Majrooh Sultanpuri Ki Shaeri Ke Chand Pahloo

Articles

مجروح سلطانپوری کی شاعری کے چند پہلو

پروفیسر صاحب علی

میں اپنی گفتگو کا آغاز مجروح سلطان پوری کے اس خیال سے کرنا چاہتا ہوں جس کا ظہار انھوں نے اپنے پہلے شعری مجموعۂ کلام ’’ غزل‘‘ میں کیا تھا۔ مجروح نے لکھا ہے :

’’ میرے نزدیک شاعری کی پہلی اور آخری شرط یہ ہے کہ وہ سامع اور قاری کے خیالات اور جذبات کی رفیق ہو،ا س کے بغیر نہ تو اسے قبول عام کی سند مل سکتی ہے اور نہ اسے معتبر کہا جاسکتا ہے ۔ ایک بات اور کہ وہ اعلیٰ سے اوسط درجے کے اذہان کے لیے سہل الحصول ہوــ‘‘

مجروح سلطان پوری کی اس کسوٹی پرجب ہم ان کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شاعری قبول عام کی سند بھی رکھتی ہے ، ذہنوں کے مختلف دائروں کے لیے سہل الحصول بھی ہے اور اپنی طرف بڑھنے والے خیالات وجذبات کی رفیق بھی ہے۔ یہاں پروفیسر وارث کرمانی کے اس خیال پر بھی ایمان لانے کا جی چاہتا ہے جو انھوں نے مجروح کے معیاری کلام کی مقبولیت کے تعلق سے لکھا ہے:

’’ غالب کے بعد اگر اردو کی پوری غنائی شاعری کے صرف ایک ہزار شعروں کا انتخاب کیا جائے جس میں حالی ، داغ ، اقبال اور نہ جانے کتنے بلند اقبال شاعر نظر آجائیںگے اور اگر بیسویں صدی میں پیدا ہونے والے تمام شاعروں کے کلام سے سو بہترین غزلیں منتخب کی جائیں تو اس میں مجروح کی کئی غزلیں آجائیں گی، اور پھر سب سے اہم بات یہ کہ اگر ایسے اشعار کو یکجا کردیا جائے جواِس وقت باذوق لوگوں کی زبان پر چڑھے ہوئے ہیں تو اُن میں مجروح کے شعروں کی تعداد اپنے معاصرین میں سب سے زیادہ ہوگی‘‘

مجروح سلطان پوری نے جب شاعری کا آغاز کیا تو اس وقت ملک کی آزادی کے لیے مسلسل جد وجہد جاری تھی۔ ہمارے ادبا وشعرا ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہورہے تھے۔ اس تحریک کا ایک بڑا مقصد یہ تھا کہ قلم کار اپنے ذہن ودل کی کھڑکیوں کو کھول دے ، عوامی زندگی سے براہِ راست تعلق پیداکرے تاکہ اسے اپنے عہد ، حالات اور ماحول کا گہر اشعور ہو۔ مختصر یہ کہ شعرا کا وہ نوجوان گروپ جن کی آنکھوں میں رومان کے نہ جانے کتنے خواب رچے بسے تھے ۔حسن وعشق کی تصوراتی وادیوں سے گزر کر حقیقت کی سنگلاخ وادیوں تک پہنچ گئے۔ نوجوان قلم کاروں کا یہ وہ کارواں تھا جو آنکھوں میں آزادی کا خواب اور دل میں نئی سحر کی تمنا لیے نکلا تھا۔ مجروح بھی اس کارواں میں شامل تھے۔ انھوں نے زیادہ تر غزلیں کہیں جو ابتدا میں رومان پرور تھیں ۔ اس نوع کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

مجھے سہل ہوگئیں منزلیں ، وہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے

ترا ہاتھ ، ہاتھ میں آگیا کہ چراغ راہ میں جل گئے
اب سوچتے ہیں لائیں گے تجھ سا کہاں سے ہم

اُٹھنے کو تو اٹھ آئے ترے آستاں سے ہم

اُس نظر کے اُٹھنے میں اُس نظر کے جھکنے میں

نغمۂ سحر بھی ہے آہِ صبح گاہی بھی

وہ لجائے میرے سوال پر کہ اٹھا سکے نہ جھکا کے سر

اُڑی چہرے پہ اس طرح کہ شبوں کے راز مچل گئے

سوال ان کا ، جواب ان کا ، سکوت ان کا خطاب ان کا

ہم ان کی انجمن میں سر نہ کرتے خم تو کیا کرتے

یہاں چند اشعار درج کردیے گئے ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ مجروح کے کلام میں ایسے اشعار بھرے پڑے ہیں جن میں رعنائی ، حسنِ ادا اور ایسا بانکپن ہے جو ہر کسی کو اپنی طرف متو جہ کرلیتا ہے اس کے باوجود مجروح نے ترقی پسند تحریک کے زیر اثررومان کی وادی سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور انقلاب اور بغاوت کی جانب رخ کیا ۔ اِس سے ان کے دل میں انقلاب کے لیے نہ صرف ادب و احترام کا جذبہ بیدار ہوا بلکہ اس جذبے نے انھیں نیا عزم و حوصلہ عطا کیا اور مجروح ہر چیلنج کو مسکرا کر قبول کرلینے کے لیے تیار ہوگئے ۔ یہ چیلنج سماجی ذمہ داریوں کاتھا جس پر ترقی پسند تحریک کا پورا منشور ٹکا ہواہے۔ مختصر یہ کہ فاشسٹ قوتوں کے خلاف انھوں نے تمام مظلوموں کو متحد ہوکر نبرد آزما ہونے کا پیغام دیا۔ اس پیغام میں مجروح نے اپنی بات کو کچھ اس سلیقے سے کہی کہ ان کی بات وقتی نعرہ بازی نہ ہوکر ہر عہد کا پیغام بن گئی۔ اس ضمن میں چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

جلا کے مشعل جاں ہم جنوں صفات چلے

جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے

ستونِ دار پر رکھتے چلو سروں کے چراغ

جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے

سر پر ہوائے ظلم چلے سو جتن کے ساتھ

اپنی کلاہ کج ہے اُسی بانکپن کے ساتھ

روک سکتا ہمیں زندانِ بلا کیا مجروح

ہم تو آواز ہیں دیوار سے چھن جاتے ہیں

یہ محفل اہل دل ہے یہاں ہم سب میکش ، ہم سب ساقی

تفریق کریں انسانوں میں اِس بزم کا یہ دستور نہیں

دیکھ زنداں سے پرے رنگِ چمن جوش بہار

رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ

ہم قفس ! صیاد کی رسمِ زباں بندی کی خیر

بے زبانوں کو بھی اندازِ کلام آہی گیا

وہی آستاں ہے وہی جبیں وہی اشک ہے وہی آستیں

دلِ زار تو بھی بدل کہیں کہ جہاں کے طور بدل گئے

فکر کی وسعت اور جذبے کی گہرائی رکھنے والے اس طر ح کے اشعار مجروح کی غزلوں میں زیادہ ملیں گی،اور اسی سبب سے وہ ترقی پسند تحریک کے Selectedشاعروں میں تصور کیے جاتے ہیں ۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ مجروح نے غزل کی کلاسیکی روایت میں سیاسی رمزیت کو نغمہ بنایا ہے اور اس معاملے میں فیض احمد فیض ہم دوش اور ہم قدم نظر آتے ہیں۔ اس کا احساس مجروح کو بھی تھا چنانچہ وہ کہتے ہیں :

ہم روایات کے منکر نہیں لیکن مجروح

سب کی اور سب سے جدا پنی ڈگر ہے
یہاں یہ بات ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ مجروح نے محض ترقی پسندانہ جذبات و خیالات ہی کی شاعری نہیں کی بلکہ تغزل کا دامن ہمیشہ تھامے رکھا ۔ ان کے کلام میں وہ حصہ جس کی وجہ سے وہ اردو غزل کی دنیا میں جانے پہچانے جاتے ہیں ۔ شاید ہی کوئی غزل ان کی ایسی ہو جس میں کلاسیکی تغزل کا دلکش نمونہ نہ ملتا ہو۔ اس ضمن کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

ادائے طولِ سخن کیا وہ اختیار کرے

جو عرض حال بہ طرز نگاہِ یار کرے

بہانے اور بھی ہوتے جو زندگی کے لیے

ہم ایک بار تری آرزو بھی کھو دیتے

شب ِ انتظا ر کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی

کبھی اِک چراغ جلادیا ، کبھی اکِ چراغ بجھا دیا

مجروح لکھ رہے ہیں وہ اہل وفا کا نام

ہم بھی کھڑے ہوئے ہیں گنہ گار کی طرح

ہم تو پائے جاناں پر کر بھی آئے اِک سجدہ

سوچتی رہی دنیا کفر ہے کہ ایماں ہے

کہا جاتا ہے کہ مجروح سلطان پوری کے ابتدائی دور کی شاعری جگر مرادآبادی اور اصغر گونڈوی سے متاثر ہے ۔ یہ بات صحیح ہے کہ مجروح نے اپنی شاعری کا آغاز اُسی رنگ میں کیا اور اصغر وجگر والے عاشقانہ انداز سے اپنے کلام میں جمالیاتی کیفیت جو اس زمانے میں بہت مقبول ہوئی اور اس کی آب وتاب میں آج بھی کوئی فرق نہیں آیا ۔ ایک بات یہاں اور عرض کرتا چلوں کہ مجروح کی شاعری اساتذۂ فن کی نقل نہیں بلکہ فکری اعتبار سے کئی جہتوں میں اُن سے ایسے آگے نکل گئی ہے جیسے ارسطو اپنے استاد افلاطون سے مختلف ہوگیا تھا۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ مجروح سلطان پوری مدرسے کے فارغ التحصیل تھے۔ اسی لیے اردو کے علاوہ انھیں عربی و فارسی زبانوں پر قدرت حاصل تھی۔ یہی سبب ہے کہ ان کے کلام میں چست بندشوں اور خوش آہنگ ترکیبوں اور اضافتوں کا فن کاری سے استعمال ہوا ہے۔علاوہ ازیں مجروح نے اپنی شاعری میں ٹھیٹھ روایتی علامتیں بھی استعمال کی ہیںجیسے آبلہ پائی، نقش پا ، خار، چمن اور جنوںوغیرہ کے ساتھ ترقی پسندانہ علامتیں بھی ہیں مثال کے طور پر دار، رسن ، زنداں ،سحر ،زنجیر، کلاہ اور مقتل وغیرہ۔ ان کی بندش مجروح نے ہر بار نئے پیرائے اور نئے اسلوب سے کی ہے ۔ ان کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ مجروح کا اپنا ایک وضع کردہ ڈکشن ہے جس پرانھیں فخر ہے:

دہر میں مجروح کوئی جاوداں مضموں کہاں

میں جسے چھوتا گیا وہ جاوداں بنتا گیا

در حقیقت مجروح سلطان پوری ایک ایسے معتبر شاعر ہیں کہ انھوں نے اپنے معاصرین کے مقابلے میں بہت کم لکھا،لیکن بہت زیادہ مقبولیت حاصل کی۔ ان کے کچھ اشعار اس قدر زبان ِ زد خاص وعام ہوئے کہ ان کی حیات کا سامان بن گئے۔ جب بھی کسی کو مجروح کی تلاش ہوگی تو اِ نھیں مقبول عام اشعار کے توسط سے مجروح کا سراغ ملے گا۔