Majrooh and Progressive Movement by Farooqui

Articles

مجروحؔ سلطان پوری اور ترقی پسند تحریک

شمس الرحمٰن فاروقی

مجروحؔ سلطان پوری اس بات سے متفق نہ ہونگے ،لیکن واقعہ یہ ہے کہ ترقی پسند تحریک سے منسلک ہونے کی وجہ سے انھیں جو شہرت اور عزت ملی اس کی قیمت سے بہت زیادہ قدر و قیمت کے حامل شعر کہہ کر انھوں نے خود ترقی پسند غزل کی توقیر بڑھائی۔بہ الفاظ دیگر مجروحؔ سلطان پوری کی عزت ترقی پسند تحریک کے باعث نہیں بلکہ ترقی پسند تحریک کا اعتبار مجروحؔ جیسے شعراء کے باعث تھا۔دوسری بات یہ بھی ہے کہ ترقی پسند نظریے پر ان کے عقیدئہ راسخہ اور اس کے رہنمائوں سے ان کی عقیدتِ شدیدہ نے اشعار بھی ان سے کہلائے جو ترقی پسند غزل کی بدنامی اور خود ان کے شاعرانہ مرتبے میں تخفیف کا سبب بنے۔یعنی ترقی پسندی سے وفاداری کی بنا پر ان کا نقصان دونوں طرف سے ہوا۔جیل جانا یا نوکری سے برطرفی بھی نقصانات ہیں،(اور مجروحؔ جیل گئے بھی)لیکن یہ نقصانات شعر کی زندگی کے مقابلے میں چند روزہ ہیں۔ترقی پسند صاحبان فیضؔ کا ذکر کرتے ہیں تو ان کے جیل جانے کی بات ضرور کرتے ہیں ،کہ فیضؔ صاحب نے اپنے آدرشوں اور اصولوں کی خاطر قید کی صعوبت بھی اٹھائی۔حالانکہ واقعہ یہ ہے سزا ئے قید نے فیضؔ کی شہرت میں غیر معمولی اضافہ کیا ۔اچھے شاعر تو وہ بہرحال تھے،لیکن جیل ان کو اور اس طرح ان کی شاعری کو ،ترقی پسندی کا اسطور بنا دیا۔اس کی ایک وجہ غالباً یہ بھی تھی کہ فیضؔ صاحب چاہے جتنے بڑے انقلابی ترقی پسند رہے ہوں ،لیکن شاعری کے معاملے میں خاصے محتاط تھے۔ انھوں نے برہنہ حرف نہ گفتن کے اصول پر بیش از بیش عمل کیا۔مجروحؔ صاحب تو ہٹلر کے چیلوں کو دوڑا کر مارنے اور حسن کو کارخانے میں ڈھال کر اسے موٹر سائیکل(یا شاید سائیکل ) قسم کی چیز قرار دینے کے لیے بدنامی بٹورتے رہے اور ان کے اچھے اشعار دوسروں کے لیے شہرت کے شہپر بنتے رہے۔ غنی کاشمیری؎
یاراں برد نہ شعر مارا ٭ افسوس کہ نام ما نہ بردند
میں اپنے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ مجروحؔ کے یہ اشعار میں نے لڑکپن میں شکیلؔ بدایونی کے نام سے سنے تھے ۔عرصہ دراز کے بعد میں نے ان کا مجموعہ(یا انتخاب) دیکھا تو حقیقت آشکار ہوئی۔؎
یہ رکے رکے سے آنسو یہ دبی دبی سی آہیں
یوں ہی کب تلک خدایا غمِ زندگی نباہیں

کبھی جادئہ طلب سے جو پھرہوں دل شکستہ
تری آرزو نے ہنس کر وہیں ڈال دی ہیں باہیں
یہ شعر بہت اعلی پائے کے نہیں ہیں(ان دنوں البتہ بہت اچھے لگتے تھے اور اتنے برس بعد آج بھی یاد ہیں) لیکن ان کا لہجہ بہر حال جگرؔ ،فراقؔ اور حسرتؔ موہانی کی غزل سے بہت مختلف ہے۔ان دنوں ہم لوگ بھی کچھ پڑھے لکھے نہ تھے ،افسوس تو ان پڑ ھے لکھوںپر ہوتا ہے جنھوں نے ؎
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
ستونِ دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے
جیسے اشعار کا سہرا فیضؔ کے سر باندھ دیا اور یہ بھی نہ دیکھا کہ ان شعروں کا آہنگ اور کیفیت فیضؔ کے رنگ سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے۔اس طرہ یہ کہ مجروحؔ کی طرف سے احتجاج ہوا تو تو لوگ خفا ہوئے کہ بھلا یہ کیا بات ہوئی،شعر تو مشہور ہوگئے کسی بھی نام سے سہی۔مجروحؔ نے اپنے بارے میں خوب کہا ہے کہ’’چپ رہوں تو معضوب اور بولوں تو مغضوب ہوں‘‘۔
اسی طرح میں اس بات کا بھی گواہ ہو کہ میری عمر کے لوگوں نے مجروحؔ سلطان پوری کو ترقی پسند تحریک کے حوالے سے نہیں ،جگرؔ صاحب کے بھی حوالے سے نہیں ،محض شاعری کے حوالے سے جانا۔’’ گائے جا پپیہے گائے جا‘‘بڑی شاعری نہ سہی لیکن اس نظم میں ہم نوبارگانِ شعر کو لطف آتا تھا وہ جوش کے گاڑھے لہجے اور احسان دانش(ان دنوں احسان بن دانش) کے مزدور کی بیٹی میں نہ تھا۔اور جب فیضؔ کا نام میرے کانوں میں پڑا ،اور احتشام حسین کا تعریفی ذکر میں نے اپنے والد مرحوم سے سنا(یہ بات ۱۹۴۸ء کی ہے) تو اس سے مجروحؔ کی جگہ میرے دل میں کم نہ ہوئی ۔ لیکن وہ اس قدر کم گو اور کم نما تھے کہ فیضؔ، سردار جعفری،جذبیؔ اور دوسرے ترقی پسند شعراء کے غلبے میں گھرے ہوئے مجروحؔ ہم نوجوانوں کو بہت کم نظر آتے تھے۔میرؔ کا شعر یاد آیا؎
وہ کم نما ء دل ہے شائق کمال اس کا
جو کوئی اس کو چاہے ظاہر ہے حال اس کا
یہاں یہ بات بھی ظاہر کردوں کہ ترقی پسندوں میں سردار جعفری میرؔ شناسی کے لیے مشہور ہیں اور بجا مشہور ہیں۔ لیکن مجروحؔ سلطان پوری کو بھی میرؔ سے سچا اور گیرا شغف ہے اور وہ میرؔ کا کلام سمجھتے بھی خوب ہیں۔میرؔ کو جذب کیے بغیر مجروحؔ سلطان پوری اس طرح کے شعر نہیں کہہ سکتے تھے۔؎
وہ تو گیا یہ دیدئہ خوں بار دیکھئے
دامن پہ رنگِ پیرہنِ یار دیکھئے
اسیرِ بندِ زمانہ ہوں صاحبانِ چمن
مری طرف سے گلوں کو بہت دعاء کہئے
خنجر کی طرح بوئے سمن تیز بہت ہے
موسم کی ہوا اب کے جنوں خیز بہت ہے
اپنی اپنی ہمت ہے اپنا اپنا دل مجروحؔ
زندگی بھی ارزاں ہے موت بھی فراواں ہے
مجرحؔ کی بہترین غزلوں میں کلاسیکی غزل کی تمکنت اور آہنگ کی بلندی ہے۔آہنگ کی بلندی سے میری مراد خطابانہ یا وعظانہ انداز نہیں،بلکہ زبان کی وہ موسیقیاتی صفت ہے تجریدی سطح پر جس کی مثال روی شنکر کے ستار یا فیاض خاں کی آواز کے جوار بھاٹے اور گونج میں دیکھی جا سکتی ہے۔
آہی جائے گی سحر مطلع امکاں تو کھلا
نہ سہی باب قفس روزن ِزنداں تو کھلا
سیلِ رنگ آہی رہے گا مگراے کشت چمن
ضرب موسم تو پڑی بند بہاراں تو کھلا
دل تلک پہنچے نہ پہنچے مگر اے چشم حیات
بعد مدّت کے ترا پنجہ مژگاں تو کھلا
پھر آئی فصل کہ مانند برگ آوارہ
ہمارے نام گلوں کے مراسلات چلے
اس پر باقر ہروی کا شعر یاد آگیا؎
برگ گل رابہ کف باد صبامی بینم
باغ ہم جانب اونامہ بر سے پیدا کرو
فرق یہ ہے کہ باقر ہروی کے شعر میں معشوق کے نام نامہ و پیام کا ذکر ہے۔اور مجروح سلطان پوری خود بہار ِباغ کے مکتوبِ الیہ ہیں۔ایک اگر معشوق میں گم ہے تو دوسرا اپنے نصب العین کو اپنا عشق گردانتا ہے اور اس کا معشوق خود اسے آواز دیتا ہے،جیسا کہ اسی غزل کے ایک شعر میں ہے؎
ہمارے لب نہ سہی وہ دہان زخم سہی
وہیں پہنچتی ہے یاروں کہیں سے بات چلے
کلاسیکی آہنگ کی ایک مثال میں چند شعر اور دیکھئے؎
ہوئے ہیں قافلے ظلمت کی وادیوں میں رواں
چراغ راہ کئے خوں چکاں جبینوں کو
نہ دیکھیں دیر و حرم سوئے رہروانِ حیات
یہ قافلے تو نہ جانے کہاں قیام کریں
پارئہ دل ہے وطن کی سر زمیں مشکل یہ ہے
شہر کو ویراں کہیں یا دل کو ویرانہ کہیں
یہ کہنا مشکل ہے کہ مجروح ؔ نے خود کو بعض مضامین وافکار کا پابند نہ کر لیا ہوتا تو ان کی غزل کن راہوں اور وادیوں میں گامزن ہوتی لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ترقی پسند تحریک سے وابستگی نے ان کی شاعری میں کاروبار حیات اور معاملات جہد وعمل کے بارے میں ایک شدت شعور ،ایک فوری پن، اور خارج کی زندگی کے بارے میں سریع التاثیری ضرورپیدا کی۔ان کے یہاں ایک ولولہ کچھ کر جانے کے لئے تیاری اور جوش ،اور زندگی کی خاطر موت کے لطف اندوز ہونے کاجو تاثر نظر آتا ہے وہ انھیں تمام معاصرغزل گویوں میں ممتاز کرتا ہے؎
جگائیں ہم سفروں کو اٹھائیں پرچم شوق
نہ کب ہو سحر کون انتظار کرے
سیر ساحل کرچکے اے موج ساحل سر نہ مار
تجھ سے کیا بہلیں گے طوفان کے بہلائے ہوئے
کچھ زخم ہی کھائیں چلو کچھ گل ہی کھلائیں
ہر چند بہاراں کا یہ موسم تو نہیں ہے
اکتا کے ہم نے توڑ دی زنجیر نام وتنگ
اب تک فضا میں ہے وہی جھنکار دیکھئے
یہ سب اشعار درست ہیں،ان میں ’’پیغام‘‘کا عنصر الگ سے نہیں لایا گیا،بلکہ شعر میں مل گیا ہے۔ ان کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ ان پر کوئی سیل نہیں لگ سکتا ۔سرور صاحب نے یگانہ کے بارے میں عمدہ بات کہی تھی کہ ان کے یہاں اکڑ تو ہے ،لیکن فرحت نہیں ۔مجروحؔ کے مندرجہ بالا اشعار کی عدم ا لنفالیت اورماحول سے لوہا لینے کی ادا ایک حد تک یگانہ کی یاد تو دلاتی ہے ،لیکن ان اشعار میں غزل کی زبان از خود بول رہی ہے ،یگانہ کی طرح تکلف کا احسا نہیں ہوتا ۔اور یہ بھی ہے کہ ان اشعار کو یا ان کی طرح کے اور اشعار کو معنی سے آزاد کرکے صرف کیفیت کے بل بوتے پر نہیں پڑھا اور قبول کیا جاسکتا ۔یہ اشعار کسی نہ کسی طرح کی دعوت فکر ضرور دیتے ہیں۔
مجروح ؔکا کلام بہت تھوڑا ہے،لیکن ابھی اس کے بارے میں اور بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔یہ سوال پھر بھی قائم رہتا ہے کہ مجروح نے اتنا کم کیوں کہا؟ان کا پہلا مجموعہ ’’غزل ‘‘مشکل سے پچھتر اسّی صفحات کا تھا۔نیا مجموعہ جس میں ’’غزل‘‘کا خاصا حصّہ شامل ہے،اس سے کچھ ہی بڑا ہے۔ایک اردو ایک فارسی نظم کی شمولیت نے ’’مشعل جاں‘‘ کو ’’غزل‘‘کے مقابلے میں کچھ زیادہ تنوع عطا کردیاہے۔دونوں نظمیں بہت عمدہ اور مجروح ؔکے عام کلاسیکی رنگ میں رچی ہوتی ہیں۔لیکن یہ سارا سرمایہ پچاس پچپن برس کی مشق سخن کے سامنے کچھ نہیں معلوم ہوتا ۔مجروحؔ کی کم سخنی جدیدادب کالاینحل معما ہے۔توقع تھی کہ زیر نظر کتاب میں اس معمے کا حل نہیں تو اس پر کچھ روشنی ضرور ہوگی،لیکن یہ توقع پوری نہیں ہوتی ۔مجروحؔ اور ان کے چا ہنے والوںاپنا وطن خاص کرکے نقادوں سے سردمہری کا شکوہ ہے۔اور یہ شکوہ کچھ الجھا بے جا بھی نہیں لیکن یہ بات بھی خیال میں رکھنے کی ہے مجروح نے کہا کس قدر کم ہے۔اب ایسی کثرت بھی نہ چاہتے جیسی ہم ان دنوں بعض لوگوں کے یہاں دیکھتے ہیں اور جس کا نقصان مصحفیؔنے اٹھایا۔میرؔ نے تو کثرت سے زیادہ کثر ت کی شہرت کے با عثِ نقصان اٹھایا ،ورنہ ان کا تمام کلیات مع مثنویات ومراثی مصحفیؔ کے اول تین دیوان سے بہت زیادہ نہیں ۔کثرت کلام سے زیادہ قلت کلام نقصان دیتی ہے۔مجروحؔ نے گزشتہ تیس برسوں میں دو غزلوں کا بھی اوسط نہ رکھا۔غالبؔ کو تو جنت کے خیال سے وحشت ہوتی تھی کہ تا ابد وہی ایک حور ساتھ رہیگی تو زندگی اجیرن ہوجائے گی ۔اردو غزل کا قاری ہزار ہابرس سہی ،لیکن وہ ان دس پندرہ غزلوں میںکیا کھئے اور کیا پس انداز کرے؟مولانا روم نے مثنوی کے چھ ضخیم دفتر کہہ لینے کے بعد ساتواں مجوزہ دفتر نہ لکھا ۔لیکن مولانا اس وقت تک چھبیس ہزار شعر وں کی شاہکار مثنوی اور کم سے کم تیس ہزار شعر کا دیوانِ غزلیات اور سیکڑوں رعبایاں کہہ چکے تھے۔اور یہ سب اس پائے کا کہ اتنا ضخیم و حجیم کلام بھی سراپا انتخاب ہی کہا جائے گا۔’’مشعلِ جاں‘‘ میں شامل فارسی مثنوی میں قوتِ کلام کا اظہار صاف پتہ دیتا ہے کہ بستہ شد دیگر نہ می آید بروں کا معاملہ یہاں نہیں ہے۔اور نہ ابھی ان بدلے ہوئے زندگانی کو پھاند کر سیرآں سوئے تماشا کا وقت آیا ہے۔کارلائل کے بارے میں سنا ہے کہ جب اس نے اپنی ’انقلابِ فرانس‘ مکمل کی تو آب دیدہ ہوگیا کہ اس کے آگے کیا لکھوں۔ چارلس ڈکنس نے انقلاب فرانس کے بارے میں اپنے ناول ’’دو شہروں کا ایک قصہ‘‘ کے بارے میں مبالغہ آمیز مگر مبنی برحقیقت دعوی کیا کہ میں نے اپنا ناول لکھنے کے پہلے کارلائل کی کتاب پانچ ہزار مرتبہ پڑھی تھی۔مگر مجروحؔ کی غزل میں اتنی کیفیت نہیں کہ وہ اتنے مسلسل اور مکرر مطالعے کی متحمل ہو سکے۔ان پر زمانے کا یہ حق بہرحال ہے کہ ان کے گنجِ ہائے رنگا رنگ سے مزید مستفیض ہو۔
٭٭٭