Jazbi ki Jamaliaat by Dr. Rasheed Ashraf Khan

Articles

جذبی کی جمالیات

رشید اشرف خاں

جمالیات فلسفہ کی ایک شاخ ہے جسے یونانی لفظ (Aisthetikes)سے اخذ کرکے انگریزی زبان میں(Aesthetics)بنالیا گیا ۔ فارسی میں اسے زیبائی شناسی اور ہندی میں رس سدّھانت یا رس شاستر کہتے ہیں۔ ’’جمال ‘‘ بذات خود عربی زبان کا لفظ ہے ۔عام طور پر یہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ ’’جمال‘‘ اور ’’حسن‘‘ ایک دوسرے کے مترادف یا ہم معنی الفاظ ہیں۔بے شک کسی حد تک ان میں مماثلت پائی جاتی ہے لیکن مفہوم کے اعتبار سے وہ لازمی طور پر ہم معنی نہیں ہیں ۔ مثلاََ فارسی زبان کا یہ شعر: جمالیات فلسفہ کی ایک شاخ ہے جسے یونانی لفظ (Aisthetikes)سے اخذ کرکے انگریزی زبان میں(Aesthetics)بنالیا گیا ۔ فارسی میں اسے زیبائی شناسی اور ہندی میں رس سدّھانت یا رس شاستر کہتے ہیں۔ ’’جمال ‘‘ بذات خود عربی زبان کا لفظ ہے ۔عام طور پر یہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ ’’جمال‘‘ اور ’’حسن‘‘ ایک دوسرے کے مترادف یا ہم معنی الفاظ ہیں۔بے شک کسی حد تک ان میں مماثلت پائی جاتی ہے لیکن مفہوم کے اعتبار سے وہ لازمی طور پر ہم معنی نہیں ہیں ۔ مثلاََ فارسی زبان کا یہ شعر:
جمال ہم نشیں، درمن اثر کرد
وگر نہ من ہمان خاکم،کہ ہستم
ڈاکٹر معین احسن جذبیؔ کا میدان حیات21؍اگست 1912ء سے شروع ہوکر 13؍ فروری 2005ء یعنی تقریباََ 93 برس تک پھیلا ہوا تھا۔ ان کے لائق فرزند ،پروفیسر سہیل احسن جذبی نے اپنے والد مرحوم کا کلیات 2006ء میں ساہتیہ اکادمی نئی دہلی سے شائع کروایا بیشتر نظموں اور غزلوں کے نیچے سنِ تخلیق بھی دے دیا ہے جس سے بہ آسانی اندازہ ہوجاتا ہے کہ کون سی غزل یا نظم کب کہی گئی تھی۔ان کی پہلی غزل جو انھوں نے شوکت علی خان فانیؔ بدایونی کو 1929ء میں آگرے میں سنائی تھی اسی مختصر سی غزل کایہ شعر جذبیؔ کی جمالیاتی حِس(Sense of Beauty) کا غمازہے:
حسن ہوں میں کہ عشق کی تصویر
بے خودی، تجھ سے پوچھتا ہوں میں
اسی دور کے کلام میں جب ان کا عنفوان شباب تھا ان کاذہن جمال پسند پوری طرح بے دار تھا اور ایسا ہونا امر فطری تھا۔اس دور کے کچھ اور اشعاردیکھیے:
تیرے جلوؤں کی حد ملی تو کب
ہوگئی جب نظر بھی لا محدود

آہ کی دل نے ، نہ پھر شکوۂ بیداد کیا
جب سے شرمیلی نگاہوں نے کچھ ارشاد کیا
ہو نہ ہو دل کو ، ترے حسن سے کچھ نسبت ہے
جب اٹھا درد تو کیوں میں نے تجھے یاد کیا
مذکورہ بالا اشعار کو پڑھ کر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ’’ جمالیات‘‘ کا پہلا زینہ رجائیت اور سر خوشی کی کیفیت ہے۔ اس کیفیت میں مبتلا ہو کر جذبیؔ کی طرح ہر حساس شاعر زندگی کے روشن رخ کو دیکھتا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہر لمحہ’’ حالتِ سُکر‘‘ میں ہے ۔ اس کے نو خیز دل ودماغ پر نشہ سا طاری ہے سوتے جاگتے وہ کچھ خواب سے دیکھتا ہے۔رنگین اور سہانے خواب:
تمھارے جلوؤں کی رنگینیوں کا کیا کہنا
ہمارے اجڑے ہوئے دل میں اک بہار تو ہے

تمھارے حسن کے جلوؤں کی شوخیاں توبہ
نظر تو آتے نہیں ،دل پہ چھا ئے جاتے ہیں
ہزار حسن کی فطرت سے ہو کوئی آگاہ
نگاہِ لطف کے سب ہی فریب کھاتے ہیں
جذبیؔ جیسے جیسے بلوغت کی منزل کی طرف بڑھنے لگے کبھی شعوری طور پر اور کبھی لا شعوری طور پر وہ روشنی ، تحرک اور حرکت کے تجربات سے دو چار ہونے لگے ۔ اب ان کے خیالات اور محسوسات اکہرے اور سپاٹ نہیں رہ گئے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ان کے سبھی فلسفیانہ افکار و خیالات تجربات کے سانچوں میں ڈھل کر آئے ہیں ۔ مثالیں دیکھئے:
پھول چننا بھی عبث ، سیرِبہاراں بھی فضول
دل کا دامن ہی جو کانٹوں سے بچایا نہ گیا
مختصر یہ ہے ہماری داستانِ زندگی
اک سکونِ دل کی خاطر عمر بھر تڑپا کیے
جن لوگوں نے کلام جذبی کے سبھی مجموعوں( فروزاں، گداز شب، سخن مختصر) کو اسی قدر باریک بینی سے اور احساس لذت یابی کے ساتھ پڑھاہے جیسے وہ میرؔ،غالبؔ اور اقبالؔ کو پڑھتے ہیں تو انھوں نے خاکسار کی طرح یہ ضرورمحسوس کیا ہوگا کہ جذبیؔ کا رشتہ جمالیات سے مختلف النوع اور ہزار شیوہ ہے۔ جذبیؔ کے تجربوں کی داستان جمالیاتی وجدان سے شروع ہوئی تھی اور اس داستان کا اختتام وجدانی ، حسّی اور پیکری انکشافات پر ہوا۔ ان کے اشعار کی روشنی میں آپ میرے معروضات کو زیادہ بہتر طریقے پر سمجھ سکیں گے۔جذبیؔ کے کلام کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان کا احساس جمال انھیں اپنے افکارو خیالات میں تلاش ذات پر اکساتا رہتا ہے:
ان بجلیوں کی چشمک باہم تو دیکھ لیں
جن بجلیوں سے اپنا نشیمن قریب ہے

مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے
یہ دنیا ہو، یا وہ دنیا ،اب خواہشِ دنیا کون کرے
جب کشتی ثابت  و  سالم تھی ، ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے

جذبیؔ اپنے فلسفہ جمالیات کے سہارے یہ بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اگر انسان کی آنکھ کھلی رہتی ہے تو اس کے حواس خمسہ بیدار ہوجاتے ہیں ۔ یہ آنکھ ( جو بصارت کا سر چشمہ ہے) اپنی روشنی کے ساتھ تمام خوشبوؤں ،تمام لذتوں اورتمام محسوسات تک پہنچ جاتی ہے اسی کے ساتھ وہ مسرت ، غم ، محبت اور طاقت سب کو دیکھتی ہے ۔ یہی روشنی ہے جو پہلے تو تصورات کے چھوٹے بڑے خاکے بناتی ہے پھر ان خاکوں میں معنویت اور نئی معنویت کے رنگ بھرتی ہے۔ چند نمونے دیکھئے:
ہم بھی تو سن رہے تھے ، رعنائیِ گلستاں
بادِ خزاں سے جو کچھ کلیوں نے آرزو کی

ہزار بار کیا عزم ترک نظّارہ
ہزار بار مگر دیکھنا پڑا مجھے
ان کے بھیگے ہوئے بالوں میں جو ہے عالم کیف
کچھ وہی کیف مرے دیدۂ نمناک میں ہے

وہ ایک لمحہ ، وہ ایک ساعت، ہوا تھا جب ان سے عہدِ الفت
اسے بھی کیا اے خداے راحت ،شریک خواب و خیال کرلیں

اس میں کوئی شک نہیں کہ بنیادی طور پر جذبیؔ ایک غزل گو شاعر تھے اور اسی حیثیت سے وہ معروف بھی ہوئے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے غزل کی روایتی لفظیات ، علامات اور استعاروں کو دوسرے ترقی پسند معاصرین سے پہلے معنوی وسعت بخشی ۔ انھوںنے مضامین غزل کے کینوس (Canvas) کو پہلے سے کہیں زیادہ وسیع کیا ۔ لیکن جب ہم فلسفۂ جمالیات کے نقطۂ نظرسے ان کی نظموں کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ بھی اپنا ایک منفرد رنگ کی حامل نظر آتی ہے۔ مثلاََان کی نظم پر غور کیجیے جس کا عنوان ہے ’’ گل‘‘
اے گلِ رنگیں قبا ، اے غازۂ روے بہار
تو ہے خود اپنے جمال حسن کی آئینہ دار
ہائے وہ تیرے تبسم کی ادا وقت سحر
صبح کے تارے نے اپنی جان تک کردی نثار
شرم کے مارے ، گلابی ہے ادھر روے شفق
شبنم آگیں ہے ادھر پیشانیِ صبحِ بہار
خامشی تیری ادا ہے ، سادگی فطرت میں ہے
پھر بھی جو تیرا حریف حسن ہے ، حیرت میں ہے

مذکورہ نظم کی ابتدا ہی میں فطرت سے لگا و ٔ ، حسن پرستی اور تخئیل آفرینی کے خوب صورت عناصر کس قدر پر کشش اور قابل دید ہیں۔ شاعر نے اپنی لفظیات اور حسن تخئیل کی مدد سے مظاہر فطرت کو الگ الگ شخصیت اور تجسیم سے نوازا ہے ۔ یہ وصف رومان اور جمالیت کی جان ہے۔
’’ رازو نیاز‘‘ جذبیؔ کی ایک ایسی نظم ہے جس میں حسن و عشق کی دلکش کیفیات کا بیان تو ہے ہی لیکن شاعر نے اپنے جمالیاتی حس کی مدد سے ایک نادر و نایاب گمان بھی پیدا کیا ہے ۔ اس کانظریہ یہ ہے کہ محبوب کو آزمانے کے دلچسپ بہانے خواہ جس طرح بھی تراشے جائیں لیکن سچ تو بس یہ ہے کہ محبوب کاحسن وادا، شاعر ہی کے والہانہ عشق کی رہین منت ہے:
ترے گیسوؤں کو پریشان کرکے
تجھے رشک سنبل بنایا ہے میں نے
ترے رخ پہ چھڑکا ہے خونِ تمنا
ترے رخ کا غازہ بنایا ہے میں نے
اگر میں بنا ہوں محبت کا دریا
تجھے ماہ تاباں بنایا ہے میں نے
سَتا کر، جَلاکر ، رُلاکر ، ہنساکر
تجھے مدتوں آزمایا ہے میں نے

مذکورہ نظموں کے علاوہ کئی ایسی نظمیں ہیں جو جذبیؔ کے شعور جمالیات کی نمائندگی کرتی ہیں ۔ ان میں بعض کے عنوانات ہیں مطربہ، حسن برہم، طوائف،نیا سورج ، مجاز، موت وغیرہ۔
اپنی ڈگر آپ بنانے کے مقدس جنون کے نتیجے میں ان کے ہم عصر نقادوں نے ان کی طرف وہ توجہ مبذول نہ کی جو جذبی ؔ کا حق تھا لیکن جب انصاف پسند ، حقیقت بیں اور مردم شناس ادب نوازوں کو اپنی کم نگاہی اور بے بصیری کا احساس ہوا تو جذبیؔ شناسی کا دور شروع ہوا ۔1994ء میں جذبیؔ کو اقبال سمّان سے نوازا گیا۔خدا بخش اورینٹل لائبریری پٹنہ نے جذبیؔ پر سیمینار منعقد کیا ۔ بقول اکبر الہ آبادی  ع
نگاہیں کامِلوں پر پڑ ہی جاتی ہیں زمانے کی
درحقیقت اب معین احسن جذبیؔ کو حیات نو ملی ہے جو پہلے سے کہیں زیادہ روشن ، عالم گیر اور پائیدار ہے ۔اگرچہ ازراہ انکسار اس شاعر دردآشنا نے کہا تھا:
مجھے کمال کا دعویٰ نہیں ہے اے جذبیؔ
کہ میں ہوں گرد رہ کاروانِ اہل کمال