Jung by Chinwa Achebe

Articles

جنگ

چنوا اچے بے

 

پہلی بار جب وہ ایک دوسرے کی راہوں سے گذرے تو کچھ بھی نہیں ہوا ۔یہ جد و جہد بھرے دنوں کی بات ہے ۔ جب ہر روز نوجوانوں کی اور کبھی کبھی لڑکیوں کو بھی بھرتی دفتروں سے مایوس واپس لو ٹنا پڑتا تھا ، کیوں کہ نئے تشکیل شدہ ملک کی حفاظت کے لئے ہتھیار اٹھانے والے بہت سے لوگ آ رہے تھے ۔
دوسری بار وہ آنکار کے ایک چیک پوائنٹ پر ملے ۔ جنگ شروع ہو چکی تھی اور دور دراز کے شمالی علاقوں سے دھیرے دھیرے جنوب کی جانب بڑھ رہی تھی۔ وی اونتشا سے اینو گو جا رہا تھا اور عجلت میں تھا ۔ حالاں کہ وہ ذہنی طور پر سڑک پر کھڑی کی گئی رکاوٹوں اور اچھی تلاش کے حق میں تھا ، لیکن جب اسے تلاشی دینی پڑتی تھی ۔ اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی تھی ۔ حالاں کہ وہ بذات خود اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں تھا ، لیکن لوگ مانتے تھے کہ اگر آپ کی تلاشی لی گئی تو آپ بڑے آدمی نہیں ہیں ۔ اگر وہ اپنی اور متاثر کن آواز میں یہ کہہ کر” ریگی نولڈ نوالکو“ ’ وزارت انصاف‘ اپنی تلاش سے بچ جاتا تھا۔اس کے جملے کا اثر فوراً ہوتا تھا ، لیکن کئی بار لا علمی کے سبب یا ضدی آفیسر کی بنا پر چیک پوائنٹ کے لوگ اس کے جملے سے متاثر نہیں ہوئے تھے ۔ جیسا کہ ابھی آفکا پر ہوا تھا ۔ مارک ۴ کی وزنی بندوقیں اٹھائے ہوئے دو کانسٹبل دور سڑک کے کنارے سے نظر رکھے ہوئے تھے اور تلاشی کا کام انھوں نے مقامیی نگراں کاروں کے حوالے کر دیا تھا ۔
”مجھے جلدی جانا ہے ۔“ اس نے لڑکی سے کہا ، جو اس کی کار تک آ گئی تھی ۔” میرا نام ریگی نولڈ نوانکو ہے ۔ وزارت انصاف سے وابستہ ہوں ۔“
” سلام سر “ میں آپ کی کار کا بوٹ دیکھنا چاہتی ہوں۔“
” اے خدا ! تمہارے خیال سے بوٹ میں کیا ہو سکتا ہے ؟“
” میں نہیں جانتی سر ۔“غصے پر قابو رکھتے ہوئے وہ کار سے باہر نکلا ، پیچھے گیا ، بوٹ کھولااور بائیں ہاتھ سے ڈھکن اٹھاتے ہوئے دائیں سے یوں اشارہ کیا ، جیسے کہہ رہا ہو ، اس کے بعد ۔” ہو گئی تسلی ؟‘اس نے سوال کیا ۔
”جی ، سر۔کیا میں آپ کی گاڑی کا پیچن ہول دیکھ سکتی ہوں!“
” او میرے خدا ۔“
” دیری کے لئے معافی چاہتی ہوں ، سر آپ ہی لوگوں نے ہمیں یہ کام سونپا ہے ۔“
” کوئی بات نہیں ، تم بالکل ٹھیک کہتی ہو یہ رہا گلف باکس ۔ دیکھ لو، کچھ بھی نہیں ہے ۔“
” ٹھیک ہے سر ، بند کر دیجئے ۔“ اس نے پیچھے کا در وازہ کھول کر سیٹ کے نیچے جھانکا ۔ تب اس نے پہلی بار لڑکی کو بغور دیکھا ۔ پیچھے سے۔ وہ خوبصورت لڑکی تھی ۔ جس نے نیلی جرسی ، خاکی جینس اور کینوس کے جوتے پہن رکھئے تھے اور بالوں کو نئے اسٹائل سے پلیٹو ں میں باندھ رکھا تھا ۔ جس سے لڑکیوں کے چہرے پر باغیانہ تیور ابھر آتا تھا ۔ جسے لوگوں نے نہ جانے کیوں ” ائیر فورس پیس“ کانام دے رکھا تھا ۔ وہ کچھ کچھ جانی پہچانی لگتی تھی ۔
”میں مطمئن ہوں سر“اس نے آخر میں کہا۔ جس کا واضح مطلب تھا کہ وہ اپنا کام مکمل کر چکی ہے ۔
” آپ نے مجھے پہچانا نہیں سر !“
” نہیں،کیوں !“
”جب میں اسکول چھوڑ کر فوج میں بھرتی ہونے جا رہی تھی تو آپ نے مجھے اینو گو تک لفٹ دی تھی ۔“
” اوں، ہاں۔تمہیں وہ لڑکی ہو ۔ میں نے تمہیں واپس اسکول جانے کے لئے کہا تھا نا،کیوں کہ فوج میں لڑکیوں کی ضرورت نہیں ہے ، پھر کیا ہوا !“
” انھوں نے مجھے اسکول جانے کے لئے کہا یا ریڈ کراس میں بھرتی ہونے کا مشور ہ دیا ۔“
” دیکھا تم نے ، میں نے ٹھیک ہی کہا تھا نا ۔تب پھر تم یہاں کیا کر رہی ہو!“
” صرف سول ڈیفنس کے ساتھ تھوڑا سا ہاتھ بتا رہی ہوں ۔“
” چلو ٹھیک ہے ، یقیناً تم بہت ہی اچھی لڑکی ہو ۔“ وہی دن تھا جس دن اس نے سوچا تھا کہ انقلاب میں آخر کچھ ہے ۔ اس نے پہلے ہی لڑکیوں اور عورتوں کو مارچنگ اور مظاہرہ کرتے دیکھا تھا۔ لیکن وہ ان کے بارے میں ٹھیک سے سوچ نہیں بنا پا یا تھا ۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ عورتیں اور لڑکیاں اپنے بارے میں سنجیدگی سے سوچتی تھیں، جو گلیوں میں چھڑیاں اٹھائے اور سروں پر اسٹیل ہیلمٹ کی جگہ سوپ کے کٹورے رکھے آگے پیچھے ڈرل کیا کرتی تھیں ۔ ان دنوں کا سب سے مشہور مذاق تھاوہ بیز جس کے پیچھے پیچھے مقامی اسکول کی لڑکیاں چلتی تھیں اور جس پر لکھا رہتا تھا ” وی آر امپریگینل!“
لیکن آفکا چیک پوائنٹ پر اس لڑکی کے ملاقات کے بعد وہ دوبارہ نہ تو لڑکیوں کا مذاق ہی اڑا سکااور نہ ہی انقلاب کی بات کی ، کیوں کہ اس لڑکی کے کام کرنے کے طریقے نے اور سادگی وخود اعتمادی نے اسے ایک دم چھچھورے بدن کا مجرم بنا دیا تھا ۔ کیا کہا تھا اس نے۔” ہم وہی کام کر رہے ہیں جو آپ لوگوں نے ہمیں سونپا ہے۔“اس نے میرے عہدے کا بھی لحاظ نہیں کیا تھا جس نے ایک بار اس پر احسان بھی کیا تھا ۔ مجھے یقین تھا کہ وہ اپنے والد کی تلاشی بھی اسی سختی سے لیتی۔
جب وہ تیسری بار ایک دوسرے کی راہوں سے گذرے تو اٹھارہ مہینے بیت گئے تھے اور حالات کافی خراب تھے ۔ موت اور بھکمری نے بیتے دنوں کی خود داری کو رفو کر دیا تھا ، اس کی جگہ مایوسی اور بد امنی نے لے لی تھی ۔ جس کی بنا پر ہر ضمیر مردہ ہو گئے تھے ۔ حیرت کی بات ہے کہ ایسے وقت میں بھی کچھ لوگ ایسے تھے جن کی اکلوتی آرزو یہ تھی کہ زندگی میں بہترین سے بہترین چیزوں پر قبضہ جما لینا اور موج مستی کرنا۔ایسے لوگوں کے لئے دنیا میں ایک عجیب و غریب سی یکسانیت لوٹ آئی تھی ۔ سبھی چیک پوائنٹ غائب ہو گئے ۔ لڑکیاں پھر لڑکیاں بن گئیں اور لڑکے لڑکے ۔ زندگی خوف و دہشت سے بھری اور یاسیت زدہ ہو کر رہ گئی تھی۔ جس میں کچھ اچھائیاں تھیں ۔ کچھ برائیں اور ڈھیر ساری بہادری جو اس کہانی کے کرداروں سے پرے رفیوجی کیمپوں ، چیتھڑوں میں لپٹے ، گولی کے نشانے کے سامنے سینہ سپر، بھوکے ننگے لیکن با ہمت لوگوں میں دکھائی دیتی تھی ۔
ریگی نولڈ ناکوف ان دنوں اویری میں بود و باش اختیار کے ہوئے تھا ، لیکن اس دن وہ راشن کی تلاش میں نکوری گیا ہوا تھا ۔ اویری میں اسے کیریناس میں کچھ مچھلیاں ، ڈبہ بند گوشتاور گھٹیا امریکی اناج ، جسے کھاد نمبر دو کہتے تھے اور جو جانوروں کا چارہ تھا ۔ مل گیا تھا ۔ اسے لگتا تھا کہ کیتھولک نہ ہونے کی وجہ سے اسے کیریناس میں نقصان ہوتا تھا ۔ اس لئے وہ نکوری میں چاول ، بیسن اور گیبن گاری نامی ایک بہترین سیریل کی تلاش میں اپنے دوست کے پاس آیا تھا !جو ڈبلیو سی سی کا ایک ڈپو چلاتا تھا ۔
وہ اویری سے صبح چھ بجے ہی چل پڑا تھا تاکہ اپنے دوست کو ڈپو میں ہی پکڑ سکے ۔ جو ہوائی حملے کے ڈر سے ساڑھے آٹھ کے بعد وہاں ٹھہر تا نہیں تھا ۔ نانکوف کے لئے وہ دن خوش بختی والا تھا ۔ کچھ دن پہلے کئی جہازوں کے ایک ساتھ اچانک ایک ساتھ آ جانے کے سبب ڈپو میں ایک دن پہلے ہی رسد کا بہت بڑا اسٹاک آیا تھا ۔ جب اس کا ڈرائیور ٹن تھیلے اور کارٹن اس کی گاڑی میں لاد رہا تھا تو بھوکی بھیڑنے جو ہمیشہ ریلیف سینٹروں کے ارد گرد جمع رہتی تھی ، کئی بھپتیاں کسیں ۔ مثلاً ” وارکین کینٹینو“ جس کا مطلب ڈبلیو سی سی سے تھا ۔ کوئی اور چلایا ” ایرے ولو“
اس ے دوست نے جواب دیا ’ شم‘ ۔’ ایرے ولو‘ ۔”شم“
” ایسو ہیلی،’شم‘ ۔ ایسو ہیلی، ’ شم۔ممبا۔
نانکوف بے حد شرم محسوس ہوئی ۔ چیتھڑوں اور ننگی پسلیوں والی بھیڑ سے نہیں بلکہ ان کے بیمار جسموں سے اور التجا بھری آنکھوں سے ۔ اسے زیادہ برا محسوس ہوتا اگر وہ کچھ بھی نہ کہہ کرچپ چاپ اس کی گاڑی کے باٹ میں سے ، انڈے ، دودھ کا پاو¿ڈر ، دلیہ، گوشت اور مچھلی کے ڈبوں کو خاموشی سے لدتا ہوا دیکھتے رہے ۔ عمومی طور پرچاروں طرف پھیلی ہوئی مصیبتوں کے درمیان اس طرح کی خوش قسمتی پر شرم آنا لازمی تھا ۔ لیکن کوئی کیا کر سکتا تھا ۔ دور اوگبو قصبے میں موجود اس کی بیوی اور چار بچے مکمل طور پر اس کے ذریعے ارسال کئے گئے راحتی سامان پر انحصار کرتے تھے ۔ وہ انھیں کواشی خور جیسی جان لیوا بیماری کے منھ میں تو نہیں دھکیل سکتا تھا ۔وہ صرف اتنا کر سکتا تھا اور کر رہا تھا کہ جیب ہی اسے آج کی طرح اچھی ارسد مل جاتی تھی تو وہ اس کا کچھ حصہ اپنے ڈرائیور جانسن کے دے دیتا تھا ۔ جس کی بیوی اور چھ بچے تھے یا سات۔اور جس کی تنخواہ دس پاو¿نڈ ماہانہ تھی ۔بازار میں ’گاری‘ کی قیمت ایک پاو¿نڈی سگریٹ امن تک پہنچ گئی تھی ۔ ایسی حالت میں وہ بھیڑ کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا ۔ زیادہ سے زیادہ وہ اپنے پڑوسی کے لئے کچھ کر سکتا تھا ۔بس یہی کچھ۔
اومیری سے لوٹتے وقت سڑک کے کنارے کھڑی ایک خوبصورت لڑکی نے لفٹ مانگی۔ اس نے ڈرائیور کو رکنے کا اشارہ کیا ۔ چاروں طرف بیسیوں پیدل چلنے والے ۔ دھول سے سنے اور تھکے ماندے۔جن میں کچھ فوجی تھے اور کچھ پیوپلس۔گاڑی کی طرف دوڑے۔
” نہیں، نہیں، نہیں، مانکوف نے سختی سے کہا ۔” میں تو اس دوشیزہ کے لئے رکا ہوں ۔ میری گاڑی کا ٹائر خراب ہے اور میں صرف ایک ہی مسافر کو لے جا سکتا ہوں ۔سوری۔
” بیٹے پلیز۔“ ہینڈل پکڑتے ہوئے ایک مایوس بڑھیا نے کہا۔
” بڑھیا تو مرنا چاہتی ہے ؟“ ڈرائیور نے اسے دھکیلتے ہوئے کہا اور گاڑی آگے بڑھا دی ۔ مانکوف نے اب تک کتاب کھول لی تھی اور نظریں ان میں گڑا دی تھیں ۔ تقریباً ایک میل تک اس نے لڑکی کی طرف دیکھا ہی نہیں ۔ آخر لڑکی کو خاموشی گراں گذری ، اس نے خاموشی توڑی ۔” آپ نے مجھے بچالیا ۔شکریہ۔“
” اس میں شکریے کی کیا بات ہے ! کہاں جا رہی ہو؟“
” او میری ۔آپ نے مجھے پہچانا نہیں ؟“
” اوہ! ہاں ضرور …. میں بھی کتنا بھلکڑ ہوں ۔ تم ؟“
” گلیڈس۔“
” ہاں ، ہاں…. فوجی لڑکی ۔گلیڈس تم بالکل بدل گئی ہو ۔ خوبصورت تو تم پہلے سے ہی نہیں ۔ لیکن اب تو تم روپ کی رانی لگتی ہو۔ کیا کتی ہو آج کل؟“
” میں آج کل فویل ڈاریکٹریٹ میں ہوں ۔“
” بہت اچھی بات ہے۔“
” اچھی بات تو ہے ، اس نے سوچا ، لیکن تکلیف دہ بھی ہے ۔ وہ ایک گہرے رنگ کا وگ پہنے ہوئے تھی ۔ قیمتی اسکرٹ اور لوکٹ کا بلاو¿ز ۔ اس کے جوتے ضرور گیبن سے آئے ہوں گے اور کافی قیمتی ہوں گے۔ کل ملا کر نانکوف نے سوچا ۔ اسے کسی امیر آدمی کی داشتہ ہونا چاہیے۔ ایسا آدمی جو جنگ سے پیسوں کے پہاڑ جا رہا ہوگا ۔
” میں نے آج نہیں لفٹ دے کر اپنا ایک اصول توڑا ہے ۔ آج کل میں لفٹ بالکل نہیں دیتا ۔
” کیوں؟“
” آخر میں کتنے لوگوں کو لے جا سکتا ہوں ؟ بہتر ہے کہ کوشش ہی مت کرو ۔ اسی بڑھیا کو ہی لو ۔“
” میں سوچ رہی تھی کہ آپ اس بڑھیا کو بٹھا لیں گے ۔“
یہ سن کر اس نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ خاموشی کے طویل وقفے کے بعد گلیڈس کو محسوس ہوا کہ وہ برا مان گیا ہے ۔ اسی لیے اس نے پھر خاموشی توڑی ۔
” میرے لیے اپنا اصول توڑنے کا شکریہ ۔“ وہ اس کے مڑے ہوئے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کرر ہی تھی۔یہ سن کر وہ مسکرایا ۔ اپنا چہرہ اس کی جانب کیا ، اس کی گود میں ہلکی سی چٹکی لی اور پوچھا۔
” اومیری میںتم کیا کرنے جا رہی ہو؟“
” میں اپنی سہیلی سے ملنے جا رہی ہوں۔“
” سہیلی ؟ یقیناً؟“
” کیوں نہیں …. اگر آپ مجھے ا کے گھر تک چھوڑ دیں تو ا س سے مل بھی سکتے ہیں ۔ ب ایک ہی ڈر ہے کہ وہ کہیں ویک اینڈ ہر نہ نکل گئی ہو ۔ تب تو گڑ بڑ ہو جائے گی۔“
” کیوں ؟“
” کیوں کہ اگر وہ گھر پر نہ ہوئی تو سڑک پر سونا پڑے گا ۔“
” میں تو دعا کر رہا تھا کہ وہ گھر پر نہ ہو ۔“
” کیوں؟“
”کیوں کہ اگر وہ گھر پر نہ ہوئی تو میں تمہیں شب گزاری اور ناشتے کی دعوت دے سکوں ۔“
” کیا ہوا ؟ اس نے ڈرائیور سے پوچھا ، جس نے اچانک گاڑی روک دی تھی ۔ جواب کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔ سامنے کھڑی بھیڑ اوپر دیکھ رہی تھی ۔ تینوں گاڑی سے نکلتے ہی جھاڑیوںکی طرف بھاگے ۔ گردنیں آسمان کی جانب تنی ہوئی تھیں ۔ لیکن الارم غلط تھا ۔ آسمان اف اور بے آواز تھا ، صرف دو گدھ اونچی اڑان بھر رہے تھے ۔ نھیڑ میں سے ایک مسخرے نے ان کوفائٹر اور بمبار کا نام دے دیا ۔ یہ دیکھ کر سب چہروں پر مسکراہٹ دوڑ گئی ۔ تینوں پھر گاڑی میں سوار ہوئے اور سفر جاری ہو گیا۔
” ابھی ریڈرس کے لیے جلدی ہے۔“ اس نے گلیڈ سے کہا جواب بھی اپنے دونوں ہاتھ سینے پر رکھے ہوئے تھی، جیسے دل کی دھک دھک سن رہی ہو ۔” وہ دس بجے سے قبل نہیں آتے ہیں ۔“ لیکن گلیڈس مارے خوف کے بول نہیں پا رہی تھی ۔ نانکوف کو ایک موقع دکھائی دیا اور اس نے اس موقع کا فائدہ اٹھا لیا ۔
” تمہاری سہیلی کہاں رہتی ہے ؟“
” ۰۵۲ ڈگلس روڈ پر ۔“
”اوہ! وہ تو شہر کے درمیان میں ہے ، بہت ہی واہیات جگہ ہے۔ نہ خندق نہ کچھ اور۔ مین تمہیں وہاں شام چھ بجے سے پہلے جانے کا مشورہ نہیں دوں گا ۔ وہ جگہ محفوظ نہیں ہے ۔ اگر تمہیں برا نہ لگے تو تمہیں میں اپنے یہاں لے چلتا ہوں ۔ جیسے ہی چھ بجیں گے ۔ میں تمہیں تمہارے سہیلی کے یہاں چھوڑ آو¿ں گا ۔” ٹھیک ہے؟“
” ٹھیک ہے ۔“ اس نے بے جان سی آواز میں کہا ۔” مجھے اس سے بہت ڈر لگتا ہے ۔ اس لیے میں نے اومیری میں کام کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا ۔ جانے کس نے مجھے آج یہاں آنے کا مشورہ دیا تھا۔“
” کوئی بات نہیں ۔ ہمیں تو عادت ہو گئی ہے ۔“
” لیکن آپ کے ساتھ آپ کے افرادِ خانہ تو نہیں ہیں نا؟“
” نہیں “ اس نے کہا۔ کسی بھی خاندان کے افراد اس کے ساتھ نہیں ہیں ۔ کہتے ہم ہیں کہ اس کا سبب ایکر ریڈ س ، ہیں، لیکن حقیقت کچھ اور ہے ۔ اومیری موج مستی کا شہر ہے اور ہم لوگ گھوڑوں کی طرح رہتے ہیں ۔“
” میں نے بھی کچھ ایسا ہی سنا ہے۔“
” سنا ہی نہیں ، تم آج دیکھو گی بھی۔ میں تمہیں آج ایک بہت ہی موج مستی بھری پارٹی میں لے جاو¿ں گا ۔ میرے ایک دوست کی آج سالگرہ ہے ۔ وہ لیفٹنٹ کرنل ہے ۔ اسی نے پارٹی نے رکھی ہے ۔ انھوں نے ساو¿نڈ اسمیزرس بینڈ کرایے پر حاصل کیا ہے ۔ مجھے پورا یقین ےہے کہ تمہیں خوب مزہ آئے گا ۔لیکن اسے ا بات پر شرم آئی ۔ اسے پارٹیوں سے بہت چڑ تھی ۔ جب کہ اس کے دوست خوب رنگ رلیاں مناتے تھے ۔ اور نانکوف یہ سب بات اس لیے کر رہا تھاکہ وہ گلیڈس کو اپنے گھر لے جانا چاہتا تھا ۔ اور لڑکی بھی یعنی گلیڈس بھی ، جس کا ایک وقت تھا جنگ میں دارا یقین تھا اور جسے کسی نے دھوکا دیا تھا ۔دکھ بھرے انداز میں گلیڈس نے سر ہلالیا۔
” کیا ہوا !گلیڈس نے پوچھا۔
” کچھ نہیں ۔ یوں ہی کچھ سوچنے لگا تھا ۔ باقی سفر خاموشی میں طے ہوتا رہا ۔
گلیڈس بھی اس کے گھر میں اس قدر تیزی سے گھل مل گئی جیسا کہ وہ اس کی گرل فرینڈ ہو ۔اس نے گھریلو لباس زیب تن کیا اور اپنا بھڑک دار وگ اتار دیا ۔
”تمہارے بالوں کی سجاوٹ بہت اچھی ہے ۔ تم انھیں وگ میںکیوں چھپائے رکھتی ہو؟“
” شکریہ۔“ اس نے کچھ دیر تک اس کے سوال کا جواب دیا ہی نہیں ۔پھر کہا ۔” آدمی لوگ بھی مسخرے ہوتے ہیں ۔
” کیوں ؟“
” تم روپ کی رانی لگتی ہو ۔“ گلیڈس نے نانکوف کی نقل اتاری ۔
” اوہ“ وہ بات۔ میں تو اسے صد فیصد سچ جانتا ہوں ۔“ نانکوف نے یہ کہتے ہوئے اسے اپنی جانب کھینچا اور اس کابوسہ لے لیا ۔ گلیڈس نے نہ تو اعتراض کیا اور نہ ہی پوری طرح اپنے آپ کو اس کے سپرد کر دیا ۔ شروعات کے لیے نانکوف کو یہ انداز اچھا لگا۔ان دنوں بہت سی لڑکیاں آسانی سے خود سپردگی کر دیتی ہیں ۔ کچھ لوگوں نے اسے ” بیماری¿ جنگ“ کا نام دے دیا تھا ۔
کچھ دیر وہ اپنے دفتر حاضری لگانے گیا اور وہ باورچی خانہ میں لنیچ کے لیے نوکر کی مدد کرنے گلی ۔ اس نے صرف حاضری ہی لگائی ہو گی ، کیوں کہ وہ آدھے گھنٹے میں ہی لوٹ آیا ۔ ہاتھ ملتے ہوئے بولا کہ وہ اپنے گلیڈس سے زیادہ دیر تک دور نہیں رہ سکتا ۔
جب و لنچ کر رہے تھے تو وہ بولی۔” تمہارے فریج میں تو کچھ بھی نہیں ہے !“
” مثلاً !“ اس نے برا مانتے ہوئے پوچھا ۔
” مثلاً گوشت“اس نے بلا جھجھک جواب دیا ۔
” تم اب بھی گوشت کھاتی ہو !“ اس نے سوال کیا۔
میں بھلا کون ہوتی ہوں۔لیکن آپ جیسے بڑے لوگ کھاتے ہیں ۔
” مجھے پتہ نہیں ت،م کتنے بڑے لوگوں کی بات کر رہی ہو ۔ لیکن وہ میرے جیسے نہیں ہیں ۔ میں نہ تو دشمن سے کار و بار کر کے پیسہ بناتا ہوں اور نہ یہی راحت کا سامان بیچ کر یا ….“
”آگسٹا کا بوائے فرینڈ یہ سب نہیں کرتا ، اسے صرف بیرونی کرنسی ملتی ہے ۔“
” کیسے ملتی ہے ؟ وہ سر کار وکو دھوکا دیتا ہے ۔ایسی ملتی ہے بیرونی کرنسی۔“
” چاہے وہ کوئی بھی ہو ۔ویسے یہ آگسٹا کون ہے ؟“
” میری سہیلی۔“
” اوہ!“
” پچھلی بار اس نے مجھے تین ڈالر دیے تھے ۔ جن میں میںنے بیلاس پاو¿نڈ میں بدل لیا ۔ ا آدمی نے؟ آگسٹا کو پچاس ڈالر دیے تھے ۔
خیر میری پیاری ، میں بیرونی کرنسی کی بھی دلالی نہیں کرتا اور میرے فریج میں گوشت بھی نہیں ہے ۔ ہم ایک جنگ لڑ رہے ہیں ، اور مجھے صرف یہ معلوم ہے کہ فرنٹ پر ہمارے کچھ نوجوان تین تیج دن میں ایک بار جَو کا پانی پی کر لڑ رہے ہیں ۔“
” یہ تو ٹھیک ہے ۔ اندھا پیے، کتا کھائے ۔“
” بات یہ بھی نہیں ہے ، اس سے بھی بری ہے ۔ “اس نے کہا۔ غصے سے اس کی زبان لڑ کھڑانے لگی تھی ۔
” لوگ ہر روز مارے جا رہے ہیں ۔ اس وقت جب ہم تم بات کر رہے ہیں، اس وقت بھی کوئی مارا جا رہا ہے ۔
” یہ تو ٹھیک ہے ۔“ اس نے کہا۔
” ہوائی جہاز !“‘ لڑکا باورچی خانے سے چلا یا۔
” اوہ ماں۔“ گلیڈس چلائی ۔ جیسے ہی وہ پام کے پتوں اور لال مٹی سے بنی خندق کی اور سر پر ہاتھ رکھ کر ’ بدن جھکائے ہوئے دوڑی‘ آسمان جیٹ طیاروں اور طیاروں کو نشانہ بناتی ہوئی ملکی توپوں کی گرج سے پھٹ پڑا۔
خندق میں ، طیاروں کے چلے جانے کے بعد اور دیر سے شروع ہوئی توپوں کی گھن گرج ختم ہو جانے کے بعد بھی وہ اس سے چپکی رہی ۔ وہ جہاز تو صرف اوپر سے گزر رہا تھا ۔ نانکوف نے کہا ۔
آوازیں کانپ سی رہی تھی۔ اس نے کچھ بھی نہیں گرایا ۔ اس کی سمت سے لگ رہا تھا کہ لڑائی کے مورچے پر جا رہا ہے ۔ شاید ہمارے فوجی ان پر دباو¿ ڈال رہے ہیں ۔ اس لیے وہ ایسا کرتے ہیں ۔ جب بھی ہمارے فوجی دباو¿ ڈالتے ہیں وہ روسیوں اور ھَر کو ہوائی جہازوں کے لیے ایس او ایس بھیج دیتے ہیں ۔ اس نےلمبی سانس لی ۔
اس نے کچھ بھی نہیں کہا ۔صرف اس سے چپکی رہی ۔ وہ ہنستے رہے۔ ان کا نوکر ساتھ والے گھر کے نوکر کو بتلا رہا تھا کہ وہ دو تھے۔ ایک نے یوں ڈائی ماری اور دوسرے نے یوں۔
” ہم بھی اچھی طرح دیکھ رہے ہیں“ دوسرے نے اتنے ہی پر جوش انداز میں کہا ۔ کہنا تو نہیں چاہیے لیکن ان مشینوں سے لوگوں کا مرنا دیکھنے میں اچھا لگے نا!’ خدا کی قسم‘
” سوچو! “ آخر کار گلیڈس نے زبان کا استعمال کرتے ہوئے کہا ۔ نانکوف نے سوچا وہ چند لفظوں میں ہی یا صرف ایک ہی لفظ سے معنی کی کئی پرتوں کو اتار سکتی تھی ۔ اس ایک لفظ میں ’ سوچو‘ حیرت ، تنقید، اور شاید ان لوگوں کے لیے ایک طرح کی حوصلہ افزائی بھی پوشیدہ تھی جو موت کے ہر کاروں کے بارے میں بھی مذاق کر سکتے تھے ۔
” ڈرو مت۔“ اس نے کہا ۔ وہ اس کے مزید قریب آگئی اور وہ اس کے بوسے لینے لگا ۔ وہ دھیرے دھیرے کھلنے لگیاور پھر پوری طرح کھل گئی ۔ خندق میں اندھیرا تھا ۔وہاں جھاڑو بھی نہیں لگی تھی اور اس میں کیڑے پتنگے ہو سکتے تھے ۔ اس نے گھر میں سے چٹائی لانے کے بارے میں سوچا ۔ پھر خیال چھوڑ دیا ۔ اور کوئی ہوائی جہاز آسکتا تھا ۔ پروسی یا کوئی اور راہ گیر ان کے اوپر گر سکتا تھا ۔ یہ تو تقریباً ویسی ہی حالت ہو گئی جس میں لوگوں نے ہوائی حملے کے وقت دن دھاڑے ایک آدمی کو ننگ دھڑنگاپنے بیڈروم سے نکل کر دوڑتے ہوئے دیکھا تھا اور اس کے پیچھے پیچھے اس حالت میں ایک عورت بھی تھی۔
جیسا کہ گلیڈس کو ڈر تھا۔ اس کی سہیلی گھر پر نہیں تھی ۔ لگتا تھا کہ ا کے با اثر دوست نے لبرول میں خریداری کے لیے اس کے پیچھے ہوائی جہاز میں ایک سیٹ حاصل کرلی تھی ۔ کم از کم پڑوسیوں کا یہی اندازہ تھا ۔
” کمال ہے “ نانکوف نے واپسی پر کہا ۔” وہ لراکا طیارے جوتوں ، وگوں، پینٹوں، برا، کاسٹیمک،اور ایسی ہی دیگر چیزوں سے لدی پھندی لوٹے گی۔جنھیں پھر وہ ہزاروں پاو¿نڈ کی قیمت پر فروخت کر دے گی ۔ تم لڑکیاں سچ مچ جنگ پر ہو ۔نہیں !“
وہ کچھ نہیں بولی اور اسے لگا کہ آخر کاروہ اسے جھنجھوڑنے میں کامیاب ہو گیا ہے لیکن اچانک وہ بولی ۔” تم مرد تو چاہتے ہو کہ ہم سب یہی کچھ کریں ۔“
” خیر“ اس نے کہا ۔” میں ایک ایسا مرد ہوں جو نہیں چاہتاکہ تم یہ سب کرو ۔ تمہیں خاکی جنس میں وہ لڑکی یاد ہے جس نے بے رحمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چیک پوائنٹ پر میری تلاشی لی تھی ؟“
یہ سن کر وہ ہنسنے لگی۔
” میں چاہتا ہوں کہ تم پھر سے وہی لڑکی بن جاو¿ ۔ تمہیں یاد ہے!“ کوئی وگ نہیں اور جہاں تک مجھے یاد ہے کوئی اسٹرنگ کانوں میں نہیں ….“
” دیکھو“جھوٹ نہیں …. میں نے اسٹرنگ پہن رکھے تھے۔“
” چلو ٹھیک ہے ۔ لیکن میری بات سمجھ میں آئی کہ میں کیا کہہ رہا ہوں ۔
” وہ وقت ہوا ہوا ۔اب تو سب بچنا چاہتے ہیں اسے کہتے ہیں نمبر چھ۔تم اپنا نمبر ہی نکالومیں اپنا نمبر چھ نکالتی ہوں ۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک۔
لیفٹنٹ کرنل کی پارٹی میں ایک عجیب سی بات ہو گئی ۔ لیکن ا کے ہونے سے پہلے سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا ۔ بکرے کا گوشت، مرغ اور چاول اور ڈھیر ساری دیشی شراب ، جس میں سے ایک کا نام انھوں نے ٹریسر رکھ چھوڑا تھا ، کیوں کہ وہ حلق کو جلاتی ہوئی نیچے اترتی تھی۔ مذاق کی بات تو یہ تھی کہ بوتل میں دیکھنے پروہ نارنگی کے رنگ جیسی سیدھی سادی لگتی تھی ۔ لیکن سب سے زیادہ جس چیز نے ہنگامہ کھڑا کیا وہ ۔ تھی ڈبل روٹی۔اصلی۔بینڈ بھی اچھا اور لڑکیاں بھی بہت سی تھیں ۔ ماحول کو اور بھی بہتر بنانے کے لئے دو گورے آنکلے جو ریڈ کراس میں تھے۔ ساتھ میں لائے وہ ایک بوتل کو ریزرو کی اور ایک اسکاچ کی ۔ پارٹی میں موجود افراد نے پہلے تو ان کا کھڑے ہو کر خیر مقدم کیا اور پھر سبھی دوڑے ایک ایک گھونٹ پانے کے لئے ۔ کچھ دیر بعد ایک گورے کے برتاو¿ سے لگاکہ اس نے پہلے سے ہی کافی پی رکھی تھی۔جس کا سبب شاید یہ تھا کہ گزشتہ رات ایک پائلٹ جسے وہ اچھی طرح جانتا تھا ۔ خراب موسم میں راحت کا سامان لاتے وقت ائیر پورٹ پر ہوائی حادثہ کا شکار ہو گیا تھا ۔
پارٹی میں اس وقت تک کم لوگوں نے ہی اس حادثہ کے بارے میں سنا تھا۔ اس بے ماحول پر فوراً مردنی سی چھا گئی ۔ رقص کرتے ہوئے کچھ جوڑے واپس اپنی اپنی سیٹوں پر چلے گئے اور بینڈ بجنا بند ہو گیا ۔ تب اچانک ہی ریڈ کراس والا آدمی گرج اٹھا ۔ایک آدمی نے ’[ شریف آدمی نے“ کیوں اپنی جان دے دی ۔ بے کار میں۔چاری کو مارنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اس بے کار جگہ کے لئے تو بالکل نہیں ۔یہاں ہر چیز سے تعفن اٹھتا ہے ۔یہ لڑکیاں بھی جو بن سنور کر ، مسکراتی ہوئی یہاں آئی ہیں ۔ کسی کام کی نہیں ہیں ۔ مچھلی کا ایک ٹکڑا ۔ یا ایک امریکی ڈالر…. بس اور یہ ہم بستری کے لئے راضی ہو جاتی ہیں ۔“
ابال کے بعد پھیلی ہوئی خاموشی میں ایک نوجوان افسر اس کے پاس گیا اور اسے تین طمانچے جڑ دیے ۔
دائیں بائیں…. اسے سیٹ سے اٹھا لیا ( اس کیآنکھوں میں آنسوو¿ں جیسا کچھ تھا ) اور باہر دھکیل دیا ۔ اس کا دوست بھی جس نے اسے خاموش کرانے کی کوشش کی تھی ۔ پیچھے پیچھے باہر چلا گیا ۔ ساکت پارٹی میں ان کی کار کے جانے کی آواز صاف طور پر سنائی دی ۔ افسر جس نے طمانچے جڑے تھے ۔ ہاتھ جھاڑتا ہوا اپنی سیٹ پر واپس آگیا۔
” سالا بے وقوف!“ اس نے رتعب دار آواز میں کہا ۔ سبھی لڑکیوں نے اپنی نظروں سے اسے احساس کرا دیا کہ وہ اسے مرد اور ہیرو سمجھتی ہیں۔
” آپ اسے جانتی ہیں !“ گلیڈس نے نانکوف سے پوچھا ۔
اس نے جواب نہیں دیا۔ بلکہ ساری پارٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا” وہ پئے ہوئے تھا ۔“
” مجھے اس بات کی پرواہ نہیں ۔“افسر نے کہا ۔ جیسا آدمی نشے میں ہوتا ہے تبھی وہ کہتا ہے جو اس کے دل میں ہوتا ہے۔“
” تو تم نے اس بات کے لیے پیٹا جو اس کے من میں تھی ۔“ میزبان نے کہا ۔
” ایسے ہی احساسات ہونے چاہئیں۔جو….“
” شکریہ جناب ۔ جو نے سیلوٹ کرتے ہوئے کہا ۔
” تو اس کا نا م جو ہے۔“ گلیڈس اور اس کی بائیں طرف بیٹھی لڑکی نے ایک دوسرے کی جانب مڑتے ہوئے ایک ساتھ کہا ۔
اس وقت نانکوف اور دوسری جانب بیٹھا ایک دوست ایک دوسرے سے دبی زبان میں ، بہت ہی دبی زبان میں کہہ رہے تھے کہ حالاں کہ وہ آدمی بد دماغ اور بے ہودہ تھا ، لیکن لڑکیوں کے بارے میںاس نے جو کچھ بھی کہا تھا وہ بد قسمتی سے کڑوا سچ تھا ۔ صرف کہنے والا آدمی غلط تھا ۔
جب ڈانس دوبارہ شروع ہوا تو کیپٹن جو گلیڈس کے پاس آیا اور ڈانس کے لیے کہا ۔ اس کے منھ سے الفاظ نکلنے سے قبل ہی وہ کود کر کھڑی ہو گئی ۔ تب اسے اچانک یاد آیا ، وہ مڑی اور اس نے نانکوف سے اجازت مانگی ۔ ساتھ ہی کیپٹن نے بھی مڑ کر کہا ۔” معاف کیجئے۔“
” جائیے ،جائیے“ نانکوف نے دونوں کے درمیان کہیں دیکھتے ہوئے کہا ۔
ڈائس دیر تک چلا اور وہ بنا بتائے انھیں دیکھتا رہا ۔ کبھی کبھی اوپر سے رسد کا ہوائی جہاز گزرتا تو کوئی یہ کہہ کر بتی گل کردیتاکہ کہیں دشمن کا جہاز نہ ہو ۔ لیکن اصل میں تو یہ اندھیرے میں رقص کرنے کا اور لڑکیوں کو گدگدانے کا بہانہ تھا کیوں کہ دشمن کے ہوائی جہازوں کیآواز تو خوب جانی پہچانی تھی۔
گلیڈس جب واپس آئی تو بہت خوف زدہ تھی اور اس نے نانکوف کو اپنے ساتھ رقص کرنے کی درخواست کی ۔ لیکن اس نے منع کردیا ۔” میری پراہ مت کرو ۔“ میں تو یہاں بیٹھ کر تم لوگوں کو رقص کرتا دیکھ کرمزے لے رہا ہوں۔“
” تو پھر چلیے۔“ گلیڈس نے کہا ۔” اگر آپ رقص نہیں کریں گے ۔“
” لیکن میں تو کبھی رقص نہیںکرتا۔ یقین کرو۔ جاو¿ مزے کرو۔“
اس نے اگلا رقص لیفٹنٹ کرنل کے ساتھ کہا اور پھر کیپٹن جوکے ساتھ ۔ اس کے بعد نانکوف اسے گھر لے چلنے کے لیے تیار ہو گیا ۔” مجھے افسوس ہے کہ رقص نہیں کرتا۔“ اس نے کار میں بیٹھتے وقت کہا ۔ لیکن میں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک یہ جنگ جاری رہے گی میں رقص نہیںکروں گا۔“
گلیڈس نے کچھ نہیں کہا ۔
” میں اس پائلٹ جیسے آدمی کے بارے میں سوچ رہا ہوں جو کل رات مارا گیا ۔ اس کا تو اس لڑائی سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ وہ تو ہمارے لیے رسد….“
” مجھے امید ہے کہ اس کا دوست اس جیسا نہیں ہوگا ۔“ گلیڈس نے کہا۔
وہ تو اپنے دوست کے سبب اکھڑا ہوا تھا ۔ لیکن میں تو یہ کہنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ جب اس جیسے لوگ مارے جا رہے ہوں ۔ جب مورچے پر ہمارے نوجوان مارے جا رہے ہوں ۔تو ہم لوگوں کو چپ چاپ بیٹھے رہنا اورپارٹیاں کرنا یا رقص کرنا کتنا معقول ہے۔
” لیکن آپ ہی تو مجھے وہاں لے گئے تھے ۔“ آخر میں گلیڈس نے اس کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا __” وہ تو آپ ہی کے دوست ہیں ۔ میں تو انھیں جانتی بھی نہیں تھی۔“
دیکھو،میری پیاری گلیڈس ۔ میں تمہیں مورد الزام نہیں ٹھہرا رہا ہوں ۔ میں تو تمہیں صرف یہ بتلا رہا ہوںکہ میں رقص کیوں نہیںکرتا۔ خیر چھوڑو! کچھ اور بات کریں …. تم اب بھی کل ہی واپس جانے پر آمادہ ہو ! میرا ڈرائیور تمہیں پیر کی صبح کام پر ، وقت پر پہنچا سکتا ہے ۔ نہیں ؟ چلو ، جیسی تمہاری مرضی ۔ تم خود کی مالک ہو۔“
جس آسانی سے وہ اس کے بستر پر چلی آئی اور جس زبان کا اس نے استعما ل کیا وہ سن کر حیرت زدہ تھا ۔
” بمباری کرنا چاہتے ہو!“ اس نے پوچھا ۔ اور جواب کا انتطار کیے بنا بولی ” شروع کرو“ لیکن اپنے سیلوی انداز میں چھوڑنا۔“
ایک بات تو ایک دم صاف تھی ۔ وہ کسی فوجی افسر کی داشتہ تھی ۔ دو برس میں کتنا فرق آگیا تھا ۔ یہی کیا کم کمال تھا کہ اسے ابھی تک اپنی پہلی زندگی یاد تھی ، اپنا نام یاد تھا؟ اگر مشنری ریڈ کراس والا قصہ دوبارہ ہوا۔ اس نے سوچا تو وہ اس کے ساتھ کھڑا ہوگا ۔ ساری پارٹی کو بتلا دے گا کہ وہ آدمی کتنا سچا ہے ۔ ساری کی ساری پیڑھی کو ہو کیا گیا ہے ؟ کیا یہی ہے کل کی مائیں ؟
لیکن صبح ہوتے ہوئے وہ بہتر محسوس کر رہا تھااور اس کی رائے میں بھی تازگی آ گئی تھی ۔ اس نے سوچا کہ گلیڈس تو اس سماج کا ایک چھوٹا سا عکس ہے ، جو پوری طرح سڑ گل چکا ہے اور اس میں کیڑے رینگ رہے ہیں ۔ لیکن آئین سالم ہے صرف تھوڑی سی گرد جم گئی ہے ۔ ضرورت ہے تو ایک صاف شفاف کپڑے کی ۔ ”گلیڈس کے لیے بھی میرا کچھ فرض بنتا ہے۔“اس نے خود سے کہا ۔” وہ چھوٹی سی لڑکی ، جس نے ایک دن مجھے آنے والے خطرات کااحساس کرایا تھا ، اب بذات خود خطرے میں ہے ۔ کچھ خطرناک اثر پڑ رہا ہے اس پر۔
وہ اس خطرناک اثر کی جڑ تک جانا چاہتا تھا ۔ وہ اثر صرف اس کی اچھے دنوں کی دوست آگسٹا…. یا جو کچھ بھی اس کا نام رہاہو ، کا نہیں تھا اس کی تہہ میں ضرور کوئی آدمی ہوگا ۔ شاید ان بے رحم بیور پاریوں میں سے ایک جو بیرونی کرنسی کی چوری کرتے ہیں اور نوجوانوںکی زندگیوں کو خطروںمیں ڈال کر انھیں دشمنوں کی سرحد کے پار بھیجتے ہیں تاکہ اسمگلنگ کی چیزوں کو سگریٹوں میں بدل کر کروڑوں کمائیں۔ یا پھر ان ٹھیکیداروں میں سے ہوگاجو فوج کو بھیجی جانے والے رسد کی چوری کر کے پیسوں کا پہاڑ بنا رہے ہیں ۔ یا شاید کوئی بزدل فوجی افسر جو بیرکوں کے گندےفقرے اور بہادری کے جھوٹے قصوں سے بھرا ہوا ہوگا ۔ اس نے گلیڈس کو ڈرائیور کے ساتھ اکیلے ہی بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ لیکن نہیں،وہ خود جائے گا اور دیکھے گا کہ وہ کہاں رہتی ہے َ کچھ نہ کچھ ضرور سامنے آئے گا ۔ اسی پر وہ گلیڈس کو بچانے کا منصوبہ بنائے گا ۔ جیسے جیسے وہ اس ہڑپ کی تیاری کرنے لگا ، ہر پل گلیڈس کے متعلقوہ بہتر انداز میں سوچنے لگا ۔ اس نے ایک دن پہلے ریلف سنیٹر سے ملے راشن کارڈ کا آدھا حصہ اس کے لیے الگ کر دیا۔ حالاں کہ حالات خراب تھے ، لیکن اس نے سوچا تھا کہ جس لڑکی کے پاس کھانے کے لیے کچھ ہوگا وہ کم للچائے گی ۔ وہ ڈبلیو سی سی میں اپنے دوست سے ہر ہفتے اس کے لیے کچھ نہ کچھ دینے کی بات کرے گا۔
تحفے دیکھ کر گلیڈس کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ نانکوف کے پاس پیسے زیادہ نہیں تھے ، لیکن اس نے جوڑ کر بیس پاو¿نڈ بھی اسے تھما دیے۔
” میرے پاس بیرونی کرنسی تو نہیںہے اور میں جانتا ہوں کہ یہ زیادہ دنوں تک نہیں چل سکتے ، لیکن…. “
وہ دوڑکر آئی اور اس سے لپٹ کر رونے لگی ۔ اس نے اس کے لبوں پر بوسہ لیا اور آنکھوںکو چوم لیا اور مصیبت زدہ لوگوں کے بارے میں کچھ بد بدایا ، جسے وہ سمجھ نہ پائی ۔ نانکوف نے سوچا کہ میرے سبب ہی اس نے اپنا وگ اتار کر بیگ میں رکھ لیا ہے۔
” میں چاہتا ہوں کہ تم مجھ سے ایک وعدہ کرو ِ“ اس نے کہا ۔
” کیا؟“
” بمباری والے الفاظ اب تم کبھی استعمال نہیں کروگی۔“
بھگی آنکھوں سے وہ مسکرائی ۔” تمہیں پسند نہیں ہے نا۔“ لیکن سبھی لڑکیاں ایسے ہی کہتی ہیں ۔“
” خیر تم دوسری لڑکیوںسے الگ ہو ۔ وعدہ کروگی نا!“
” اچھا!“
انھیں نکلنے میں دیر ہو گئی تھی ۔ جب وہ گاڑی میں بیٹھے تو گاڑی نے اسٹارٹ ہونے سے انکار کر دیا ۔ انجن میں ادھر ادھر ہاتھ مارنے کے بعد ڈرائیور نے کہا کہ بیٹری ڈاو¿ن ہو گئی ہے ۔ نانکوف حیران ہو گیا ۔ اسی ہفتے اس نے دو سیل بدلنے کے لیے جو تیس پاو¿نڈ خرچ کیے تھے اور بیٹری بدلنے والے مکینک نے کہا تھا کہ یہ چھ ماہ تک چلے گی ۔ نئی بیٹری خریدنے کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا تھا، کیوں کہ اس کی قیمت دو سو پچاس پاو¿نڈ تک جا پہنچی تھی ۔ ضرور ڈرائیور نے کوئی لا پرواہی دکھائی ہوگی ، اس نے سوچا ۔
” یہ کل رات ہوا ہو گا۔“ ڈرائیور نے کہا۔
” کل رات کیا ہوا تھا؟“ نانکوف نے غصے سے پوچھا ، یہ سوچتے ہوئے کہ یہ بد تمیزی کی حد ہو گئی ہے ، لیکن ڈرائیور کا ایسا کوئی مقصد نہیں تھا ۔
” کیوں کہ ہم ہیڈ لائیٹس استعمال رہے تھے ۔
”تو کیا ہم سے امید کی جاتی ہے کہ ہم لائٹس نہ جلائیں ؟ جاو¿ ، دھکا لگوانے کے لیے کچھ آدمی لے آو¿“
وہ گلیڈس کے ساتھ باہر نکل کر گھر میں واپس چلا آیا اور ڈرائیور پڑوس کے گھروںمیں دوسرے نوکروں کو مدد کے لیے ڈھونڈنے نکلا۔سڑک پر آدھا گھنٹہ آگے پیچھے کرنے کے بعدیا دھکا لگانے والوں کے زور و شور سے چلانے کے بعد گاڑی میں جان واپس آئی اور ایکزاسٹ سے دھویں کے کالے بادل نکلنے لگے__
جب وہ چلے تو اس کی گھڑی میں ساڑھے آٹھ بجے تھے ۔ کچھ میل دور ایک اپاہج سپاہی نے لفٹ کے لیے ہاتھ کا اشارہ کیا ۔
” روکو! “ نانکوف چلایا ۔ ڈرائیور نے بریک پراپنا پورا زور لگا دیا اور پھر حیرت سے اس کی طرف دیکھا ۔
” تم نے اس سپاہی کو ہاتھ ہلاتے ہوئے نہیں دیکھا ؟ واپس چلو اور اسے بٹھاو¿۔“
” معاف کیجئے سر ۔“ ڈرائیور نے کہا ۔ مجھے پتہ نہیں تھا کہ صاحب لفٹ دینے والے ہیں ۔“
”اگر معلوم نہیں تھا تو پوچھو۔ گاڑی واپس لو۔“
سپاہی، جو کہ نوجوان تھا ، پسینے سے شرابور، جیکٹ سی خاکی وردی پہنے تھا اور گھٹنے سے نیچے اس کی ٹانگ غائب تھی ۔ یہ جان کر کہ کار اس کے لیے رکی تھی وہ صرف احسامند ہی نہیں بلکہ حیرت زدہ بھی تھا ۔ اس نے پہلے لڑکی کو اپنی گھٹیا سی بیساکھیاں پکرائیں ، جنھیں ڈرائیور نے آگے دونوں سیٹوں کے بیچ ٹکا دیا، پھر وہ خود اندر بیٹھ گیا۔
” شکریہ سر!، اس نے گردن پیچھے گھماتے ہوئے کہا ۔ اس کی سانس بری طرح پھول رہی تھی ۔ میں آپ کا بے حد شکر گزار ہوں میڈم!“
” خوشی تو ہمیں ہے ۔“ نانکوف نے کہا ۔” یہ گھاو¿ کہاں لگا۔؟“
” اجومنی پر، سر ! د جنوری کو ۔“
کوئی بات نہیں ۔ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ ہمیں بے حد فخر ہے تم نوجوانوں پر ۔ سب ختم ہو جانے پر تم لوگوں کو مناسب میڈل ملیں گے ۔یہ ہم یقین دلاتے ہیں۔“
” میں خدا سے آپ کے لیے دعا کروں گا سر!“
اگلے گھنٹے تک وہ خاموش رہے جیسے ہی گاڑی ایک پل کی طرف ڈھلوان سے اتری ، کوئی چلایا ، شاید ڈرائیور یا سپاہی ،” وہ آگے!۔“ بریک کی آواز چیخوں اور آسمان پھٹنے کی آواز میں گھل گئی ۔ گاڑی کے رکنے سے پہلے ہی دروازے کھل گئے اور وہ ادھا دھند جھاڑیوں کی جانب دوڑنے لگے ۔ گلیڈس ناناکوف سے آگے تھی ۔ تب اس شور شرابے میں انھوںنے سپاہی کے چیخنے کی آواز سنی ۔” یہاں آکر میرے لیے دروازہ کھولو !“ اسے گلیڈس کے رکنے کا احساس ہوا اور پھر وہ اس سے آگے نکل گیا ۔ اس نے گلیڈس کودوڑتے رہنے کا مشورہ دیا ۔ تبھی اس ماحول میں ایک اونچی سیٹی کی آواز برچھے کی طرح نیچے گری ، زور کی ہلچل کے ساتھ ایک زور دار دھماکہ ہوا اور سب کچھ تتر بتر ہو گیا ۔ جس پیڑ سے وہ لگا کھڑا تھا ، وہ دور جھاڑیوں میں جا گرا ۔ پھر مزید ایک بھیانک سیٹی کی آواز اور آس پاس وہی توڑ پھوڑ ، ایک اور …. اور اس کے بعد نانکوف کو کچھ سنائی نہیں دیا۔
وہ اٹھا تو چاروں طرف رونے چلانے، چیخنے کی آوازیں تھیں ، دھواں تھا، بدبو اور چراند کا ماحول تھا۔ اس نے خود کو گھسیٹااور ان آوازوں کی طرف چل پرا۔
دور سے اس نے آنسوو¿ں اور خون سے لت پت ڈرائیور کو اپنی جانب آتے ہوئے دیکھا ۔ پھر اس کی اپنی گاڑی کے پرخچوں اور لڑکی اور سپاہی کی گڈ مڈ لاشوںکی اور گئی …. اور وہ چلّا کرڈیہہ گیا۔

٭٭٭

انگریزی سے ترجمہ: قاسم ندیم