Kuch Bologe Nahi a Short Story by Anwar Mirza

Articles

کچھ بولو گے نہیں!

انور مِرزا

صبح آنکھ کھُلتی. ..تو بس اِسی فِکر کےساتھ
کہ گیارہ بجے سے پہلے آفس پہنچنا ہے
یعنی وقت کے مقابلے انسان کی وہی دوڑ…
جو صدیوں سے چل رہی ہے…
زندگی کی سڑک پر
وقت ہمیشہ آگے بھاگتا نظر آتا ہے …
اورانسان تو بس، پیچھے سے لپکتا ہوا آ کر…
وقت کے ساتھ بھاگنے کی کوشش کرتا ہے …
میَں بھی اِسی کوشش میں صبح بِستر سے نکلتا…
آنکھوں کے فریم میں …پہلی تصویر فیڈ اِن ہوتی،بیوی کی…
ڈرتے ڈرتےاُس کے چہرے پر زوم اِن کرتا…
اندازہ لگانے کی کوشش کرتا… کہ آج آفس جا سکتا ہوں…یا
اُسے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی نوبت آئے گی…
فیس ریڈنگ کے میرے ہُنر سے بیوی واقف تھی…
میرے ڈر سے بھی انجان نہیں تھی…مُسکرا پڑتی…
جیسے جتانا چاہتی ہوکہ…میَں ٹھیک ہوں! تم جاؤ…
در اصل ،فیس ریڈنگ میں وہ مجھ سے زیادہ ماہر تھی…
میَں اپنی ہوشیاری میں رہتا تھا… اور وہ اپنی کلاکاری میں…
مگر یہ خود فریبی اب میری ضرورت بن چکی تھی…
میَں بظاہر مطمئن ہو کر کمپیوٹر آن کردیتا…
وہ سمجھ جاتی کہ اب آفس کیلئے نکلنے سے پہلے…
میَں اُ س سے کوئی بات نہیں کروں گا…
میرے فریش ہونے تک چائے آجاتی…
وہ نہیں جانتی تھی کہ میَں چائے اور بریڈ، بٹر کے ذائقے سے بھی
اندازہ لگا سکتا ہوں… کہ اُس کی طبیعت کتنی اچھّی یا کتنی خراب ہے!
چائے پیتے ہوئے میَں آن لائن انگریزی اخبار پڑھ لیتا…
وہ بھی خاموشی سے چائے پیتے ہوئے میرا چہرہ پڑھتی رہتی…
جیسے انگریزی اخبار کا اُردو ٹرانسلیشن
میرے چہرے پر لکھا ہوانظر آ رہا ہو…!
جب میَں ہر طرح سے تیار ہو جاتا …
تو وہ فریج سے ٹھنڈے پانی کی بوتل لا کر دیتی…
میَں بوتل اپنے شولڈر بیگ میں رکھتا…
یہ وہ لمحہ ہوتا…جب وہ بہت پُر امید ہوتی…
کہ شاید اب میَں اُس سے کچھ کہوں گا…
پتہ نہیں کیا، شاید کچھ بھی…بے معنی سا کوئی جملہ…
یا شاید صرف میری آواز…میَں کبھی سمجھ نہیں سکا…
کہ عارضی جدائی کے اِن لمحوں میں…وہ کیا سُننا چاہتی تھی…
شاید کچھ برسوں سے…یا شاید صدیوں سے…
اُس کی ایک ایک حرکت سے ایسا لگتا…
جیسے خاموشی کی زبان سےپوچھ رہی ہو…
کچھ بولوگے نہیں…!
اور میَں بس اتنا ہی بولتا…’ آتا ہوں… آفس جا کر… ‘
اُس لمحے کی, اُس کی آخری اُمّید بھی دم توڑ دیتی…
مگر اُس کی مسکراہٹ کہتی… میَں انتظار کروں گی…
پھر محض چند سیکنڈز کیلئے ہم ایسے بغل گیرہوتے…
کہ درمیان میں ایک محتاط فاصلہ رہتا…
دروازے پر پہنچ کر میَں اُس کا چہرہ…
نظروں کے فریم میں ایڈجسٹ کرتا… اور باہر نکل جاتا…
مگر اُس دن… اخبار پڑھنے کے بعد…
میَں جلدی جلدی ایک اسکرپٹ فائنل کرنے لگا…
تاکہ کل تک اکاؤنٹ میں کچھ پیسے آجائیں…
اِس درمیان انتظار کرتے کرتے…
وہ پلنگ پر دراز ہوئی… اور اُس کی آنکھ لگ گئی…
جب میَں آفس جانے کیلئے اُٹھا…
تو اُسے سوتا دیکھ کر تذبذب میں پڑ گیا…
اُسے جگاؤں… یا نہ جگاؤں… ؟
جب تک وہ سوتی رہتی… تب تک بیمار نہیں لگتی تھی…
ایک بار تو جی میں آیاکہ اُس کی راحت میں خلل نہ ڈالوں…
لیکن پھر خیال آیا کہ آنکھ کھُلنے پر…
میری غیر موجود گی سے وہ بہت افسردہ ہوگی…
میَں نے اُسے جگانے کیلئے بہت آہستگی سے…
اُس کے شانے پر ہاتھ رکھا…
اُس نے فوراً ایسے آنکھیں کھول دیں…
جیسے اِسی انتظار میں تھی… اُٹھنے کی کوشش کرنے لگی…
میَں نے منع کیا… وہ مان گئی…
میَں نے اُس کا چہرہ اپنی آنکھوں میں کمپوز کیا… اور…
’آتا ہوں!‘ … کہہ کر آفس کیلئے نکل گیا…
آٹو رکشہ… ٹرین… اور بس نے مجھے آفس پہنچایا…
دو چار نئے گانے… آڈیو… ویڈیو… یوٹیوب…
ایڈیٹنگ…مِکسِنگ… اپ لوڈنگ… لنچ ٹائم…
گھرسے اُس کا فون آیا… پوچھنے لگی…
کیا کمپیوٹر پر تمہاری کوئی فلم ڈاؤن لوڈ ہو رہی ہے؟
میَں نے کہا نہیں! لیکن ڈِش ٹی وی پر لائیو کرکٹ ریکارڈ ہوگا…
اُس نے چند لمحوں انتظار کیا… کہ شاید میَں کوئی اور بات کروں…
آخرپھر خود ہی ’اچھا‘ کہہ کر فون رکھ دیا…
میَں نے لنچ ٹیبل سے اُٹھتے ہوئے سوچا…
کم از کم مجھے اتنا تو پوچھ ہی لیناچاہئیے تھا …
کہ اُس نے کھانا کھا لیا یا نہیں… !
دو گھنٹے بعد پھر فون آیا… مگر یہ فون اُس کا نہیں تھا…
اُس کےبارے میں تھا…
بچّوں نے مجھے فوراً گھر آنے کیلئے کہا…
پتہ نہیں بچّوں کی آواز میں میَں نے ایسا کون سا منظر دیکھ لیا…
کہ کسی سے کچھ کہے بِنا آفس سے نِکل گیا…
میَں فاسٹ فارورڈ میں گھر پہنچ جانا چاہتا تھا…
لیکن اِس دوران پھر بچّوں کا فون آگیا…
اب مجھے گھر نہیں… اسپتال پہنچنا تھا… مجھے جلدی تھی…
مگر آٹو رکشہ جیسے سلو موشن میں اسپتال کی طرف بڑھ رہا تھا…
ذہن میں زندگی کا فلیش بیک چلنے لگا…
وہ آج پہلی بار اسپتال نہیں گئى ہے…
وہ ٹی بی کو شکست دے چکی ہے…
استھما کو حیرت زدہ کر چکی ہے…
آج بھی واپس آ جائے گی… اور آج…ہاں! آج…
آج… میں اُس سے پوچھ ہی لُوں گا
کہ وہ‌ مجھ سے کیا کہنا…یا کیا سننا چاہتی ہے…
اور اچانک’ فلیش کٹ ‘ میں شادی کی پہلی سالگرہ کی
ایک بات یاد کرکے مجھے اور آٹو رکشہ کو ایک ساتھ جھٹکا لگا…
میرے اسپتال پہنچتے ہی…بچے مجھ سے لپٹ کر رونے لگے…
’کچھ نہیں ہوگا!…میَں ہوں نا…‘میں دِلاسہ دے کر آگے بڑھا…
وہ بیڈ پر اُسی طرح لیٹی تھی…جیسے آج صبح گھر پر…
میَں نے اُسے جگانے کیلئے بہت آہستگی سے…
اُس کے شانے پر ہاتھ رکھا…
لیکن اس نے آنکھیں نہیں کھولیں…
میں نے اسے آواز دی…
ایک بار…دو بار…تین بار…
’’اٹھو…! دیکھو…!! میں آگیا ہوں…‘‘
’’چلو گھر چلو…! مجھے یاد آگیا ہے…
کہ تم برسوں سے کیاسننا چاہ‌ رہی ہو…‘‘
’’ہاں…میں تمہیں اپنی جان سے زیادہ چاہتاہوں…‘‘
’’بہت پیار کرتا ہوں تم سے…‘‘
’’بہت محبت کرتاہوں…آئی لو یو…!‘‘
بچے دھاڑیں مار کر روتے ہوئے…پھر مجھ سے لپٹ گئے …
ڈاکٹر نے وہ ایک لفظ کہہ دیا…
جس کے بعد ہر امید دم توڑ دیتی ہے…
وہ جا چکی تھی…!
میَں نے اُس کا بے جان چہرہ غور سے دیکھا…
زندگی میں پہلی بار احساس ہوا …
کہ چہرے کا نُور کِسے کہتے ہیں…
وہ ڈائی بیٹیز کی گرفت میں تھی…
خالی پیٹ کے سبب اسٹروک آگیاتھا…
ایک اسٹروک میرے ذہن میں بجلی کی طرح کوندا…
کم از کم مجھے اتنا تو پوچھ ہی لیناچاہئیے تھا …
کہ اُس نے کھانا کھا لیا یا نہیں… !
اگر پوچھ لیتا …تو… شاید…شاید!
میری نم آنکھوں میں اُس کا بھیگا ہواچہرہ کمپوز ہوا…
’کچھ بولو گے نہیں…!‘
——————————————–
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔