Maulana Abulkalam Azad aur Unnki Khud Aitmadi by Noor us Sabah

Articles

مولانا ابوالکلام اور ان کی قوت ارادی از نور الصباح

نور الصباح

مولانا ابولکلام آزاد ایک عظیم المرتبت اور جلیل القدر شخصیت کے ساتھ ساتھ مفسر، محدث، انشاء پرداز، ادیب، تاریخ داں، سیاست داں،قومی و ملی رہنما،ماہر تعلیم اور مجاہد آزادی بھی تھے ۔مختلف ادیبوں نے ان کی ایک ایک خوبیوں کا جائزہ لیا ہے۔کسی کو وہ ادیب وانشاء پرداز نظر آئے،کسی نے ان کو تاریخی پس منظر میں دیکھا ،کسی نے سیاسی حلقوں میں،کسی نے ان کو آزادی کاعظیم مجاہد بتایا ، کسی نے ان کو قومی وملی رہنما کا درجہ دیا ، کسی نے ان کو تعلیمی نظریہ ساز کے پردے میں پیش کیا تو کسی نے ان کو مفسرو محدث کے روپ میں پیش کیا۔مگر ان کی اتنی ساری خوبیوں کی وجہ کیا تھی؟اس پر اب تک خامہ فرسائی نہیں کی گئی جب کہ وہ بھی ایک انسان ہی تھے ،جس طرح اللہ نے عام انسانوں کو عقل و فراست اور ذہانت سے نوازا اسی طرح انھیں بھی ،جس طرح عام انسانوں کی زندگیاں مشکلات سے دوچار ہوتی ہیں اسی طرح ان کی بھی زندگی نشیب وفراز اور کشمکش کا مجموعہ تھی بلکہ انھیں اسیری کے درمیان ایسی ایسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جو شاید ہی کسی ادیب نے کیا ہو ،پھر بھی انھوں نے ہمت و حوصلہ نہیں ہارا ور اپنی قوت ارادی کے عمدہ استعمال سے اپنا ایک الگ راستہ بنایا اپنے کام میں منہمک رہے جو ’’غبارخاطر‘‘ کی شکل میں ایک حسین گلستاں کے طور پر دنیائے ادب میں نمودار ہوا۔
ان کو اتنے اعلیٰ وارفع مقام تک پہنچانے میں ان کی قوت ارادی،قوت استقلال،عزم مصمم،ہمت وحوصلہ اور جہد مسلسل ہے جس نے زنداں میں بھی ان کو اپنے فیصلے پر قائم رکھا اور ان کی قوت ارادی کو پابند سلاسل ہونے سے بچائے رکھا۔ انھوں نے غبارخاطر جیسی کتاب لکھ کر فلسفہ زندگی،جہد مسلسل،قوت ارادی، مذہب، عقیدہ، تحقیق، خوشی، تفکر و تدبر جیسی چیزوں سے پردہ اٹھایا اور عوام کو اس سے آشنا کیا کہ انسان کس طرح اپنے فیصلہ پر قائم رہ کر زندگی کی مشکلات سے گزر کر اپنی خوشیوں کو حیات بخش سکتا ہے،لیکن اس کے ساتھ اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ قوت ارادی کے لیے قوت متخیلہ ضروری ہے اور قوت متخیلہ کے لیے خودشناسی ضروری ہے اور خودشناسی کے لیے خود آگہی کا ہونا لازمی ہے۔ یہ ساری چیزیں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں جو انسان کو متحرک رکھنے پر قادر ہیں ۔یہی ساری چیزیں مولانا ابوالکلام کے اندر بدرجہ اتم موجود تھیں جو انھیں ہمیشہ متحرک و مصروف رکھتی تھیں۔
مولانا کی قوت ارادی کا عالم یہ تھا کہ وہ قید خانے کی زندگی میں بھی فرحت و انبساط کے اوقات تلاش کرلیتے تھے۔ان کے صعوبت بھرے لمحات بھی شگفتہ مزاجی و خندہ روی کے قالب میں اس طرح ڈھل گئے تھے گویا وہ کوئی ساعت محصور نہ ہوبلکہ روح پرور گھڑی ہوکہ نیلگوں آسماں اور خورشید جہاں تاب کی درخشندگی سے لطف اندوز ہورہے ہوں۔وہ ایک ادنیٰ سے کام میں بھی خوشیوں کو تلاش کرلیتے تھے ۔وہ زندگی کو چینی وفرانسیسی زاویہ نگاہ سے دیکھتے تھے کہ:۔
’’خوش رہنا محض ایک طبعی احتیاج نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی ذمہ داری ہے‘‘
(غبارخاطر،ص:۱۲۷)
گویا زندگی محض اپنی نہیں ہے بلکہ دوسروں کی امانت ہے اگر کوئی ایک انسان رنجیدہ ہوگا تو اس سے دوسروں کی مسکراہٹ بھی غائب ہوجائے گی اور یہ معاشرتی طور پر ایک غیر اخلاقی چیز ہے کہ ہم اپنے رنج و الم سے دوسروں کی خوشیوں کو کافور کریں۔کیوں کہ زندگی ایک آئینہ خانہ کے مانند ہوتی ہے جس میں ہر فرد کے ہزاروں،سیکڑوں چہرے نظر آتے ہیں،اگر کوئی ایک چہرہ بھی رنجیدہ خاطر ہوگیا تو سارے چہرے غبار آلود ہوجائیں گے جس طرح مضراب کے تار کو انگلیاں جب چھیڑتی ہیں تو اس کی جھنجھناہٹ کا وقفہ تا دیر قائم رہتا ہے بالکل اسی طرح کسی ایک شخص کی مغمومیت سے پورے افراد خانہ پر غمزدہ آثار کے سائے پڑ جائیں گے تو یہ ایک طرح سے اخلاقی ذمہ داری ہوئی کہ ہم اپنی وجہ سے کسی کو رنج نہ دیں بلکہ ہرحال میں خوش رہنے کی کوشش کریں اور مولانا آزاد بھی اسی نظریہ پر عمل کرتے تھے کیوں کہ ہم میں سے کوئی بھی شخص اس بات سے واقف نہیں ہے کہ ہماری غم یا خوشی کی ساعتیں کتنی دیر تک ہمارے ساتھ رہیں گی اس لیے ہمیں چھوٹی سے چھوٹی خوشیوں سے خوش ہونا چاہیے ،کیوں کہ ہمیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ خوشی کا یہ موج ترنم کب تک قائم رہے گا اور غم کے سیلاب کس وقت آدبوچیں گے۔وہ فرماتے ہیں:۔
’’ہماری زندگی ایک آئینہ خانہ ہے،یہاں ہرچہرے کاعکس بیک وقت سینکڑوں آئینوں میں پڑنے لگتا ہے۔اگر ایک چہرے پر غبار آجائے توسینکڑوں چہرے غبار آلود ہوجائیں گے۔ہم میں سے ہرفرد کی زندگی محض ایک انفرادی واقعہ نہیں ہے۔وہ پورے مجموعہ کاحادثہ ہے۔‘‘
(غبارخاطر،ص:۱۲۷)
مولانا اپنی ذہانت،قابلیت اورعزم مصمم کی بدولت مشکل سے مشکل ترین راہ میں بھی زندگی کو جینے کا سلیقہ سیکھ لیے تھے۔اورہمیشہ ہر حال میں خوشی اور فرحت وانبساط کے لباس میں ملبوس رہتے ، ان خوشیوں سے ان کامقصدعوام کو،اپنے اطرا ف وجوانب اور عزیزواقارب کی مسکراہٹ کو قائم رکھنا تھا ،کیوں کہ اس میں اعلیٰ اخلاق کی صفات پوشیدہ تھیں۔وہ اپنی خوشیوں کو اپنے قرب وجوار میں نہیں بلکہ باطن میں تلاش کرتے تھے،اس طرح وہ اپنے دل کو ہمیشہ متحرک اور زندہ رکھتے تھے۔ایسا کرنے کے لیے وہ خود کو لغوباتوں اور لہولعب کی چیزوں میں مصروف نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ اس طرح سے اپنے قلب و روح کو امید سے زندہ اور کام سے تابندہ رکھتے تھے،اس کے لیے وہ کسی ایک چیز پر قانع ہوکر خلوت نشینی اختیار نہیں کرلیتے تھے بلکہ اضطراب کو ترجیح دیتے تھے اور کوئی ایسا مقصد حیات تلاش کرتے تھے کہ وہ بلائے جاں ہو جو انھیں ہمیشہ مضطرب رکھے اور اس کے تعاقب میں انھیں دیوانہ وار دوڑنا پڑے۔ان کے نزدیک اگر زندگی میں اضطراب شامل نہ ہو محض سکون ہی سکون ہو تو ایسی زندگی کو یکسانیت کے زمرے میں شمار کرکے موت سے تعبیر کی جاسکتی ہے۔اگراپنے وجودکی عدم وجودیت کا خوف ہو تو اس کے لیے ہمیں مشکلوں اور زندگی کی تلخیوں سے گھبرا کر ناامید نہیں ہونا چاہیے بلکہ دنیا کو کارزار حیات اور اپنے وجود کو ایک جنگجو سپاہی سمجھ کر معرکہ آرائی کے لیے تیار رہنا چاہیے اگر وہ مقابلہ کی مشکلات کے خوف سے پیچھے ہٹ جائے تو کسی چیز کو پانے کی جستجو ہی باقی نہیں رہ جائے گی۔اور اگر کسی چیز کو حاصل کرلینے کے بعد اسے کھودینے کے اندیشہ سے گوشہ نشینی اختیار کرلے تو وہ اس وقت تک ان خوشیوں سے حقیقی طور پر لطف اندوز نہیں ہوسکتا جب تک کہ اسے کچھ کھونے کا بھی احساس نہ ہو۔کیوں کہ کسی بھی انسان کو اگر اپنی زندگی کا وہ مقصد حاصل ہوگیا جس کی اسے خواہش تھی اور وہ اسی پر قانع ہو کر بیٹھ گیا تو پھر دنیاکی نظروں سے پوشیدہ ہوجائے گا،لہٰذا کسی بھی انسان کو کچھ کھوئے جانے کے خوف کے بنا اور کسی چیز کو پانے کی جستجومیں ہر میدان میں کامیابی کا علم نصب کرنا چاہیے ایسا کرنے کے لئے ہمت وحوصلہ اوراضطراری کیفیت کے ساتھ ساتھ صبرواستقلال بھی ضروری ہے۔اس ضمن میں ان کی گرفتاری کے وقت کی کیفیت کومدنظررکھا جائے تو اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی دلنشیں سفرپر اپنے محبوب کی ہمراہی میں ہوں:۔
’’کار باہر نکلی تو صبح مسکرا رہی تھی۔سامنے دیکھا توسمندر اچھل اچھل کر ناچ رہا تھا۔نسیم صبح کے جھونکے احاطہ کی روشنی میں پھرتے ہوئے ملے۔یہ پھولوں کی خوشبو چن چن کر جمع کررہے تھے۔اورسمندر کو بھیج رہے تھے کہ اپنی ٹھوکروں سے فضا میں پھیلاتا رہے۔‘‘
(غبار خاطر،ص:۵۶)
یہ سکون واطمینان کے آثاران کی قوت ارادی اور خودشناسی کی وجہ سے تھے کیوں کہ انھوں نے زندگی کا مقصد پالیا تھا،وہ کسی ایک ہی مقصد فکر تک محدود نہیں ہونا چاہتے تھے،بلکہ وہ ہر میدان میں طبع آزمائی کرتے اور خود کو حالات سے مقابلہ آرائی کے لیے تیار بھی رکھتے،وہ تمام مشکلات کو بآسانی ضبط کرلیتے تھے،وہ حواس پر قابو رکھتے اور اپنے گردوپیش سے ہی جینے کا ہنر فراہم کرلیتے تھے ،وہ ہمیشہ اپنے دل کی دنیا کو آباد رکھتے اور مختلف حالات و تبدیلیوں کے لیے خود کو اس طرح تیاررکھتے کہ خارجی ماحول کا انتشار اگرچہ ان کے اعصاب پر اثرانداز ہوتا مگر داخلی دنیا کو اس سے محفوظ رکھتے۔وہ ہمیشہ معتدل راستہ اپناتے تھے ،کبھی بھی تذبذب کا شکار نہ ہوئے نہ تو کبھی اپنے قائم کردہ فیصلہ پر متشکک ہوئے اور نہ ہی اپنے وضع کردہ اصولوں سے کبھی بدعملی برتی،وہ لوگوں کو جن اصولوں پر عمل کی تلقین کرتے تھے بذات خود وہ اس پر عمل کرتے تھے،نہ تو انھوں نے خود کو کبھی تقدیرکے حوالے کیا بلکہ تقدیر پر بھروسہ کرناان کے نزدیک کم ہمتی کا نام تھاجسے عوام کی دماغی لغات تقدیر کا نام دے کر اپنی زندگی کے تئیں غوروفکر اور کسی بھی نئے راستے کی جستجو سے رخ موڑ کرمنظر سے ہی روپوش ہوجاتی ہے،ایسی زندگی ان کے نزدیک تعطل اور فرار کی زندگی ہے بلکہ وہ اندھیرے میں بھی سورج کی شعاعوں کو تلاش کرلیتے تھے اور ظلمت کو دور کرنے کے خواہاں رہتے تھے،جیسا کہ انھوں نے اکتوبر۱۹۴۷ کے اپنے ایک خطبہ میں عوام کو خطاب کرتے ہوئے کہا ہے:۔
’’عزیزوں!تبدیلیوں کے ساتھ چلو یہ نہ کہو کہ ہم اس تغیر کے لیے تیار نہ تھے،بلکہ اب تیار ہوجاؤ ،ستارے ٹوٹ گئے،لیکن سورج تو چمک رہاہے،اس سے کرنیں مانگ لواور اندھیری راہوں میں بچھادو جہاں اجالے کی سخت ضرورت ہے‘‘(مولانا ابولکلام آزاد ایک تجزیاتی مطالعہ، مر تب مفتی عطاء الرحمن قاسمی ، ص:۴۸۹)
گویا وہ مشکل حالات کے لئے ہمیشہ تیار رہتے کبھی بھی ان حالات کو خود پر طاری نہیں کیا اور نہ ہی گوشہ نشینی اختیار کی بلکہ اپنی ذہانت و فراست سے اس سے نبردآزماہوتے اور مسئلے کا حل تلاش کرلیتے کیوں کہ ان کے نزدیک خوشی و غم ایک احساس کا نام تھاجو حیاتیات انسانی کے اندر موجود ہے اگر انسانی زندگی مسائل کے بوجھ تلے رنج والم کی زندگی گزارنے کی کوشش کرے تو وہ زندگی زخمی زخمی ہوجائے گی اور اگر مسائل کے حل کے لئے جدوجہد اور مسلسل سرگرم عمل رہے تو خوشیاں اس کے قدموں تلے ہوں گی اور ایسی لطیف زندگی کے علاوہ کوئی بھی چیز لذیذ نہیں ہوسکتی ۔اس ضمن میں انھوں نے عربی کا ایک مقولہ رقم کیا ہے’’حمضوامجالسکم‘‘کہ اپنی مجلسوں کا ذائقہ بدلتے رہو،گویا ایک چیز کے ختم ہوجانے سے تقدیر پر صبر کرکے بیٹھنا نہیں چاہئے بلکہ تلخیوں کا گھونٹ پی کردوسری راہ گزرمیں طبع آزمائی کرنی چاہیے تبھی زندگی کے اصل لطف سے بھی ہم واقف ہوسکتے ہیں۔اس کے پس پردہ اگر حالات حاضرہ کا مشاہدہ کیا جائے تو موجودہ نسل پریشان حال اور تباہ کن دہانے پر پہنچ کر اپنی زندگی اور والدین و بھائی بہن جیسے قریبی رشتوں سے بیزارمعیشت کے پیچھے سرگرداں ہے ایسی معیشت جو اسے خود اپنی بھی زندگی سے بیزار کر رہی اور ایسے علم کے پیچھے سراسیمگی کا شکار ہے جو اسے دین ودنیا سے تو خود سے بھی بیزار کرکے مایوسی و رنجیدگی کے گڈھے میں پہنچا رہا ہے ،مولاناآزاد علم و معیشت کے تئیں مقصدیت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں ان کے نزدیک ایسے علم کے لیے صرف ڈگری تک محدود ہونا ہی علم نہیں تھا بلکہ اس کے لیے کوئی نہ کوئی واضح مقصد ہوناچاہیے۔اب اس سلسلے میں انتہائی غوروفکر کی ضرورت ہے کہ وہ مقصد کیا ہے؟اورکیسا ہونا چاہیے؟سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا زندگی کامقصد محض عمدہ تعلیم،اچھی ملازمت کا حصول اور معیار زندگی کومعراج کمال کی تکمیل کی پیہم سعی کے علاوہ کچھ نہیں ہے؟یہ ایک ایسا سوال ہے جو ایام گزشتہ سے گردش کرتا ہوا موجودہ عہد کی نسلوں کے لیے بھی پریشانی کا باعث ٹھہرا،اور اس مسئلہ لاینحل کے لئے تمام دانشوران علم وفن سرگرداں نظر آتے ہیں جس کے جواب پر مذاہب عالم کی تمام بنیادی تعلیمات کی تعمیرات بھی مبنی ہیں۔یہی فلسفہ زندگی مولانا ابوالکلام آزاد جیسے مفکر و مدبر کے لیے بھی ایک للکار بن کر ابھرا،انھوں نے فلسفہ زندگی کی گرہوں کو سلجھانے کے لیے مقصد زندگی کو اہم بتایا اور وہ مقصد محض ایک ہی نکتہ نظر تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس میں وسعت،پھیلاؤ اور کشادگی ہونی چاہیے جو مختلف علوم وفنون کے لبادے میں وقتا فوقتا ظاہرہوتے رہیں جو ہمیشہ زندگی کو متحرک رکھے اور اپنی تکمیلت کے لیے ہمیشہ مضطرب بھی رکھے جو ایسا انگارہ ہو کہ کبھی بجھنے کا نام نہ لے،جو شورش ومستی کے جذبات سے لبریز ہو،جو ہنگامہ خیز ہو،جس کی تکمیل کے لیے قلب وروح سیمابی کیفیت کا حامل اور مائل اضطراب ہو۔وہ فرماتے ہیں:۔
’’ایک ایسا بلائے جاں مقصد،جس کے پیچھے انھیں دیوانہ وار دوڑنا پڑے۔جودوڑنے والوں کو ہمیشہ نزدیک بھی دکھائی دے اور ہمیشہ دور بھی ہوتارہے۔نزدیک اتنا کہ جب چاہیں ہاتھ بڑھاکر پکڑ لیں اور دور اتنا کہ اس کی گرد راہ کا بھی سراغ نہ پاسکیں۔‘‘
(غبارخاطر،ص:۸۳)
درج بالا اقتباس سے مولانا آزاد کا فلسفہ زندگی سامنے آتا ہے جو مقصدیت سے مملوہو،جوتحریک کا منبع اورمسلسل حرکت وعمل اور جہدمسلسل کا خزینہ ہو۔ان کے نظریہ کے مطابق کسی چیز کو حاصل کرلینے کے بعد اسی پر قناعت نہیں کرنا چاہیے بلکہ کوئی نہ کوئی مقصد حیات کا ہدف ہونا چاہیے بصورت دیگر حالت سکون کی زندگی موت کے زمرے میں شمار ہونے لگے گی،کیوں کہ زندگی مسلسل جہد عمل کا نام ہے اور دنیا امتحان گاہ ہے جواس امتحان گاہ میں کامیابی کے منازل طے کرکے کہیں ٹھہر گیا تو پھر اس امتحان گاہ سے خارج ہوگیاگویا وہ کالعدم ہوگیا۔میدان زیست میں کسی بھی کامیابی یا ناکامی کے بعد ہمیشہ ایک نئی جستجو اور نئے عزم کے ساتھ قدم آگے بڑھانا چاہیے،زندگی کا مدعا یہ ہے کہ وہ مقصدی اوراضطراری ہو ورنہ مقصد ختم تو زندگی ختم۔زندگی ایک ایسے دریا کے مانند ہے جس کے اندر اسی وقت تک تموج رہتا ہے جب تک لہریں طغیانیوں کی زد میں ہوتی ہیں ورنہ ایک خاموش اور کبھی نہ ختم ہونے والے سناٹے کی دبیز چادروں میں لپٹا ہوتا ہے۔ زندگی کو موت سے تعبیر کرنے کی مثال فارسی کے ایک شعر میں پیش کی ہے:۔
موجیم کہ آسودگی ماعدم ماست
مازندہ از انیم کہ آرام نہ گیریم
(ترجمہ:ہم توسمندر کی لہروں کی طرح ہیں جن کا سکون ان کی موت سے وابستہ ہے ہم اس لیے زندہ ہیں کہ ہمیں کوئی آرام حاصل نہ ہو)
مولانا آزاد ایسی بلند پرواز تخیل کے مالک تھے کہ وہ تصور میں ہی مستقبل کے نشیب وفراز اور معاشرتی حسن وقبح کو دیکھ لیتے تھے ان کا ذہن اتنا فکر رسا تھا کہ دبیز فولادی چادر میں بھی سوراخ کرکے مقصدیت کی تہوں تک پہنچ جاتا تھا مگر اس کے لیے وہ اپنے ذہن کو سکون کی چادر اور دل کو موت کے کفن سے محفوظ رکھتے ہوئے ہمیشہ خاردار راہوں کا انتخاب کرتے تھے تاکہ آیندہ آنے والی دشواریوں کا آسانی کے ساتھ سامنا کرنے کا امکان ہوسکے۔وہ ہمیشہ سنگلاخ راستوں کے ہی مسافر رہے۔فرماتے ہیں:۔
’’کوئی اپنا دامن پھولوں سے بھرنا چاہتا ہے،کوئی کانٹوں سے،اور دونوں میں کوئی بھی پسند نہیں کرے گا کہ تہی دامن رہے۔جب لوگ کامجوئیوں اور خوش وقتیوں سے پھول چن رہے تھے،تو ہمارے حصے میں تمناؤں اور حسرتوں کے کانٹے آئے انھوں نے پھول چن لیے اور کانٹے چھوڑ دیے۔ہم نے کانٹے چن لیے اور پھول چھوڑ دیے۔‘‘
(غبار خاطر،ص:۸۴)
مولانا آزاد فطری طور پر متحرک تھے ۔وہ خودکار اور خودمختارتھے ۔وہ خود غوروفکر کرتے اس کے بعد منصوبہ بناتے اور اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہتے،ان کے نزدیک زندگی کی مختلف شاخیں تھیں وہ کسی نہ کسی شاخ کو اپنا آشیانہ بنا لیتے اور اس کی جڑوں کو مستحکم بنانے کی کوشش کرتے جس کے لیے وہ مسلسل جدوجہداور قوت استقامت کو خاطر نشاں رکھتے۔وہ کسی نہ کسی کام میں مستغرق رہتے ۔ان کی خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے کسی بھی کام کو کل پر نہیں ٹالا۔ان کا یہ طرز عمل عوام کے لیے سبق آموز ہونے کے ساتھ ساتھ ان کو قوت ارادی اور ہمت وحوصلہ بخشنے والا ہے کہ انسان چاہے کتنی ہی مشکلات میں محصور ہو مگر اسے ہمت وحوصلہ نہیں ہارنا چاہیے کیوں کہ اس طرح وہ مایوسیوں و ناامیدیوں کے درمیان پھنس کر تنہائی اختیار کرلیتاہے ،اس طرح افسردگی کی چادر میں لپٹ کر بیٹھ جانے سے دنیا کی نظروں میں ہمارا وجود ہی ختم ہوجائے گا اور ہم ایک خاک پریشاں کے علاوہ کچھ بھی نہیں رہ جائیں گے،جس طرح کسی درخت سے کٹی ہوئی ٹہنی پر کسی بھی موسم کا اثر نہیں ہوتا نہ تو موسم بہار ہی اس میں روح ڈال سکتا ہے ،نہ تو موسم خزاں کا ہی اس پر کچھ اثر ہوگا،حتیٰ کہ تمام موسم اس کے لیے سرد ہوں گے ،وہ موسم بہار کی شادابی اور موسم سرما کی تبدیلی سے محروم ہوگی،گلستاں میں جب رنگ برنگ پھول اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ کھلتے ہیں تو لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں،وہ ہر ایک کی دل کا سرور،آنکھوں کی ٹھنڈک اور جسم کی تراوت کا سامان بن جاتے ہیں،اور مالی بھی اس کی بقا کے لیے ہمیشہ نگہبانی کے لیے معمور ہوتا ہے ،لیکن جیسے ہی موسم خزاں کی آمد آمد ہوتی ہے وہی نگہبان گلچیں بن جاتا ہے ،ان پھولوں کو ڈالیوں سے جبراجدا کردیا جاتا ہے ،ان مرقع حسن اور رعنائی کے پیکر کو توڑ مروڑ کر گھانس کے تودہ کے مانند نذر آتش کرنے کے لیے بے سروسامان پھینک دیا جاتا ہے۔بالکل اس طرح انسانی زندگی بھی ہے ،اگر اس کا دل زندہ ہے تو امیدوبیم کے چراغ روشن ہوتے رہیں گے ،اور وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے ہمیشہ متحرک اور دنیا کی نظروں میں سرسبزوشاداب رہے گا،ورنہ وہ بھی انھیں پھولوں کے مانند معاشرے سے کسی عضومعطل کی طرح کانٹ کر پھینک دیا جائے گا۔جس کی زندگی کا کوئی مقصد ہی نہیں جو لوگوں کے لیے ایک بوجھ کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔مولانا ابوالکلام کی چند سطریں ملاحظہ ہوں:۔
’’انسانی زندگی کا بھی بعینہ یہی حال ہوا۔سعی وعمل کا جو درخت پھل پھول لاتا ہے اس کی رکھوالی کی جاتی ہے۔جو بیکار ہوتا ہے اسے چھانٹ دیا جاتا ہے۔‘‘
(غبار خاطر،ص:۳۴۶)
گویا ان کے نزدیک زندگی کا حقیقی مقصد یہ تھا کہ ہمارے پاس زندہ رہنے کی کوئی وجہ ہو،کوئی واضح نصب العین ہو،اور ہماری تمام تر کوششوں کا صرف ایک ہی مرکز ہو،مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا کرنا ممکن ہے ؟ کیا اس کی تکمیلیت کی جاسکتی ہے؟تو اس کا جواب ہاں میں ہی ہے۔کیوں کہ اللہ نے تمام انسان کو قوت فیصلہ،ذہانت اور قوت استدلال سے نوازا ہے،اگر ہر انسان اپنی ذہانت کو عمدہ طریقے سے استعمال میں لاکر ہمت وحوصلہ کے ساتھ سنگلاخ راستوں اور خاردار راہوں کی پرواہ کیے بغیر اسی کے پیچھے مسلسل لگا رہے تو اس کا مقصد پورا ہوسکتا ہے علاوہ ازیں وہ کٹی ہوئی شاخ کے مانند بیکار ہوکر رہ جائے گا جس کا ذکر قرآن میں بھی ہوا ہے’’فاماالزبد فیذہب جفاء واماماینفع الناس فیمکث فی الارض‘‘(کہ جوچیز نافع ہوتی ہے وہ باقی رکھی جاتی ہے۔جو بیکار ہوگئی وہ چھانٹ دی جاتی ہے)لہٰذا مولانا آزاد اپنی خلوت نشینی میں بھی اپنے دل وذہن کو کسی نہ کسی مقصد حیات سے روشن و متحرک رکھتے تھے اور کسی بھی صعوبت کی پرواہ کئے بغیر اس کی تکمیل کے لیے مسلسل عمل متحرک رہتے تھے،اس ضمن میں ان کی اس عادت کو پیش کرنا ضروری ہے جو بچپن سے ہی ان کی فطرت کا خاصہ بن گئی تھی ،وہ ہمیشہ صبح کو تین بجے اٹھتے اور اپنا نیا سبق یاد کرتے اس عادت کو انھوں نے اپنی زندگی کا معمول بنالیا تھا،اس سحر خیزی کی عادت انھیں ان کے والد مولانا محمد خیرالدین سے ورثے میں ملی تھی ۔یہ عادت انھیں گیارہ سال کی عمر سے ایسی لگی کہ اگر والدین اور بہنیں ان کی صحت کے خیال سے انھیں جگاتے نہیں تھے تو وہ پورے دن پشیمان رہتے تھے ۔وہ چپکے سے دوسرے دن اٹھتے اور شمع دان روشن کرکے اپنا سبق یاد کرتے،کیوں کہ صبح کے وقت سارا عالم محو خواب ہوتا ہے اور ساری چیزیں خاموشیوں کے پردے میں پوشیدہ ہوتی ہیں ،اسی عادت کو انھوں نے ہمیشہ برقرار رکھا حتیٰ کہ قلعہ احمد نگر کی اسیری کے درمیان بھی اس عادت کو قائم رکھا کیوں کہ ان کے نزدیک حال تھا ہی نہیں بلکہ وہ ماضی اور مستقبل پر ہی یقین رکھتے تھے اور اپنی اسی طبعی فطرت کے لئے ہمیشہ سرگرداں رہتے تھے اس کی ایک مثال زنداں خانہ کے ایک صبح کی ہے جب وہ صبح کے تین بجے سوکر اٹھے تو ان کے قلم میں روشنائی نہیں تھی ،یہاں اپنے حال کو ماضی میں تبدیل نہ کرنے کے لیے ان کی ترکیب مرکب کی صناعی دیکھی جاسکتی ہے:۔
’’صبح کے ساڑھے تین بجے ہیں۔اس وقت لکھنے کے لیے قلم اٹھایا تو معلوم ہوا سیاہی ختم ہورہی ہے۔
ساتھ ہی خیال آیا کہ سیاہی کی شیشی خالی ہوچکی ہے۔نئی شیشی منگوانی تھی مگر منگوانا بھول گیا۔میں نے سوچاتھوڑا پانی کیوں نہ ڈال دوں؟یکایک چائے دانی پر نظر پڑی۔میں نے تھوڑی سی چائے فنجان میں اونڈیلی اور قلم کا من اس میں ڈبو کر پچکاری چلادی پھر اسے اچھی طرح ہلادیا۔کہ روشنائی کی دھوؤن پوری طرح نکل آئے اور اب دیکھئے روشنائی کی جگہ چائے کے تندوتیز عرق سے اپنے نفسہائے سرد صفحہ قرطاس پر نقش کررہاہوں۔‘‘(غبار خاطر،ص:۱۷۱)
مولانا کو صبح میں اٹھنے کے ساتھ ساتھ چائے کابھی ذوق تھا جب تک وہ لکھتے رہتے چائے کی چسکی لیتے رہتے تھے جس کو انھوں نے اپنی ذہانت سے روشنائی بنانے کی ترکیب میں استعمال کیا ۔انھوں نے اپنے قائم کردہ اصولوں کو کبھی بھی ملتوی نہیں کیا ہمیشہ اس پر عمل پیرا رہے ،نہ تو بھی انھوں نے اپنے اس روح پرور وقت کو کھویا ،بلکہ وہ اس عالم تنہائی اور خلوت سے اسقدر لطف اندوز ہوتے کہ ان کے تخیل کی پرواز نجانے کہاں سے کہاں پہنچ جاتی،وہی تنہائی ان کی جولانی فطرت کو ہوا دیتی اور یہ ہوا بادسموم کے مانند اتنی گرم ہوتی کہ اس سے چنگاریاں پھوٹنے لگتیں اور یہ چنگاریاں ان کی فطرت کی پہنائیوں میں اس طرح پیوست ہوجاتیں کہ اوقات شب وروز میں سے کسی بھی وقت ماند نہ پڑتیں اورمسلسل انھیں قوت محرکہ عطا کرتی رہتیں۔
اسی طرح ان کی فن موسیقی کا عالم تھا کہ صرف ایک شوق نے ان کو اس فن کا ماہر بنادیا جب کہ وہ اس کی مصطلحات سے بالکل ہی نابلد تھے ۔قصہ فن موسیقی یہ ہے کہ کتاب بینی کا شوق انھیں ایک کتب فروش خدابخش کی لائبریری تک کھینچ کر لے جاتا اسی شوق جنوں میں ان کے ہاتھ فقیراللہ سیف خاں کی راگ درپن کا ایک خوشخط نسخہ لگ گیا جس کو دیکھ کرعالیہ کے پرنسپل مسٹر ڈینسن راس نے ان سے کہا کہ ہندوستان کا فن موسیقی انتہائی مشکل فن ہے۔تمہیں اس کے مطالب سمجھ میں نہیں آئیں گے تو مولانا کتاب لی اور کہا کہ ’’جو کتاب بھی لکھی جاتی ہے وہ اس لیے لکھی جاتی ہے کہ لوگ اسے پڑھیں اور سمجھیں ۔میں بھی اسے پڑھوں گا تو سمجھ لوں گا‘‘ یہ ان کی خود اعتمادی تھی کہ انھوں نے وہ کتاب لی اور ان کی طلبی مبارزت کو قبول کیا۔اس کے لئے انھیں مختلف گلیوں کی خاک چھاننی پڑی،کیوں کہ یہ کتاب ان کے لیے واقعی چیلینج سے مملو ثابت ہوئی ۔زمانہ طالب علمی سے ہی وہ کتاب فہمی کے اتنے خوگر ہوئے تھے کہ وہ کسی بھی کتاب کو پڑھتے اس کے مطالب کی تہہ تک پہنچ جاتے،مگر موسیقی کا فن اتنا مشکل طلب واقع ہوا کہ ان کے مطالب نے انھیں الجھنوں ودشواریوں میں مبتلا کردیا ،ان کو سمجھنے کے لیے انھوں نے اپنے خاندانی مذہبی حالات کے مخالف میستا خاں سے تعاون حاصل کیا جس کاخاندانی پیشہ ہی موسیقی تھا ،آگرہ کے سفر میں تاج محل کی چھت پر رات کی چاندنی میں مضراب کے تاروں پر ان کی انگلیوں کاپیچ وخم پورے ماحول کو رقص و سرود کے سانچے میں ڈھال دیتا۔اسی اثنا میں لکھنؤ میں کرسچین کالج کے سامنے کرایہ کے ایک مکان میں ایک ٹوٹی ہوئی چھت پر علم ہیئت کے شوق میں ساری رات گزار دیتے۔مصر کے سفر میں ایک رقاصہ سے اس غرض سے رسم وراہ بڑھائی کہ اس سے عربی موسقی کے کمالات سنیں،اس کے لیے انھیں ان کوچہ و بازار میں قدم رکھنا پڑا پھر بھی اپنے مقصد سے نہیں ہٹے بلکہ جس میدا ن میں بھی قدم رکھا اس کو کمال تک پہنچا دیا،وہ خود فرماتے ہیں:۔
’’میری عمر سترہ برس سے زیادہ نہ ہوگی۔لیکن اس وقت بھی طبیعت کی افتاد یہی تھی کہ جس میدان میں قدم اٹھائیے،پوری طرح اٹھایئے اور جہاں تک راہ ملے بڑھتے ہی جائیے۔کوئی کام بھی ہو،لیکن طبیعت کبھی اس پر راضی نہیں ہوئی کہ ادھورا کرکے چھوڑ دیا جائے جس کوچہ میں بھی قدم اٹھایا۔اسے پوری طرح چھان کر چھوڑا۔ثواب کے کام بھی کئے تو وہ بھی پوری طرح کئے۔گناہ کے کام کئے تو انھیں بھی ادھورا نہ چھوڑا۔طبیعت کا تقاضا ہمیشہ یہی رہا کہ جہاں کہیں جایئے ناقصوں اور خام کاروں کی طرح نہ جایئے رسم و راہ رکھیئے تو راہ کے کاملوں سے رکھیئے۔‘‘
(غبار خاطر،ص:۳۵۸۔۳۵۷)
اسی طرح انھوں نے اپنے موروثی مذہب پر قناعت نہ کرکے مذہب،فلسفہ اور سائنس کے دروازے بھی کھٹکھٹائے ،جبکہ اس میں بھی بہت سی مشکلات سامنے آئیں اور کچھ ایسے اختلافات سامنے آئے کہ جس نے انھیں متحیر اور متشکک کرنے کے ساتھ ساتھ لرزانی اورمتذبذبانہ کیفیت میں بھی مبتلا کیا مگر پھر بھی وہ اس راستے سے واپس نہیں آئے اور نہ ہی خود کو ملحد و منکر کی جماعت میں شامل کیا بلکہ اپنی قوت ارادی،محنت شاقہ،قوت حوصلہ اور قوت استقامت سے ایسے مذہب سے واقفیت ہوئی جو حقیقت سے منسلک تھا اور جس کو ناتجربہ کا ر،ناقص العلم مذہب کے پرستاروں نے غلط طریقے سے نشر کر رکھا تھا۔مولانا آزاداس حقیقی مذہب کے علوم کی پیاس میں اس سفر پر نکل پڑے اور سیراب ہوکر واپس ہوئے ۔علمااور مذہب کے تئیں وہ اس نتیجے پر پہنچے:۔
’’علم عالم محسوسات سے سروکار رکھتا ہے۔مذہب ماوراء محسوسات کی خبر دیتا ہے۔دونوں میں دائروں کا تعددہوا۔مگر تعارض نہیں ہوا۔جو کچھ محسوسات سے ماوراء ہے ہم اسے محسوسات سے معارض سمجھ لیتے ہیں اور یہیں سے ہمارے دیدہ کج اندیش کی ساری درماندگیاں شروع ہوجاتی ہیں۔‘‘
(غبار خاطر،ص:۸۰)
مذکورہ بالا اقتباس ان کی سیمابی فطرت اور تلاش و جستجو کا شاہد ہے کہ وہ مذہب کی غلط ترویج و اشاعت پر عمل پیرا نہ ہوکر اس کی حقیقت کے پیچھے سرگرداں رہے اور علم و مذہب کی باریکیوں،غلط عقائد اور نزاعی مذہب کی گرہوں کو کھولا اور دونوں کے فرق کو واضح کرکے ان دونوں کو مختلف شکلوں کا رنگ دیا اور تاحیات اس پر کاربند رہے۔اسی طرح ’’چڑیا چڑے‘‘ کی کہانی پر ایک مضمون لکھ کر ان کی قوت ارادی کو پیش کرکے عوام کو اس بات کی تلقین کرتے ہیں کہ اگر کسی کے ارتقاء کی راہیں مسدود کرنے کی کوششیں کی جائیں تو انھیں مسدود راہوں کا سہارا لے کراپنی بلندی کی معراج بنالینی چاہیے۔قلعہ احمد نگر کے قیدیوں کو جو کمرے دیے گئے تھے وہ شہتیروں کے بنے ہوئے تھے چونکہ اس کی عمارت انتہائی قدیم تھی اس لیے چڑیوں نے جا بجا اس میں گھونسلے بنا رکھے تھے۔مولانا آزاد کے کمرے کے ایک گوشے میں چڑیوں نے اپنے آشیانے کی کچھ یوں تعمیر کی کہ ان کا لکھنا پڑھنا دشوار ہوگیا،جس کی وجہ سے مولانا آزاد اور چڑیوں کے درمیان معرکہ آریاں شروع ہوگئیں پھر بھی ان ننھے حملہ آوروں نے میدان کارزار کو پیٹھ نہیں دکھائی ،آخر کار مولانا نے ایک ترکیب نکالی اور بانس کے ذریعہ ان لوگوں کا بھگا دیا پھر وہی بانس اسی گھونسلے کے دہانے پر رکھ دیا ،پندرہ منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ ان چڑیوں کی چہچہاہٹ کی باد صرصر کی طرح فضامیں گونجنے لگی ،یہاں تک کہ اسی ہتھیار کو ان لوگوں نے اپناآلہ بنا رکھا ہے جس کے خوف سے میدان کو چھوڑنا پڑا تھا۔فرماتے ہیں:۔
’’تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا تو کمرہ میں قدم رکھتے ہی ٹھٹھک کے رہ گیا۔کیا دیکھتا ہوں کہ سارا کمرہ پھر حریف کے قبضہ میں ہے اور اس اطمینان و فراغت سے اپنے کاموں میں مشغول ہیں۔جیسے کوئی حادثہ پیش آیا ہی نہیں۔سب سے بڑھ کر یہ کہ جس ہتھیار کی ہیبت پر اس درجہ بھروسہ کیا گیا تھا وہی حریفوں کی کامجوئیوں کا ایک نیا آلہ ثابت ہوا۔بانس کا سرا جو بالکل گھونسلے سے لگا ہوا تھا ۔گھونسلے میں جانے کے لئے اب دہلیز کا کام دینے لگاہے۔تنکے چن چن کر لاتے ہیں اور اس نوتعمیر دہلیز پر بیٹھ کر بہ اطمینان تمام گھونسلے میں بچھاتے جاتے ہیں ساتھ ہی چوں چوں بھی کرتے جاتے ہیں۔‘‘
(غبار خاطر،ص:۳۰۵۔۳۰۴)
درج بالا اقتباس سے انھوں نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ یہ تو ایک نازک سے پرندے تھے جنھوں نے اپنی قوت ارادی سے اپنے مقصد کی تکمیل کی جن کے پاس ایک چھوٹی سی چونچ کے علاوہ کچھ بھی نہیں محض ارادے کی پختگی نے ان کو اپنے مقصد پر حاوی رکھا تو انسانوں کو تو اللہ نے فہم و فراست کے ساتھ ساتھ اور بھی چیزوں سے نوازا ہے جس کو وہ اپنے کام میں لا سکتا ہے ۔مگر اس کے لئے شرط ہے کہ اس کے اندر ایک پختہ عزم،ولولہ اور جوش ہو تو وہ کمرہ تو کیا پوری دنیا کو فتح کرسکتا ہے۔حکیم اشمیدس کا مقولہ اس بات پر صادق آتا ہے کہ’’مجھے فضا میں کھڑے ہونے کی جگہ دے دو۔میں کرہ ارض کو اس کی جگہ سے ہٹا دوں گا‘‘مولانا آزاد نے جس قوت ارادی کا مظاہرہ کیا ہے وہ بدرجہ اتم ان کی اندر موجود تھی ۔وہ انتہائی صبروتحمل اور استقامت کے ساتھ جنون کی حد تک اپنے کام میں منہمک رہتے ۔وہ اپنے کام کو اس طرح انجام دیتے گویا وہ کوئی کام نہیں بلکہ ان کی محبوبہ ہو اور وہ اس کے عشق میں اسقدر گرفتار ہوں کہ اس سے آزادی کی کوئی بھی صورت نظر نہ آتی ہو ۔وہ کسی بھی کام کے لیے قدم اٹھاتے اس کو انجام تک پہنچاتے چاہے اس میں کتنی ہی دشواریاں ہوں ،نہ تو اس سے تغافل برتتے اور نہ ہی ان دشواریوں کا شکوہ کرتے۔


نورالصباح شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی کی ہونہار ریسرچ اسکالر ہیں