ گذشتہ ۵۰۔ ۶۰ برس کے دوران ہونے والی تمام تر نظریاتی اُکھاڑ پچھاڑ کے باوجود ان کے قارئین کا ایک الگ اور خاصا وسیع حلقہ رہا ہے ۔ جذبیؔ کے کئی اشعار مثلاً:
میری ہی نظر کی مستی سے سب شیشہ و ساغر رقصاں تھے
میری ہی نظر کی گرمی سے سب شیشہ و ساغر ٹوٹ گئے
اس حرص و ہوس کی دنیا میںہم کیا چاہیں ہم کیا مانگیں
جو چاہا ہم کو مل نہ سکا، جو مانگا وہ بھی پا نہ سکے
کیا تجھ کو پتہ کیا تجھ کو خبر دن رات خیالوں میں اپنے
اے کاکلِ گیتی ہم تجھ کو جس طرح سنوارا کرتے ہیں
اے موجِ بلا ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں
پھر عشرتِ ساحل یاد آئی پھر شورشِ طوفاں بھول گئے
نیرنگیٔ دوراں کے مارے نیرنگیِ دوراں بھول گئے
ہر منزل تھی دل کی منزل ، جب دل کو غمِ منزل نہ رہا
ہر کوچہ ، کوچۂ جاناں تھا ، جب کوچۂ جاناں بھول گئے  آج سے دہائیوں پہلے جس طرح زبان زدِ خاص و عام تھے ، بالکل اسی طرح آج بھی ہیں ۔ جذبی کے یہاں متاثر کرنے والے اور قاری کے دل کے اندر تک اتر کر اپنے لیے علاحدہ گوشہ بنا لینے والے اور بھی ایسے درجنوں اشعار مل جاتے ہیں جو ہمیں جذبی کا نام سنتے ہی یاد آجاتے ہیں اور جنھیں یاد کرنے کے لیے قطعاً ذہن پر زور دینے کی کو ئی ضرورت نہیں پڑتی ، لیکن جیسا کہ آپ نے دیکھا منقولہ بالا سبھی اشعار طویل بحروں والی غزلوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ طویل بحروں میں غزل نگاری بجائے خود ایک مشکل اور صبر آزما کام ہے۔ اسے جذبی کا طرۂ امتیاز سمجھنا چاہئے کہ انھوں نے طویل بحروں میں جتنی زیادہ اور جتنی کامیاب غزلیں لکھی ہیں ان کی نظیر ہمارے زمانے کے شاعروں میں شاذ و نادر ہی نظر آئے گی ۔ فیض ؔ اور مجازؔ نے اگر چہ طویل بحروں میں کچھ غزلیں ضرور کہی ہیں ، لیکن وہ ان کی پہچان نہیں بن سکیں ۔ یوں بھی اردو شاعری میں سراج اورنگ آبادی ، میر تقی میر اور شاد عظیم آبادی کے علاوہ دوسرے شعرانے طویل بحروں پر کوئی خصوصی توجہ نہیں دی ۔
اس میدان میں جذبی کی نمایاں کا میابی کی بنیاد ی وجہ صرف یہی نہیں کہ ان کی ذہنی تربیت میں کلاسیکی شعری روایات کا بڑا عمل دخل رہا ہے کہ وہ گہرے تفکر اور مدھم لہجے والے شاعر ہیں ۔ اس طرح کے اشعار قاری کے ذہن کو متحرک کرنے کے علاوہ نہایت ہی نرم روی کے ساتھ ساتھ زینہ بہ زینہ اس کے شعور کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ ان اشعار میں جذباتی خلوص اور ذہنی ایمان داری کے ساتھ وہ بے مثال غنائیت بھی ملتی ہے جو پڑھنے والے کو محض متاثر ہی نہیں کرتی بلکہ جس کے سحر سے وہ تا دیر آزاد نہیں ہو سکتا ۔ ان اشعار میں پایا جانے والا غیر رسمی اور مدھم بہاؤ ایک الگ ہی کیفیت رکھتا ہے ۔
منقولہ بالا سبھی اشعار جذبی کی قادرالکلامی اور شعری تکنیک پر ان کی مضبوط گرفت کی بھی نشاندہی کرتے ہیں ۔ میں نے اوپر جو شعر نقل کیے ہیں ان کے مطالعے سے ہم جو نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں وہ یہ کہ جذبی نے کمال چابکدستی سے ہر شعر میں ( بلکہ پوری کی پور ی غزلوں میں ) لفظوں ، فقروں اور آوازوں کو کچھ اس طرح تقسیم کر دیا ہے کہ ان میں ایک عجیب و غریب اور نشاط افزوں معنوی ہم آہنگی پیدا ہو گئی ہے ۔ کیونکہ یہ ساری غنائی اکائیاں ایک دوسرے سے الگ ہونے کے باوجود ایک ہی لڑی میں پروئی ہوئی ہیں اس لیے ان میں شدت تاثر اور وحدت ِ تاثر دونوں کا پیدا ہو جانا ایک فطری امر ہے ۔
جذبی نے ایک جگہ اپنے شاعرانہ نظریے کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہــ’’ ایک شاعر کی حیثیت ہمارے کے لیے جو چیز سب سے اہم ہے وہ زندگی یا زندگی کے تجربات ہیں ، لیکن کوئی تجربہ اس وقت تک موضوعِ سخن نہیں بنتا جب تک اس میں شاعر ہونے کے جذبے کی شدت اور احساس کی تازگی کا یقین نہ ہو جائے ۔‘‘
جذبیؔ کی بیشتر شاعری میں یہ دونوں خصوصیتیں پوری توانائی کے ساتھ اجاگر ہوئی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں مجروح جذبات ،ذہنی تناؤ، احساساتی کشمکش اور ہجر و وصال کی کیفیات ہی نہیں بلکہ اجتماعی، سیاسی اور معاشرتی مسائل بھی معصومیت اور شعریت کی تجسیم بن کر ابھرتے ہیں ۔ ان کا نفیس سلیقہ مند شعری لہجہ نا زک ترین احساسات و جذبات کے تحفظ کا فرض بھی ادا کرتا ہے اور ان کی از سر نو تخلیق کا محرک بھی بن جاتا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں جذبی کو بھی اپنے ترقی پسند ہم عصروں کی طرح سنجیدہ سماجی اور سیاسی مسائل سے گہری دلچسپی ہے لیکن چونکہ ان کی شعری جمالیات بنیادی طور سے انفرادی احساسات و تجربات کی پروردہ ہے ، اس لیے ان کے یہاں سیاسی اور سماجی مسائل کا اظہار بھی وسیع تر شعری تناظر میں ہو تا ہے ۔ مثال کے طور پر ان کا یہ مشہور شعر:
اے موجِ بلا ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں
بہ ظاہر ہنگامی سیاسی حالات کا رد عمل ہے ۔ لیکن ذرا گہرائی میں جا کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس کا مجموعی تناظر کہیں زیادہ وسیع ہے ۔ 1943ء میں لکھنے جانے والے اس شعر میں در اصل اس دور کی پوری تاریخ سمٹ آئی ہے ۔ اس شعر میں ہمیں واضح طور پر دو زمانے نظر آتے ہیں ۔ ایک تو وہ ’ حال‘ ہے جو موجود ہے ، لیکن جس کے وجود سے ہم بے خبر ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ طوفان میں گھرے ہوئے لوگ بھی طوفان کی شدت اور اس کے دور رس مضر نتائج سے بے خبری کے المیے کا شکار ہیں ۔
دوسرے زمانے کا تعلق مستقبل سے ہے ۔ جب تک ان بے حس اور بے خبر لوگوں کو شدید قسم کا جھٹکا نہ لگے ، نہ تو انھیں لمحۂ موجود کی المناکیوں کا احساس ہوسکتا ہے اور نہ ہی یہ مستقبل کی پہنائیوں کو شناخت کر سکتے ہیں ۔ طوفانی ’’ تھپیڑے‘‘ ہی انھیں خواب اور بے عملی کی دنیا سے نکال کر حقائق سے دوچار کر سکتے ہیں ۔ مختصر یہ کہ اس شعر کی سطح پر جتنا نظر آتا ہے اس سے کہیں زیادہ بین السطور میں پوشیدہ ہے ۔ ان دو مصرعوں کو اگر ہم دوسری جنگ عظیم کے دوران ہندوستانی سیاق و سباق میں دیکھیں تو بہت زیادہ بامعنی اور واضح ہو جاتی ہے ۔
جذبی نے حالات اور ماحول کے تعلق سے جا بہ جا اپنی بے اطمینانی اور نا راضگی کا اظہار کیا ہے ۔ لیکن ان کے اشعار میں احتجاجی لَے نظر نہیں آتی ۔ انھوں نے ہمیشہ احتجاج پر تحمل ، برد باری اور درد مندی کو ترجیح دی ہے ۔ واضح رہے کہ بسا اوقات احساس محرومی اور شدید مایوسی کا براہ راست رد عمل ہوتا ہے جبکہ بردباری اور درد مندی امید اور یقین کے توانا مظاہر ہیں ۔ جذبی کی شاعر ی میں جو داخلی توانائی ملتی ہے وہ ان کی اسی درد مندی کا نتیجہ ہے ۔
اب جذبی کی ایک خاص مشہور و مقبول غزل کے یہ تین اشعار ملا حظہ ہوں ۔جن کے توسط سے ان کی ایک اور اہم فن کارانہ خصوصیت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے:
بیتے ہوئے دنوں کی حلاوت کہاں سے لائیں
اک میٹھے میٹھے درد کی راحت کہاں سے لائیں
ڈھونڈیں کہاں وہ نالۂ شب تاب کا جمال
آہِ سحر گہی کی صباحت کہاں سے لائیں
افسردگیِ ضبطِ الم آج بھی سہی
لیکن نشاطِ ضبطِ مسرت کہاں سے لائیں
گیارہ اشعار پر مشتمل اس غز ل میں پہلے مصرعے سے لے کر آخری مصرعے تک موضوعات کے تنوع کے باوجودایک خاص طرح کے داخلی تسلسل کا احساس نا گزیر ہے ۔ جذبی ؔ کی ایک درجن سے زیادہ ہی کچھ اور غزلیں مل جاتی ہیں جن میں یہی تسلسل پایا جاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ جن شاعروں کے یہاں بھی احساسات و جذبات کا کوئی با قاعدہ نظام ہوتا ہے اور جو شعوری طور پر خوردہ فروشی سے احتراز کرتے ہیں ۔ ان کے یہاں اس طرح کا تسلسل خود بہ خود پیدا ہوجاتا ہے ۔ یہ ایک سوچا سمجھا شعری عمل ہے اور اسے متعلقہ شاعر کی محض قادر الکلامی پر محمول نہیں کیا جا سکتا ۔
مندرجہ بالا اشعار کی پہلی قرأت سے ہی بات صاف ہو جاتی ہے کہ شاعر نہ صرف اپنے تجربات کا براہ راست لیکن تخلیقی اظہار کر رہا ہے بلکہ وہ شعر کے میڈیم سے اپنے ماضی کی بازیافت بھی کر رہا ہے ۔ شاعر کا مقصد مہ و سال کی گرد میں گم ہو جانے والی ان حقیقتوں کو از سر نو دریافت کرنا ہے جن کا تعلق اس کی زندگی اور اس کے ماحول سے ہے اور جو اس کی کئی دہائیوں پر محیط زندگی کے تجربات کا حاصل ہیں۔ ’ نالۂ شب تاب کاجمال‘اور آہِ سحر گہی کی صباحت جیسے بصری پیکر اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس کے ذہن میں ماضی کا وہ زندہ تصور پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے جس کے بغیر حال اور مستقبل مکمل نہیں ہو سکتے ۔ ردیف’ کہاں سے لائیں ‘ کا انتخاب بھی بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے ۔یہاں تمام اشعار نقل کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ بس اتنا کہنا کافی ہو گا کہ ان سبھی اشعار کا تعلق تخلیق کار کی زندگی سے بھی ہے اور اجتماعی مسائل سے بھی ۔ شاعر یکے بعد دیگرے مختلف اشعار میں ایسے سوالات قائم کرتا ہے جن کا حل اس کے پاس نہیں ہے یا یہ کہ غزل کی رمزیت واضح جواب کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔ اس طرح پوری غزل میں ماضی اور حال کے درمیان جذباتی ہی نہیں ، ایک طرح کی ثقافتی کشمکش بھی پیدا ہو گئی ہے ۔ آخری شعر :
سب کچھ نصیب بھی ہو تو اے شورشِ حیات
تجھ سے نظر چرانے کی عادت کہاں سے لائیں
میں جذبیؔبڑی نرمی اور سادگی کے ساتھ پورے ماحول کی عکاسی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ایک طرف اگر ان اشعار کا خود سوانحی اسلوب ذاتی یادوں کی باز یافت کا سبب بن جاتا ہے تو دوسری طرف ان کے ذریعے عصری زندگی کی تضادات کو بھی نمایاں کردیا گیا ہے ۔ پوری غزل کا جو لب و لہجہ ہے اس کی وجہ سے مونو لاگ والی کیفیت پیدا ہو گئی ہے ۔ شاعر نے ان اشعار میں جا بہ جا اپنی ذاتی اذیتوں کو اجتماعی مسائل سے جوڑ دیا ہے وہ اس کی فن کارانہ قوت کا ثبوت ہے ۔ اس طرح ایسے اشعار وہی شخص لکھ سکتا ہے جو شخصی واقعات کو غیر شخصی انداز میں بیان کرنے کی جرأت اور صلاحیت رکھتا ہو ۔ جذبی زمانے اور حالات کی مناسبت سے نظر نہیں چراتے لیکن ان کے اظہار میں اس احتیاط سے ضرور کام لیتے ہیں جس کے بغیر شعر اور غیر شعر کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں رہ جاتا ۔ وہ انسانی وجود اور اس کے متعلقات کے درد کو محسوس تو بڑی شدت کے ساتھ کرتے ہیں لیکن انھیں بیان کرتے وقت نرمی اور دانشورانہ معروضیت سے کام لیتے ہیں ۔
کلام جذبی کے مطالعے سے ایک اور اہم نکتہ جو سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کی شاعری پر کلاسیکی، رومانوی یا ترقی پسندی ، غرض کوئی لیبل تنہا اور پوری طرح چسپاں نہیں ہو تا ۔ در حقیقت ان کی شاعری کلاسکیت، رومانویت اور ترقی پسندیت تینوں کا ایک قابل قدر اور منفرد امتزاج ہے ۔ کلاسیکیت نے انھیں وسیع تر پیمانے پر عام انسانوں سے محبت کرنا سکھایا ہے ۔ اس محبت میں نہ تو مذہب و ملت کی کوئی تخصیص ہے نہ طبقات کی اور نہ ہی مر د و عورت کی ۔ اس اعتبار سے جذبی دوسرے ترقی پسندوں سے مختلف ہیں ۔ کیونکہ مرکزی دھارے والی ترقی پسند شاعری میں عام انسانوں سے نہیں بلکہ صرف مخصوص طبقوں سے محبت اور انسیت کا اظہار ملتا ہے ۔ جذبی نے اجتماعیت میں انفرادیت کی تلاش کا گُر بھی کلاسیکی اقدار سے ہی سیکھا ہے ۔
رومانویت کا تقاضہ یہ ہے کہ شاعر اپنی بیشتر توجہ اپنی ذات پر مبذول اور صرف کر دے جو شاعر رومانویت کے متاثر ہونے کے بجائے ’’ رومانویت زدہ ‘‘ ہو جاتے ہیں ان کے یہاں فطری طور پر خود ترحمی کا جذبہ در آتا ہے ۔ خدا کا شکر ہے کہ جذبی نے کسی دور میں اور کسی بھی موڑ پر اپنے آپ کو خود ترحمی کا شکار نہیں ہونے دیا ۔ ترقی پسندی کے بارے میں صرف ایک جملے میں یہاں یہ کہہ دینا کافی ہوگا کہ اس کا بنیادی پیغام غریبوں اور مظلوموں کی حمایت اور ان کے جابرانہ استحصال کے خلاف آواز بلند کرنا تھا ۔ جذبی ؔ کے یہاں یہ تینوں رویے ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر بلکہ یوں سمجھئے کہ شیر و شکر ہو کر ایک اکائی بن گئے ہیں ۔ جذبی کی شاعری میں کلاسیکی بلوغت بھی ہے جو انھیں حیات و کا ئنات کا معروضی اور ہمدردانہ مطالعہ کرنے کی دعوت دیتی ہے ۔ احساسات کی وہ شدت بھی ہے جو رومانویت کی دین ہے اور لمحاتی نوعیت والے وہ اشعار بھی ہیں جو ان کے عصری شعور کا مظہر ہیں ، لیکن جنھیں ان کے شعری شعور اور انفرادی فکر نے عصریت سے آگے کی چیز بنا دیا ہے ۔ کسی شعوری کوشش کے بغیر اس طرح کے براہ راست ، لیکن نازک اور دلوں میں اتر جانے والے شعر کہنا جذبی کی خلاقانہ قدرت اور تکنیکی مہارت کا ثبوت ہیں :
عذابِ درد پہ نازاں ہیں اہلِ درد مگر
نشاطِ درد میسر نہیں تو کچھ بھی نہیں

یہ دل شکستہ سہی،بے نوا سہی پھر بھی
حریفِ چنگ و جوابِ رباب ہے کہ نہیں

زندگی ہے تو بہر حال بسر بھی ہو گی
شام آئی ہے تو آنے دو سحر بھی ہو گی
یہ اور ایسے بہت سے اچھے اور کامیاب شعر کہنے کے باوجود جذبی نے اپنی شہرت اور عظمت کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا ۔یہ شعر:
مجھے کمال کا دعویٰ نہیں ہے اے جذبیؔ
کہ میں ہوں گردِ رہِ کاروانِ اہلِ کمال
وہی شاعر کہہ سکتا ہے جسے اپنے کمال کا احساس بھی ہو ، اپنے آپ پر اعتماد بھی۔ لیکن جو فن کارانہ منکسر المزاجی کا دامن بھی ہاتھ سے نہ جانے دے۔