Khwaja Ahmad Abbas: YadeN Aur Tassurat

Articles

خواجہ احمد عباس : یادیں اور تاثرات

ڈاکٹر غلام حسین

 

میں ضلع بستی کے ایک دور افتادہ گائوں میں ، جو میرا مولد و مسکن بھی ہے، گرمی کی چھٹیاں گزار رہا تھا۔۔۔۔۔چھٹیاں کیا گزار رہا تھا اپنے مستقبل کے عنوانات طے کر رہا تھا کہ یکایک پہلی اپریل کو محلے کا ایک طالب علم دوڑتا ہوا آیا اور اس نے ریڈیو کی وہ خبر دہرائی جو خواجہ صاحب کی شدید علالت سے متعلق تھی ۔ میں ابھی چند ماہ پہلے تک خواجہ صاحب کے ساتھ ممبئی میں رہ چکا تھا، جب خواجہ صاحب کے عزم اور ان کی قوت ارادی کا تصور کیا تو خبر کچھ مبالغہ آمیز معلوم ہوئی لیکن جب ان کے سن و سال اور ان کی حرکت و عمل کی درماندگی کا جائزہ لیتا تھا تو یہ خبر اندیشہ ہاے دور و دراز میں مبتلا کر دیتی تھی۔ میں متصادم خیالات کی یورش سے گھبرا گیا اور گورکھپور چلا آیا۔ پھر اخبارات سے خواجہ صاحب کا حال معلوم ہوتا رہا اور وہ اس حد تک اچھے ہو گئے تھے کہ بلٹز نے ’’ آزاد قلم‘‘ کے سلسلے کو جلد ہی دوبارہ جاری کر نے کی یقین دہانی کرائی۔ اسی دوران میں نے خواجہ صاحب کو خیریت معلوم کرنے کے لیے خط لکھا جس کا جواب آیا: ’’میرے جاننے پہچاننے والے ہی میری اصل دولت ہیں‘‘۔میں عید کے مبارک موقع پر گائوں چلا گیا جہاں وہ خبر سنی جس کا صدمہ الفاظ میں منتقل نہیں ہو سکتا۔
ویسے تو میں خواجہ صاحب کے ’’آزاد قلم‘‘ کا برسوں سے قاری رہا ہوں لیکن ان کی کہانیوں کا مجموعہ ’’نئی دھرتی نئے انسان‘‘ پڑھنے کے بعد مجھے خواجہ صاحب کی تخلیقات سے والہانہ لگائو ہو گیا تھا۔ جب میں نے گورکھپور یونیورسٹی سے اردو ادب میں ایم۔اے۔ کر لیا تو میں نے اپنے مشفق استاد سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں ’’خواجہ احمد عباس کی حیات اور کارنامے کے موضوع پر پی ۔ایچ۔ ڈی۔ کے لیے مقالہ لکھنا چاہتا ہوں۔ انھوں نے بڑی خوشی سے یہ موضوع منظور کر لیا۔ اور میں نے ان کی نگرانی میں کام شروع کر دیا۔
بہت پہلے ’’آزاد قلم‘‘ اور ’’نئی دھرتی نئے انسان‘‘ کے افسانوں سے متاثر ہو چکا تھا۔ اب خواجہ صاحب کی اور تخلیقات پڑھنے کا موقعہ ملا۔ جوں جوں خواجہ صاحب کی تحریروں کا مطالعہ بڑھتا گیا، ان کی عظیم شخصیت میرے دل میں گھر کرتی چلی گئی۔ ابھی تک توخواجہ صاحب سے ملاقات ان کی تحریروں کے زریعہ ہوتی تھی لیکن اب یہ خواہش ہوئی کہ ان سے براہ راست ملاقات کی جائے میں نے اپنے نگراں سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ ابھی ان کی تحریروں کا عمیق مطالعہ جاری رکھو۔
اتفاق ہی کہئے کہ اسی دوران یعنی ۱۹۸۳ء کے اوائل میں جب سردی کی شدت ختم ہو رہی تھی ، بستی والوں نے ایک فلمی فنکشن منعقد کیا جس کی صدارت خواجہ احمد عباس صاحب نے کی۔ فنکشن کے دوسرے دن اپنے نگراں کے حکم کے مطا بق خواجہ صاحب سے ملاقات کے لیے بستی پہنچا۔ اس وقت وہ بستی کے ڈاک بنگلے میں قیام پزیر تھے۔ تقریباً صبح کے ۸ بج چکے تھے ڈاک بنگلے کے برآمدے میں دھوپ پھیل چکی تھی۔ ملاقاتیوں کا تانتا بندھا ہوا تھا اس میں میرا ایک اور اضافہ ہو گیا۔ ملاقات کرنے والے حضرات برآمدے میں بیٹھے ہوئے تھے میں بھی وہیں ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد خواجہ صاحب ایک آدمی کا ہاتھ پکڑے اور اپنی چھڑی کے سہارے آہستہ آہستہ باہر نکلے۔ بظاہر ان کی صحت اچھی تھی لیکن پیر سے معذور تھے۔ برآمدے میں ایک آدمی کے سہارے کھڑے ہو گئے اور سب سے مصافحہ کیا اور ایک کرسی پر بیٹھ گئے ۔ مجھ سے مخاطب ہوئے تو میں نے اپنا مدعا بیان کیا اور جتنی ان کی لکھی ہوئی کتابیں پڑھی تھیں ان کی فہرست پیش کی تو انھوں نے اپنی باقی تصنیفات کا اضافہ اپنے قلم سے کر دیا۔ چونکہ اس دن خواجہ صاحب کے پروگرام میں لمبنی کا سفر بھی شامل تھا جو گوتم بدھ کی جائے پیدائش ہے ۔ اس لیے مفصل بات چیت نہیں ہو سکی۔
خواجہ صاحب بمبئی جیسے دور دراز شہر سے شمالی مشرقی علاقے میں آئے تھے اس لیے یہاں کے اہم مقدس مقامات کو دیکھنا چاہتے تھے ۔ لمبنی کے علاوہ وہ کبیر کے مقبرے کی زیارت کے لیے مگہر بھی تشریف لے گئے۔
گورکھپور یونیورسٹی میں خواجہ صاحب نے لکچر دیا جس میں قومی ایکتا کو مزید مستحکم بنانے کے لیے کبیر کے اصولوں پر چلنے کی ہدایت کی گورکھپور ریڈیو اسٹیشن نے خواجہ صاحب کی آمد پر اپنے یہاں ایک انٹرویو کا اہتمام کیا۔ اس انٹرویو میں پروفیسر محمود الٰہی صاحب نے ان سے ایسے ایسے سوالات کئے کہ ان کی زندگی کے سارے گوشے اجاگر ہو گئے۔ خواجہ صاحب جب بستی جانے لگے تو میں بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔ بستی کے لوگوں نے خواجہ صاحب کا بڑا خیر مقدم کیا۔ ہنومان پرشاد جگرؔ صاحب نے ان کی بڑی ضیافت کی اور انھیں اپنے دولت خانے پر لے جانا باعثِ فخر سمجھا۔ بستی انفارمیشن دفتر کی طرف سے ناوابستہ تحریک پر ایک پروگرام منعقد ہواجس میں خواجہ صاحب نے ناوابستہ تحریک کی غرض و غایت پر پُر مغز تقریرکی۔ لوگوں کی فرمائش پر اپنی ایک کہانی ’’تین مائیں ایک بچہ‘‘ بڑے ہی دلچسپ انداز میں سنائی۔ بستی میں تقریباً ایک ہفتے کے قیام کے بعد خواجہ صاحب بمبئی واپس ہوئے اور جب وہ بمبئی پہنچے تو بستی کے متعلق ’’آزاد قلم‘‘ میں اپنے خیال کا اظہار کیا۔
اب تو خواجہ صاحب سے خط و کتابت کا بے تکلف سلسلہ شروع ہوگیا۔ اگر کوئی کتاب نایاب ہوتی اور ان کے پاس ہوتی تو لکھنے پر فوراً ارسا ل فرماتے۔ مقالے کے متعلق خط کا جواب ضرور دیتے ۔ دورانِ تحقیق ایک منزل ایسی آئی کہ خواجہ صاحب سے براہ راست ملاقات کی ضرورت پڑی۔ میں نے ان کے پاس خط لکھا تو انھوں نے فوراً جواب دیا کہ جب آپ کی مرضی ہو آسکتے ہیں۔ ۱۹۸۴ء کے اواخر میں میں نے بمبئی کا سفر کیا تو خواجہ صاحب نے مواد کی فراہمی میں میری مدد کی لیکن ایک حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مصنف کے پاس اس کی لکھی ہوئی زیادہ تر کتابیں نہیں تھیں۔ بہر حال بمبئی کی دوسری لائبریریوں اور بلٹز کے دفتر سے میرے مسائل حل ہو گئے۔ بمبئی میں تقریباً ایک مہینے کا قیام رہا۔ اس دوران میں نے محسوس کیا کہ خواجہ صاحب بالکل تھک چکے ہیں۔ ایک ملاقات میں انھوں نے خود کہا کہ اب میں سوچتا ہوں کہ آرام کروں۔ تب میں نے کہا نہیں جناب آدمی کی زندگی کام کرتے رہنے سے عبارت ہے، اگرآپ لکھنا پڑھنا بند کردیں گے تو اور بوریت ہوگی۔ جینے کے لیے مصروفیت کی ضرورت ہے ۔ اس پر خواجہ صاحب بہت خوش ہوئے ۔ جب میں ان کے پاس سے گورکھپور آنے لگا تو انھوں نے کہا ، گورکھپور پہنچتے ہی خط لکھنا۔ مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھا یاتو بڑے ہی مایوسانہ انداز میں ہاتھ ملاتے ہوئے کہا معاف کرنا بھائی ،یہ لنگڑا آدمی آپ کو دروازے تک بھی نہیں چھوڑ سکتا۔
خیر میں بمبئی سے گورکھپور آگیا اور اپنا کام مکمل کرنے میں مصروف ہو گیا۔ مقالہ جمع کرنے کے بعد خواجہ صاحب کے پاس خط لکھا جس میں تعلیم کے میدان کی حقیقت حال اور اپنے معیار زندگی کے متعلق لکھا تو انھوں نے بڑی اچھی رائے دی کہ آپ جیسا معیار زندگی والے لوگوں کو اونچی تعلیم نہیں حاصل کرنی چاہیے بلکہ ہائی اسکول یا انٹر کے بعد کوئی ہنر سیکھنا چاہیے لیکن آپ دل برداشتہ نہ ہوں محنت کبھی کسی کی رائگاں نہیں جاتی۔
پی ۔ایچ ۔ڈی کی ڈگری ایوارڈ ہونے کے بعد جب میں نے خواجہ صاحب کو خط لکھا تو انھوں نے مبارکباد کا خط لکھا اور بطور انعام سو روپیہ کا منی آرڈر بھی بھیجا۔
ڈگری ملنے کے بعد ہاسٹل خالی کرنا پڑا تو شہر میں رہنے کا پیچیدہ مسئلہ پیش ہوا۔ اسی پریشانی کے عالم میں خواجہ صاحب کو ایک جذباتی خط لکھ دیا۔ خواجہ صاحب پر اس خط کا بڑا اثر ہوا۔ انھوں نے میرا ذکر اپنے مختلف ملنے والوں سے کیا اور میرے لیے اپنے ایک فلمی ساتھی جے۔کے۔صاحب کے یہاں گنجائش پیدا کرلی۔ رہنے کی جگہ اور پانچ سو روپیہ ماہانہ پر بات طے ہوئی۔ خواجہ صاحب نے فوراً میرے پاس خط لکھا کہ میں کرایہ بھیج رہا ہوں اور آپ بمبئی چلے آئیے۔ میں نے شکریہ کے ساتھ بمبئی پہنچنے کا خط لکھا اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ آپ نے بمبئی جیسے شہر میں قیام و طعام کا انتظام کر دیا یہی کیا کم ہے۔ اور جناب میں عمر کے اس دور سے گذر رہا ہوں کہ مجھے آپ جیسے بزرگوں کی خودخدمت کرنی چاہیے۔ اس لیے کرایہ بھیجنے کی زحمت نہ کیجئے گا ۔ میں جلد ہی بمبئی پہنچ رہا ہوں۔ پورے عزم و حوصلہ کے ساتھ میں بمبئی پہنچ گیا۔ خواجہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آداب کیا ۔ اس وقت وہ بیٹھے ہوئے کچھ لکھ رہے تھے ۔ فوراً مجھ سے پوچھا چائے پیئں گے یا کافی! میں نے کہا چائے۔
تھوڑی دیر میں چائے آگئی۔ جب میں چائے پی رہا تھا تبھی میرے لیے جے۔کے۔صاحب کے پاس خط لکھا اور جب میں چائے پی چکا تو فوراً ایک کاغذ پر منزل پر پہنچنے کا نقشہ بنا دیا ۔ نقشے کے سہارے میں جے۔کے۔صاحب کے فلیٹ پر پہنچ گیا۔ اتفاق سے اس دن ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔ دوسرے دن ذرا دیر سے خواجہ صاحب کے پاس پہنچاتو لگے ڈانٹنے ۔ میرا تو برا حال تھا اور خواجہ صاحب ڈانٹے چلے جا رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’بمبئی تیز رفتا شہر ہے ۔ آپ اپنی دیہاتی معصومیت چھوڑدیجئے ورنہ بھوں کوں مرجائو گے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں لنگڑا او اندھا آدمی آج ہوں کل نہیں۔ میرا کیا بھروسہ‘‘۔ میں فوراً وہاں سے اٹھ کر جے۔کے۔صاحب کے پاس گیا اور اس دن ملاقات ہوگئی۔ جے۔کے۔صاحب بڑے ہی خوش اخلاقی سے پیش آئے لیکن بعض وجوہ سے انھوں نے میرے متعلق خواجہ صاحب سے جو وعدہ کیا تھا اس کے ایفا سے معذور تھے۔ اس سے خواجہ صاحب بہت فکر مند ہوئے۔ دو ہفتہ بعد خود انھوں نے اپنے فلم پروڈکشن میں میرے لیے کانٹی نیوٹی لکھنے کی جگہ نکال لی۔
اب میں خواجہ صاحب سے اور قریب ہو گیا ۔ مہینے میں چار پانچ دن شوٹنگ کا کام ہوتا جس میں کانٹی نیوٹی لکھنا ہوتا تھا۔ باقی اور دنوں میں خواجہ صاحب یا تو کسی فلم کا مکالمہ ڈکٹیٹ کرتے یا اپنی فلم ’’ایک آدمی ‘‘ کے مکالمہ کی کئی کاپیاں نقل کرواتے۔ دوپہر کے کھانا کے بعد جب خواجہ صاحب آرام کرنے کے لیے لیٹتے تو مجھ سے کہتے بھئی آپ نے مجھ پہ مقالہ لکھا ہے وہ پڑھ کر سنائیے ، میری بینائی اتنی کمزور ہو گئی ہے کہ میں پڑھ نہیں سکتا ۔ لہٰذا میں خواجہ صاحب کو مقالہ پڑھ کر سناتا۔ جب کئی دن میں مقالہ پورا سنا دیا تو بہت خوش ہوئے۔ اٹھ بیٹھے اور مجھ سے ہاتھ ملایا ۔ اور مزید یہ بھی کہا کہ میں اس مقالے کو اپنے ٹرسٹ سے چھپوائوں گا۔
شوٹنگ کے دن خواجہ صاحب اس وقت تک کھانا نہیں کھاتے جب تک شوٹنگ ختم نہیں ہو جاتی ۔ اور یونٹ کا ہر فرد کھانے سے فارغ نہیں ہو جاتا ۔ اگر شوٹنگ دن بھر چلتی تو وہ دن بھر کھانا نہیں کھاتے ۔ بس کافی پیا کرتے تھے۔ رات کی شوٹنگ میں وہ رات کی رات جاگتے۔ ہاں میں نے ان کے اندر یہ سب سے بڑی خوبی دیکھی کہ ہر فرد کا برابر خیال کرتے تھے۔ اداکار سے لیکر کیمرہ مین ، کلیپ مین اور میک اپ کرنے والے ان کی نگاہ میں برابر تھے۔ سب خواجہ صاحب سے ہاتھ ملاتے اور بے تکلف باتیں کرتے۔ جیسے شوٹنگ ختم ہوتی اپنے سیکریٹری سے سب کو فوراً کھانا کھانے کا پیسہ دلواتے، اس لیے ہر آدمی خواجہ صاحب کے ساتھ کام کرنے کا خواہش مندرہتا تھا۔
خواجہ صاحب میں کام کرنے کی بے پناہ صلاحیت تھی ۔ ضعیفی اور معذوری کے باوجود جتنا وہ لکھ پڑھ لیتے تھے اتنا کسی اور کے بس کی بات نہیں تھی۔ وہ طلوع آفتاب سے پہلے بیدار ہو تے تھے اور اپنے نوکر کے سہارے صبح ٹہلتے تھے۔ بعد میں انگریزی اردو کے اخبارات پڑھتے۔ ان کے بستر پر اتنے اخبار و رسائل ہوتے تھے کہ مشکل سے بیڈ شیٹ دکھائی دیتی تھی اور خواجہ صاحب ان اخباروں اور رسالوں کے بیچ بیٹھتے ، لکھتے اور سوتے تھے۔ بلٹز کا آزاد قلم اورآخری صفحہ بلا ناغہ لکھتے ، اس کے لیے ہفتہ میں ایک دن مقرر تھا۔ بصارت اتنی کمزور ہو چکی تھی کی کبھی کبھار تو ایک ہی لائن پر دو مرتبہ لکھ دیتے تھے اور اگر کبھی قلم کی سیاہی ختم ہو جاتی تو اس کا بھی احساس نہیں ہوتا لیکن مشق و بصیرت سے ان کا قلم چلتا رہتا ۔ یہ اور بات تھی کہ جو ان کی تحریر نقل کرتا تھا اس کی شامت آجاتی تھی ۔ وحیدا نور صاحب ڈانٹ کی زد میں آجاتے تھے اور اگر وہ موجود نہ ہوتے تو وہ سب مجھے جھیلنا پڑتا۔ جب ان کی تحریر پڑھنے میں ہچکچاہٹ ہوتی تو ڈانٹتے اور زور سے کہتے پڑھو۔ ایک پی۔ایچ ۔ڈی کی طرح پڑھو۔ پی۔ایچ۔ڈی بے چارہ کیا خاک پڑھے جب حروف روشنائی سے بے نیاز ہوں ۔ خواجہ صاحب آزاد قلم کبھی ڈِکٹیٹ کرواتے اور کبھی نقل کرنے کے بعد پڑھواتے۔ اگر روانی کے ساتھ پڑھتا اور کہیں غلطی نہیں ہوتی توبہت خوش ہوتے ۔ جیب سے بیس روپیہ نکال کر دیتے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے کہ پیسے کی جب بھی ضرورت ہو بغیر کسی تکلف کے لے لینا۔ بلٹز ان کا مقصدِ حیات تھا۔ بغیر بلٹز لکھے انھیں چین نہیں آتا تھا۔ بلٹز بمبئی میں جمعرات ہی کو مل جاتا ہے۔ جمعرات کے دن خواجہ صاحب بلٹز کے منتظر رہتے تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ بلٹز دفتر سے جو ملازم آتا تھا وہ اس کے گھنٹی بجانے کی اسٹائل سے آشنا تھے ۔ ایسا کئی بار ہوا ہے کہ بلٹز دفتر سے آیا ہوا ملازم باہر گھنٹی بجاتا ہے اور اندر سے خواجہ صاحب نے یہ کہہ دیا کہ بلٹز آگیا۔ گھنٹی بجانے کی اسٹائل سے وہ ملاقات کرنے والے لوگوں کی دل کی بات اور مقصد گھنٹی کی آواز ہی میں پہچان جاتے تھے۔
مجھ سے اکثر خواجہ صاحب کہتے تھے کہ جب تک آنکھ چشمے سے بے نیاز ہے تب تک خوب پڑھ لو۔ خاص طور سے پنڈت جواہر لال نہرو کی کتاب ’’گلمپز آف دی ورلڈ ہسٹری ‘‘پڑھنے کی ہدایت کی۔ روزانہ وہ جانچ بھی کرتے کہ کتنے صفحات کا مطالعہ ہوا اور کون کون سی چیز معلوم ہوئیں۔ خواجہ صاحب نہرو جی کے طرز تحریر کے گرویدہ تھے۔
خواجہ صاحب ایک سیکولر مزاج کے آدمی تھے۔ عید اور بقرعید کے دن اپنے دوست و احباب کو سیوئیاں کھلاتے اور رکشا بندھن کے دن ان کی بہنیں ان کے ہاتھوں میں راکھی باندھتیں اور لڈو کھلاتیں۔خواجہ صاحب رکشابندھن کا لڈو اسی رغبت سے کھاتے تھے جس رغبت سے سیوئیاں ۔ وہ مذہبی بحث مباحثہ میں کبھی نہیں پڑتے تھے۔ جس مسلم تہذیب میں ان کی پرورش ہوئی تھی وہ تہذیب آخری وقت تک ان میں برقرار تھی ۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ مذہب کے مقلد نہیں تھے انھیں خدا کے وجود میں یقین تھا۔ ایک روز میں حیرت میں پڑگیا جب انھوں نے جون کے مہینہ میں ۷۳برس کی عمر میں روزہ رکھا۔
مجھے خواجہ صاحب کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میں نے ان کی تخلیقات کے مطالعے سے ان کا جو پیکر تیار کیا تھا ہو بہو اس کا عکس ان کے اخلاق و عادات و اطوار اور معمولات زندگی میں دیکھا۔
خواجہ صاحب کے نزدیک اپنے اور پرائے کا تصور نہیں تھا۔ جوبھی ان کے قریب ہوتا تھا وہی ان کا اپنا ہوتا ۔ میں بھی خواجہ صاحب کی شفقت کا مقروض ہوں ۔ میرے لیے انھوں نے بہت کچھ کیا اپنے فلم پروڈکشن میں مجھے کام دیا اور ہر چھوٹی بڑی بات کا باپ کی طرح خیال کیا۔ برسات ہونے لگی تو فوراً چھتری کا انتظام کیا عید کے موقع پر کپڑے کا خیال کیا۔ اپنے دست شفقت سے مجھے عیدی دی ۔ پڑھنے لکھنے کے لیے مختلف لائبریریوں سے رابطہ قائم کروایا۔
خواجہ صاحب مساوات اور انسانیت کے جتنے بڑے پجاری اپنی تحریروں میں تھے ویسے ہی وہ مجھے اپنے کردار اور گفتار میں نظر آئے۔ ان کا دسترخوان وسیع تھا ۔ کھانے کے وقت جو بھی موجود ہوتا بغیر کسی تکلف کے دستر خوان پر بیٹھ جاتا ۔ خواجہ صاحب اس چیز کو بہت پسند کرتے تھے۔ جو بلانے پر جاتا یا کھانا کھا کر اٹھ جاتا اسے ڈانٹتے بھی۔ کھانا کھاتے وقت اپنے باورچی کو ساتھ میں بٹھا کر کھلاتے ۔ اگر وہ اکیلے کھانا کھا لیتے تو انھیں ہضم ہی نہیں ہوتا۔ اس کا مجھے اس وقت احساس ہوا کہ آدمی جتنا ہی عظیم ہوتا ہے اتنا ہی اس کے دل میں ہر آدمی کے لیے جگہ ہوتی ہے۔
خواجہ صاحب کا کھانا نہایت سادہ ہوتا تھا اور مشکل سے دو پھلکے کھاتے تھے اور اگر یہ کہا جاتا کہ اور کھائیے تو کہتے بھائی بہت کام کرنا ہے زیادہ کھانے سے نیند آجائے گی۔ ۷۳ برس کی عمر میں کام کا اتنا خیال تھا ۔ کام کرنا ہی ان کا مقصد حیات تھا۔ اگر کوئی کام کر رہے ہیں اور چائے آگئی ہے تو ٹھنڈی ہو رہی ہے اس کی کوئی پرواہ نہیں بلکہ کام میں اس قدر ڈوب جاتے کہ اکثر وہ ٹھنڈی چائے پیتے۔
خواجہ صاحب اپنے ذاتی کام کے لیے کبھی حکم نہیں صادر کرتے تھے۔ آخری وقت میں جب کہ بڑی حد تک وہ آنکھ اور پائوں سے معذور ہو چکے تھے اپنا کام خود کرنا پسند کرتے تھے۔ مثلاً اگر دروازہ بند ہوتا تو وہ کسی کو دروازہ کھولنے کا حکم صادر نہیں کرتے بلکہ آہستہ آہستہ اٹھتے، اپنی چھڑی ٹٹولتے اور چھڑی سے دروازہ کھولنے کی ناکام کوشش کرتے ۔ قریب جو بھی ہوتا اس جد وجہد کو دیکھ کر دروازہ کھول دیتا۔ خواجہ صاحب اسے شکر گزار آنکھوں سے دیکھنے لگتے ۔ اٹھنے بیٹھنے کی طاقت نہیں تھی مگر قوت ارادی اتنی مضبوط تھی کہ اپنی کوشش سے اٹھ کھڑے ہوتے اور چھڑی کے سہارے چلنے لگتے۔ جو بھی قریب ہوتا بڑھ کر اپنا کندھا پیش کر دیتا اور خواجہ صاحب بخوشی کندھے کا سہارا قبول کر لیتے اور اس کے سہارے سے ڈائننگ ٹیبل اور ڈرائنگ روم میں آکر بیٹھ جاتے ۔ میں نے بھی اپنے کندھے کا سہارا دیا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ خواجہ صاحب کے جنازے کو میں کاندھا نہ دے سکا۔
بڑے آدمی ہر ایک کے ساتھ یکساں حسن سلوک کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔مگر ہر ایک کو ہمیشہ یہ خوش فہمی ہوتی ہے کہ جناب کی نگاہ کرم مجھ پر سب سے زیادہ ہے ، یہی بات خواجہ صاحب میں میں نے دیکھی ۔ جو بھی ان سے زیادہ قریب رہے ان کو یہی گمان رہا کہ محترم سب سے زیادہ مجھے چاہتے ہیں اور خواجہ صاحب کا یہ عالم تھا کہ وہ سب کو برابر چاہتے تھے ۔ ہر کسی کی یہ خواہش تھی کہ خواجہ صاحب ابھی اور جیتے لیکن مشیت ایزوی کا علم کسے ہے؟
خواجہ صاحب جسمانی طورپر آج ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن ان کی ساری روح ان کی تخلیقات میں سمٹ آئی ہے۔ ان کی عہد ساز تخلیقات انسان کے شعور کو بیدار کرتی رہیں گی۔ ایسے لوگ صدیوں میں کہیں پیدا ہوتے ہیں۔ ایسی ہستیوں کے متعلق کہا گیا ہے ؎

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں