Kitabistan a Short Story by Shadab Rashid

Articles

کتابستان

شاداب رشید

35 سال بعد جب دوبارہ اپنے شہراپنے محلے میں قدم رکھا تومحسوس ہوا جیسے سب کچھ بدل گیا ہے ۔
 جب آہستہ آہستہ راستے اور گلیوں سے آنکھیں مانوس ہونے لگیں تو احساس ہوا کہ نہیں کچھ بھی نہیں بدلا ہے صرف لوگ بدل گئے ہیں ۔ پرانے چہروں کی جگہ نئے چہروں نے لے لی ہے۔ سڑکیں اور گلیاں آج بھی ویسی کی ویسی ہی تھیں بلکہ بد سے بدتر ہوچکی تھیں۔ دکانیں بھی کم و بیش ویسی ہی تھیں جیسی کہ آج سے پینتیس سال پہلے تھیں بس فرق صرف اتنا تھا کہ تقریباً ہر دکان چار چار پانچ پانچ فٹ باہر کی جانب نکلی ہوئی تھیں۔ جس کی جتنی گنجایش تھی اتنی باہر ، یہاں تک کہ کچھ دکانیں تو سڑک تک نکل آئی تھیں۔فٹ پاٹھ ندارد اور جو دکانیں اپنی حدود میں تھیں وہاں کی فٹ پاتھوں پر بھی قبضہ ہوچکا تھاجن پر کئی چھوٹے چھوٹے موبائل کے باکڑے، پان بیڑی کی ٹپریاں اور کھانے پینے کے ٹھیلے لگ گئے تھے۔پیدل چلنے والے سڑکوں پر چل رہے تھے اور گاڑیاں ایک دوسرے کو روندتی چلی جارہی تھیں۔ اتنے سالوں میں ایک فرق تو یہ آیا تھا کہ موٹرسائیکل اور گاڑیوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا تھا۔جتنی گاڑیاں اتنے ہی ہارن۔ جس طرح کسی گلی میں ایک کتے کے بھونکتے ہی گلی کے تمام کتے بھونکنا شروع کردیتے ہیںٹھیک اسی طرح ٹرافک سگنل جیسے ہی لال سے ہرا ہوتا ایک ہارن بجتے ہی تمام کی تمام گاڑیوں کے ہارن چیخنے لگتے ہیں۔
اس ماحول کو دیکھ کر مجھ پر ہیبت سی طاری ہونے لگی۔ دل گھبرانے لگا اور میں فوراً گھر لوٹ آیا۔ میری بیوی ہمیشہ میرا چہرہ بڑی آسانی سے پڑھ لیا کرتی تھی، میں اُس سے کبھی کچھ نہیں چھپا پاتا تھا۔ میری شکل دیکھتے ہی پوچھنے لگی، ’’کیا ہوا؟ اتنے پریشان کیوں دکھائی دے رہے ہو؟ طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟‘‘
’’نہیں ، کچھ بھی نہیں۔ ٹھیک ہوں۔ ‘‘
’’تم نے صبح بلڈ پریشر اور ڈائبے ٹیز کی گولیاں کھائی تھیں؟‘‘ اس نے آنکھیں نکالتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں۔ کھائی تھیں۔‘‘
’’پھر اتنے پریشان کیوں ہو۔ اور اتنا پسینہ کیوں آرہا ہے تمھیں؟‘‘
’’کہا نا کچھ نہیں۔ بس تھوڑی تھکان ہوگئی ہے۔ اتنا چلنے کی عادت جو نہیںرہی۔‘‘  میرے جواب پر وہ مطمئن ہوگئی۔ ’’تم سناؤ۔ تمھارا دن کیسا رہا۔ ‘‘
’’مت ہی پوچھوتو اچھا ہے۔ ‘‘
’’کیوں ؟ کیا ہوگیا؟‘‘
’’اوہو ، آپ کے جانے کے بعد میں آپا کے ساتھ بازار چلی گئی۔ وہاں ایک نوجوان لڑکے نے اپنی موٹر سائیکل سے ایک بزرگ کو ٹکر مار دی، یہی نہیں خود کی غلطی مان معافی مانگنے کے بجائے وہ تو اُس چچا کوہی گالیاں دینے لگا۔ مجھے تعجب تو تب ہوا جب میں نے دیکھا کے کسی کو بھی اس جھگڑے میں دلچسپی نہیں ہے۔ ہر کوئی اپنی دھن میں مگن دوڑا چلا جارہا ہے۔ جیسے انسانیت نام کی کوئی چیز ہی نہیں رہی اس شہر میں۔‘‘میں اپنی بیوی کے چہرے پر بھی وہی ہیبت محسوس کرنے لگا جو کچھ دیر پہلے مجھ پر طاری تھی۔ وہ بولے چلے جارہی تھی، ’’آپا بھی کہنے لگی کہ چلو چلو یہ تو روز کا ہے۔ بتاؤ یہ بھی کوئی بات ہوئی، اس سے اچھا تو دبئی تھا۔ مجال ہے جو وہاں اس طرح کی کوئی واردات ہوجائے۔ اور اگر ہو بھی جاتی ہے تو پولیس کے آنے سے پہلے ہی آس پاس موجود لوگ جھگڑے کو نپٹانے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ مگر یہاں۔ ہائے توبہ۔‘‘
میرے اور اُس کے حالات تقریباً تقریباً ایک جیسے لگ رہے تھے۔
’’اوہو ، آپ خالی ہاتھ آئے ہیں کیا؟‘‘ اچانک بیوی کے سوال پر میں چونک پڑا۔
’’ہوں، ہاں ہاں۔‘‘
’’کیوں؟ آپ تو کتابستان گئے تھے نا؟ خالی ہاتھ لوٹ آئے۔ کوئی کتاب نہیں لائے ساتھ میں ۔ تعجب ہے!‘‘
’’ نہیں ۔ میں وہاں گیا ہی نہیں۔ دراصل میرا ایک پرانا دوست مل گیا تھا راستے میں ، اس کے ساتھ چائے پینے اور باتیں کرنے میں اتنا وقت گزر گیا کہ پتا ہی نہیں چلا۔‘‘پتا نہیں کیوں یہ جھوٹ میرے منہ سے اپنے آپ ہی نکل گیا، شاید میں نہیں چاہتاتھا کہ جن حالات سے وہ ابھی ابھی دو چار ہوئی ہے میں بھی اپنی پریشانی بتا کر اُسے دگنا کردوں۔
’’خیر ، اچھا ہے۔ میں تو سوچ رہی تھی کہ واپس لوٹتے ہی تم پھر سے پسارے جمع کرنا شروع کردوگے۔‘‘وہ مجھ پر ایک طنزیہ مسکراہٹ پھیکتی کمرے میں چلی گئی اور میں ہمیشہ کی طرح غصے کے کڑوے گھونٹ پی کر رہ گیا۔
میری کتابوں کو وہ ہمیشہ ہی ’پسارا‘ کہا کرتی تھی۔ کتابیں جنھیں زندگی کا سرمایہ کہا جاتا ہے ، میرے گھر والے دنیاوی سرمایے کے لیے وہی میری زندگی سے دور کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ میرے دبئی چلے جانے کے بعد اُنھوںنے کتابوں کو آہستہ آہستہ ٹھکانے لگا نا شروع کردیا اور پھر مکمل طور پر دبئی منتقل ہوتے وقت  یہ کہہ کر کہ ’’کہاں اپنے ساتھ لادتے پھروگے‘‘ بچی کھچی کتابوں کو بھی ردّی میں تلوا دیا تھا۔ میں بھی مجبور تھا کہ پتا نہیں دبئی سے کب لوٹنا ہو ساتھ ہی یہ بھی خدشہ تھا کہ پتہ نہیں اب دوبارہ کب واپس آنا ہو، اس بیچ ان کتابوں کا کیا ہوگا!
آج اپنے شہر لوٹتے ہی مجھے کتابستان کی یاد آگئی اور پہلی ہی فرصت میں مَیں نے وہاں کا رُخ کیا مگر اس شہر کی افراتفری دیکھ کروہاں تک جانے کی ہمت ہی ٹوٹ گئی۔ ایک زمانے تک میں نے اپنے اس شوق کو دبائے رکھا تھا۔ اب دوبارہ مجھے موقع ملا ہے اپنا یہ شوق پورا کرنے کا۔ اور میں نے اپنی بیوی کو بھی تنبیہہ کردی ہے کہ اس بار اس کی زبردستی نہیں چلے گی ، میں کتابیں خریدوں گا اور ضرور خریدوں گا۔ آج تو میں خالی ہاتھ لوٹ آیا تھا مگر میرا ارادہ اٹل تھا۔ میں دوبارہ اس محلے میں جاؤں گا ، کتابستان میں جاؤں گا۔
کتابستان۔ اس نام کے ساتھ ہی میں ہمیشہ چالیس پچاس سال پیچھے چلا جاتا تھا۔ کتابستان وہ گلی تھی جہاں دونوں طرف کتابوں کی بے شمار دکانیں تھیں جن میں دکانوں کے باہر فٹ پاتھ تک کتابوں کا ڈھیر لگا ہوتا تھا۔ دکانوں میں کتابیں رکھنے کے کھانوں میں کتابیں ٹھونسی ہوتی تھی ، ٹیبل پر کتابوں کا انبارلگا ہوتا تھا اور تو اور زمین پر بھی کتابوں کے چھوٹے بڑے پہاڑ ہر طرف پھیلے ہوتے تھے۔ کم و بیش ہر دکان کا یہی حال ہوتا تھا۔ یہی نہیں اس گلی کی فٹ پاتھوں پر بھی چھوٹے چھوٹے باکڑے بنے ہوئے تھے جس میں کتابیں، کتابچے، پاکٹ بکس اورکلینڈر بھرے ہوتے تھے۔ وہاں آنے والے ہر خاص و عام کی تشنگی کی کتابیں وہاں موجود تھیں ۔ چاہے وہ ادب ہو یا مذہب، کھانا بنانے کی کتابیں ہوں یا فلمی رسائل ، بچوں کی دنیا ہو یا خواتین کی ڈائجسٹ اور ہر کسی کا پسندیدہ ابن صفی، مانو پوری اردو دنیا ایک گلی میں سمٹ آئی ہو ، ہر طرف صرف کتابیں ہی کتابیں۔ اسی لیے اس گلی کا نام ہی ’کتابستان‘ پڑ گیا تھا۔
اسکول جانے کےلیے مجھے اسی گلی سے گزرنا پڑتا تھا۔ پہلے پہل بچوں کی کتابیں پڑھنے کا شوق چرایا پھر آہستہ آہستہ کتابیں خریدنے کے لیے میں اپنے جیب خرچ سے پیسے بچا نے لگا۔ شروعاتی دور میں ’کھلونا‘، ’پیام تعلیم‘ ’نونہال‘  وغیرہ رسائل اور بچوں کی کتابیں میری پسندیدہ تھیں ۔ ایک بار ایک دکان کے باہر دکان سے لے کر سڑک تک پھیلی لمبی قطار دیکھ کر میں تعجب میں پڑگیا ، پوچھنے پر پتا چلا کہ ابن صفی کا نیا ناول ’ڈیڑھ متوالے‘ آج بازار میں آنے والا ہے جسے خریدنے کے لیے یہ قطار لگی ہے۔ میں اُس وقت تک ابن صفی سے ناواقف تھا۔ اتنی لمبی قطار دیکھ کر میرے اندر بھی اسے پڑھنے کا جوش ٹھاٹھے مارنے لگا۔ سڑک کے دوسری جانب  ایک باکڑا ایسا بھی تھا جو پڑھنے کے لیے کتابیں کرایے پر دیا کرتا تھا ، جس میں زیادہ تر ابن صفی، خواتین ڈائجسٹ اور پاکستانی رومانی ناول ہوا کرتے تھے۔ میں اُسی دن اُس باکڑے سے ابن صفی کا ایک پُرانا ناول کرایے پر لے آیا۔ آہا، کیا مصنف تھا وہ بھی، ایک بار جو ناول شروع کیا تو پھر ختم کرے بنا اُٹھنا مُحال تھا۔ چسکا اتنا تھا کہ جب دیکھو میں ابن صفی کی جاسوسی دنیا میں ہی کھویا رہنے لگا،اور جب کبھی گھر والوں کی ڈانٹ پڑتی تو اسکول کی کتابوں میں چھپا کر پڑھنے لگتا۔وہ دن ہے اور آج کا دن ہم اس سے پیچھا چھڑا ہی نا سکے۔ دبئی میں بھی ہمارے ایک خیرخواہ نے ابن صفی کے تمام ناولوں کی PDF فائل مہیا کرادی تھی، یہ الگ بات ہے جو مزہ کتاب ہاتھ میں لے کر پڑھنے میں ہے وہ PDF  میں کہاں۔ ابن صفی کی کتابیں کرائے پر لے کر پڑھنے کا سلسلہ یونہی جارہی رہا لیکن پڑھنے کے بعد اُن کتابوں کولوٹاتے وقت دل میں ایک عجیب سی بے چینی محسوس ہوتی ، اس لیے آہستہ آہستہ جیب خرچ کی رقم بچوں کی کتابوں کے بجائے ابن صفی کی کتابیں خریدنے پر صَرف کرنے لگا۔ آہستہ آہستہ یہ شوق جنون میں تبدیل ہوگیا اور پھر پیسے نہ ہونے کی صورت میں مَیں اپنے والد کی جیب سے پیسے چراکر کتابیں خریدنے لگا۔مُلّا کی دوڑ مسجد تک کے مصداق میں بھی چرائے ہوئے پیسےصرف کتابیں خریدنے پر ہی صَرف کرتا اس لیے پیسے چرانے کا کبھی پچھتاوا نہ ہوا۔
کتابستان کے بیچوں بیچ ایک دکان ایسی بھی تھی جس کے باہر مہینے کے آخر ی دنوں میں شامیانے باندھے جاتے، کرسیاں ٹیبل لگائے جاتے۔ جب پہلی بار میں نے یہ منظر دیکھا تو لگا شاید کسی کی شادی ہوگی لیکن جب اصلیت پتہ چلی تو میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ دراصل وہ دکان جس کا نام تو اب مجھے یاد نہیں ہےاس گلی کی سب سے قدیم اور بڑی دکانوں میں سے ایک تھی، جس کے پاس نہ صرف ہندستان کی بلکہ پاکستان کی کتابیں بھی آیا کرتی تھیں۔ ہندستان اور پاکستان سے شائع ہونے والے تمام بڑے اخبارات و رسائل بھی وہاں دستیاب تھے۔ ماہنامہ رسالوں میں شائع ہونے والے معموں کی آخری تاریخوں میں اس دکان کی فٹ پاتھ پر شامیانے باندھ کر ، کرسیاں ٹیبل لگا دی جاتی تھیں ۔ شوقین لوگ اس شامیانے میں بیٹھ کر معمہ بھرنے کی آخری تاریخوں میں اپنے اپنے حل اسی دکان میں جمع کراتے تھے۔ شامیانے میں کرسیوں پر معمے بھرتے لوگ، دکان کے سامنے لگے ٹیبل پر اپنے اپنے معمے جمع کرانے والوں کی بھیڑ  اور معمہ بھرنے والوں کا دیوانہ پن ،وہاں سے گزرتےہوئے لوگوں کا رُک کر یہ سب دیکھنا کسی تہوار کا سا سماں بنا دیتا تھا۔

بیوی کے ناک بھوں چڑھانے کے باوجود میں دوسرے دن صبح ناشتہ کرتے ہی کتابستان جانے کے لیے گھر سے نکل پڑا۔  پیتنس سال بعد اب راستے پہچاننا کافی مشکل ہوگیا تھا ، اب یہاں اتنے دوست بھی نہیں رہے تھے کہ اُن کا ساتھ حاصل ہوتا ،جو تھوڑے بہت تھے وہ اپنی اپنی نوکریوں پر نکل چکے تھے اور کچھ دوستوں کو تو میرے اس شوق سے ہی الرجی تھی ، یہ الگ بات تھی کہ شام تک اُن کا انتظار کرنا میرے لیے بھی مشکل تھا، میں تو جلد سے جلد کتابستان کے دیدار کرنا چاہتا تھا۔
گلی گلی گھومتے مجھے دو گھنٹے سے زیادہ ہوچکے تھے لیکن اب تک کتابستان کا کوئی پتا نہ چل سکاتھا۔ سڑک پر کھڑے چار پانچ لڑکوں سے میں نے پتہ پوچھنے کی کوشش کی جو اپنے اپنے موبائل میں مصروف تھے، ’’بچوں، کیا تم بتا سکتے ہو کہ کتابستان کہاں ہے؟‘‘
ایک بچہ میری طرف دو سیکنڈ تک حیرت سے دیکھتا رہا پھر بولا،’’ انکل، ہندستان اور پاکستان تو پتا ہے یہ کتابستان کیا کوئی نئی کرکٹ ٹیم ہے کیا؟‘‘ اور سب لڑکے زور زور سے قہقہے لگانے لگے ۔
دوسرے نے کہا، ’’ابے نہیں یار، مجھے تو لگتا ہے شاید آئی پی ایل کی کوئی نئی ٹیم ہوگی ۔‘‘ اور اچانک وہ سب سنجیدہ ہوکر آئی پی ایل کے مسئلے پر گفتگو کرنے لگے۔
 میں کھسیا کرآگے بڑھ گیا۔
بچوں کا رویہ مجھے کافی ناگوار گزرا۔ مجھے اپنے بچپن کے دن اور تربیت دینے والے کتابستان کے وہ تمام لوگ یاد آگئے۔
کتابستان کی وہ دکان یاد آگئی جہاںزیادہ خریدار تو دکھائی نہیں دیتے تھے مگر جب کبھی میں شام کو اس گلی سے گزرتا تو وہاں کھڑے رہنے کی بھی جگہ نہیں ہوتی تھی۔ بہت سے آدمی اور بزرگ حضرات اس دکان میں بیٹھے اور کھڑے دکھائی دیتے۔ وہ سب ایک دوسرے سے باتوں میں مشغول رہتے اور چائے کا دور چلتا رہتا۔ کچھ بڑی عمر کے نوجوان بھی ایک طرف دبکے ان کے باتیں سنتے نظر آتے۔ میں زیادہ تر اسکول سے لوٹتے وقت اس دکان میں جایا کرتا کیونکہ بچوں کے رسائل ، بچوں کی کہانیاں اور ابن صفی کے ناول سب سے پہلے اسی دکان میں آتے تھے۔ ایک بار شام میں کتابستان سے گزرتے وقت میں بھی وہاں کی بھیڑ دیکھ کر دکان کے ایک طرف چپ چاپ کھڑا ہوگیا۔ کسی نے مجھ سے کچھ نہ پوچھا، وہ لوگ کسی بات پر گرما گرم بحث میں لگے ہوئے تھے ، بڑی عمر کے نوجوان مجھ سے آگے کھڑے بڑے احترام کے ساتھ ان کی باتیں سننے میں مصروف تھے۔ دکاندار ایک بڑا سا بہی کھاتہ کھولے اپنے کام میں مشغول تھا مانو اُسے اس بحث کی کوئی پروا ہی نہ ہو یا پھر یہ وہاں کا روز کا معمول ہو۔ وہ لوگ کسی پر لکھے ہوئے ایک مضمون پر بحث کررہے تھے جو شاید ابھی ابھی وہاں بیٹھے ہاتھ میں چھڑی پکڑے ایک مخنی سے بزرگ نے سنایا تھا ، اور جن پر وہ مضمون لکھا گیا تھا ، ایک ہاتھ میں موٹاسا پائپ اور بڑا کالا چشمہ لگائے وہیں موجود تھے۔ وہ بحث تو میری سمجھ سے بالاتر تھی لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے اُن کی گرما گرم بحث میں مزہ آنے لگا۔ پھر تو اس دکان میں جانا میرا تقریباً روز کا معمول ہی بن گیا۔ آہستہ آہستہ میں دکاندار اور دوسرے لوگوں سے مانوس ہونے لگا۔ تب مجھے پتا چلا کہ وہاں بیٹھنے والے زیادہ تر لوگ بڑی بڑی کتابوں کے مصنف تھے جس میں شاعر، افسانہ نگار، ناول نگار، مضمون نویس اورخاکہ نویس وغیرہ تھے۔ کئی لوگ صرف ان لوگوں کو دیکھنے آتے تھے اور بہت سے ادب کے قاری تھے جو اُن کی بحث و مباحثے سننے کے لیے وہاں کا رُخ کرتے۔ میں بھی ادب کے ایسے قاریوں میں شامل ہوگیا۔ بہت جلد بڑی عمر کے نوجوانوں سے دوستی ہوگئی، کم عمر ہونے کے باوجود بھی کبھی کسی نے مجھ سے یہ نہیں کہا کہ میں ان سب باتوں کے لیے بہت چھوٹاہوں بلکہ وہ اُن ادیبوں کے بارے میں مجھے معلومات دیتے وہاں ہونے والے مباحثوں کو مجھے سمجھانے کی کوشش کرتے ۔ ایک دن دکان کے انچارج چچا یوسف نے مجھے سمجھایا کہ ابن صفی تو ٹھیک ہے لیکن اب مجھے ادب بھی پڑھنا چاہیے اور پھر دھیرے دھیرے میں ادب کی دوسری اصناف بھی پڑھنے اور سمجھنے لگا ۔ پھر آہستہ آہستہ وہاں ہونے والی باتیں بھی مجھے کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگیں۔ کئی ادیبوں سے میرا تعارف بھی ہوگیاتھا لیکن پھر بھی میں اُن کے احترام میں ایک طرف دبکا اُن کی باتیں سنا کرتا کبھی اس میں شامل ہونے کی کوشش نہیں کی ، حالانکہ اب بڑی عمر کے نوجوان بھی وقتاً فوقتاً ان بحثوں میں اپنی رائے کا اضافہ کرنے لگے تھے ۔

 میں تھک کر ایک چائے کے ٹھیلے پر بیٹھ گیا۔ میں نے چائے پیتے پیتے ٹھیلے والے سے بھی کتابستان کے بارے میں جاننا چاہا مگر اس نے بھی لاعلمی ظاہر کی۔ ٹھیلے کے بغل کی فٹ پاتھ پر دو شخص کھڑے دبئی کی مشہور ڈش ’شوارما‘ کھارہے تھے۔میں نے جب اُن سے کتابستان کا پتا پوچھا تو وہ ایک دوسرے کا منھ دیکھنے لگے،  میں نے اپنا سوال تھوڑا آسان بنانے کے لیے دوبارہ پوچھا، ’’کتابستان، وہی گلی جہاں بہت ساری کتابوں کی دکانیں ہیں۔‘‘ پہلا شخص کچھ سوچتے ہوئے بڑبڑانے لگا، ’’کتابوں کی دکانیں……‘‘ تبھی دوسرے نے دخل دیتے ہوئے کہا، ’’ارے وہ لائبریری کی تو بات نہیں کررہے جو ای.آر. روڈ پر ہے؟‘‘
’’جی نہیں بھائی، میں کسی لائبریری کی نہیں بہت ساری دکانوں کی بات کررہا ہوں جہاں کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔‘‘میں نے جھنجلاتے ہوئے ان کی تصحیح کی۔
پہلے نے پھر پوچھا’’اچھا وہ تو نہیں جہاں قرآن حدیث کی کتابیں ملتی ہیں؟‘‘  
اب میں خود شرمندگی محسوس کرنے لگا ،بھاگتے بھوت کی لنگوٹی ہی سہی میں نے ہاں میں ہاں ملائی۔ ’’جی ہاں وہی وہی…  کیا آپ جانتے ہیں؟‘‘
’’ہاں کہیں دیکھی تو تھی وہ دکان ، شاید ای.آر. روڈ پر کہیں……‘‘
میں نے ان کا شکریہ ادا کرنے میں ہی عافیت جانی ، اب کسی اور سے پوچھنے کی ہمت ہی نہیں ہورہی تھی۔میں خود ہی ہر گلی میں گھس کر اسے پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔

کالج کے بعد ابّا نے زبردستی مجھے دبئی کمانے کے لیے بھیج دیا تھا، دو سال بعد جب واپس آیا تو یہاں پر میری شادی کی تیاریاں کی جاچکی تھیں ، بس چٹ منگی پٹ بیاہ کر دوبارہ دبئی لوٹ گیا۔ پھر جب ایک سال بعد بمبئی لوٹا تو بیوی اپنا سارا سازو سامان باندھے ساتھ چلنے کے لیے تیار بیٹھی تھی۔ تمام ضروری خریداری (جس میں کتابیں شامل نہیں تھی) کر دوبارہ دبئی جو گیا تو آج اپنا سب کچھ سمیٹ تمام ذمہ داریوں سے دستبردار واپس لوٹا ہوں۔ اتنا پیسہ تو کما ہی چکا ہوں کہ بقیہ زندگی چین سے کٹے گی، اور شاید اب میں اپنے وہ شوق بھی پورے کرسکوں جن کا گلا گھونٹ میں اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی بنانے کے لیے یہ ملک چھوڑ گیا تھا۔
میرا ایسا ہی ایک شوق تھا ، کتابیں! مجھے آج بھی یاد ہے ، جب امّی اسکول شروع ہوتے ہی بازار سے ہمارے لیے نئی کتابیں خرید کر لاتی تو میں سب سے پہلے اُن کتابوں کو کھول کر اُس کی مہک اپنے اندر جذب کرتاتھا۔ ایک عجب سی خوشبو ہوتی تھی اُن کتابوں میں۔ بچوں کی کتابوں اور ابن صفی کے ناولوں میں بھی اُسی طرح کی مہک آتی ۔ میں اکثر کتاب پڑھتے پڑھتے بیچ بیچ میں اُسے سونگھنے لگتا۔ میرے دوست میری اس حرکت پر بہت ہنستے تھے مگر اُنھیں کیا معلوم کہ کتابوں میں نہ صرف ایک کشش ہے بلکہ اس کی مہک میں بھی جادوہے۔ جدید دنیا میں انٹرنیٹ نے کتابوں کی کمی تو پوری کردی ہے لیکن کتابوں سے آنے والی مہک کہاں سے لائیں گےاور تو اور کتابستان میں دکانوں پر لگنے والی قطاروں، شامیانے ، مختلف موضوعات پر ہونے والی گرما گرم بحثوں اور کتابوں کے مصنفوں کوقریب سے دیکھنے ، ملنے کا متبادل شاید ہی کوئی ہو۔ ہاں آج کل فیس بک پر بھی نئےنئے دوست بننے لگے ہیں، بحث و مباحثے ہونے لگے ہیں اور ایک دوسروں کی تخلیقات کی تعریفیں بھی ہونے لگی ہیں لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے وہ جھوٹ اور فریب کی دنیا لگتی ہے جہاں ہر کوئی ایک بٹن دبا کر ایک دوسرے کو خوش کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اب بتائیے بھلا لکھ لکھ کر بھی کوئی بحث کرسکتا ہے ! آدمی لکھتا کچھ ہے ،پڑھنے والا پڑھتا کچھ ہے اور سمجھنے والا کچھ بھی نہیں سمجھ پاتا، بحث کہیں کی کہیں چلی جاتی ہے۔اور ویسے بھی زیادہ تر ادبی بحثیں اب ادبی کم اور مذہبی زیادہ ہوگئی ہیں۔ جسے دیکھو اپنے آپ کو دوسروں سے زیادہ مذہبی ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے۔

 گلی گلی گھومتے ہوئے اچانک ایک گلی میں فٹ پاتھ تک پھیلی ہوئی حلوائی اور نان چاپ کی دو دکانوں کے بیچ مجھے وہی دکان نظر آئی جہاں کبھی ادیبوں کی بیٹھکیں ہوا کرتی تھیں۔ میں حیران تھا کہ یہ دکان یہاں کہاں سے آگئی،یہ دکان تو کتابستان کے بلکل بیچوں بیچ میں تھی!  خیر میں جلدی جلدی جلیبی ،گلاب جامن کے بڑے بڑے تھالوں اور بڑے سے پھیلے ہوئے نان چاپ کے توّوں کے بیچ میں سے گزر کر اس دکان کے دروازے تک پہنچا۔ آس پاس کی دکانوں پر اُمڑی بھیڑ اور نان چاب اور جلیبیوں کے لیے چیختے گراہکوں کے شور شرابے سے بے خبر دکان کے اندر ایک بزرگ اپنے ٹیبل پر ایک بڑا سا بہی کھاتا کھولے اپنے کام میں مصروف تھے۔دکان میں صرف دو ٹیوب لائٹ جل رہی تھیں جو اتنی بڑی دکان کے لیے ناکافی تھی۔ آج بھی وہ دکان ویسی ہی تھی جیسی پینتیس سال پہلے ہوا کرتی تھی۔ بس ایک دو ٹیبل نئے آگئے تھے اورکچھ نئی کتابیں نظر آرہی تھیں۔
میرے دکان میں داخل ہوتے ہی ٹیبل والے چچا نے مجھے ایک نظر دیکھا اور پھر اپنے کا م میں مصروف ہوگئے۔ میں کتابیں دیکھنے لگا، بہت سالوں بعد کسی دکان میں کتابوں کو اتنے قریب سے دیکھ رہا تھا۔ آخر کار میری محنت رنگ لے آئی۔ میں نے ایک لمبی سانس کھینچی، میں چاہتا تھا کہ ابھی اور اسی وقت دکان میں موجود تمام کتابوں کی مہک میرے نتھنوں میں بھرجائے۔
 میں نے کبھی بمبئی سے کتابیں منگوانے کے بارے میں سوچا بھی نہیں، کیا کرتاوقت اور حالات نے مجھے بھی دوسروں کی طرح صرف پیسہ کمانے والی مشین بنادیا تھا۔آج کتابوں کے بیچ ہونے پر مجھے احساس ہوا کہ پیسے کمانے کی دھن میں مَیں کتنا مگن تھا۔ہاں البتہ میرے کچھ پاکستانی دوست اپنے وطن سے وقتاً فوقتاً کتابیں منگوا لیا کرتےتھے۔ اُن کے گھر جاتے ہی میں سب سے پہلے کتابوں کے لیے اِصرار کرتا۔ کتاب ملتے ہی ہمیشہ کی طرح پہلے اُس کی خوشبو اپنے اندر جذب کرتا پھر سرسری طور پر سارے مضامین دیکھ ڈالتا اور اگر بہت ہی اچھی کوئی کتاب ہوتی تو بیوی سے چھپا کر اُن سے مانگ کر گھر لے جاتا اور اگر وہ مجھے دینے میں آناکانی کرتے تو میں ایک آدھ کتابیں چھین کر لے بھی آتا۔ یہی نہیں بچپن میں پیسے چوری کرنے کے ہُنر کو یہاں بھی آزماتا۔ پہلے کتابیں خریدنے کے لیے پیسے چراتاتھا اب کتابیں براہِ راست چرالیا کرتا تھا۔ ضمیر تب بھی مطمئن تھا اور اب بھی ہے۔
مجھے الماری میں لگی کتابیں دیکھتے ہوئے اُن بزرگ نے ایک بار پھر میری طرف دیکھا اور پوچھا، ’’کہیے ، کیا چاہیے آپ کو؟‘‘
’’جی ، دیکھ رہا ہوں۔ کیا ابن صفی کے ناول ہیں آپ کے پاس؟‘‘
’’ہاں، کون سے چاہیے آپ کو؟ عمران سیریز یا فریدی؟‘‘
جواب سن کر میری بانچھیں کھل گئیں کہ آج بھی ابن صفی کے ناول پڑھے جاتے ہیں۔
’’کون کون سے ہیں آپ کے پاس، بتائیے؟‘‘
’’  فلحال تو نہیں ہے، مگر آپ کے آرڈر دینے پر ہم منگوا دیں گے۔‘‘
میں نے اپنے آس پاس کی کتابوں پر نظر ڈالی۔
’’اور منٹو کی کتابیں؟‘‘
’’جی ہاں ، وہ بھی مل جائیں گی۔ مگر آرڈر پر؟‘‘
میں نے تعجب سے پوچھا، ’’تو یہاں آپ کے پاس اس وقت کون سی کتاب موجود ہے؟‘‘
’’یہ سب ہیں نا، دیکھیے ان میں سے آپ کو کیا چاہیے؟‘‘
وہاں لگی تقریباً تمام کتابیں نئے نئے مصنفوں کی تھیں جن کے نام بھی میں نے نہیں سننے تھے، اس لیے انتخاب کرنا تھوڑا مشکل ہورہا تھا ۔
’’جناب یہاں چچا یوسف ہوا کرتے تھے، وہ اب کہاں ہیں؟‘‘
’’کون ، یوسف بھائی؟ اوہو اُن کا تو ابھی حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ ویسے بھی وہ کئی سال پہلے نوکری چھوڑ چکے تھے۔ اُن کی عمر جو زیادہ ہوچکی تھی۔ اب پچھلے چار سالوں سے میں ہی یہاں کا انچارج ہوں۔‘‘
چچا یوسف کے انتقال کی خبر سن کر افسوس ہوا۔ جب بھی میں کتابیں خریدنے آتا تھا وہ بنا بولے مجھے کتابوں پر رعایت دے دیا کرتے تھے اور ساتھ ہی یہ ہدایت بھی دیتے تھے کہ ’’برخوردار ، تمھیں خاص رعایت دے رہاہوں، اسے ضرور پڑھنا۔صرف خرید کر رکھ نہیں دینا۔‘‘ مجھے ان کی یہ بات آج تک یاد ہے۔
’’اچھا بھائی صاحب، ایک بات اور پوچھنی تھی؟‘‘
’’پوچھیے حضرت۔‘‘
’’یہاں اور بھی دکانیں ہوا کرتی تھیں، اب صرف یہ دکان دکھائی دے رہی ہے؟ باقی دکانوں کا کیا ہوا؟‘‘
’’کیا کہیں جناب، اب لوگوں میں کتابیں پڑھنے کا شوق ہی کہاں رہا! جسے دیکھیے بس موبائیل میں مصروف ہے ۔اب تو کتابیں بھی موبائیل پر آگئی ہیں۔‘‘
یہ وہ سچائی تھی جس سے منہ نہیں موڑا جاسکتا تھا،خیر میںنے بڑے میاںسے اپنی پریشانی کا ذکر کیا:
’’ مجھے اس گلی کا پتا ڈھونڈنے میں بھی کافی دقت ہوئی ۔ دراصل میں اس شہر میں پینتیس سالوں بعد جو لوٹا ہوں۔‘‘
’’ یہ کون سا مشکل کام تھا جناب، آپ کسی سے بھی ای . آر. روڈ پوچھتے ،تو کوئی بھی بتا دیتا۔‘‘
’’وہ بھی مجھے کہاں یاد تھا، میں تو اس گلی کو ایک ہی نام سے جانتا ہوں، کتابستان! میں کل سے یہ جاننے کی کوشش میں لگا تھا کہ کتابستان کہاں ہے، مگر کوئی بتا ہی نہیں سکا ۔‘‘
’’کیا!  تو آپ ’کتابستان‘ ڈھونڈ رہ تھے!؟‘‘
’’جی ہاں!کیوں کیا ہوا؟‘‘
میرے جواب پر بڑے میاں بہت زور زور سے ہنسنے لگے ۔ہنستے ہنستے اُنھوں نے کہا، ’’اب اس گلی کا نام کتابستان نہیں رہا جناب!  آپ کو چاہیے تھا کہ آپ ’کھاؤ گلی کاپتہ پوچھتے، کھاؤ گلی۔ اب اس گلی کو پورا شہر ’کھاؤگلی‘ کے نام سے جانتا ہے۔‘‘ میں چند منٹوں تک حیرت سے اُنھیں دیکھتا رہا۔
پھر اپنے آس پاس کی کتابوں کا معائنہ کرنے لگا۔ ایک پُرانی کتاب پر نظر پڑتے ہی میں نے اُسے فوراً اُٹھا کر اُسے بیچ میں سے کھول کر اُس پُرانی کتاب کی مہک اپنے اندر جذب کرنے لگا لیکن میرے نتھنے اُس کتاب کی مہک کے بجائے جلیبی، گلاب جامن، چکن، نان چاپ ، سیخ کباب اور پتا نہیں کن کن پکوانوں کی خوشبوؤں سے بھرگئے ۔